Showing posts with label BS-III. Show all posts
Showing posts with label BS-III. Show all posts

Saturday, 3 March 2018

Nadir Ali Jatoi Feature Eng BS III

Feature 

Kotri the Twin City stand disconnected 



Kotri Bridge is one of the bridges in Pakistan that addresses the History of Sub-continent. It was built in a duration of British Samraj (Empire). It was opened to public on 25 may, 1900. It has a length of 1,948 feet and covers area about 7,770sq Kms. 

 The bridge has one-way railway track and two-way roads.  On either side of the bridge, the roads are located and single railway track is spread in between both road tracks. It is also known as Mehran Bridge because it stands on river Indus, the pride of Sindhi nation. 

It connects two Famous cities of Pakistan, Sindh called Hyderabad and Kotri. Both cities are separated by river Indus.  This bridge connects both the cities by providing shortest distance among all the routes to Hyderabad and Kotri. Both ending arms of the bridge join the culturally rich cities.
On one arm of the bridge is mapped the city Kotri. Kotri is the city of industries, and small mills located around on random locations. For example, Small business like carpets is found in different parts and sites of the city. Urban   
The production varies from goods for local consumption and export. It has a good profit margin and huge turn over because of its Link with national highway and national highway it gets importance.

On the other end of the bridge is sophisticated city Hyderabad. Hyderabad is Neron Kot of older times. It has gone under so many dramatic phases of history from the days of the conquering of Muhammad bin Qasim, replacement of Soomara’s to Kalhora’s and Talpur’s, later in 1947 the riots and migrations of Muhajirs. To the observer's eyes, Hyderabad in present time is an amalgamation of present commercial city and culturally rich city with traces of past invasions.

The bridge joins both the cities, condensing the distance for the population of both sides. Through this bridge, the route time is minimized to 5 minutes from Kotri to Hyderabad. If it would not be the case, the route from highway requires approx 45-minute drive. This is a facility to the mass in most of the living basic needs like hospitals, trading, and jobs etc. This bridge has value not only because of the route that it provides to the citizens but the Enormous role that it plays connecting the twin cities. The prosperity of culture faculties and endorsement of Kotri city and population is because of this firm bridge. It cannot be neglected that bridge was the right decision of all times.

 The present condition of the bridge is not remarkable. By simple touches and basic recoveries, bridge is rewarded every year. Knowing that it is the only means and monument of Kotri citizens, no remarkable steps are pleased by the authorities.

A proper maintenance is demanded by this old asset and junction. Otherwise Kotri city will be lost in anonymity. All the major functions in the area seemingly are shared through this bridge. Negligence is eating out the roots of the city.

Thursday, 1 March 2018

Tanzeela Fatima Feature Urdu BSIII

Figures are doubtful. from where u have taken 
A feature must be reporting based and basic purpose is to provide entertainment

تحریر تنزیلہ فاطمہ
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 108
فیچر
پاکستان فلم انڈسٹری کا عروج

پاکستانی سنیما کے 'سنہری دن' میں، فلم صنعت نے ہر سال 200 سے زائد فلمیں رلیز کی جاتی ہیں، آج یہ فلم انڈسٹریز کا ایک ایسا حصہ ہے جو یہ استعمال کیا جاتا ہے ۔اعدادوشمار کے مطابق بیورو کریسی سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کم از کم 700 سینماوں کو ملک بھر میں چلانے کا دعوی کیا جاتا ہے، یہ تعداد سن 2005 سے کم از کم 170 تک کم ہو گئی ہے ۔گزشتہ پانچ سالوں میں، ایک نجی ٹیلی ویژن اسٹوڈیو اور اس کی ماتحت فلم کمپنی نے پاکستانی سنیما کی بحالی کے طور پر ڈب کیا تھا۔ اس پہلو کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت نے پاکستانی سینماوں میں ہندوستانی فلموں کو پاکستان کے لئے سنیما کی ثقافت میں دوبارہ ترقی کے ساتھ نئی اصل پاکستانی فلموں کو بنانے میں بھی ایک تبدیلی لے آئی ہے۔
فلم انڈسٹری کے لئے ایک اور اچھا نشان پورے ملک بھر میں اسکولوں سے اُبھرتی ہوئے نوجوان فلم ساز دنیا بھر میں فلم سازوں کی طرف سے استعمال ہونے والی ڈیجیٹل انقلاب اور سوشل میڈیا سائٹس کے ساتھ کیا ۔یہ پاکستان میں شامل ہونے کا وقت ہے پاکستان کئی فلم اسٹوڈیو مراکز کے گھر ہے، جو بنیادی طور پر اپنے دو بڑے شہروں، کراچی اور لاہور میں واقع ہے۔
پاکستانی سنیما نے پاکستان کی ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔پاکستانی سینما میں مبنی تھا لاہور، ملک کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری کا گھر (عارف لالی وڈ) اس عرصے کے دوران پاکستانی فلموں نے بڑی ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ پاکستان میں سنیما کی تاریخ 1929 میں شروع ہوئی، جب عبدالرشید کے کردار نے ایک اسٹوڈیو اور پروڈکشن کمپنی کو متحدہ پلیئر کارپوریشن کے نام کے تحت قائم کیا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد، لاہور پاکستان میں فلم بنانے کے مرکز بن گیا۔1947 فانڈیشن کی کمی اور فلم سازی کا سامان تھا جس میں ابتدائی طور پر فلم کی صنعت کو ختم کر دیا گیا تھا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پہلی پاکستانی فلمی فلم، تیری یادیں نے 7 اگست 1948 کو جاری کیا ۔فلم انڈسٹری کی کمی 1990 کے دہائی میں ہوئی جب فلموں میں تشدد کا رجحان اٹھایا خاندانوں نے سنیماوں پر جانے سے روک دیا جو گندی بستی میں گزر گیا تھا ۔جیسے فنکاروں اور غریبوں کے سرپرست افراد کے غلبہ سنیما کاروبار تیزی سے آ گیا اور سنیماوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا ۔
پاکستان کے فلم پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر ایسوسی ایشن کے ریکارڈ کے مطابق، 1988 میں پاکستان میں323 سنیما تھے، جن میں صرف 68 لاہور میں تھے، پانچ سال پہلے شہر میں 11 سنیما کام کر رہے تھے۔اب تین زیادہ سے زیادہ ان کی کسی سینما جو تین اسکرینوں کے ساتھ تازہ ترین ٹیکنالوجی کی آواز اور ایچ ڈی بصری نظام کے ساتھ بڑی ہجوم کو اپنی پاکستان فلم انڈسٹری یقینی طور پر واپسی کر رہی ہیں لیکن اس کے پاس جانے کا ایک طویل راستہ ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک صنعت ہے اور بصورت معاملہ یا تفریح نہیں ہے۔یہ سب تفریحی کاروبار کے بارے میں ہے لیکن فلم انڈسٹری لوگوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ تمام اخلاقیات کاروبار کر رہے ہیں،ورنہ یہ ایک بلبلا کی طرح ہوگا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
موجودہ دور میں بیشتر پاکستانی فلمیں بنائی جا رہی ہیں ، اور ان فلموں کی نمائش بین الاقوامی سطح پر کر کے خوب پزیرائی حاصل کی جا رہی ہے۔ پاکستانی فلمیں آج کل پاکستانی سینما گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور پاکستان فلم انڈسٹری عروج پر جاتی دیکھائی دے رہی ہے۔

Sadaf Baloch Feature Urdu BSIII


حیدرآباد کی چوڑیاں
صدف لاسانی
B.S Part III 88 2k16 

جیسے ہی شادیوں کا مہینہ یا کوئی تہوار ہوں چوڑیون کی مانگ بڑھ جاتی ہیں 
وہ عورتیں جو اپنے گھروں پر چوڑیوں کا کام کرتی ہیں اُ ن کی زندگی میں کوئی چمک یا خوشی نہیں ہوتی کیونکہ بہت کم اجرت پر ٹھیکیدار اُن سے کام لیتے ہیں یہ اُ ن نہ دکھائی دینے والے ہاتھوں کی دل شگن واقعات
کی کہانی ہے جو ہر پاکستانیوں کی شادیوں میں روح پھونکتی ہیں۔
شیشے کی چوڑیوں کی بنائی شیشے کی چوڑیاں بنانے کے لئے بہت محنت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
شیشے کی چوڑیاں کی ایک صنعتی کام کا عمل ہے یہ چوڑی مارکٹ میں فروخت ہونے سے پہلے 60مزدوروں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی ماکٹ میں آتی ہے ۔
شیشے کی چوڑیاں بنانے کے 39سے بھی زیادہ مرحلے مختلف مرحلے استعمال ہوتے ہیں اور ہر مرحلہ پچیدہ اور توجہ طلب ہوتا ہے جبکہ کچھ مرحلے ایسے ہوتے ہیں جن میں خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چوڑیوں کی بنائی میں 39مختلف مرحلے سے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ مرحلے ایسے ہوتے ہیں جو صرف گھروں میں عورتیں اور بچے انجام دیتے ہیں۔
1996میں سیدھائی ۔جوڑائی۔ کٹائی۔اور چھپائی کا کام مکمل طور پر عورتوں اور بچوں کے ذریعے ہو تا تھا ۔
جب سے عورتیں اس ( Indestry)صنعت کا ایم حصہ بنی ہیں ۔
2009میںHome net Pakistanاور Lebour edecation foundinنے تخمینہ لگایا ہے کے 675000عورتیں چوڑی بنانے کے کام میں مصروف ہوتی ہیں ۔
حیدرآباد شہر چوڑیوں کے لئے بہت مشہور ہے 1947میں بہت سے چوڑیاں بنانے والے انڈیا کی ریاست راجستان سے ہجرت کرکے آئے وہ لوگ زیادہ تر حیدرآباد میں آباد ہوگئے ۔
اور اپنے اس ہنر کو جاری رکھا بہت سے لوگوں نے چوڑیاں بنانے کے کاروبار کو تجارت کے طور پر اختیا ر کیا اور پیشہ ورانہ چوڑی بنانے والے بن گئے۔
جب سے لے کر آج تک کا تخمینہ کیا گیا ہے کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ لوگ حیدرآباد کی چوڑیاں بنانے کی صنعت کا پییہ چلاتے ہیں ۔
شیشا بنانے کے تین کارخانے ہیں۔
1۔ sindh Industrial and Tradin Estate
2۔ The old city and Latifabad (Site)۔
3۔ site Areaجہاں بہت سارے چوڑیاں بنانے والے کارخانوں کا مسکن ہیں لیکن The old city اور Latifabad کا ٹیج صنعت کی مانند ہیں جہاں پیداکاری کا حجم ایک یا دو کمروں میں مجتمل ہوتے ہیں ۔
کانچ کی چوڑیا ں ہر خاص و عام میں مقبول رہی ہیں مگر یہ چوڑیاں کسی کی کلائی تک پہنچنے سے پہلے جن ہاتھوں سے بنتی ہے وہ اس کی کھنک پُر کشش رکھتے ہیں
۔

نسرین:۔نسرین کہتی ہے کہ مینے اپنی زندگی کا ایک برا حصہ چوڑیوں کی جوڑائی میں ہی گزارا ہے اور اب میرے بچے بھی یہی کا م کرتے ہیں موسم سرد ہو یا گرم نسرین کے بچوں کے لئے دن ایک سا ہی رہتا ہے سخت گرمی اور آگ کی تپش یہ سارے دن بیٹھ کر ہی سارا خاندان روزانہ صرف250یا 300کماتے ہیں ۔
یہ کہانی صرف نسرین کی نہیں بلکے حیدرآباد کے ہر اس گھر کی ہے جہاں چوڑیوں کا کام ہوتا سندھ کے اس قدیم تاریخی شہر میں قائم چوڑیوں کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک نمایا مقام رکھتی ہے اور افراد حکومت کے حوالے سے جنوب ایشیاء کی سب سے بڑی گھریلوں صنعت تصور کی جاتی ہے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پاکستا کے کم آبادی والے اس شہر میں تین سے چار لاکھ سے زیادہ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں جن میں بڑی تعداد 80فیصد خواتین کی ہے ۔
حیدرآباد کے یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں 35فیکڑیا اور 1600کے قریب ہول سیل کی دکانوں سے حاصل ہونے والی یوم آمدنی دو سے تین کروڑ روپے ہیں مگر اس کے با وجود اس میں کام کرنے والے شدید مسائل سے دو چار ہیں جو عورتیں اور بجے کام کرتے ہیں ان کو اجرت انتہائی کم مل رہی ہے آٹھ دس لوگ کام کرتے ہیں تب جا کر ان کو 250یا 300ملتے ہیں اگر اجرت زیادہ ملے گی تو وہ بھی خوشحال زندگی گزار سکے ۔
اس رپورٹ کے دوران یہ اندازہ ہوا ہے کے چوڑیاں بنانے کا کام بہت محنت اور مشکل والا ہے اور اس میں عورت اور بچوں کو بہت کم اجرت ملتی ہے اس کام کو کرنے کے بعد اگر عورتیں یا بچے بیمار ہوجائے یا زخمی ہوجائے تو ان کا کوئی علاج نہیں کروایا جاتا اور اس کی وجہ بچے بیمار ہوجاتے ہیں اور عورتوں کی آنکھیں نابینا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا کوئی پر سانے حال نہیں حکومت کو اس صنعت کو اپنی تحویل میں لینا چاہیئے تاکہ مزدوروں کو اجرت ان کی محنت کے حساب سے ملے ۔
جب کے 2011میں حکومت پاکستان نے ٹھیکیداروں پر قانون عائد کیا تھا لیکن اُس پر عمل نہیں کرتے حکومت کو چاہیئے کہ قانون پر سختی سے عمل کروئے یا پابند کریں تاکہ یہ لوگ بھی اپنی زندگی بہتر طرقے سے گزار سکیں۔ 

Saad Ahmed Feature Urdu BSIII

600 + words required. 
This is article, it is not feature
A feature must be reporting based and basic purpose is to provide entertainment

سعد احمد
B.S Part-III
رول نمبر87
حیدرآباد کے فلائے اوور

حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جس طرح شہر حیدرآباد میں عوام کی سہولت کے لئے بہت سی چیزیں موجود ہیں ان میں سے ایک چیز فلائے اوور بھی ہیں بڑھتے ہوئے ٹریفک کو قابو کرنے کے لئے فلائے اوور بنائے جاتے ہیں تاکہ عوام الناس کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ 
حیدرآباد کے بناوٹی خاکے کا ایک حصہ فلائے اوور بھی ہے فلائے اوور ایک سٹرک ہے جو تعمیر کی جاتی ہے ان سڑکوں پر جہاں سڑکیں چوڑی ہوتی ہیں اگر سٹرک چوڑائی میں کم ہو تو سٹرک کے نیچے ایک روڈ بنایا جاتا ہے جسے انڈر پاس کیا جاتا ہے۔ 
پاکستان میں جتنے بھی فلائے اوور موجود ہیں وہ ضلع حکومت کی جانب سے پلان کئے گئے ہیں تاکہ ٹریفک جام ہونے کے کے مسئلے پر قابوپایاجاسکے اس وقت شہر حیدرآباد میں 6فلاوئے اوور موجود ہیں جس میں سب سے پہلے کی تعمیر 2009میں کی گئی ان میں لطیف آباد 7نمبر کا فلائے اوور ہالاناکہ کا فلائے اوور سخی عبد الوہاب فلائے اوور جو ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے شہباز قلندر فلائے اوور، ہوش محمد شیدی فلائے اوور اور
غلام شاہ کلہوڑو فلائے اوور جو ریلوے کراسنگ حیدرآباد اور میر پور خاص روڈ پر موجود ہے۔
جب یہ فلائے اوورموجود نہ تھے تو لوگوں کو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑھتا تھا اور وہ چند منٹ کا سفر گھنٹوں میں طے کرپاتے تھے لطیف آباد پونے 7پر جو فلائے اوور تعمیر ہے اس نے عوام الناس کو بے حد فائدہ پہنچا ہے لوگ اسکے استعمال سے اپنا وقت ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ اس فلاوئے اوور کے بننے کے بعد عوام با آسانی اپنی منزل پر بغیر کسی ٹریفک میں پھنسے پہنچ جاتے ہیں۔
شہر حیدرآباد کے فلائے اوور ایک طرف تو لوگوں کے سفر میں آسانیاں پیدا کررہے ہیں ساتھ ہی ساتھ کئی لوگوں کا کاروبار بھی وسیع کررہے ہیں دیکھا جائے تو سخی وہاب فلائے اوور کا اس میں اہم کردار ہے جہاں لوگوں نے اپنے ٹھیلے لگا کر جوتوں، چپلوں کا ٹھیک ٹھاک کاروبار شروع کردیا ہے جہاں شہر حیدرآباد کے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان رخ کرتے ہیں اور اپنے استعمال کے مطابق ان کی پروڈکٹ خرید لیتے ہیں۔
فلائے اوور بنانے کا بنیادی مقصد ٹریفک کی روانی کو بحال کرنا تھا اور صوبائی حکومت اس میں کافی حد تک کامیاب ہوگئی ہے جہاں سڑکوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے گھنٹوں ٹریفک میں کھڑے رہنا پڑتا تھا وہاں اب فلائے اوور کی مدد سے یہ تمام پریشانیاں عوام سے دور کر دی گئی ہیں عوام کا کہنا ہے ان فلائے اوور کی شہر بھر میں ضرورت ہے جہاں جہاں ٹریفک کی روانی مشکل ہورہی ہے اس جگہ چھوٹے چھوٹے فلائے اوور بنادے جائیں تاکہ لوگوں کا گزر بسر باآسانی ہوسکے
۔

شہروں کی ترقی میں اور اسے خوبصورت بنانے میں فلائے اوور اہم کردار ادا کرتے ہیں اب حیدرآباد کا نقشہ پہلے نقشے سے بہتر اور خوبصورت نظر آتاہے جس طرح موجودہ دور میں گاڑیوں کی تعدا د بڑھ رہی ہے اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے شہر کی بناوٹ کو عمدہ عمدہ بنانے کی ضرورت ہے گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ٹریفک پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے جس سے ماحول بھی خراب ہوتا ہے فلائے اوور ہونے کے سبب عوام کو یہ آسانی ہے کہ وہ ٹریفک جیسی بری شے سے بچ جاتے ہیں اور اپنا سفر باآسانی طے کرلیتے ہیں۔ 
فلاوئے اوور کا نچلی حصہ اکثر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوا نظر آتا ہے فلاوئے اوور کے نچلے حصے میں اگر کوئی کاروباری مراکز جیسے دکان وغیرہ بنادی جائیں تو اس گندگی کے ڈھیر سے بھی بچایا جاسکتاہے۔
شہر حیدرآباد کے یہ فلائے اوور ایک طرف تو لوگوں کو سہولتیں مہیا کررہے ہیں مگر دوسری جانب حادثات کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں نئی نسل کے نو جوان رات کو بائیک ریسنگ کرتے ہیں جس میں شرطیں لگائی جاتی ہیں اور لالچ میںآکر یہ نوجوان اپنی جانیں کھو بیٹھتے ہیں اگر اس پر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے تو نوجوانوں کو اس جانی نقصانی سے بچایا جاسکتا ہے۔ 

Mannum Abedi Feature Urdu BSIII

Not reporting based
اسکول کی زندگی:زندگی کا سدا بہار باب
نام:سیدہ منعم زہرہ عابدی
رول نمبر:۱۴۶۔۲کے۶۱
کلاس:بی۔ایس ۱۱۱
کسی بھی شخص سے پو چھیں کہ اس کی زندگی کا حسین دور کون سا تھا تو وہ اپنی جوانی کے لمحوں کو حسین قرار دے گااور اگر یہی بات کسی جوان سے پوچھی جا ئے تو وہ کمسنی میں گزارے بڑے سرما ئے ا سکول کی زندگی کو اپنی بہترین یادگار قراردے گا۔اسکول کی زندگی تعلیم سے بہرہ مندہوئے ہر شخص کا سنہرا باب ہوتی ہے۔وہ زمانہ طفلی کی ہر یاد کو دل سے لگائے ہوتا ہے ماضی کی کوئی یاد دھیان میں آئے تو یکدم مسکرا کے غمگین ہو جاتا ہے کہ اب وہ صرف ماضی سے وابستہ ہے۔اسکول بھی دنیا کی مثال ہے جہاں ہر کوئی روتا داخل ہوتا ہے اور روتے ہوئے اسکول کو خیرباد کہتا ہے۔
اسکول میں مختلف جماعتیں مزید سیکشنزمیں تقسیم ہوتی ہیں۔ہر طالبعلم سینیئر کے رعب میں رہنے اور جونیئر کو رعب میں رکھنے کی تصویر پیش کرتا ہے۔بہت بار تو اس مدبھید میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں اور بات اساتذہ سے آفسز تک پہنچ جاتی ہیں گویا ہر طالبِعلم خود کو حریف کے سامنے جھکنے نہیں دیتا اور معافی کے بنا ہی معاملہ رفع دفع کرنا چاہتا ہے۔بات اگر جماعتوں کی کی جائے تو وہاں کا الگ سماع ہوتا ہے۔الگ الگ مزاج اور طبیعت کے لوگوں کو’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ کے مترادف ایک جماعت میں باندھ دیا جاتا ہے.جہاں مختلف عادت کے ہم عمرطالبعلم ساتھ پڑھتے ہیں،ہسنتے ہیں،شرارت کرتے ہیں اور دوستیاں مضبوط کرتے ہیں جو سال در سال قائم رہتی ہیں۔دنیا میں زیادہ تر افراد کے سچے دوست ان کے اسکول کے ساتھی ہی
ہوتے ہیں۔
جماعت میں شاگرد بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔کوئی کتابی کیڑا ہوتا ہے جو استاد کے پڑھائے ہوئے سبق کواگلے دن یاد بھی کر آتا ہے اور استاد کی واہ واہ سمیٹنے کے لیئے مزید سوال کرتا ہے جیسے ہم جماعتوں نے اسے جماعت کا نمائندہ متعین کیا ہو۔دوسری قسم گم سم افراد کی ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جماعت میں موجود تو ہوتا ہے پر حاضر نہیں ہوتاگو یا اسے کوئی دلچسپی ہی نہیں کسی کی ڈانٹ پڑے یا کسی کو سراہا جائے اور پھر ایک قسم آتی ہے ان کی جو آئے دن جماعت میں کم اور پرنسپل کے کمرے میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور اس شریر ٹولی کا کیا کہییکہ جماعت کی رونق بھی یہی ہوتے ہیں۔دن کی پہلی کلاس سے لے کر آخری کلاس تک وہ چوکس رہتے ہیں کہ دن ختم ہو جائے پر ان کی شرارت نہ ختم ہو پائے۔استاد جب آئے تو اس کے خیر مقدم میں’’گڈ مارننگ‘‘کو کھینچ کر ترنم میں پڑھتے ہیں اور جب پڑھانے لگے تو جانوروں کی آواز نکالنے لگتے ہیں۔استاد کا دھیان زرا مبذول کیا ہو تو شور برپا کر دیتے ہیں اور جب وہ چپ کروانے کے لیے ڈسٹر کی مدد لے تو اسے بھی چھپا دیتے ہیں کہ آخر میں استاد ہی دعا کرتاہے کلاس مکمل ہو اور وہ
جائے۔
شاگردوں کی طرح اساتذہ بھی الگ الگ طبیعت کے ہوتے ہیں کوئی صرف ڈانٹتا رہتا ہے،کوئی بڑی شائستگی سے پڑھاتا ہے، کسی کا پڑھایا باآسانی سمجھ میں آجاتا ہے،کسی کا پڑھایا سر سے گزر جاتا ہے اور کچھ جانبداری کے اصول پر پڑھاتے ہیں۔

سیانے کہتے ہیں’’کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں‘‘۔ اسکول کی لاؤبالی عمر ہم ین سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ اس دوران ہمارے مشاغل صرف کھیل کود،دوستیاں نبھانااور مستیاں کرنا ہوتے ہیں۔اسکول میں پڑھائے مضامین کا بھی کچھ مختلف حال نہیں کسی کو ریاضی اچھی لگتی ہے،تو کوئی سائنس کا دلدادہ ہوتاہے،کسی کو تاریخ وجغرافیہکی سمجھ نہیں آتی،تو کوئی ادبیات سے دلچسپی رکھتا ہے پس سو افراد سو مزاج اور ان سب مراحل سے گزرتے گزرتے آتا ہے آخری معرکہ امتحان کا جس میں ہر لائق فائق اور نالائق

کی پڑھے یا بنا پڑھے کامیاب ہونے کی خواہش ہوتی ہے

۔
مشہور مصنف ٹام بوڈیٹ نے اسکول اور زندگی میں بڑا خوبصورت فرق بیان کیا ہے کہ:’’اسکول میں سبق سکھا کے امتحان لیا جاتا ہے اور زندگی امتحان لے کے سبق سکھاتی ہے۔‘‘ اسکول میں کم عمر میں حاصل کیے تجربے بڑی عمر تک ساتھ دیتے ہیں۔کچھ تلخ حقیقتوں سے آشناکراتے ہیں مثلاً ہر دوست ہمیشہ ساتھ نہیں رہتا اور کبھی کبھی جیتنے سے بہتر سیکھ جانا ہوتا ہے۔بچپن میں پوزیشنز پر لڑائیاں ہو جاتی تھیں اور عملی زندگی میں قدم رکھا تو سمجھ آئی کہ پوزیشنز تو چھینی جا سکتی ہیں پر قابلیت اور اہلیت نہیں۔اسکول کی زندگی ہر انسان کی شخصیت پر گہرا ثر رکھتی ہے۔اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔اسے معاشرتی زندگی سکھانے کی ایک تجربہ گاہ ہوتی ہے۔وہ شخص ببہت خوش نصیب ہے جسے اچھے معلم ملے جن کے علم و تجربے سے مستفید ہو کے انسان اپنی عملی زندگی کا ہر فیصلہ منطقی اعتبار سے کر سکے۔اسکول لائف ماضی کا سنہرا باب ہے جس میں لوٹنے کی انسان صرف خواہش کر سکتا ہے۔جو طلبہ ا بھی اسکول لائف کا حصہ ہیں انہیں مشورہ ہے کہ وہ ایک ایک لمحے کو بھرپور جیئیں۔

Abdul Wasay Feature Urdu BSIII

Not reporting based
معذور لوگ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں 
عبد الواسع اطہر 
2K16/MC/04
یوں تو دنیا میں ہر شخص کے آنے کا مقصد کچھ نہ کچھ ہوتا ہے لیکن کچھ خاص لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو شروع سے ہی جسمانی طور پر معذور 
ہوتے ہیں اور کچھ لوگ صلاحیتوں میں عام افراد سے الگ نظرآتے ہیں ۔ 
مگر قربان جائیں خدا کی قدرت کے کہ وہ کسی سے ایک چیز لیتا ہے تو دوگنی عطا بھی کرتا ہے اُن لوگوں میں وہ صلاحیتیں نظر آتی ہیں جو کہ ایک عام انسان کے پاس بھی نہیں یہ معذور افراد ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہیں اور دوسرے لوگوں کی طرح با آسانی مشکلات سے دور رہ کر اپنی زندگی گذارنا چاہتے ہیں دنیا بھر میں یہ طبقہ ’’خصوصی افراد ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے تا کہ یہ لوگ احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچ جائیں مگر یہ نام ان لوگوں کے لئے کافی نہیں ساتھ ساتھ کچھ حقیقی معنوں میں ان کے لئے خصوصی اقدامات اُٹھانا ضروری ہے جس طرح ایک انسان کیلئے ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ ادارے بنے ہو ئے ہیں جو کہ انہیں بنیادی طور پر اُن کے معاشرے کے حالات و واقعات سے آگاہ کر رہے ہیں اِسی طرح کچھ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو کہ ان خصوصی افراد کے لئے کام کر رہے ہیں جہاں ان خصوصی افراد کی دیکھ بھال کی جانے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے کے حالات و وا قعات سے آگاہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ افراد زندگی سے عاجز 
ہونے کے بجائے طرح طرح کے ہنر سیکھ رہے ہیں اور ایک خوشحال زندگی گذارنے کے لئے پر عزم ہیں
۔
یوں تو ہم چند پیسے دے کر اُن کی مالی مدد کر کے اُن کی مشکلات تو دور کر سکتے ہیں مگر ہمارے دلوں میں جب تک معاشرے کے معذور افراد کے لیے کام کرنے کا احساس پیدا نہیں ہو گا تب تک معذوروں کے حالات بہتر نہیں ہو ں گے ، معذور افرادکا معذور ہونا جرم نہیں یہ تو پیدا کرنے والے کی حکمت ہے وہ جسے جو چاہے عطا کرے مگر ہمیں بھی اس چیز کا پابند بنایا گیا ہے کہ ہم ضرورت مند کی تمام ضرورتوں کو پورا 
کریں اور اُسے جینے کا سہارا دیں
۔ 
دیکھا جا ئے تو یہ معذور افرادعام انسانوں سے کسی طور کم نہیں اگر بات کی جا ئے (Blind Cricket Team)تو یہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ عطا کرنے والا ایک چیز لیتا ہے تو دوگنی عطا کرتا ہے وہ بال کو دیکھ نہیں سکتے مگر اُسے آ تے ہو ئے محسوس کرتے ہیں اور اپنی 
صلاحیتوں کے مطابق اس کھیل کو پورا کرتے ہیں ۔ 
معذور افراد کی تعداد کا جائزہ لیں تو ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تیس کروڑ آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جب کہ پاکستان میں ایک کروڑ اسی لاکھ افراد معذور ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے ، کئی ملکوں میں معذور افراد کی صورتحال کا مشاہدہ کیا جا ئے تو سرکاری اور نجی دفاتر ، پبلک ٹرانسپورٹ ، شاپنگ سینٹر ، ایئر پورٹ ، ریلوے اسٹیشن اور اسپتالوں میں معذور افراد کو رسائی با آسانی ممکن نہیں۔بجٹ کی آمد کے موقع پر معذورافراد کی امید تازہ ہو جاتی ہے کہ اب ان کی بحالی کی ضرور بجٹ مختص کیا جا ئے او پھر ان کے مسائل حل 
ہو جائیں او روہ اپنی آگے کی زندگی اچھی طرح گذار سکیں ۔ 
مشکلیں کتنی بھی بڑی ہوں ہمیں کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ معاشرے کے معذور افراد کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اچھے لوگوں کو سامنے آنا چاہیے اور ان کی بحالی کے لئے کام کرنا چاہیے ۔معذور افراد کے لئے علیحدہ وزارت بھی ہونی چاہیے تا کہ ان کے مسائل حل ہو سکیں اس کے علاوہ معذور افراد کے لئے ہیلتھ کارڈ کے اجراء کے ساتھ ساتھ سفری کرا ئے میں رعایت بھی یقینی بنانی چاہیے اور معذور افراد 
کے لئے مختص بجٹ بڑھانا چا ہیے ۔ 

Wednesday, 28 February 2018

Saman Gul Feature BS III- Urdu

Not reporting based
تحریر ۔ثمن گل
کلاس:بی۔ایس۔تھری
رول نمبر۔۹۴
بچپن کے کھیل اب کہاں گئے !محض یادوں کے حد تک محدود رہ گئے
یاد ہیں ہمیں ابھی وہ دھوپ میں کھیلنا شام تک گھر سے باہر رہنا ۔ امی سے چھپ چھپ کر دوپہر میں کھانا چھوڑ کر گھر سے جاکر دوستوں کو بلاکر مزے مزے کے کھیل کھیلنا۔ 
کہتے ہیں کہ انسان بچپن کی یادوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ بچپن ہماری زندگی کا ایک بہت خوبصورت لمحہ ہوتا ہے۔ اس کی یادیں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ جس کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں تو چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ بچپن کے دور میں نہ دلوں میں نفرت ہوتی تھی نہ ہی کوئی حسد بلکہ صرف اور صرف محبت ہوتی تھی۔ یاد آتے ہیں بچپن کے وہ دوست اور دلچسپ کھیل جنہیں کھیلتے ہوئے ہم اتنا مگن ہوجاتے تھے کہ کھانا پینا اور اپنے گھر کو بھی بھول جاتے تھے۔ 
ویسے تو دیکھنے میں چھوٹی سی گیند نما ہوتے تھے۔ انگلیوں میں دباکر نشانہ لگاکر دوسرے کنچے کو مارنا
آج نہیں ہے ایسا اب زمانہ لٹو اور جالی کا نام تو سنا ہوالگتا ہے ۔ آج ایسا لگتا ہے کتنے پرانے سے ہوگئے ہیں ہم کہ آج گلی کوچے میں کوئی بچہ نظر نہیں آتا بہت ہی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ لٹو اور جالی کا کھیل اگر آج ہم بچوں سے پوچھیں کہ لٹو اور جالی کیا ہے تو انہیں نہیں پتا ہوگا۔ اور آج بچوں کے ہاتھوں میں لٹو اور جالی کے بجائے سمارٹ فون نے لے لی ہے ۔ ایسے اور بھی کھیل ہیں جو آج کے بچے گلی کوچوں کی رونق مدھم کرکے سمارٹ فون میں کھیل رہے ہیں۔ اب کرکٹ کی ہی بات لے لی جائے تو پہلے بچے کرکٹ ہر اتوار اور جمعے کے روز باقاعدہ ٹیم بناکر کھیلا کرتے تھے۔ لیکن آج نہ کوئی ٹیم ہے نہ کوئی جمعہ اور اتوار جب دل کیا بیٹھے اور سمارٹ فون میں کھیلنا شروع کردیا ۔ پہلے بچوں کی کھیل کی وجہ سے ورزش ہوجایا کرتی تھی ۔ لیکن آج بچے جسمانی کمزوری کا شکار نظر آتے ہیں چھوٹی سی ہی عمر میں بچوں کی نازک آنکھوں پر بڑا موٹاچشمہ ہوتا ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ اب ایسا کیوں ہے اس کا الزام ہم صرف سمارٹ فون کو نہیں دے سکتے ۔ معاشرے کی بڑھتی ہوئی تبدیلیاں بھی ہیں۔ جیسے کہ بچوں کا اغواء ہونا ، چھوٹے سے لڑائی جھگڑے کو بڑی دشمنی بنالینا، لڑکیوں کی آبرو کی حفاظت کاڈر ، والدین کو بچوں اور بچیوں پرپابندی لگانے کا سبب بنتا ہے۔ جو آج ہمیں گلی کوچوں میں بچے نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔ 
بدلتے معاشرے نے اور والدین کی فکر نے بچوں کو ان سب سے تو دور کیا ہی ہے ۔لیکن بچے سمارٹ فون اور گھر ہی کے اندر وقت گز ارنے کی وجہ سے تنہائی ، خود پسندی ، جسمانی کمزوری اور بے اعتمادی کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ اور اگر بچوں کو ان سب کھیلوں کے بارے میں بتایا بھی جاتا ہے تو بچوں کو وہ دلچسپی ہی نہیں ہوتی جو پہلے بچوں کو ہوا کرتی تھی ۔ 
اسی بدلتے معاشرے میں ایک طبقہ ہمارے مزدور بچوں کا بھی ہے جو ان سب چیزوں سے نہ آشنا ہیں کھیل کھلونے ان کی سوچ سے بھی دور ہو تا ہے ۔ ان کا بچپن مزدوری کی نظر ہوجاتا ہے سمارٹ فون تو دور کی بات ہے ۔ ان کے پاس تو گلی میں کھیلنے کا بھی وقت درکار نہیں ہوتا۔ انہیں جو چھٹی کا دن ملتا ہے مزدوری کے بعد وہ بھی ان کی ایسی پریشانی میں گزر جاتا ہے۔ کہ کل پھر سے مزدوری پہ جانا ہے ۔ 
ہمارے اس معاشرے میں جس طرح ہم اپنے بچپن کے کھیلوں کو چھوڑ کر نئے دور کے جانب بڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح ہم نے دوسرے طبقے کے بچوں کو بھی ان کھیلوں سے محروم کردیا ہے۔ 

Bibi Rabia, Feature BS III, Urdu

Plz do not insert foto in text file. 
Put proper file name
نام۔بی بی رابعہ
کلاس۔بی ایس پارٹ تھری
رول نمبر۔۲۴
شام کا سم�أ اور المنظر
دریاے سندھ کے کنارے ایک خوبصورت شام۔۔۔
آج کا انسان مختلف مصروفیات ذندگی سے گرا ہوا ہے وہ ہر وقت ذہنی سکون کی تلاش میں ہوتاہے اس کا دل
کرتا ہے کہ وہ ایسی جگہ جاے جہاں خاموشی اسے اس طرح لپٹی ہوئ ہوکہ وہ دل و دماغ کے جھنجھل سے خالی ہو۔
حیدررآباد جامشوروکی شام کچھ اسی طرح کا انسان کی روح کو تسکین بخشتی ہے شام کے وقت دریا کی جانب ڈوبتے ہوے سورج کا منظر دل کو ایسے لبھاتا ہے کہ باہر سناٹا محسوس ہونے لگتا ہے بس دل چاہتا ہے اس پورے سما کو قید کرلے ،ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں جب پانی پر پڑتی ہیں تو اسے دیکھنے سے ہی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر عجب مسکراہٹ آجاتی ہے المنظر دریاے سندھ سے بہت سی محبتوں بھری سچی کہانیاں بھی جڑی ہیں اس کی ہواہیں دل میں عجب سمأ باندھ دیتی ہیں
آج کی شام میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ا المنظر گئ چونکہ آج چھٹی کا دن تھا اس لئے لوگوں کا کافی ہجوم بھی نظر آیا ، وہاں کوئ دریا کے کنارے مٹی پر بیٹھا تھا تو کوئ باتوں میں مشغول تھا اور کوئ خاموش ہو کر اس منظر سے لطف حاصل کررہاتھا ،کچھ لوگ کشتی میں بیٹھ کر پرندوں کی بنبناتی میٹھی آواز سے جھوم رہے تھے میں دریا کے کنارے کھڑی ہوئ اور اپنی آنکھوں کو بند کر کے لہروں کی آواز کو سننے لگی آنکھیں کھولی تو پھر سامنے ایک حسین سا منظر دیکھا وہ حسین منظر سورج کے غروب ہونے کا تھا ایسا لگ رہاتھا جیسے سورجّ آہستہ آہستہ کشتی پر بیٹھ رہا ہے اس منظر نے شام کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیا ۔
وہاں پر موجود لوگ اس دلکش منظر کے ساتھ سیلفی بنانے لگے ،پھر میں نے بھی اس لمہے کو اپنے موبأل کے کیمرہ میں قید کرلیا ،اس کے بعد وہاں موجود لوگوں سے میری گفتگو ہوئ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں صبح سے آے ہوے ہوتے ہیں اورسورج غروب ہونے کے بعد واپس جاتے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ان کی پسندیدہ
جگہ ہے ۔
المنظر کی جانب کشش دراصل اس کی قدرتی خوبصورتی ہے یہ سیاحوں کے لیے ایک بہترین تفریح گاہ ہے گرمیوں کی چھٹی میں یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں ۔ پلہ جو کہ سندھ کی مشہور مچھلی ہے جو کہ کھارے پانی سے جب اس دریا میں داخل ہوتا ہے تو قدرت کے کرشمے سے میٹھا ہو جاتا ہے المنظر کے اطراف میں ایک ہوٹل ہے جہاں مختلف طریقوں سے مصالحہ دار پلہ تیار کیا جاتاہے جس کو کھاکر مزہ دوبالہ ہوجاتاہے اس کے علاوہ مختلف کھانے کی چیزیں مثلا نمکو ، مکء،گول گپے ،مشروبات وغیرہ کے اسسٹال بھی ہیں 
یہاں ڈراموں اور گانوں کی بھی شوٹنگ کی جاتی ہے ، ذیادہ تریہاں لوگ بارش کے موسم میں آتے ہیں جب بادلوں نے ہر جانب سے آسمان کو گھیرا ہوا ہوتا ہے ہرکوئ اس دلکش منظر سے لطف اندوز ہورہا ہوتاہے 
اس بڑے سے دریا کو جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی پریشانیاں بہت چھوٹی محسوس ہو تی ہیں 
شام کی ٹھنڈی ٹھنڈی دریا کی لہروں سے گزرتی ہوئ ہوا ایسا سکون دیتی ہے کہ پل بھر کے لیے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہوا ہمارے غموں کو دریامیں بہا لے جارہی ہے ایسا لگتا ہے جیسے دریا کی یہ موجیں روح کو بے حد تسکین دے رہی ہو.بس دل چاہتا ہے کہ ہم اس راحت کو حاصل کرتے رہیں یہ شام یہ پل
یونہی تھم جاے ،اور ہم اس منظر میں کھوے رہیں
اہمیں چاہیے کہ ہم قدرت کے اس پیارے دل آرا نظارے کی قدر کرے،کہ جو ہمارے لیے تسکین،تشفی کا زریعہ
ہے۔ 

Monday, 26 February 2018

Asma Channa Feature Sindhi

This format is not printable in a newspaper. plz remove the background and make it simple

آرٹ جي دنيا ۽ سنڌ جو نوجوان
اسما چنا -بي ايس(3)-21
دنيا جي اندر ڪيترن ئي قسم جا شعباجات موجود آهن.جنهن ۾ فن يا ڪلاڪاري وارو شعبو به سر فهرست آهي يا کڻي اينئن چئجي ته هر فرد يا کڻي هر انسان اندر هڪ ڪلاڪار موجود هوندو آهي.جيڪو هن ڌرتي تي اک کولڻ کان وٺي انسان جي آخري ساھ جي سڳي تائين موجود هوندو آهي.اهو ئي انسان انهي آرٽسٽ واري ڪارنامي کي سرانجام ڏئي پنهنجون پنهنجون تخليقون ايجاد ڪري ٿو.عام طور تي ڏٺو وڃي ته فن جي سڃاڻپ اڪثر تصوير نگاري يا پينٽنگ سان لڳائي ويندي آهي.پر اتي فن جو خاتمو ناهي ٿيندو .ڪلا کي هڪ قدرتي وسيلو به چئي سگهجي ٿو ڇاڪاڻ جو ان جي دنيا ايڏي وسيع هوندي آهي جنهن کي پرکڻ ويهجي ته شايد پنهجي جياپي جو خاتمو ٿي سگهي ٿو,پر فن واري دنيا جو جي پڄاڻي نٿي ٿي سگهي.جيڪڏهن لفظي معني جي حوالي سان ڏٺو وڃي ته ته فن کي گلوڪاري,هنر يا موسيقي جو نالو به ڏئي سگهجي ٿو.هر انسان جي اندر موجود سٺيون ۽ بريون عادتن کي به ڪلا جي دنيا ۾ شامل ڪيو وڃي ٿو.انسان جي پنهجي پروردگار يا ٻي ڪنهن آدم ئي اولاد سان محبت به هڪ قسم جي ڪلاڪاري ۾ شامل ٿئي ٿي.يا کڻي ائين چئجي ته اهڙي صلاحيت جيڪو پنهنجو پاڻ کي سڃاڻن يا پنهجو پاڻ کي ڪنهن ٻئي سان ملائڻ واري صلااحيت کي ظاهر ڪري يا ان کي ٻئي ڪنهن کان منفرد ڪري ان کي هڪ قسم جو فن به چئي سگهجي ٿو.سٺي سوچ ۽ ان جي اصولن تي ويچار ڪرڻ به ڪلاڪاري جي هنر ۾ اچي ٿو.
 فارسي ٻولي جي صوفي شاعر جلال الدين رومي جو ڪلا جي مطابق هڪ قول آهي ته فن اهو ناهي ته جيڪو توهاڻ پاڻ پنهجي اندر تلاش ڪريو بلڪه ٻيا ماڻهو توهان جي اندر ڇا ٿا ڏسن ان کي فن يا ڪلا چيو ويندو آهي.انهي فن ڪاريگري يا کڻي ڪلا واري دنيا جو جائزو ورتو وڃي ته مختلف قسم جا فن ظاهر ٿيندا آهن.هڪ فرد جڏهن پنهنجي اندر جي آس کي لفظن جي صورت ۾ آڻي پيش ڪري ٿو ته شاعر جڏهن ته انهن ئي لفظن کي هڪ منظر ڪشي جي صورتحال ۾ آڻي پنهنجي سرن جا ساز پکيڙي ته هڪ گلوڪار جي صورت ۾ اڀري سگهي ٿو.
 انهي فن ڪلا يا ڪاريگري کي ۾ اسان جو رجحان ڪافي حد تائين وڌي رهيو آهي.خاص طور تي اسان جي نوجوانن جو هر وڌندڙ قدم فن هنر واري دنيا ڏانهن وڌي ٿو.جيڪو شاعري,گلوڪاري,اداڪاري,رقص يا کڻي تصوير نگاري جي صورت ۾ ظاهر ٿئي ٿو.موسيقي جهڙو نازڪ ترنم اسان جي ڪلاڪاري واري دور ۾ تمام گهڻو پسند ڪيو وڃي ٿو.اها ئي وجه آهي جو پرڏيه جي طور طريقن کي اپنائڻ اسان جي نوجوانن جي اولين ترجيح رهي آهي.انهي ڳاله جو اندازو اسان جي سنڌ جي تعليمي درسگاهن ۾ موجود ڪلاڪاري جي شعبن توڙي سينٽرن مان لڳائي سگهجي ٿو. اهڙي ئي فن ۽ ڪلاڪاري واري سينٽر آف ايڪسيلينس آرٽ اينڊ ڊيزائن ڄامشورو گذريل سال جي پڇاڙي ۾ مختلف شاگردن ۽ شاگردياڻين پاران بهترين ڪلاڪاري ۽ تصوير نگاري جا جوهر ڏيکاريا ويا هئا.پنهجي ٿيسز واري ڪم ۾ مختلف نوجوانن مجسما ٺاهي,تصورين جا پوسٽر توڙي عمارتن جا بهترين نظارا ڏيکاريا جيڪي سڄي ملڪ توڙي دنيا جي ٻين ملڪن مان آيل ڪلاڪارن جي نگاهن جا مرڪز بڻيا.پنهنجي ٿيسز واري ڪم کي بهتر نموني سان پيش ڪري ڪلا جي شاگردن پنهنجي هنر ۾ سچي محبت ۽ لڳاء جو ساراه جوڳو ثبوت ڏنو.ان ڳاله مان اهو اندازو لڳائي سگهجي ٿو ته ڪلا واري هنر کي نه صرف اسان جا نوجوان بلڪه هر فرد پسند ڪري ٿو.تصوير نگاري ۾ عابده پروين,شيخ اياز ۽ فيض احمد فيض جا مجسما ماڻهن جي پسند جو ثبوت پڻ ڏئي رهيا هئا.ان ڳاله سان اهو واضع ٿئي ٿو ته سنڌ جي نوجوانن جو ڪلا جي دنيا ڏانهن لاڙو گهڻي تيزي سان وڌي رهيو آهي.ان کان علاوه ڏٺو وڃي ته فن انسان اندر حساسيت جا ڳڻ اڄاڳر ڪري ٿو ڇاڪاڻ جو فن کي هڪ مڪمل شڪل ۾ آڻڻ ادب جي حصي ۾ اچي ٿو.اهو ئي ادب جڏهن انسان جي اندر جنم وٺي ٿو ته ان جا خيالات گهرائي وارو رستو اختيار ڪري ڄاڻ حاصل ڪندا آهن جيڪا ڄاڻ ڪلاڪاري ذريعي دنيا آڏو آڻين ٿا.


Asad Ali Feature Sindhi



ملڪسڪندراسپورٽسڪامپليڪسڪوٽڙي
اسدعلي-بيايس-126
جهڙيريتدنياڏينهنوڏينهنترقيجيراھڏانهنروانڌوانآهي.تئينتئيناسانمصروفيتن ۾ تيزيساناضافوٿيرهيوآهي.انهيمصروفيتن ۾ ماڻهوپنهنجيٿڪاوٽجيور ۾ اچيٿووڃي.اهاٿڪاوٽانسانکيڪافيحدتائينهيڻوبڻائيڇڏيٿي.ائينئيهرصحتمندمعاشري ۾ عوامجيلاءپرسڪونماحولهجڻتمامگهڻياهميتجوحاملآهي.جنهنجيذريعيزندگيلطفاندوزبڻائيسگهجيٿو.جهڙيطرحڪمپيوٽرکيريفريشڪرڻجيضرورتهونديآهيايئنئيساڳيريتهرفردکيريفريشڪرڻجيضرورتهونديآهي.انهنجوريفريشبٽڻاسانجونتفريحگاهونآهن.اهڙنتفريهگاهنوارنمقامن ۾ اسانجيوڏنوڏنشهرنجاپارڪ ۽ اسپورٽسڪامپليڪسبهاينداآهن.جنهن ۾ ضلعيڄامشوروجيتعلقيڪوٽڙيشهر ۾ واقعملڪاسڪندراسپورٽسجوشماروبهٿئيٿو.ڪوٽڙيبئراجواريپلکانٿورومفاصليتيواقعاهواسپورٽسڪامپليڪسانوقتٺاهيوويوجڏهنڪوٽڙيتوڙيمقاميماڻهنکيراندينتوڙيپنهنجنٿڪاوٽنکيپريڪرائڻلاءڪامپليڪسجيسختضرورتهئي.1980 کاناڳملڪسڪندرپارانتعميرڪرايلاهوپارڪڏهايڪڙنجيايراضيتيمشتملآهي.چئنيپاسنکانوڻنجيوڻڪارسانسجايلهنپارڪ ۾ خوبصورتيجامنظرپڻڏسڻجوڳاآهن.جڏهنتهراتجيانڌهيري ۾ ڪوٽڙيشهرتوڙيهنپارڪکيروشنيجيراهڏيکارڻلاءچئنيطرفنکانخوبصورتبتيونلڳايونويونآهن.اتيايندڙماڻهنجيچهرنکيچوڏهنچنڊجهڙيچانڊاڻڏيندڙانهنلائيٽنجوتعدادارڙهنآهي.
ملڪاسڪندراسپورٽڪامپليڪسراندينجيحواليسانبهاتيايندڙعواملاءتمامڪارائتوثابتٿيلآهيجيڪوماڻهنجيبهتريلاءپنهجومثلپاڻآهي.ساوڪجيسيجسانسجيلهنڪامپليڪسڪيترئنئيقسمنجونرانديونپڻکيڏيونوينديونآهنجنهن ۾ ڪرڪٽ,واليبال,ٽينس ۽ فٽبالشاملآهي.جڏهنتهانتظاميهطرفاناتيصفائيجوپڻبهتريننظامجڙيلآهي.پارڪ ۾ شامثاڻيڪيترائينوجونجوڙاٽولنجيصورت ۾ زندگيکيلطفاندوزڪنداآهن.ٻارنجيراندروندتوڙيمقاميماڻهنکيپنهنجيٿڪاوٽکانآجهوڪريسروربخشڻلآءانپارڪ ۾ ساوڪجيچادرپڻوڇايلآهي.انهيساوڪجيسيجسانسلهاڙيلهنپارڪ ۾ روزانههزارنجيتعداد ۾ ماڻهوپنهنجيزندگيکيلطفاندوزڪنداآهن .

انتظاميهجيحواليسانهيپارڪڊسٽرڪٽڪائونسلجينگراني ۾ هوجڏهنته 2008 ۾ سمورونذميداريونتعلقيجيميونسپلڪميونٽيکيسونپيونويونآهن.انکانعلاوهڪامپليڪسجيهڪڪنڊ ۾ نوجواننجيجسمانيفٽنيسکيبرقراررکڻلاءجمبهکوليوئيآهيجتيروزانوسويننوجوانپنهجيصحتجيڀرپورتياري ڪندا آهن.

Rabeya Mughal Feature Urdu

Not reporting based

ریلوے اسٹیشن تاریخی شہر حیدرآباد کا!!! 

دلکش اسٹال اپنی جانب کھینچتے ہیں تو کہیں آنکھوں میں 
بَس جانے والے مناظر ۔ ریلوے اسٹیشن سے جڑی 
کچھ گہری یادیں۔۔۔
ربیعہ مغل
ہمارے شہر حیدرآباد کا ریلوے اسٹیشن خاصہ مشہور ہے یہاں ہر دن ٹرینوں کی آمدورفت رہتی ہے ۔اسٹیشن کے کُل آٹھ پلیٹ فارم اور پانچ ٹریک ہیں آئے دن ہزاروں مسافر یہاں سے دوسرے صوبوں کا رخ کرتے ہیں.یہ بدھ کی دوپہر تھی اور گرمی بھی شدید تھی جس وجہ سے موسم کچھ اچھا نہ تھا .اس دن کافی سال بعد میرا اسٹیشن آنے کا اتفاق ہوا .ہمارے کچھ عزیزوں نے واپسی کا سفر ٹرین سے اختیار کرنا تھا .چناچہ جب ہم پہنچے تو تھوڑی دیر بعد روایتی طور پر پتا چلا کہ جس گاڑی کا ہمیں انتظار ہے وہ ۲گھنٹے لیٹ ہے.اسی اثناء میں میں نے سوچا کیوں نہ اسٹیشن پر تھوڑا گھوم پھر لیں.اور پھر میں نے اسٹیشن کا جائزہ لینا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اب کافی چیزیں بدل گئی ہیں .لیکن نہ بدلا تو صفائی کا نظام اور ٹرینوں کی تاخیر..

 اس دن لوگوں کا رَش زیادہ تھا عین ممکن ہے کہ اس کی وجہ ٹرینوں کا دیر سے پہنچنا ہو.البتہ اسٹیشن کے ویٹنگ رومز تسّلی بخش تھے وہاں بیٹھے لوگ پُر سکون دکھائی دے رہے تھے .عام طور پر مجھے شور اور تیز آوازیں پسند نہیں لیکن اسٹیشن کے پلیٹ فارمز پر ہر جگہ شوروغُل سے زندگی کا احساس ہورہاتھا اور لوگ ایک دوسرے کی باتوں اور چھوٹی موٹی لڑائیوں سے محظوظ ہوررہے تھے.چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بَس ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے کہ ریل گاڑی کب آئے گی؟ہمیں ریل گاڑی دیکھنی ہے! ان کو دیکھ کر مجھے اپنا وقت یاد آگیا کہ بچپن میں مجھے بھی اسٹیشن گھومنے اور ریل گاڑی دیکھنے کا بہت شوق تھا اُس وقت حیدرآباد کے ریلوے اسٹیشن کی اپنی رنگ و رونق ہوتی تھی . لیکن آج انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے ریلوے اسٹیشن اپنا معیار کھو رہے ہیں.
اسٹیشن پر مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے مسافروں کا تانتا بندھا ہوا تھااور وہ اس انتظار میں تھے کہ ان کی گاڑی آئے اور وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوں۔یہ ایک اذیت ناک وقت تھا جب ہماری ٹرین بھی مزید آدھے گھنٹے لیٹ ہونے کا اعلان ہوا ا. آج سے تقریباً دَس سال پہلے جب میں اسٹیشن آئی تھی . تب بھی ٹرینیں اسی طرح لیٹ تھیں .گویا تاخیر کی وجوہات بدل گئی ہیں پر نظام نہیں بدلا. 
اسٹیشن پر ناقص صفائی اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر تھے. جیسے انتظامیہ کے پاس صفائی کرنے کو ملازم ختم ہوگئے ہوں. .پھَلوں اور مشروبات کے اسٹالز پر مکھیاں بھنبھنارہی تھیں اور پان تھوکے نشان نمایاں دکھائی دے رہے تھے.ٹریکس کی حالت بھی کچھ مطمئن نہ تھی. آوارہ کُتے بھی کثرت سے دکھائی دے رہے تھے.میں نے ایک بات محسوس کی کہ صفائی نہ ہونے کی ایک بڑی و جہ اہلِ اسٹیشن کا رہن سہن ہے جو مانگنے والے اور کولی وغیرہ اسٹیشن پر ہی رہتے ہیں
وہ بھی یہاں کی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں کرتے.
آس پاس موجود گندگی اور مانگنے والوں کی لائن دیکھ میں بینچ سے اٹھی اور مختلف اسٹالز پر چلی گئی.ایسے کونسی چیز تھی جو موجود نہ تھی حیدرآباد کی ہر مشہور شِہ یہاں تک کہ چوڑیوں کے بھی اسٹالز تھے .لیکن جب میں نے یہاں قیمتیں پوچھی تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی.ہر چیز دَس گُنا اضافے سے بیچی جارہی تھا ہر چیز کو مہنگائی کے پَر لگے تھے.
یہاں کتابوں کے اسٹالز بھی تھا میں نے یادگار کے طور پہ ایک کومک بک بھی خریدی۔کتابوں کے اسٹالز پر نوجوان زیادہ دلچسپی لے رہے تھے.اسی طرح چوڑیوں کے اسٹالز پر بچیاں موجود تھیں اور دوسری طرف لوگ اپنے عزیزوں کے لئے پھل خریدنے میں مصروف نظر آئے.وہ لوگ جو کافی گھنٹوں سے اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کررہے تھے . وہ چٹ پٹے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیئے.سارے اسٹالز بہت ہی دلکش تھے.یہاں کی تفریح کے بعد میں نے دوسرے
پلیٹ فارم پر جانے کا ارادہ کیا۔
پلیٹفارم پر جانے کے لئے پُل موجود تھا .میں نے اِس پُل پر بہت سی تصاویر بنوائیں.یہاں سے دور دور تک اسٹیشن اور ریل کی پٹری کانظارہ بہت ہی پُر لطف تھا ۔عین اسی وقت میں نے دیکھا کہ ساتھ والے ٹریک پر موجود ایک ریل گاڑی جو کراچی کیلئے نکل رہی تھی اس کا ایک نوجوان مسافر ٹرین میں چڑھ نہ سکا.وہ بہت دور تک پیچھے دوڑا لیکن بَدقسمتی سے اس کی چھوٹ گئی تھی.یہ ایک عجیب و غریب اور دلکش سے بھرپور منظر تھا۔
ٹرین آنے میں اب محض پندرہ منٹ رہ گئے تھے.سامان اٹھانے کے لئے ہم نے ایک کولی سے مدد لی.اور اسے اُسے اُس کا جائز منافع دیا جو اُس کا حق تھا۔ شام ہوگئی تھی اور گرمی کا زور ختم ہوچکا تھا.ٹھنڈی ہوائیں بہت لطف دے رہی تھیں میں نے دور سے آتی ٹرین کو دیکھا اور اُس کا ہارن سُن کر میرے چہرے پہ مسُکرا ہٹ بکھر گئی.اور یہ یادوں سے بھرپور اسٹیشن کا سفر میرے دِل پر گہرے نقوش چھوڑگیا۔ 
تحریر۔۔ربیعہ مغل
بی۔ایس۔۳ تھری
رول نمبر۔۸۲
ٹیچر۔سَر سُہیل سانگی 

Rao Hassnain Faeture Urdu



اگر یہ فیچر ہے تو پھر آرٹیکل کیا ہوتا ہے؟ 

فیچر رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تفریح مہیا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا دلچسپ انداز میں لکھا جاتا ہے۔
یہ کسی طور پر بھی فیچر کی صنف میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
تحریر : راؤ حسنین 
رول نمبر: 2k16/MC/84 
کلاس: بی ایس پارٹ 3



فیچر:
کوٹری انڈسٹریل ایریا (سائیٹ کوٹری)
کسی بھی مُلک کی ترقی میں اس ملک کی انڈسٹریز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ مُلک کی آمدن و تجارت کا سارا انحصار اس مُلک کی انڈسٹریز سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔قیامِِ پاکستان کے وقت پاکستان کا سارا کاروبار صرف کراچی اور لاہور تک ہی محدود تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا تو کراچی کے ساتھ مُلک کے دیگر شہروں میں بھی چھوٹی بڑی انڈسٹریز لگنے کا
عمل شروع ہُوا اور مختلف شہروں میں کاروبار کے مواقع پیدا ہوئے۔
اسی طر ح کے ایک انڈسٹریل زون میں سائیٹ کوٹری بھی شمار ہوتا ہے، جو کہ اپنے محلِ وقوع اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وجہ سے خاصہ مشہور ہے۔کوٹری انڈسٹریل ایریا دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے، جسکا کُل رقبہ 1875 ایکڑ پر مُحیط ہے۔کوٹری صنعتی ٹریڈنگ اسٹیٹ کو سن 1960میں برطانیہ ٹریڈنگ اسٹیٹس کے پیٹرن میں شامل کیا گیا۔اس سائیٹ پر دستیاب جدید تعمیرات اور حیدرآباد جامشورو کا دوسرا سب سے بڑا شہر، اور دریائے سندھ کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے اس انڈسٹریل ذون کو بہت کم وقت میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور سائیٹ کوٹری نے بھاری منافع کے ساتھ ترقی کی۔ 
کوٹری ضلع جامشورو کا تعلقہ ہے، کوٹری دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ہونے کی وجہ سے مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انڈسٹریز کی وجہ سے بھی پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ پاکستان کی انڈسٹریز کی اگر بات کی جائے تو ٹیکسٹائل، آئل ، سپےئر پارٹس ، کاٹن اور سیمنٹ فیکٹریاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح کوٹری کے انڈسٹریل ذون میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پورے پاکستان اور
 بیرونِ ملک اپنا دھاگہ سپلائی کرتی ہیں۔

ٹیکسٹائل مِلز کے ساتھ ساتھ کوٹری کی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی عوام میں خاصی مقبولیت کی حامل ہیں۔ ان کمپنیوں میں کولگیٹ پالمولیو، لیکسن ٹوبیکو کمپنی، رولینس ملز، رفحان میز پراڈکٹس ، پاکستان آئل ملز اور برِج پاور بیٹریز شامل ہیں۔ 
؂ کوٹری انڈسٹریل ایریا میں اس وقت 550 سے زائد چھوٹی بڑی فیکٹریاں آب و تاب سے چل رہی ہیں۔جن کی مدد سے غریب طبقے کو روزگار کے اچھے مواقع فراہم ہو رہے ہیں ۔ کوٹری انڈسٹریل ایریا کی تمام فیکٹریوں نے حال ہی میں جامشورو چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جِس کے تحت کوٹری کی فیکٹریوں کی سالانہ آمدن کا تخمینہ لگا کے حکومت کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ 
کوٹری کی تمام فیکٹریوں کو کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے تحت مانیٹر کیا جاتا ہے۔ کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری میں ہر سال ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں ملک کی مشہور و معروف شخصیات شرکت کرتی ہیں ۔ سال 2015 میں اس وقت کے صدرِ پاکستان ممنون حسین نے شرکت کی تھی اور کوٹری کی تاجر برادری سے خطاب کیا تھا۔کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے اس وقت کے روحِ رواں نے صدرِ پاکستان کو یادگاری شیلڈ سے نوازا۔ 
صدرِ پاکستان کے علاوہ گورنر سندھ ، وزیرِ اعلیٰ سندھ اور مخدوم امین فھیم کے ساتھ ساتھ مشہور و معروٖف تاجر بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔
یہ تحریر لکھنے کامقصد پاکستان کے تاریخی و تفریحی مقامات کے علاوہ پاکستان کی انڈسٹریز کی معلومات دینا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو پاکستان کی ان انڈسٹریز کے بارے میں بھی علم ہونا لازمی ہے۔ اُمید ہے قارئین میری تحریر پڑھنے کے بعد کوٹری کی انڈسٹریز کا ایک بار دورہ ضرور کریں گے۔۔ 

Saman Gul Article BS


Edited. to be published in first issue of Roshni 2018
سائبرکرائم پاکستان میں بھی پھیل رہا ہے
تحریر : ثمن گل 
دنیا میں سائبر کرائم تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے اثرات پاکستان میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ چارسال میں پاکستان میں ہونے والے سائبر کرائم میں پانچ گنا اضافہ ہو ا ہے۔ پاکستان فیڈرل انسوٹیگیشن ایجنسی کے مطابق ہمارے ملک میں سائبر کرائم کے جو کیس رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ نوجوان لڑکیوں کوہراساں کرنے کے ہوتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ مالی فائدہ حا صل کرنے یا زیادہ پیسہ کمانے کے لیے یہ کام کرتے ہیں یہ لوگ بنا کسی خوف کے اس لیے یہ کام کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں اس سے متعلق قانون کمزور ہیں۔ 
سائبرکرائم کمپیوٹر کے ذریعے کیا جانے والا جرم ہے۔ جس میں شکاری بھی کمپیوٹر ہے۔ فرض کیجئے ایک دن آپ اپنے کمپییوٹر پر اپنا سارا ڈیٹا اور کام مکمل کر کے سوتے ہیں اگلے دن آپکا کمپیوٹر آپکی کوئی بھی فائل شو نہیں کراتا۔ تو آپ اسے کیا سمجھیں گے! آپکی بدقسمتی؟ نہیں یہ ہم اسے سائبرکرائم کہیں گے۔ صرف کمپیوٹرسے کمپیوٹرکرائم نہیں بلکہ دماغ کے کمالات ہیں اصل میں وجہ یہ ہے کہ جتنی رفتارسے کمپیوٹر سوفٹ وئیر رلیزہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ تیزی سے اسکی سکیورٹی توڑنے کیلیئے لائحہ عمل طے پا جاتے ہیں ۔سائبر کرائم دراصل گناہ کے دلدل میں سب سے زیادہ خطرناک کرائم کہلائے جاتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے آپ نہ صرف کسی کے کمپیوٹر تک رسائی پا لیتے ہیں بلکہ اس سے آپ دوسرے کے کمپیوٹرکی پرائیویسی کو بھی ختم کر دیتے ہیں اور ایک طرح سے اس دوسرے کمپیوٹر کے بھی آپ مالک بن جاتے ہیں۔
ان جرائم کو اپنا شیوہ بنانے والوں میں سے کچھ ذہنی طور پر نفسیاتی ہوتے ہیں جو دماغ کے سکون کے لیے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ۔ پاکستان میں سائبر کرئم کرنے میں لڑکیوں کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ چند عرصے قبل ہونے والی گرفتاری اس کاثبوت ہے سیالکوٹ کی سعدیا مرزا جو لندن کے ایک رہائشی حسن رانا کو بلیک میل ,بد سلوکی اور دھمکی دینے کے جرم میں الیکڑانک جرائم ایکٹ کے ذریعے گرفتارہوئی۔
پاکستان میں سائبر کرائم کے قانون پر عمل درآمد دیکھنے میں آیا ہے مگر اس کی گرفت میں چھوٹے ہیکرز ہی آئے ہیں . جبکہ بڑے بڑے گروہ جو اس دھندے سے یومیہ لاکھوں کماتے ہیں ابھی تک پکڑ میں نہیں آسکے ہیں۔پاکستان میں سائبر کرائم کو کنٹرول کرنے والے یونٹ کے مطابق دنیا میں ہر سیکنڈ میں تقریبا چودہ ۱۴ لوگ سائبر کرائم کا شکار ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں روزانہ دس سے بارہ شکایات وصول ہوتی۔شکایات کی یہ تعداد ہمارے لئے مسلسل خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے ۔ ان جرائم کو حل کرنے کے لئے اقدامات صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ نچلی سطح پر بھی لوگوں کو محتاط کرنے کی ضرورت ہے ۔ انٹر نیٹ استعمال کرنے والے عام صارفین کو چاہیے کہ وہ وائرس شدہ ویب سائٹس کو نہ کھولیں ۔عام طور پر وائرس یا ہیکنگ والی ویب سائٹ کا پتہ نہیں چلتا لیکن اگر کمپیوٹر میں وائرس فری سافٹ ویئر ہوتو ان جیسی مصیبتوں سے بچا جاسکتا ہے۔ 
ہیکنگ کی تاریخ سالوں پرانی ہے۔ پہلے ہیکر کا لفظ مثبت طور پر استعمال ہوا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک ایسا شخص جو لکھے جانے والے پروگرام کو بدل سکتا ہے۔ اور اب مختلف قسم کی ہیکنگ کے ساتھ بہت سے گروپ منظر عام پرہیں جن میں چند ایک یہ ہیں: وائیٹ ہیکرزجنہیں اچھے مقاصدکیلیے سیکیور ٹی کو ڈتوڑنے کاکہاجائے۔ بلیک ہیٹ کمپیوٹرسیکیو ر ٹی کو ذاتی مقاصدکے لیے تو ڑ نے و الاگروپ ہے۔ الیٹ ہیکرزسب سے قابل ہیکرز کا گروپ کہلاتا ہے۔ منظن مجرم ذاتی مفاد کے لیے بنایا ھوا مجرموں کا گروپ ہے۔
ہیکرز اس کام کو نہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ پیسے کمانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہر سال پوری دنیا میں ہیکنگ سے متعلق لاکھوں کیس سامنے آئے ہیں۔پاکستان میں ہیکنگ کے ہر ہفتے کیس ضرور سامنے آتے ہیں۔


\

Saman Gul Article BS III

Friday, 23 February 2018

Mujahid English Article BS

                 Democratic Transition in Pakistan
Mujahid Ur Rehman 
BS-Part-iii MC-71-2K16

The past five years of democratic rule in Pakistan has witnessed a very fragile democracy, where the democratically elected government constantly struggled with crisis of survival. The developing countries even when they are established practicing democracies face indigenous democratization challenges which remain under represented and marginally discussed in the political science community. Moreover, Security challenges, War on terror, Economic Recession, the Spring of Middle East have all had an impact on how issues of democracy, governance and national unity are perceived today. In countries like Pakistan where the democratic deficit has always remained high because of various historical and contemporary issues the debate on democracy has become more complicated. However there are three major paradigm shifts that have taken place in the polity of Pakistan which may have a long term effect on the process of transition, leading to consolidation, stability and substantiveness of democracy.

The Strengthened Democratic Institutions of Pakistan
In spite of this and the militant threat Pakistan witnessed a 60% turnout, women and youth coming out and voting in large numbers even in rural and troubled areas of Pakistan including Baluchistan, hoping to bring about a change through the ballet. This is a new trend. The people registered their discontent and the rejection of the militants through the ballet. The former ruling PPP and its alliance PML-Q and the ANP faced a bitter defeat. MQM was also seen on the back foot challenged by PTI in its stronghold city Karachi. The first time contestant party PTI had enough numbers to form a government in Khyber Pakhtunkhwa and was successful enough to be categorized as a third largest political party in Pakistan. Making Pakistani elections decidedly multi party. It addressed long standing constitutional and political issues that threatened the federation, laid the bases of a non partisan electoral system, restored the Chief Justice which resulted in its independent yet co-equal branch of the government, created mechanisms for the transfer of power from the office of the President to the office of the Prime Minister. Civilian oversight of the military has also been largely formulized. Civil liberties stand restored. Inclusion of FATA into the political mainstream is another milestone. The media and the judiciary functioned with complete impunity in the 5 years of PPP government. Pakistan is in the process of democratic-self examination where it is constantly working towards exposing and preventing the abuse of those in power. The culture of exposure leading to accountability has never worked the way it functions in Pakistan today. The exposure is done by the median and accountability is taken up by the judiciary, the infamous motto notice. No one is spared. The holy cows of the past are under the knife of the media and the judiciary. These trends are the building block for a substantive democracy.
Role of Media in Strengthening Democracy 2002 onwards private media entered the landscape of Pakistan’s information infrastructure. As of today there are over 200 privately own daily newspapers, about a 100 T.V channels and 166 F.M radio stations. However the state owned Pakistan Television (PTV) and Pakistan broadcasting (PBC) have a monopoly. Between 2002 and 2012 television viewership went up from 4 million to 124 million. This spread particularly of the electronic media has turned it into a tool not only for dissemination of information and opinion building but also where journalists have become agents of the public. They not only keep an eye on government performance but also propose reforms, criticize governmental decisions that are not pro people and also give new ideas. They expose politicians and allow public to make informed decisions. This is largely because literacy level in Pakistan are one of the lowest in the world and electronic media now because of its accessibility has becomes the only source of reliable information. Media thus has a fundamental role in both strengthening and deepening democracy in Pakistan. The 21st century is media driven. Pakistan is no exception. The media in Pakistan has gradually and slowly become a critical driver of democracy.
Conclusion
Pakistan transition to democracy maybe considered complete where back sliding may be avoided. It is entering the consolidation phase. Linz and Stephan’s thesis on consolidation of democracies support it, currently in Pakistan all contenders for power in spite of issues and problem are acting within the democratic sphere. Constitutionally also Pakistan seems pro democracy. The biggest challenger to Pakistan’s democracy the military seems committed to exercise requisite restrained and the constitutional amendments also act as a restraining factor. The media and the judiciary see their new found independence and power an offshoot of democracy. The current trends therefore indicate a continuity of democracy.