Sunday, 18 March 2018

Jahanzaib Khan BS Profile

To be checked
تحریر :جہانزیب خان
 بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 130


پروفائل: 
 ( مجتبی علی بھٹی ( ٹیچر
 دراصل بات کی جائے آج کے اس دور میں تو بہت سے کم ایسے غریب خاندانوں سے ایک ہی نوجوان ملے گا جو دن رات محنت کر کے آج اس مقام پر ہیں ایک محاورہ ہم بچپن سے ہی سنتے آرہے ہیں محنت میں عظمت ہے لیکن مجتبی علی بھٹی اس محاورے کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔یہ نہ صرف ایک اچھے انسان بلکہ اچھے ٹیچر اور بزنس مین بھی ہیں۔
مجتبی علی بھٹی کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم علامہ اقبال ہائی اسکول لطیف آباد سے حاصل کی اور انٹر ڈگری کالج میں کیا۔ مجتبی علی بھٹی کے والد شمشاد علی بھٹی ایک نجی کمپنی میں ملازم بطور چوکیدار اپنی خدمات انجام دی ہیں، انکے گھر کے حالات خاصے اچھے نہ تھےلیکن والد نے انکی اچھی تعلیم کے لئے پارٹ ٹائم ملازمت کر کے انکے اخراجات اٹھائے۔ مجتبی علی بھٹی کا پڑھائی کی طرف کچھ خاص لگا نہ تھا۔ لیکن والد کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیم حاصل کی۔
مجتبی علی بھٹی کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھاان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی کھیل دلچسپی کے ساتھ نہ کھیلا اور نہ ہی ان کا کسی سے زیادہ دوستی یاری تھی ، نہ ہی کبھی راتوں کو آوارہ گردی کے لئے نکلے۔ مجتبی علی بھٹی اپنی محنت سے اپنے والد کا سہارہ بننا چاہتے تھے اور اپنے گھرکے حالات بدلنا چاہتے تھے۔ چناچہ دس سال کی عمر میں مجتبی علی بھٹی نے اپنے گھر کے حالات بدلنے کے خاطر پہلا قدم اٹھایا۔
مجتبی علی بھٹی کا رجحان ٹیچنگ کی جانب تھا۔ والد صاحب زیادہ واسائل نہ ہونے کی وجہ سے بیٹے کا یہ شوق پورا نہ کرسکے تو مجتبی علی بھٹی نے پرائیویٹ نجی اسکولوں میں کسی اسکول میں تعلیم کو اجاگر کرنے کیلئے دو سو روپے ہفتہ وار کام کرنے لگے۔ اور ٹیچر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگے۔ غربت کے باوجودان کے والد صاحب انکی تعلیم میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دے رہے تھے کیونکہ وہ اپنے بچے کودنیا کا کامیاب ترین انسان دیکھنا چاہتے تھے ۔
مجتبی علی بھٹی کا کہنا ہے کہ تعلیم کی فیلڈ میں جانے کے فیصلے سے انکے گھر والے ان سے بہت خوش تھے۔ لیکن مجتبی علی بھٹی نے ہمت نہ ہاری۔ اور اپنی محنت، لگن اور جنون سے خود کو منوایا۔ اب ان کے والد ان کی دلچسپی کو سمجھنے لگے اور انہیں ٹیچنگ کی مکمل تعلیم حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی آف سندھ جامشورو کے ادارے میں داخلہ کروایا لیکن وہاں کی فیس ان کی پہنچ سے دور تھی۔ ان کے والد جیسے تیسیے کرکہ داخلہ کروایا لیکن آگے کی فیس کےلئے مجتبی علی بھٹی نے ایک میڈیکل اسٹور میں نوکری کی اور اپنی فیس ادا کی۔ 

مجتبی علی بھٹی نے صرف دس ماہ میں ہی اپنی محنت اور لگن سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ اور اب مجتبی علی بھٹی خود بھی © ©سی ایم ایس کے مالک ہیں اور ارینا ملٹی میڈیا حیدرآباد کے پارٹنر بطور اپنے فرایض انجام دیے رہے ہیں اور اپنے دونوں انسٹیٹیوٹ میں طالب علموں کو تعلیمات سکھانا شروع کرچکے ہیں مجتبی علی بھٹی کا ٹیچنگ کی دنیا میں ایک اچھا نام ہوتا جانے لگا تھا۔ انکی بہترین کارکردگی کی وجہ سے انہیں یو کے کی جانب سے اسکالر شپ بھی ملی تھی اور مجتبی علی بھٹی نے اپنی تعلیم کو مزید آگے پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا۔ جس کے ذریعے انہوں نے بیس ہزار ماہانہ کمائے۔ 
مجتبی علی بھٹی نے انیس حسن انسٹیٹیوٹ میں ٹیچنگ کی انٹرنشب کرکے اپنی صلاحتیوں کو مزید نکھارا۔ اپنے والد کی مالی مدد کرنے کے لئے کمپیوٹر شاپ کا کام بھی شروع کیا، انھوں نے کمپیوٹر کام فری لانسر پر شروع کیا جہاں پر انہوں نے اپنی مہارت سے ایک کمپیوٹر کو بہترین قسم کا بناکر 12 ہزار روپے کا انعام جیتا، پھر آہستہ آہستہ مجتبی علی بھٹی بھی کمانے لگے اور اپنے والد کی مدد کرنے لگے اور مختلف انسٹیٹیوٹ کی جانب سے انہیں بیسٹ ٹیچرز کا خطاب بھی دیا گیا۔ مجتبی علی بھٹی آج حیدرآباد کے بیسٹ ٹیچرز کمپیوٹر میں سے ایک ہیں۔ ان کے نام سے جانے جاتے بھی ، ٹیچنگ کے میدان میں اب مجتبی علی بھٹی ہیں۔ بہت ہی کم عرصے میں مجتبی علی بھٹی نے اپنا نام اپنی محنت سے بنایا ہے، انکی عمر صرف 35 سال ہے۔ مجتبی علی بھٹی آج کی نوجوان نسل کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔


No comments:

Post a Comment