Thursday, 1 March 2018

Sadaf Baloch Feature Urdu BSIII


حیدرآباد کی چوڑیاں
صدف لاسانی
B.S Part III 88 2k16 

جیسے ہی شادیوں کا مہینہ یا کوئی تہوار ہوں چوڑیون کی مانگ بڑھ جاتی ہیں 
وہ عورتیں جو اپنے گھروں پر چوڑیوں کا کام کرتی ہیں اُ ن کی زندگی میں کوئی چمک یا خوشی نہیں ہوتی کیونکہ بہت کم اجرت پر ٹھیکیدار اُن سے کام لیتے ہیں یہ اُ ن نہ دکھائی دینے والے ہاتھوں کی دل شگن واقعات
کی کہانی ہے جو ہر پاکستانیوں کی شادیوں میں روح پھونکتی ہیں۔
شیشے کی چوڑیوں کی بنائی شیشے کی چوڑیاں بنانے کے لئے بہت محنت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
شیشے کی چوڑیاں کی ایک صنعتی کام کا عمل ہے یہ چوڑی مارکٹ میں فروخت ہونے سے پہلے 60مزدوروں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی ماکٹ میں آتی ہے ۔
شیشے کی چوڑیاں بنانے کے 39سے بھی زیادہ مرحلے مختلف مرحلے استعمال ہوتے ہیں اور ہر مرحلہ پچیدہ اور توجہ طلب ہوتا ہے جبکہ کچھ مرحلے ایسے ہوتے ہیں جن میں خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چوڑیوں کی بنائی میں 39مختلف مرحلے سے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ مرحلے ایسے ہوتے ہیں جو صرف گھروں میں عورتیں اور بچے انجام دیتے ہیں۔
1996میں سیدھائی ۔جوڑائی۔ کٹائی۔اور چھپائی کا کام مکمل طور پر عورتوں اور بچوں کے ذریعے ہو تا تھا ۔
جب سے عورتیں اس ( Indestry)صنعت کا ایم حصہ بنی ہیں ۔
2009میںHome net Pakistanاور Lebour edecation foundinنے تخمینہ لگایا ہے کے 675000عورتیں چوڑی بنانے کے کام میں مصروف ہوتی ہیں ۔
حیدرآباد شہر چوڑیوں کے لئے بہت مشہور ہے 1947میں بہت سے چوڑیاں بنانے والے انڈیا کی ریاست راجستان سے ہجرت کرکے آئے وہ لوگ زیادہ تر حیدرآباد میں آباد ہوگئے ۔
اور اپنے اس ہنر کو جاری رکھا بہت سے لوگوں نے چوڑیاں بنانے کے کاروبار کو تجارت کے طور پر اختیا ر کیا اور پیشہ ورانہ چوڑی بنانے والے بن گئے۔
جب سے لے کر آج تک کا تخمینہ کیا گیا ہے کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ لوگ حیدرآباد کی چوڑیاں بنانے کی صنعت کا پییہ چلاتے ہیں ۔
شیشا بنانے کے تین کارخانے ہیں۔
1۔ sindh Industrial and Tradin Estate
2۔ The old city and Latifabad (Site)۔
3۔ site Areaجہاں بہت سارے چوڑیاں بنانے والے کارخانوں کا مسکن ہیں لیکن The old city اور Latifabad کا ٹیج صنعت کی مانند ہیں جہاں پیداکاری کا حجم ایک یا دو کمروں میں مجتمل ہوتے ہیں ۔
کانچ کی چوڑیا ں ہر خاص و عام میں مقبول رہی ہیں مگر یہ چوڑیاں کسی کی کلائی تک پہنچنے سے پہلے جن ہاتھوں سے بنتی ہے وہ اس کی کھنک پُر کشش رکھتے ہیں
۔

نسرین:۔نسرین کہتی ہے کہ مینے اپنی زندگی کا ایک برا حصہ چوڑیوں کی جوڑائی میں ہی گزارا ہے اور اب میرے بچے بھی یہی کا م کرتے ہیں موسم سرد ہو یا گرم نسرین کے بچوں کے لئے دن ایک سا ہی رہتا ہے سخت گرمی اور آگ کی تپش یہ سارے دن بیٹھ کر ہی سارا خاندان روزانہ صرف250یا 300کماتے ہیں ۔
یہ کہانی صرف نسرین کی نہیں بلکے حیدرآباد کے ہر اس گھر کی ہے جہاں چوڑیوں کا کام ہوتا سندھ کے اس قدیم تاریخی شہر میں قائم چوڑیوں کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک نمایا مقام رکھتی ہے اور افراد حکومت کے حوالے سے جنوب ایشیاء کی سب سے بڑی گھریلوں صنعت تصور کی جاتی ہے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پاکستا کے کم آبادی والے اس شہر میں تین سے چار لاکھ سے زیادہ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں جن میں بڑی تعداد 80فیصد خواتین کی ہے ۔
حیدرآباد کے یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں 35فیکڑیا اور 1600کے قریب ہول سیل کی دکانوں سے حاصل ہونے والی یوم آمدنی دو سے تین کروڑ روپے ہیں مگر اس کے با وجود اس میں کام کرنے والے شدید مسائل سے دو چار ہیں جو عورتیں اور بجے کام کرتے ہیں ان کو اجرت انتہائی کم مل رہی ہے آٹھ دس لوگ کام کرتے ہیں تب جا کر ان کو 250یا 300ملتے ہیں اگر اجرت زیادہ ملے گی تو وہ بھی خوشحال زندگی گزار سکے ۔
اس رپورٹ کے دوران یہ اندازہ ہوا ہے کے چوڑیاں بنانے کا کام بہت محنت اور مشکل والا ہے اور اس میں عورت اور بچوں کو بہت کم اجرت ملتی ہے اس کام کو کرنے کے بعد اگر عورتیں یا بچے بیمار ہوجائے یا زخمی ہوجائے تو ان کا کوئی علاج نہیں کروایا جاتا اور اس کی وجہ بچے بیمار ہوجاتے ہیں اور عورتوں کی آنکھیں نابینا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا کوئی پر سانے حال نہیں حکومت کو اس صنعت کو اپنی تحویل میں لینا چاہیئے تاکہ مزدوروں کو اجرت ان کی محنت کے حساب سے ملے ۔
جب کے 2011میں حکومت پاکستان نے ٹھیکیداروں پر قانون عائد کیا تھا لیکن اُس پر عمل نہیں کرتے حکومت کو چاہیئے کہ قانون پر سختی سے عمل کروئے یا پابند کریں تاکہ یہ لوگ بھی اپنی زندگی بہتر طرقے سے گزار سکیں۔ 

No comments:

Post a Comment