Sunday, 18 March 2018

Saad Ahmed BS Profile



To be checked
No photo
Proper paragraphing

سعد احمد 
MC-2K16-87
BS-III
 ٹھیلے سے لے کر لیکچرار شپ تک کا سفر
زبیرشیح
جس طرح کہا جاتا ہے کہ محنت میں عظمت ہے اور انسان کو محنت کا سلہ ضرور ملتا ہے۔ زبیر شیخ ایک ایسا انسان ہے جس نے محنت کر کے عظمت پائی۔ اس نے محنت سے کبھی جی نہیں چرایا بلکہ بڑھ چڑھ کے محنت کی ۔ وسائل کی کمی کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری اور تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اسی لگن اور جذبے نے انکے حوصلے کو پست نہ ہونے دیا اور خود پر بھروسہ رکھا کبھی کسی مشکل سے منہ نہ موڑا ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول سے حاصل کی ۔ اس ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ کام کاج بھی کیا کرتے تھے۔ اسکول سے واپسی کے بعد گھر پر اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ جوتوں کی سلا ئی کا کام کیا کرتے تھے ۔والد صاحب بے روزگار تھے اور اکثر بیمار رہتے تھے انکی پڑھائی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے تھے۔ اس لئے انھوں نے محلے کی ایک کتابوں کی دکان پر ملازمت شروع کی اور ماہانہ 250 روپے کمانہ شروع کئے جس سے انھوں نے اپنی پڑھائی کا خرچہ اٹھانا شروع کیا اور انکے اسکول میں بریک کے وقت انکے والد صاحب نے برگر کا ٹھیلہ لگانا شروع کیا تو وہ اپنے والد کے ساتھ برگر بیچا کرتے تھے اور پھر گھر آکر اپنے کام پر جایا کرتے تھے جماعت نوہم سے انھوںنے ٹیوشن پڑھانا شروع کیا جس سے اپنے خرچے اٹھا یا کرتے تھے اور اسی محنت اور لگن سے انھوں نے جماعت دہم کے بورڈ کے امتحانات میں "A" گریڈ حاصل کیا جس کی وجہ سے الفلاح کالج کے پرنسپل نے انھیں فیس کی کمی کی اور آدھی رقم مقرر کی اور انھوں نے وہاں سے پڑھنا شروع کیا۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد انکے یہاں اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر سکتے بغیر تیاری کئے ٹیسٹ دیا میڈیکل کے شعبے سے خاصی لگاﺅ تھا تو وہاں جانا چاہتے تھے لیکن نہ جاسکے اسکے بعد سندھ یونیورسٹی کے لئے تیاری کی اور ٹیسٹ دیا جس میں کامیاب ہوئے اور نوئی پوزیشن حاصل کی اور کیمیائی شعبہ میں نام آیا اور اسی میں پڑھنا شروع کیا اور ۴ سال تک اسی شعبے میں تعلیم حاصل کرتے رہے محنت اور لگن کا دامن نہ چھوڑا اور پڑھائی جاری رکھی اسی دوران وہ یونیورسٹی سے ۳ بجے واپس آکر رات ۱۱ بجے تک مختلف علاقوں کے طلبہ کو پیدل سفر کر کے پڑھانے جاتے تھے اور اسی سے گھر کے کچھ خرچ اور تعلیم کے اخراجات پورے کرتے تھے ۔ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر انھوں نے پبلک اسکول لطیف آباد میں ملازمت کے لئے ٹیسٹ دیا جس میں کامیاب ہو کر وہاں ملازمت شروع کی اور 1 سال کے مختصر وقت میں وہاں پکی ملازمت حاصل کی اسکے بعد کمیشن کا امتحان دیا جس میں کامیاب ہوئے اور ٹنڈوالہیار کے ایک اسکول میں پوسٹنگ ہوئی پھر لیکچرار شپ کا امتحان دیا جس میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ لیکچرار شپ کا ٹیسٹ دیا جس میں کامیاب ہو کر گورنمنٹ ڈگری کالج لطیف آباد نمبر ۱۱ پوسٹنگ ہوئی جس میں انھوں نے بی۔پی۔ایس۔۷۱ کے عہدے سے ملازمت شروع کی اور آج ایک کامیاب انسان بنے جس نے محنت اور لگن سے اپنے مستقبل کو روشن بنایا اور لوگوں کو راستہ دکھایا اور یہ بات ثابت کر کے دکھایا کہ محنت میں ہی عظمت ہے۔

آج زبیر شیخؒ سر زبیر کے نام سے جانے جاتے ہیں اور مختلف انسٹیٹیوٹ میں شام کے وقت پڑھاتے ہیں خود تو وہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری نہ کرسکے لیکن آج مختلف اداروں میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرواتے ہیں اور اپنے ماضی سے اپنے طلبہ کو ایک روشن راہ دکھاتے ہیں کہ کبھی محنت سے جی نہ چراﺅ ، محنت کرو صلہ خود ہی ملے گا اور اسی محنت کے تحت کامیابی آپکے قدم چومے گی۔  

تحریر: سعد احمد 

No comments:

Post a Comment