Showing posts with label Tanzeela Fatima. Show all posts
Showing posts with label Tanzeela Fatima. Show all posts

Thursday, 1 March 2018

Tanzeela Fatima Feature Urdu BSIII

Figures are doubtful. from where u have taken 
A feature must be reporting based and basic purpose is to provide entertainment

تحریر تنزیلہ فاطمہ
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 108
فیچر
پاکستان فلم انڈسٹری کا عروج

پاکستانی سنیما کے 'سنہری دن' میں، فلم صنعت نے ہر سال 200 سے زائد فلمیں رلیز کی جاتی ہیں، آج یہ فلم انڈسٹریز کا ایک ایسا حصہ ہے جو یہ استعمال کیا جاتا ہے ۔اعدادوشمار کے مطابق بیورو کریسی سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کم از کم 700 سینماوں کو ملک بھر میں چلانے کا دعوی کیا جاتا ہے، یہ تعداد سن 2005 سے کم از کم 170 تک کم ہو گئی ہے ۔گزشتہ پانچ سالوں میں، ایک نجی ٹیلی ویژن اسٹوڈیو اور اس کی ماتحت فلم کمپنی نے پاکستانی سنیما کی بحالی کے طور پر ڈب کیا تھا۔ اس پہلو کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت نے پاکستانی سینماوں میں ہندوستانی فلموں کو پاکستان کے لئے سنیما کی ثقافت میں دوبارہ ترقی کے ساتھ نئی اصل پاکستانی فلموں کو بنانے میں بھی ایک تبدیلی لے آئی ہے۔
فلم انڈسٹری کے لئے ایک اور اچھا نشان پورے ملک بھر میں اسکولوں سے اُبھرتی ہوئے نوجوان فلم ساز دنیا بھر میں فلم سازوں کی طرف سے استعمال ہونے والی ڈیجیٹل انقلاب اور سوشل میڈیا سائٹس کے ساتھ کیا ۔یہ پاکستان میں شامل ہونے کا وقت ہے پاکستان کئی فلم اسٹوڈیو مراکز کے گھر ہے، جو بنیادی طور پر اپنے دو بڑے شہروں، کراچی اور لاہور میں واقع ہے۔
پاکستانی سنیما نے پاکستان کی ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔پاکستانی سینما میں مبنی تھا لاہور، ملک کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری کا گھر (عارف لالی وڈ) اس عرصے کے دوران پاکستانی فلموں نے بڑی ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ پاکستان میں سنیما کی تاریخ 1929 میں شروع ہوئی، جب عبدالرشید کے کردار نے ایک اسٹوڈیو اور پروڈکشن کمپنی کو متحدہ پلیئر کارپوریشن کے نام کے تحت قائم کیا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد، لاہور پاکستان میں فلم بنانے کے مرکز بن گیا۔1947 فانڈیشن کی کمی اور فلم سازی کا سامان تھا جس میں ابتدائی طور پر فلم کی صنعت کو ختم کر دیا گیا تھا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پہلی پاکستانی فلمی فلم، تیری یادیں نے 7 اگست 1948 کو جاری کیا ۔فلم انڈسٹری کی کمی 1990 کے دہائی میں ہوئی جب فلموں میں تشدد کا رجحان اٹھایا خاندانوں نے سنیماوں پر جانے سے روک دیا جو گندی بستی میں گزر گیا تھا ۔جیسے فنکاروں اور غریبوں کے سرپرست افراد کے غلبہ سنیما کاروبار تیزی سے آ گیا اور سنیماوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا ۔
پاکستان کے فلم پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر ایسوسی ایشن کے ریکارڈ کے مطابق، 1988 میں پاکستان میں323 سنیما تھے، جن میں صرف 68 لاہور میں تھے، پانچ سال پہلے شہر میں 11 سنیما کام کر رہے تھے۔اب تین زیادہ سے زیادہ ان کی کسی سینما جو تین اسکرینوں کے ساتھ تازہ ترین ٹیکنالوجی کی آواز اور ایچ ڈی بصری نظام کے ساتھ بڑی ہجوم کو اپنی پاکستان فلم انڈسٹری یقینی طور پر واپسی کر رہی ہیں لیکن اس کے پاس جانے کا ایک طویل راستہ ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک صنعت ہے اور بصورت معاملہ یا تفریح نہیں ہے۔یہ سب تفریحی کاروبار کے بارے میں ہے لیکن فلم انڈسٹری لوگوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ تمام اخلاقیات کاروبار کر رہے ہیں،ورنہ یہ ایک بلبلا کی طرح ہوگا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
موجودہ دور میں بیشتر پاکستانی فلمیں بنائی جا رہی ہیں ، اور ان فلموں کی نمائش بین الاقوامی سطح پر کر کے خوب پزیرائی حاصل کی جا رہی ہے۔ پاکستانی فلمیں آج کل پاکستانی سینما گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور پاکستان فلم انڈسٹری عروج پر جاتی دیکھائی دے رہی ہے۔

Friday, 16 February 2018

Tanzeela Fatima BS Article

File name and subject line are wrtong
From where u collected info?
Some documents, reports, are talk with soem responsible person is must. In article u have to analyse the siutuation which has authenticity, 
Article is not reporting


Tanzeela Fatima 

BS-III 2K16-MC-108
Assigned By : Sir Sohail Sangi
لطیف آباد میں گورنمنٹ ہسپتال کے حالات زار



سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا تعلقہ لطیف آباد میں چار گورنمنٹ ہسپتال ہیں ان کے نام شاہ بھٹائی ہسپتال ، جہانگیر انسٹیٹیوٹ ہسپتال، کوہسار ہسپتال اور بی ایچ او (BHO) ہسپتال ہیں۔
ویسے تو یہ ہسپتال غریبوں کے علاج کے لئے ہیں پر یہاں ایسی کوئی سہولت نظر نہیں آتی جو غریبوں کے لیے آرام کا سبب بنے۔ لطیف آباد تعلقہ کے لحاظ سے شاھ بھٹائی ہسپتال گورنمنٹ کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔
یہاں بیس وارڈز ہیں ان وارڈز میں بچوں کا وارڈ، علم امراض نسواں کا وارڈ، آنکھوں کا وارڈ، (کان، ناک، اور گلے) ENTکا وارڈ، (ایم سی-ایچ)اور جنرل وارڈ شامل ہیں اور حال ہی میں گردوں اور سٹی اسکین کا نیا وارڈ بنایا گیا ہے۔ڈاکٹرز کی تعدادایک سو تیرہ ہے ہر امراض کے سیکشن میں 4 ڈاکٹرز تعینات ہوتے ہیں دو لیڈیز اور دو جینٹس۔ایمر جنسی وارڈ میں پچیس بیڈز ہیں ۔ چار ایمبولینس اور غریبوں کے لیے فارمیسی بھی ہے جہاں مفت ادویات ملتی ہیں۔حکومت سندھ کی جانب سے اس ہسپتال کا بجٹ سالانہ دو کروڑ روپے ہے۔ جوکہ تین مہینے میں ان کو تیسرا حصہ ملتا ہے۔یہاں پر مریضوں کی تعداد روزانہ کی تین ہزار دکھائی جاتی ہے دور دراز سے بھی مریض آتے ہیں کیونکہ ان کو یہاں مفت علاج ملتا ہے اور مفت ادویات بھی۔
یہ ساری چیزیں حکومت سندھ کو بتانے کے لیے ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو ان چیزوں کا بجٹ ملتا ہے۔ جو ہسپتال پر لگنے اور جو چیز خراب ہوں ان کو صحیح کرنے کیلئے دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہاں دس سال سے کسی بھی جگہ کوئی بھی کام نہیں کرایا گیا ہیاور کافی وارڈز بند ہیں جن میں آپریشن تھیٹر بھی شامل ہیں اور جو لیبارٹری ہیں انکے اوقات بھی مخصوص ہیں جوکہ صبح نو بجے سے دو بجے تک کی ہیں۔ اور یہاں بھی یہ لوگ پیسے لے کر ایکسرے کرتے ہیں جبکہ ساری چیزیں غریبوں کے لئے حکومت سندھ مفت فراہم کرنے کا کہتی ہے۔ ساری ادویات فارمیسی پر ہونی چاہئے لیکن کبھی کبھی ڈاکٹرز وہ ادویات مریض کو دیتے ہیں جو فارمیسی میں نہیں ہوتی اور مریض خود باہر سے لے کر آتے ہیں جو ان کو مہنگی پڑتی ہیں۔ 
بیس وارڈز میں سے بھی کچھ وارڈز بند ہیں اور جو کھلے ہیں ان میں بھی مکمل علاج مہیا نہیں کیاجاتا ۔ بچوں کے وارڈز میں بچوں کو ڈاکٹرز صحیح سے دیکھتے ہی نہیں استعمال شدہ آلات ایک دوسرے بچوں پربھی استعمال کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے دوسرے بچے کئی اور بیماریوں کا شکار ہو جاتیہیں۔ 
ایمر جنسی وارڈ میں صرف نو بیڈز ہیں جبکہ پچاس مریض ایک دن میں آتے ہیں ۔ ان پچاس مریضوں پر صرف دو ڈاکٹرز تعینات ہیں جو ان کا علاج کر رہے ہوتے ہیں اکثر جلد بازی میں ڈاکٹرز غلط علاج کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ کیس تو لیتے ہی نہیں اور جو ایکسیڈنٹ ، اعضا کٹنے کے کیس ہوتے ہیں انہیں وقتی علاج دے کر کہیں اور بھیج دیا جاتا ہے۔ کبھی ڈاکٹرز کو ہی کچھ کیس سمجھ نہیں آتے اور مریض کو غلط ادویات دے کر اور کیس کو خراب کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بچہ کاسر پھٹنے کا کیس ایمرجنسی وارڈ میں آیا تھا ڈاکٹرز نے اس کو صحیح سے نہیں دیکھا اور پٹی وغیرہ اور دوا دے کر چھوڑ دیا ۔ دوسرے دن جب اس کے ابو نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا اس کے مرنے کی وجہ سر میں خون جمنا تھا۔ ڈاکٹرز کی نا اہلی تھی انہوں نے بچے کا صحیح طریقے سے معائنہ نہیں کیا اور دوبارہ اس کو آکے نہیں دیکھا کہ وہ صحیح ہے یا نہیں۔ 
انجکشن اور قیلو لہ بھی یہ ایک سے دو مریضوں پر استعمال کرتے ہیں پھر اس کو ہی دوبارہ بنا کر پیکنگ کر کے فارمیسی میں بھیج دیتے ہیں۔ شاہ بھٹائی ہسپتال میں صفائی کا بھی بہت کم خیال رکھا جاتا ہے۔ آلات بھی صاف کر کے دوسرے مریض پر نہیں لگائے جاتے جس سے جراثیم ایک سے دوسرے مریض کو لگتے ہیں ۔ جس سے ان کو دوسری کئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
یہاں کے وارڈز کا بھی یہی حال ہے۔ بیڈز کی چادر وغیرہ بھی صاف نہیں ہوتیں مریضوں کے جانے کے بعد کمروں کی بھی صحیح طریقے سے صفائی نہیں کرائی جاتی۔ یہاں پر ایک وارڈز میں کئی امراض کے ڈاکٹرز مریضوں کو دیکھتے ہیں ۔ ڈاکٹرز کو وارڈز بنا کر نہیں دیئے جا رہے جو مریض کے لئے بھی فائد ہ مند ہوں اور مریض ایک دوسرے کی بیماریوں سے بچ سکیں۔ باورچی خانہ بھی جہاں مریضوں کے لئے کھانا بنایا جاتا ہے اس جگہ کا بھی بہت خستہ حال ہو رہا ہے۔ 
حکومت سندھ ہسپتال کی مرمت کیلئے بھی ان کو پیسے دیتی ہے لیکن ہسپتال انتظامیہ ان سب خرابیوں پر نظر نہیں ڈالتی ان خرابیوں کو صحیح کرنے کیلئے پیسیتو لیتے ہیں لیکن اس کے با وجود یہاں کوئی بھی خرابی پر کام نہیں ہوتا۔انتظامیہ کو چاہئے کہ ہر گورنمنٹ ہسپتال پر نظر ثانی کی جائے اور ہسپتال کے نظام کو دیکھا جائے کہ کیا کیا خرابیاں ہیں اور ہسپتال کی انتظامیہ کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔