This is all history, what is its condition now?
Feature is always reporting based.
Feature is always reporting based.
فیچر
نام حفیظ الرحمان
کلاس بی ایس (iii)
شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز
رول نمبر 2k16/MC/33
سندھ کا تاریخی شہر بر ہمن آباد تجارت کا مرکز
سندھ میں بہت سے تاریخی شہر دیکھنے کو ملتے ہیں، ساتھ میں ان شہروں کا خاک میں مل جانے کا آثار بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
ان تاریخی شہروں کی حا لت زار اس حد تک پہنچ گئی ہے ،ان جگہوں کو دیکھنے سے بھی پہچان بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ان تاریخی مقامات میں سے ایک تاریخی مقام برہمن آباد جو ماضی میں شان و شوکت رکھنے والاآج
خستہ حال میں بکھر چکی ہے۔
برہمن آباد سانگھڑ کے جنوب می چالیس کلو میٹر کے مفاصلے پر ہے کسی زمانے میں برہمن آباد بارہ کلو میٹر مربع پر پھیلا ہوا تھا ۔گزرتے دن کے ساتھ ڈیڈھ کلو میٹر تک باقی رہ گیا ہے۔برہمن آباد کی تباہی کے حوالے سے کہا جاتا ہے اس شہر میں ظالم حکمران بادشاہ کی ظلم ڈھانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوکر خاک میں مل گیا۔یہاں ایک اسٹوپا بھی ہے ہر آنے والے مہمان کو خود اپنا خستہ حال بیان کرتا ہے۔اس اسٹوپا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں گوتھم بدھ کی راکھ ہے،مگر اسکی اب تک کسی نے تصدیق نہیں کی۔اسٹوپا ٹوت پھوٹ کر سرخ مٹی کا رنگ اختیار کر چکی ہے،چند قدم کے مفاصلے پر ایک قلعہ بھی تعمیر بھی ہے جس میں غلام احمد مرزا دفن ہے جو مسلسل اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے۔ پاس میں ایک قبرستا ن بھی ہے ۔ قلعے کے احاطے
میں پانی کا کنواں بھی ہے۔جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹی کے ڈھیر سے بھر چکا ہے۔
سن1854 میں بیلاسس اور رچرڈسن نے اس شہر کی کدھائی کی تھی ، یہاں سے دو سونے کی مورتیاں بھی ملی ہیں جو آج ممبئی اور برٹش کے عجائب گھروں میں رکھی گئی ہیں ۔ یہ تحقیقی رپورٹ سن1857 میں رائل ایشاٹک سوسائٹی جریدے آلسٹریٹیڈن میں شائع ہوئی۔اس شہر کے حوالے سے سسنے کو بہت کچھ ملا ہے،لیکن کوئی اس ماحقق سے آمادہ نہیں ۔ابو ریحان البیرونی اپنی کتاب (فی تحقیق مان النہد )برہمن آباد کے حوالے سے تحریر قلم بند کیاہے ،محمد بن قاسم نے بہمنوں کا شہر فتح کیا ، اور اس کا نام مہصورہ موسوم کیا ۔ چچ نامہ میں اسے برہمن آباد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔آباد کے حوالے سے کہا جاتا ہے یہ ایک ایرانی نام ہے ،اس کے متعلق دلیل بھی دی جاتی ہے برہمن آباد شہر ایرانی بادشاہ بہمن ارد شیر کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، لیکن بعد
میں نام تبدیل کر کیبرہمن آباد کردیا ۔
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہے کسی زمانے میں برہمن آباد میں ایرانی بادشاہ ارد شیر حکمران ہوتا تھا ۔ جب اس شہر میں راجا چاچ اس خطے پر قابض ہوئے تو اس شہر کو برہمن قرار دے دیا ، اور کا کہنا تھا اس وقت برہمن آباد تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا ،اوراس وقت دریائے سندھ کا بہاؤ شہر کے کنارے تھا ۔جسکی وجہ سے کاروباری مراکز تھا ۔جیسے ہی دریائے سندھ نے اپنا رخ موڑا ساتھ ہی ساتھ میں برہمن نے بھی اپنا منہ موڑ لیا ۔جہاں رونقیں ہوتی تھی ویہاں آج لوگ سرخ مٹی تلے ڈبے ہیں ۔
راجا چچ کی حکمرانی کے وقت یہاں ایک آتش گدہ بھی ہوتا تھا، اور بت پرشتوں نے پرتش کے لئے بت خانہ بھی تعمیر کروایا تھا۔
کہا جاتا ہے ، 712 میں جب عربوں نے سندھ فتح کیا تب اس وقت کے گورنر نے اسکا نام منصورہ آباد موسوم کیا گیا۔
سبط حسین نے اپنی کتاب (پاکستان کی تہذیب کا ارتقا ء)میں تحریر قلم بند کیا ہے، سندھ کی فتح سے قبل ،عرب اور سندھ کے درمیاں تجارت کے لحاظ سے تعلقات بہت اچھے ہوتے تھے۔اس دور میں سندھ کو زرخیز،دولتمند زمین سمجھی جاتی تھی۔اس وقت کا بادشاہ راجا چچ کا بیٹا راجہ ڈاہر بادشاہ تھا ،لیکن رعایہ راجہ کی حکومت سے نا خوش تھے وہ اس لئے کہ راجہ غیر مسلم تھا ۔
مشکور پلھکار محقق اور تاریخدان ہیں،انکا کہنا ہے شہر کے بارے میں تو یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا ہے یہ شہر کب تعمیر ہوا ۔جس زمانے میں یہاں سے ہاکڑوں اور پریاں دریاء بہتے تھے اس وقت اسکا نام رکھا گیاہوگا،اور یہاں پر گاؤں بھی ہوتے تھے۔دریاء سندھ اس وقت زریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔برہمن آباد شہر کے میدان اور راستے بہت وسیع ہوا کرتے تھے۔حتی کے اس شہر کی رسائی سمندر تک تھی،اور تجارتی مرکز بھی رہاہے۔انکا مزید کہنا تھا یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا ۔تجارت کی غرض سے مختلف ممالک سے لوگ آتے تھے،جب راجا چچ نے حکومت سنبھالی تب رعایہ بغاوت پر اتر آئی،چچ کیخلاف جنگ کا اعلان کیا گیا چچ نے اپنی دفاع کے لئے فوج کشی بھی کی،انہی دنوں میں ایک اور جنگ راجا گھم کے خلاف ہونے جا رہی تھی ،لیکن گھم کی طبعیت نا ساز ہونے کی وجہ سے جنگ ٹل گئی۔انکا ماننا تھا منصورہ کا یہ شہر نہیں تھا وہ آس
پاس میں تعمیر گیا تھا۔
جب راجا چچ نے رائے سہاسی سے تخت چھینا اور اسکی ملکہ رانی سے شادی کی ساتھ میں گھم بادشاہ کی ملکہ کہ بھی اپنا بنا لیا اسطرح یہ شہر مختلف حصوں میں بٹ گیا۔جب راجاڈاہر نے اقتدار سنبھالی تو حلات کافی سنجیدہ ہوچکے تھے عربوں کی طرف سے کئے گئے حملے شہر کو چکنا چور کر کے خاک میں ملا دیا گیا کیوں کہ عرب اسلام کی دعوت کے لئے سندھ تک پہنچ چکا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے محمود غزنوی نے جب سومنات کی فتح کے بعد واپس جانے پر اس شہر کہ آگ لگا دیا تھا۔
اس زمانے میں بہتے دریا کے نشانات آج بھی موجود ہے جہاں کبھی رونقیں ہوا کرتے تھے ،روشنی کے چراغ جلتے تھے،مگر آج وہاں نظر ڈالے تو وہاں بے جان قبریں ،ریزہ ہونے والی سرخ مٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔
نام حفیظ الرحمان
کلاس بی ایس (iii)
شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز
رول نمبر 2k16/MC/33
سندھ کا تاریخی شہر بر ہمن آباد تجارت کا مرکز
سندھ میں بہت سے تاریخی شہر دیکھنے کو ملتے ہیں، ساتھ میں ان شہروں کا خاک میں مل جانے کا آثار بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
ان تاریخی شہروں کی حا لت زار اس حد تک پہنچ گئی ہے ،ان جگہوں کو دیکھنے سے بھی پہچان بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ان تاریخی مقامات میں سے ایک تاریخی مقام برہمن آباد جو ماضی میں شان و شوکت رکھنے والاآج
خستہ حال میں بکھر چکی ہے۔
برہمن آباد سانگھڑ کے جنوب می چالیس کلو میٹر کے مفاصلے پر ہے کسی زمانے میں برہمن آباد بارہ کلو میٹر مربع پر پھیلا ہوا تھا ۔گزرتے دن کے ساتھ ڈیڈھ کلو میٹر تک باقی رہ گیا ہے۔برہمن آباد کی تباہی کے حوالے سے کہا جاتا ہے اس شہر میں ظالم حکمران بادشاہ کی ظلم ڈھانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوکر خاک میں مل گیا۔یہاں ایک اسٹوپا بھی ہے ہر آنے والے مہمان کو خود اپنا خستہ حال بیان کرتا ہے۔اس اسٹوپا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں گوتھم بدھ کی راکھ ہے،مگر اسکی اب تک کسی نے تصدیق نہیں کی۔اسٹوپا ٹوت پھوٹ کر سرخ مٹی کا رنگ اختیار کر چکی ہے،چند قدم کے مفاصلے پر ایک قلعہ بھی تعمیر بھی ہے جس میں غلام احمد مرزا دفن ہے جو مسلسل اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے۔ پاس میں ایک قبرستا ن بھی ہے ۔ قلعے کے احاطے
میں پانی کا کنواں بھی ہے۔جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹی کے ڈھیر سے بھر چکا ہے۔
سن1854 میں بیلاسس اور رچرڈسن نے اس شہر کی کدھائی کی تھی ، یہاں سے دو سونے کی مورتیاں بھی ملی ہیں جو آج ممبئی اور برٹش کے عجائب گھروں میں رکھی گئی ہیں ۔ یہ تحقیقی رپورٹ سن1857 میں رائل ایشاٹک سوسائٹی جریدے آلسٹریٹیڈن میں شائع ہوئی۔اس شہر کے حوالے سے سسنے کو بہت کچھ ملا ہے،لیکن کوئی اس ماحقق سے آمادہ نہیں ۔ابو ریحان البیرونی اپنی کتاب (فی تحقیق مان النہد )برہمن آباد کے حوالے سے تحریر قلم بند کیاہے ،محمد بن قاسم نے بہمنوں کا شہر فتح کیا ، اور اس کا نام مہصورہ موسوم کیا ۔ چچ نامہ میں اسے برہمن آباد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔آباد کے حوالے سے کہا جاتا ہے یہ ایک ایرانی نام ہے ،اس کے متعلق دلیل بھی دی جاتی ہے برہمن آباد شہر ایرانی بادشاہ بہمن ارد شیر کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، لیکن بعد
میں نام تبدیل کر کیبرہمن آباد کردیا ۔
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہے کسی زمانے میں برہمن آباد میں ایرانی بادشاہ ارد شیر حکمران ہوتا تھا ۔ جب اس شہر میں راجا چاچ اس خطے پر قابض ہوئے تو اس شہر کو برہمن قرار دے دیا ، اور کا کہنا تھا اس وقت برہمن آباد تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا ،اوراس وقت دریائے سندھ کا بہاؤ شہر کے کنارے تھا ۔جسکی وجہ سے کاروباری مراکز تھا ۔جیسے ہی دریائے سندھ نے اپنا رخ موڑا ساتھ ہی ساتھ میں برہمن نے بھی اپنا منہ موڑ لیا ۔جہاں رونقیں ہوتی تھی ویہاں آج لوگ سرخ مٹی تلے ڈبے ہیں ۔
راجا چچ کی حکمرانی کے وقت یہاں ایک آتش گدہ بھی ہوتا تھا، اور بت پرشتوں نے پرتش کے لئے بت خانہ بھی تعمیر کروایا تھا۔
کہا جاتا ہے ، 712 میں جب عربوں نے سندھ فتح کیا تب اس وقت کے گورنر نے اسکا نام منصورہ آباد موسوم کیا گیا۔
سبط حسین نے اپنی کتاب (پاکستان کی تہذیب کا ارتقا ء)میں تحریر قلم بند کیا ہے، سندھ کی فتح سے قبل ،عرب اور سندھ کے درمیاں تجارت کے لحاظ سے تعلقات بہت اچھے ہوتے تھے۔اس دور میں سندھ کو زرخیز،دولتمند زمین سمجھی جاتی تھی۔اس وقت کا بادشاہ راجا چچ کا بیٹا راجہ ڈاہر بادشاہ تھا ،لیکن رعایہ راجہ کی حکومت سے نا خوش تھے وہ اس لئے کہ راجہ غیر مسلم تھا ۔
مشکور پلھکار محقق اور تاریخدان ہیں،انکا کہنا ہے شہر کے بارے میں تو یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا ہے یہ شہر کب تعمیر ہوا ۔جس زمانے میں یہاں سے ہاکڑوں اور پریاں دریاء بہتے تھے اس وقت اسکا نام رکھا گیاہوگا،اور یہاں پر گاؤں بھی ہوتے تھے۔دریاء سندھ اس وقت زریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔برہمن آباد شہر کے میدان اور راستے بہت وسیع ہوا کرتے تھے۔حتی کے اس شہر کی رسائی سمندر تک تھی،اور تجارتی مرکز بھی رہاہے۔انکا مزید کہنا تھا یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا ۔تجارت کی غرض سے مختلف ممالک سے لوگ آتے تھے،جب راجا چچ نے حکومت سنبھالی تب رعایہ بغاوت پر اتر آئی،چچ کیخلاف جنگ کا اعلان کیا گیا چچ نے اپنی دفاع کے لئے فوج کشی بھی کی،انہی دنوں میں ایک اور جنگ راجا گھم کے خلاف ہونے جا رہی تھی ،لیکن گھم کی طبعیت نا ساز ہونے کی وجہ سے جنگ ٹل گئی۔انکا ماننا تھا منصورہ کا یہ شہر نہیں تھا وہ آس
پاس میں تعمیر گیا تھا۔
جب راجا چچ نے رائے سہاسی سے تخت چھینا اور اسکی ملکہ رانی سے شادی کی ساتھ میں گھم بادشاہ کی ملکہ کہ بھی اپنا بنا لیا اسطرح یہ شہر مختلف حصوں میں بٹ گیا۔جب راجاڈاہر نے اقتدار سنبھالی تو حلات کافی سنجیدہ ہوچکے تھے عربوں کی طرف سے کئے گئے حملے شہر کو چکنا چور کر کے خاک میں ملا دیا گیا کیوں کہ عرب اسلام کی دعوت کے لئے سندھ تک پہنچ چکا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے محمود غزنوی نے جب سومنات کی فتح کے بعد واپس جانے پر اس شہر کہ آگ لگا دیا تھا۔
اس زمانے میں بہتے دریا کے نشانات آج بھی موجود ہے جہاں کبھی رونقیں ہوا کرتے تھے ،روشنی کے چراغ جلتے تھے،مگر آج وہاں نظر ڈالے تو وہاں بے جان قبریں ،ریزہ ہونے والی سرخ مٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔
No comments:
Post a Comment