Not reporting based
اسکول کی زندگی:زندگی کا سدا بہار باب
اسکول کی زندگی:زندگی کا سدا بہار باب
نام:سیدہ منعم زہرہ عابدی
رول نمبر:۱۴۶۔۲کے۶۱
کلاس:بی۔ایس ۱۱۱
کسی بھی شخص سے پو چھیں کہ اس کی زندگی کا حسین دور کون سا تھا تو وہ اپنی جوانی کے لمحوں کو حسین قرار دے گااور اگر یہی بات کسی جوان سے پوچھی جا ئے تو وہ کمسنی میں گزارے بڑے سرما ئے ا سکول کی زندگی کو اپنی بہترین یادگار قراردے گا۔اسکول کی زندگی تعلیم سے بہرہ مندہوئے ہر شخص کا سنہرا باب ہوتی ہے۔وہ زمانہ طفلی کی ہر یاد کو دل سے لگائے ہوتا ہے ماضی کی کوئی یاد دھیان میں آئے تو یکدم مسکرا کے غمگین ہو جاتا ہے کہ اب وہ صرف ماضی سے وابستہ ہے۔اسکول بھی دنیا کی مثال ہے جہاں ہر کوئی روتا داخل ہوتا ہے اور روتے ہوئے اسکول کو خیرباد کہتا ہے۔
اسکول میں مختلف جماعتیں مزید سیکشنزمیں تقسیم ہوتی ہیں۔ہر طالبعلم سینیئر کے رعب میں رہنے اور جونیئر کو رعب میں رکھنے کی تصویر پیش کرتا ہے۔بہت بار تو اس مدبھید میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں اور بات اساتذہ سے آفسز تک پہنچ جاتی ہیں گویا ہر طالبِعلم خود کو حریف کے سامنے جھکنے نہیں دیتا اور معافی کے بنا ہی معاملہ رفع دفع کرنا چاہتا ہے۔بات اگر جماعتوں کی کی جائے تو وہاں کا الگ سماع ہوتا ہے۔الگ الگ مزاج اور طبیعت کے لوگوں کو’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ کے مترادف ایک جماعت میں باندھ دیا جاتا ہے.جہاں مختلف عادت کے ہم عمرطالبعلم ساتھ پڑھتے ہیں،ہسنتے ہیں،شرارت کرتے ہیں اور دوستیاں مضبوط کرتے ہیں جو سال در سال قائم رہتی ہیں۔دنیا میں زیادہ تر افراد کے سچے دوست ان کے اسکول کے ساتھی ہی
ہوتے ہیں۔
جماعت میں شاگرد بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔کوئی کتابی کیڑا ہوتا ہے جو استاد کے پڑھائے ہوئے سبق کواگلے دن یاد بھی کر آتا ہے اور استاد کی واہ واہ سمیٹنے کے لیئے مزید سوال کرتا ہے جیسے ہم جماعتوں نے اسے جماعت کا نمائندہ متعین کیا ہو۔دوسری قسم گم سم افراد کی ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جماعت میں موجود تو ہوتا ہے پر حاضر نہیں ہوتاگو یا اسے کوئی دلچسپی ہی نہیں کسی کی ڈانٹ پڑے یا کسی کو سراہا جائے اور پھر ایک قسم آتی ہے ان کی جو آئے دن جماعت میں کم اور پرنسپل کے کمرے میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور اس شریر ٹولی کا کیا کہییکہ جماعت کی رونق بھی یہی ہوتے ہیں۔دن کی پہلی کلاس سے لے کر آخری کلاس تک وہ چوکس رہتے ہیں کہ دن ختم ہو جائے پر ان کی شرارت نہ ختم ہو پائے۔استاد جب آئے تو اس کے خیر مقدم میں’’گڈ مارننگ‘‘کو کھینچ کر ترنم میں پڑھتے ہیں اور جب پڑھانے لگے تو جانوروں کی آواز نکالنے لگتے ہیں۔استاد کا دھیان زرا مبذول کیا ہو تو شور برپا کر دیتے ہیں اور جب وہ چپ کروانے کے لیے ڈسٹر کی مدد لے تو اسے بھی چھپا دیتے ہیں کہ آخر میں استاد ہی دعا کرتاہے کلاس مکمل ہو اور وہ
جائے۔
شاگردوں کی طرح اساتذہ بھی الگ الگ طبیعت کے ہوتے ہیں کوئی صرف ڈانٹتا رہتا ہے،کوئی بڑی شائستگی سے پڑھاتا ہے، کسی کا پڑھایا باآسانی سمجھ میں آجاتا ہے،کسی کا پڑھایا سر سے گزر جاتا ہے اور کچھ جانبداری کے اصول پر پڑھاتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں’’کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں‘‘۔ اسکول کی لاؤبالی عمر ہم ین سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ اس دوران ہمارے مشاغل صرف کھیل کود،دوستیاں نبھانااور مستیاں کرنا ہوتے ہیں۔اسکول میں پڑھائے مضامین کا بھی کچھ مختلف حال نہیں کسی کو ریاضی اچھی لگتی ہے،تو کوئی سائنس کا دلدادہ ہوتاہے،کسی کو تاریخ وجغرافیہکی سمجھ نہیں آتی،تو کوئی ادبیات سے دلچسپی رکھتا ہے پس سو افراد سو مزاج اور ان سب مراحل سے گزرتے گزرتے آتا ہے آخری معرکہ امتحان کا جس میں ہر لائق فائق اور نالائق
کی پڑھے یا بنا پڑھے کامیاب ہونے کی خواہش ہوتی ہے
۔
مشہور مصنف ٹام بوڈیٹ نے اسکول اور زندگی میں بڑا خوبصورت فرق بیان کیا ہے کہ:’’اسکول میں سبق سکھا کے امتحان لیا جاتا ہے اور زندگی امتحان لے کے سبق سکھاتی ہے۔‘‘ اسکول میں کم عمر میں حاصل کیے تجربے بڑی عمر تک ساتھ دیتے ہیں۔کچھ تلخ حقیقتوں سے آشناکراتے ہیں مثلاً ہر دوست ہمیشہ ساتھ نہیں رہتا اور کبھی کبھی جیتنے سے بہتر سیکھ جانا ہوتا ہے۔بچپن میں پوزیشنز پر لڑائیاں ہو جاتی تھیں اور عملی زندگی میں قدم رکھا تو سمجھ آئی کہ پوزیشنز تو چھینی جا سکتی ہیں پر قابلیت اور اہلیت نہیں۔اسکول کی زندگی ہر انسان کی شخصیت پر گہرا ثر رکھتی ہے۔اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔اسے معاشرتی زندگی سکھانے کی ایک تجربہ گاہ ہوتی ہے۔وہ شخص ببہت خوش نصیب ہے جسے اچھے معلم ملے جن کے علم و تجربے سے مستفید ہو کے انسان اپنی عملی زندگی کا ہر فیصلہ منطقی اعتبار سے کر سکے۔اسکول لائف ماضی کا سنہرا باب ہے جس میں لوٹنے کی انسان صرف خواہش کر سکتا ہے۔جو طلبہ ا بھی اسکول لائف کا حصہ ہیں انہیں مشورہ ہے کہ وہ ایک ایک لمحے کو بھرپور جیئیں۔
No comments:
Post a Comment