Friday, 16 March 2018

Arshia fatima MA Feature


File name wrong. The text does not carry writer's name roll number, class etc
No mention it is article or feature
No paragraphing
 No photo
Not reporting based, only observation is there 
These points were continuously  told in class and were also repeatedly posted on FB

حیدرآباد سے لاہور ٹرین کا سفر 
یونیورسٹی کے پیپر ختم ہونے کے بعد چھٹی ملنے پر گھر جانے کا ارادہ کیا۔ حال ہی میں آنے والی انڈین فلم چنائی ایکسپریس کو دیکھ کر اور اس میں ٹرین کے اندر سے نظر آنے والے مناظر دیکھ کر میرا بھی ٹرین کا سفرکرنے کا دل کیا تو میں نے صبح کی ٹرین کی سیٹ بک کروالی اور صبح اسٹیشن پہنچ گئی۔ ہمیشہ کی طرح جیسے میں نے سنا تھا ٹرین کبھی وقت پر نہیں آتی اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ میری ٹرین بھی سب کی طرح وقت پر نہیں تھی ٹھیک 1گھنٹہ انتظار کے بعد ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی پھر میں اپنا سامان اٹھا کر ٹرین میں سوار ہوئی اور اپنی سیٹ ڈھونڈنے لگی۔ جب سیٹ نظر آئی تو دیکھا وہاں ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھی میں نے ان سے مخاطب ہو کر اپنی سیٹ کا تقاضہ کیا اور اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئی اور دوسری خواتین سے سلام دعا کی۔ اس طرح میرے سفر کا آغاز ہوا۔ کچھ دیر سفر طے کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ٹرین کی چھُک چھُک، چھکڑ چھکڑ اور لوگوں کے کھانے کی خوشبو سر گھومارہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو باہر کے دلکش مناظر دیکھ کر دل لطف اندوز ہونے لگا کیا خوبصورت مناظر تھے کتنی ہریالی، سرسبز کھیت، کھیتوں میں کام کرتے کسان، جن کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اس جلدی میں ہیں کہ سورج سر پر آنے سے پہلے اپنا کام مکمل کرلیں۔ گاﺅں کی طرف سے آتی کچھ عورتیں بھی نظر آئیں جو کام کرتے کسانوں کے لئے    لسیّ ،پانی لاتی ہیں یا چارہ لینے اور اٹھانے یا کٹوانے آتی ہیں ۔ گاﺅں کی چیزوں کی طرح وہاں کا ماحول بھی بہت خالص ہوتا ہے۔ میں نے بہت دلچسپی سے یہ مناظر دیکھے ۔ جیسے جیسے ٹرین آگے بڑھتی گئی مختلف مناظر نظر آتے گئے۔ جیسے فیکٹریاں، پہاڑ، گاﺅں، اور چھوٹے چھوٹے شہر، اس وقت مجھے بہت مزہ آیا جب ٹرین دریا پر سے گزری۔ آگے چل کر ٹرین ملتان اسٹیشن پر رک گئی۔ جہاں سے میں نے ملتان کی مشہور سوغات سوہن حلوہ لیا۔ پھر میں واپس ٹرین کے اندر جا کر بیٹھ گئی۔ جیسے ہی ٹرین دوبارہ چلنا شروع ہوئی اس کی چھُک چھُک، چھکڑ چھکڑ کی آوازیں اور ساتھ میں مفت کے چھولے کھا کھاکر دماغ ایسے گھوم رہا تھا کہ ایک اسٹیشن پر گاڑی رکنے کے باوجود سامنے بیٹھی خاتون آگے پیچھے ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ اس پر ہر تھوڑی دیر بعد باریک ناک سے نکلتی ہوئی آوازیں کبھی چنے والا، کبھی گرم انڈے، کبھی چائے گرم کی آوازوں نے جینا دوبھر کردیا تھا۔ سر جھٹک کر چکر روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جونہی منہ اونچا کیا تو نظر برتھ پر ایک موٹی سی بوری پر جا ٹِکی چکر ذرا کم ہوئے اور نظر ذرا ٹہری تو پتہ لگا کہ وہ بوری دراصل ایک تگڑی قسم کی خاتون کی کمر تھی جو غالباً کمرے کے برابر ہوچکی تھی۔ مسئلہ صرف کمر کا ہوتا تو مجھے کوئی مسئلہ نہ تھا مگر ٹرین کی چھُک چھُک، چھکڑ چھکڑ ، چائے والا، خربوزے والا، انڈے والاشاید اس شور سے زیادہ بھیانک تھے۔ اس کے خراٹے اور اس پر مزید آفت یہ کہ دل دھک دھک کر حلق میں آرہا تھا کہ جتنے کنارے پر یہ خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہیں ٹرین جیسے ہچکولے رہی ہے کہیں یہ بن بلائے مہمان اور ناگہانی آفت کی طرح ہمارے سروں پر ہی آنہ دھمکے۔ اس دلربا منظر سے ابھی جان نہیں چھوٹی تھی کہ سامنے بیٹھی خاتون نے اپنے بیگ سے کچھ سامان نکالنا شروع کیا ۔ پہلے منے کی فیڈر، جوتے، جرابیں، موبائل فون، ان گنت رنگوں کے رومال، میک اپ اور نہ جانے کیا کیا۔ اتنا سب نکلنے کے بعد بھی اس زمبیل میں ایسا کچھ باقی تھا جسے وہ بہت بے تابی سے ڈھونڈرہی تھی۔ قریب تھا کہ وہ چیز نہ ملنے پر رو پڑتی۔ مگر اللہ نے ان کی سن لی اور ان کا اچار کا ڈبہ مل گیا جسے انہوں نے بہت پیار سے مسکراتے ہوئے کھولا اور ہمارے نتھنوں کو اکانومی کلاس کی روایتی خوشبو کے ساتھ ساتھ اس مہک سے آشنا کردیا۔ اس سے پہلے ہمارا اگلا پچھلا کھایا ہوا الٹ جاتا ٹرین ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر آکر رک گئی اور میں کچھ دیر کے لئے نیچے اتر گئی۔ کچھ دیر کے لئے باہر کا سماں جنت کا احساس دینے لگا اور کھلی ہوا کو میں نے اپنے اندر بھرنا چاہا۔ اتنے میں ایک ٹی ٹی نے آواز لگائی کہ ٹرین بس پانچ (5)منٹ سے زیادہ نہیں رکے گی اب اسے ہم کیا بتاتے کہ ہمیں ان لوگوں کی خوشبو اور آوازوں سے نجات چاہئے۔ وہ کہتے ہیں نہ !دفن ہونے کو مل جائے دو گز زمین۔ کچھ ایسا حال ہمارا تھا۔ اگلی دفعہ بھلے دیر سے جاﺅ گھر۔ مگر بزنس کلاس میں جانے کا ارادہ کیا اور تازہ ہوا کو خیر باد کہتے ہوئے پھر ایک بار ٹرین میںسوار ہوئی۔ سامنے میرے قبر میں پاﺅں لٹکائے ایک بزرگ بیٹھے تھے جن کا دنیا میں آنے کا مقصد صرف ہر 5منٹ بعد پان کی پیک تھیلی میں بھرنا اور اس کے ایک منٹ بعد زور سے کھانس کر کھڑکی سے باہر بلغم تھوکنا تھا۔ اسی طرح ایک دو اور چھوٹے اسٹیشن گزرے۔ جہاں پر مجھے تازہ ہوا کے جھونکے دستیاب ہوئے ورنہ میں پورے راستے بلغم پیک اور خراٹوں سے نجات پانے کے لئے کھڑکی کی سلاخوں سے اپنا بڑا سا منہ نکالنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ اور اس کوشش میں جتنا سفر بھی طے ہوا دھول او رمٹی میں اس طرح سے ایٹھ گئے کہ غلطی سے بیگ میں سے موبائل نکالتے ہوئے چھوٹے آئینے میں خود کو دیکھ کر چیخ نکل گئی۔ رات کا وقت ہوا تو کچھ سکون ہوگیا۔ پھیری والوں کا شور، لوگوں کا ہنگامہ، بچوںکی ری ری اور اماﺅں کی گالیوں نے ذرا دم توڑ دیا۔ میری بھی آنکھیں دن بھر کی دھول مٹی سے جل رہی تھیں ہلکی ہلکی نیند آنے لگی تو میں نے سوچا اب سویا جائے۔ ابھی تھوڑے سے خواب آنا شروع ہوئے تھے ایک دم زوردار دھماکہ ہوا میں ایسے ہڑبڑا کر اٹھی کہ ہاتھ ،پاﺅں دل ہر چیز اپنی جگہ سے ہل گئی ۔ دیکھا تو معلوم ہوا وہ ہی مستانی بوڑھی خواب غفلت کے مزے لیتے ہوئے زمین بوس ہوگئیں ۔ آس پاس کے تمام حضرات بھائی بن کر فوراً ہی آگے آگئے ۔ اور ڈبے میں مزید طرح طرح کے پسینوں کی بدبو نے ڈیرا جمالیا وہ خاتون بہت مشکل سے اپنی ٹانگوں پر کھڑی ہوئی اور میرے برابر میں آکر گر گئیں۔ میں نے بھی موقع دیکھ کر ان کی برتھ پر قبضہ جمانا چاہا اور ان کو اپنی نشست دے کر اوپر چھلانگ لگادی۔ 

No comments:

Post a Comment