Showing posts with label Urdu. Show all posts
Showing posts with label Urdu. Show all posts

Saturday, 3 March 2018

Zaira Ansari Feature Urdu BSIII


This blog is already posted 
http://mc2k15.blogspot.com/2017/02/blog-post_14.html


زیرہ انصاری
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 121
فیچر
نوجوان لڑکیوں میں ناول کا جنون
لڑکیوں کے دِل پر سوار ہیں.. کبھی ہاشم کبھی جہان تو کبھی سالار ہیں.. جی ہاں آج کل کے جدید دور میں بھی لڑکیوں میں ناول کا جنون اس قدر بڑھ گیا ہے کہ کورس کی کتابوں کو دور اور ناول کو دل و دماغ کی زینت بنا رکھا ہے..
لیجئے صاحب آج کل کی لڑکیوں کا ناول میں ذہن اتنا مشغول ہے کہ اماں کے سر پر بندھی ہے پٹی دے رہی ہے دہائی بیٹی کو اری کمبخت پانی پلا دے بیٹی بولی ارے اماں ناول میں ماں مر گئی تم میری جان کھائے رکھی ہو..اب یہ تو تھا ایک طرف کا حال دوسری طرف ناول کا جنون رکھنے والی لڑکیوں کا یہ عالم ہے کے کھانا پکانے لگی ہیں ناول میں ہے ذہن اتنا مشغول کے مرچوں کی جگہ نمک ڈال دیا آلو کی جگہ ٹینڈے ڈال دیئے اور صاحب ناول کی شوقین لڑکیوں کا کیا بتاں رشتے والے آئے ہوئے ہیں باجی نے کہا ذرا چائے ادب سے لانا سر پر دوپٹہ لے کر آ نا ناول کی ماری لڑکی نے جونہی مرے میں قدم رکھا چیخ پڑی "ہائے میرا ہیرو آگیا" یہاں ناول کی ماری کا یہ کہنا تھا کہ ساری عورتیں چیخ پڑی لڑکی تو پاگل ہے۔اماں نے اٹھا لی ہاتھ میں چپل پھر آنکھوں کے سامنے تھے ستارے اف یہ ناول اف یہ ناول...
اف یہ ناول کی جنونی لڑکیوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ ناولز پڑھنا اس لیئے پسند کرتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے مختلف مسائل سے دور ہو کر ایک ایسی دنیا میں گم ہوجاتی ہیں جہاں ان کے دِل کو سکون معیسر ہوتا ہے... تو کچھ لڑکیوں کا کہنا یہ بھی ہے کے وہ ناولز پڑھنا اس لیے پسند کرتی ہیں کہ اس میں ان کو ایک ایسی کششِ محسوس ہوتی ہے جو ان کو اپنی طرف کھیچتی ہے اور اس کے سہر میں یہ کھو جاتی ہیں اور اپنی وقت گذاری کے لیے بھی ایسی چیز کی خواہ رہتی ہیں...

بہت لڑکیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ناولز میں بہت سے مختلف پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے جس سے انھیں پتا چلتا ہے کہ جو غلطیاں ناولز کے کرداروں نے کی کہی نہ کہی ہماری زندگی سے بھی ملتی ہیں۔جس سے انھیں اندازا ہوتا ہے کے انھیں کس طرح ان غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چائیے گویا لڑکیاں ناولز کا جنون علم حاصل کرنے لیے بھی رکھتی ہیں..لڑکیوں کو ناولز میں مختلف ممالک کے بارے میں پڑھنے کا بھی موقع ملتا ہے جس میں انھیں ان ممالک کے رہن سہن اور بات چیت کے ادب و آداب بھی باسانی معلوم ہوجاتے ہیں... 
بات کی جائے لڑکیوں کے پسندیدہ مصنف کی تو بہت سی لڑکیوں کا ماننا ہے کہ یوں تو ہر مصنف ہی بہت محنت سے لکھتا ہے اور ہر ایک کی لکھائی اپنی اپنی جگہ لاجواب ہے.. وہ چاہے ناول مصحف ہو جنت کے پتے, پیرِ کامل, آ بے حیات,نمل ہو یا حالمِ گویا ناول نیا ہو یہ پورنا نوجوان لڑکیوں کے جنون کا باعث بنے ہوے ہیں..ویسے تو آج کل فرحت اشتیاق کے ناولز لڑکیوں کے دلوں کی جان ہیں. فرحت اشتیاق کے ناولز بن روئے آنسو, دیارِ دل, میرے ہمدم میرے دوست اور یقین کا سفر ناول نے جہاں لڑکیوں کے دِل میں جگہ کی وہی میڈیا نے ان ناولز کو ڈرامے کی شکل دے کر چار چاند لگا دئیے جی ہاں یقین کے سفر کے کردار ڈاکٹر اسفند یار نے لڑکیوں کو اتنا دیوانہ کیا ہے کے وہ آج بھی انھیں بھولائے نہیں بھول پا رھیں... 

یہی وجہ ہے کہ جہاں ناولز نے لڑکیوں کو خواب دیکھنا سکھایا وہی حقیقت سے بہت دور کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں یہ ایک برائی نظر آتی ہے وہیں بہت سے پہلوں ایسے ہیں جو نوجوان لڑکیوں کے جنون کا باعث بنے ہوے ہیں...

Ahtisham Shoukat Feature Urdu MA

Not reporting based
فیچر : محمد احتشام شو کت
M.A Prev MMC/21/2K18
اچھڑو تھر کے دلفریب منا ظر 
دنیا کے خو بصو ر ت اور دلفریب مکا ما ت کی طر ح سند ھ میں مو جو د دلکش نظارے جنہیں دیکھنے سے دل نہیں بھر تا ۔سند ھ میں ایک ایسا علا قہ مو جو د ہے جو دنیا میں بینظیر مکا م رکھتا ہے مگر کچھ عام اور خا ص پاکستانی اس کی خو بصو ر تی سے شا ید ہی واقف ہو ں ۔ اس علا قے کی کئی خصو صیا ت ہیں ۔ خو بصور ت آسما ن ،چھو ٹے مٹی کے پہا ڑ ان پہا ڑو ں کے در میان ایک نمک کی چھیل کے پر کشش منظر اور ایک میٹھے پا نی کی جھیل ، اس جھیل میں قدرت کی طر ف سے بے شما ر مچھلیا ں مو جو د ہیں ۔ خاص کر سیا ہو ں کا رات کے وقت بسیرہ دیکھا جا تا ہے ۔ کیو نکہ اچھڑو تھر کی رات ایک خا ص اور اعلیٰ مقا م رکھتی ہے ۔ اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور پر سکو ن ما حو ل جو آنے والے سیا ہو ں کے دلو ں کو چھو تی
ہیں ۔ تا کہ وہ لو گ کبھی اس خوبصو ر ت لمحات کو نہ بھلاسکیں ۔ 
تحصیل کھپرو ضلع سانگھڑ کے علا قے اچھڑو تھر جو سیاحت کے لحا ظ سے دلفریب اور پر کشش منظر پیش کر تا ہے ۔ جسے دور دراز سے لو گ دیکھنے آتے ہیں ۔ اچھڑو تھر کو خدا نے قدر تی منظر سے نوازہ جگہ جگہ ہریالی، بڑے بڑے پہا ڑ نما ٹیلے اور باریشو ں میں ان ٹیلو پر ہریا لی ایک اور منظر پیش کر تی ہے اور ان کے درمیان سے گزرتی ہوئی نمک کی جھیل جو کئی سو سا ل پہلے سے مو جو د ہے ۔ جس میں سے روزانہ نمک نکا ل کر پو رے سند ھ میں بھیجا جا تاہے ۔ لیکن قدر ت کی شا ن دیکھو اس جھیل سے جتنا نمک نکا لا جا ئے ۔ کچھ ہی دنوں میں وہ واپس اپنی سطح پر پہنچ جا تا ہے ۔ بر ف کی چٹا ن کی طر ح نمک چٹا ن ایک دلفریب منظر پیش کر تی ہے نمک کی یہ چٹا ن پانی کے چھ انچ نیچے ہو تی ہے جگہ جگہ نمک کے بنے ہوئے پہا ڑ سیاچن کے بر ف کے پہاڑوں کی طر ح لگتے ہیں ۔ 
یہا ں ایک میٹھے پا نی جھیل اور اس جھیل کو قدر ت کی طر ف سے اس میں بے شما ر مچھلیا ں جو قدرت ک نظا رو ں میں شامل ہیں ۔ یہ حسین جھیل انتہائی خو بصو رت دلفریب منظر پیش کر تی ہے شا م سے رات دیر تک یہا ں سیا ہو ں کو ہجو م لگا رہتا ہے ۔یہاں لو گ رات گزار نا بھی پسند کر تے ہیں ۔ سو رج ڈھلتے ہو ئے اور جھیل کے پانی لہریں ایک دلچسپ منظر پیش کر تیں ہیں ۔آنے والے سیا ہ اس خو بصو ر ت نظا رے کو اپنے کیمر وں میں محفو ظ کر کے اپنے ساتھ لیجا نا چا ہتے ہیں ۔ زند گی کے یا دگار لمحا ت کے طو ر پر رکھتے ہیں یہاں پر مچھلی کے شکا ر کر نے کا بھی بہت الگ مزہ ہے ۔ آنے والے سیا ہ مچھلی کا شکار کر کے لطف اندوز ہو تے نظر آتے ہیں اور سا تھ ہی جھیل کے کنا رے مچھلی کو بڑے محنت سے تلتے ہو ئے اور وہیں کھانے کے مزے لوٹتے ہیں ۔ان مچھلیا ں کے زائقے میں ایک الگ خا صیت ہے جو شا ید ہی کسی اور در یا یا پھر جھیل کی مچھلیو ں میں ہو ۔ میں ان نظا رو ں کا زاتی شاہد ہو ں ۔ جب بھی کو ئی مجھ سے سند ھ کے پر فضا ء مکامات کے بارے میں بات کر تا ہے تو میں اچھڑو تھر کے خو بصور ت اور دلکش مناظرو ں کو ذکر ضرور کر تا ہو ں ۔یہ قدرت کا سندھ کے لو گو ں کے لئے ایک خا ص تحفہ ہے ۔ تھر اور تھر کے باسیو ں کی زند گی شہر کے لو گو ں سے مختلف ہو تی ہے ۔ وہاں کاپر سکو ن ما حو ل ہے نہ کوئی گاڑیو ں کاشور اور نہ ہی ما حو لیا تی آلو د گی ۔ تھر کی پر فضا ء ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں انسا ن کو زہنی سکو ن مہیا کر تی ہے ۔ مٹی کے بنے ہوئے گھر جو شیشے طر ح چمکتے ہیں اور لکڑی کی خو بصو رت جھونپڑیا ں جو سند
ھ کی ثقافت میں اعلیٰ مقا م رکھتی ہیں ۔

لیکن اس خوبصو ر ت مقا م کو حکو مت کی توجہ کی انتہائی ضرورت ہے حکو ت کو چا ہیے کے یہاں ایسی سہو لیا ت فراہم کرے جس سے یہ نہ صر ف ملک کے سیا ہو ں کو اپنی جا نب کھنچے بلکہ غیر ملکہ سیا ہو ں کی بھی توجہ کو مر کز بن سکے ۔ 

Ahmed Raza Feature Urdu MA

Seems ok
فیچر : محمد احمد رضا 
M.A Prev MMC/20/2K18
حسر ت مو ہا نی ڈسٹرکٹ سینٹر ل لا ئبریری
لائبریری ایسی جگہ ہے جو تعلیم کی لگن میں اضا فہ کر تی ہے ۔لائبریری میں جانے سے مختلف کتا بو ں کی طر ف دلچسپی بڑ ھتی ہے اور انہیں پڑھنے کا دل جا ہتا ہے اور جب ہم ان کتا بو ں کو پڑھتے ہیں تو ہماری معلومات میں بہت اضا فہ ہو تا ہے ۔ پڑھنے کے لئے سب سے ضروری چیز ما حو ل ہے اور ایک اچھا ماحو ل ہمیں لائبریری ہی فراہم کر تی ہے ۔ 
اگر حسر ت موہا نی ڈسٹرکٹ سینٹرل لائبریری کی تاریخ اٹھا ئیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جگہ پہلے ہو لم اسٹیڈ ہال (The Holm Stead Hall ) کے نا م سے مشہو ر تھی ۔ ہو لم اسٹیڈ ہا ل 1905 ء میں سر جن ہو لم اسٹیڈ (Surgoen Holm Stead) کی یا د میں بنا یا گیا ۔ ہو لم اسٹیڈ ایک بہت ہی قابل سر جن تھے جنہو ں نے 1868 سے 1884تک یہاں اپنی خد ما ت انجا م دی اسے لائبریری کی شکل دینے والے بھا ئی وسیہ مال اور ہیرا نند تھے
۔ 
1947کی جنگ آزادی کے بعد اس عما رت کو 1955 میں ریڈیو پاکستان نشر یا ت کا دفتر بنا دیا گیا اور جب ریڈیو پاکستان نشر یا ت اپنے نئے دفتر میں منتقل ہو گیا تو 1967 میں اسے حسر ت مو ہانی ڈسٹرکٹ سینٹر ل لائبریری کا درجہ ملا ۔ پھرضلعی نا ظم جنا ب کنور نوید جمیل نے اسے ازسر نو تعمیر کروایا ۔اس کی تعمیر میں چھبیس کروڑ(26 Millions ) کا خر چا آیا ۔ اور12 مئی 2009برو ز جمعرا ت کنور نوید جمیل نے حسرت مو ہا نی ڈسٹر کٹ سینٹرل لائبریری کا افتتا ح کر دیا ۔
حسرت مو ہا نی ڈسٹر کٹ سینٹر ل لا ئبری پکا قلعہ شاہی بازار کے قریب حیدر آباد سند ھ میں واقع ہے حسر ت مو ہا نی ڈسڑکٹ سینٹرل لائبریری کی ایرا ضی تقریباً اٹھا رہ ہزار (18000 Sqft)(1.5 Acres) ( دو ہزار گز ) جس میں بڑا ہال پڑھنے کے لئے ، با ع، مسجد ، گاڑیا ں کھڑی کر نے کی جگہ شامل ہے ۔ 
اس لائبریری میں تقریبا پچا س ہزار (50,000 )مختلف اقسا م کی کتابیں ہیں۔ جس میں انگریزی ، اردو ، اردو اور انگریزی تاریخ ، نا ول ، شاعر ی ، سائنس اور دیگر اقسا م کی کتا بیں رکھی ہو ئی ہیں ۔ 
حسر ت مو ہا نی ڈسٹر کٹ سینٹر ل لائبریری میں محکمہ ثقافت ، سیا حت اور اثار قدیمہ حکومت سندھ کے نو (9) ملا ز مین کام کر تے ہیں ۔
لائبریری میں اس وقت ممبر کی تعداد 6000 ہے جس میں 200 سے 300 زوزانہ پڑھنے آتے ہیں ۔ 
زیا دہ جو طالب علم پڑھنے آتے ہیں وہ کمیشن CSS-PCSکی تیا ری کر رہے ہیں اور گیا رہویں ، بارہویں اور گریجو یشن کے طالب علم بھی آتے ہیں ان سب کا کہنا ہے کہ یہا ں ہمیں ما حو ل ملتا ہے اور مختلف کتابین پڑھنے سے ہمیں بہت فا ئد ہ ہو تا ہ ۔ ASPسہائے تالپور بھی یہا ں آکر پڑھتی تھی۔ 
لائبریری میں کچھ لو گ کتا بیں پڑھ رہے تھے اور کچھ لو گ صر ف بیٹھے اپنا مو بائل استعما ل کررہے تھے اور کچھ لو گ اخبا ر پڑھ رہے تھے اور کچھ لو گ فار غ بیٹھے مجھے دیکھ رہے تھے کہ یہ نیا شخص کو ن ہے اور کیا پو چھ تاج کررہا ہے
۔ 

عبد السلا م عادل (پروفیسر ڈگری کا لج لطیف آباد ) کہتے ہیں کہ لائبریری ایسی جگہ ہے جہاں ادب کی قدیم کتابیں اور نسخے رکھے جا تے ہیں تا کہ لو گ ان قدیم کتا بو ں کو پڑھ سکیں کیونکہ پرانی قدیم ہم کتابیں صر ف لائبریری میں مل سکتی ہیں بازار میں نہیں حسر مو ہانی ڈسٹر کٹ سینٹر لائبریری کی با ت کریں تو وہا ں صر ف نئی کتا بیں سامنے رکھیں ہیں اصل قدیم سر ما یہ کتا بیں اسٹور میں مٹی کھا رہی ہیں لو گ لائبریری جاتے ہیں اس لئے ہیں کہ پرانی کتا بو ں سے کچھ نسخے لے سکے یا کچھ معلوما ت حاصل کر سکیں پروہاں تو سب نئی کتابیں رکھی ہیں جو اسنی سے بازار میں بھی مل جا تی ہیں۔

Thursday, 1 March 2018

Tanzeela Fatima Feature Urdu BSIII

Figures are doubtful. from where u have taken 
A feature must be reporting based and basic purpose is to provide entertainment

تحریر تنزیلہ فاطمہ
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 108
فیچر
پاکستان فلم انڈسٹری کا عروج

پاکستانی سنیما کے 'سنہری دن' میں، فلم صنعت نے ہر سال 200 سے زائد فلمیں رلیز کی جاتی ہیں، آج یہ فلم انڈسٹریز کا ایک ایسا حصہ ہے جو یہ استعمال کیا جاتا ہے ۔اعدادوشمار کے مطابق بیورو کریسی سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کم از کم 700 سینماوں کو ملک بھر میں چلانے کا دعوی کیا جاتا ہے، یہ تعداد سن 2005 سے کم از کم 170 تک کم ہو گئی ہے ۔گزشتہ پانچ سالوں میں، ایک نجی ٹیلی ویژن اسٹوڈیو اور اس کی ماتحت فلم کمپنی نے پاکستانی سنیما کی بحالی کے طور پر ڈب کیا تھا۔ اس پہلو کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت نے پاکستانی سینماوں میں ہندوستانی فلموں کو پاکستان کے لئے سنیما کی ثقافت میں دوبارہ ترقی کے ساتھ نئی اصل پاکستانی فلموں کو بنانے میں بھی ایک تبدیلی لے آئی ہے۔
فلم انڈسٹری کے لئے ایک اور اچھا نشان پورے ملک بھر میں اسکولوں سے اُبھرتی ہوئے نوجوان فلم ساز دنیا بھر میں فلم سازوں کی طرف سے استعمال ہونے والی ڈیجیٹل انقلاب اور سوشل میڈیا سائٹس کے ساتھ کیا ۔یہ پاکستان میں شامل ہونے کا وقت ہے پاکستان کئی فلم اسٹوڈیو مراکز کے گھر ہے، جو بنیادی طور پر اپنے دو بڑے شہروں، کراچی اور لاہور میں واقع ہے۔
پاکستانی سنیما نے پاکستان کی ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔پاکستانی سینما میں مبنی تھا لاہور، ملک کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری کا گھر (عارف لالی وڈ) اس عرصے کے دوران پاکستانی فلموں نے بڑی ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ پاکستان میں سنیما کی تاریخ 1929 میں شروع ہوئی، جب عبدالرشید کے کردار نے ایک اسٹوڈیو اور پروڈکشن کمپنی کو متحدہ پلیئر کارپوریشن کے نام کے تحت قائم کیا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد، لاہور پاکستان میں فلم بنانے کے مرکز بن گیا۔1947 فانڈیشن کی کمی اور فلم سازی کا سامان تھا جس میں ابتدائی طور پر فلم کی صنعت کو ختم کر دیا گیا تھا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پہلی پاکستانی فلمی فلم، تیری یادیں نے 7 اگست 1948 کو جاری کیا ۔فلم انڈسٹری کی کمی 1990 کے دہائی میں ہوئی جب فلموں میں تشدد کا رجحان اٹھایا خاندانوں نے سنیماوں پر جانے سے روک دیا جو گندی بستی میں گزر گیا تھا ۔جیسے فنکاروں اور غریبوں کے سرپرست افراد کے غلبہ سنیما کاروبار تیزی سے آ گیا اور سنیماوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا ۔
پاکستان کے فلم پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر ایسوسی ایشن کے ریکارڈ کے مطابق، 1988 میں پاکستان میں323 سنیما تھے، جن میں صرف 68 لاہور میں تھے، پانچ سال پہلے شہر میں 11 سنیما کام کر رہے تھے۔اب تین زیادہ سے زیادہ ان کی کسی سینما جو تین اسکرینوں کے ساتھ تازہ ترین ٹیکنالوجی کی آواز اور ایچ ڈی بصری نظام کے ساتھ بڑی ہجوم کو اپنی پاکستان فلم انڈسٹری یقینی طور پر واپسی کر رہی ہیں لیکن اس کے پاس جانے کا ایک طویل راستہ ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک صنعت ہے اور بصورت معاملہ یا تفریح نہیں ہے۔یہ سب تفریحی کاروبار کے بارے میں ہے لیکن فلم انڈسٹری لوگوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ تمام اخلاقیات کاروبار کر رہے ہیں،ورنہ یہ ایک بلبلا کی طرح ہوگا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
موجودہ دور میں بیشتر پاکستانی فلمیں بنائی جا رہی ہیں ، اور ان فلموں کی نمائش بین الاقوامی سطح پر کر کے خوب پزیرائی حاصل کی جا رہی ہے۔ پاکستانی فلمیں آج کل پاکستانی سینما گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور پاکستان فلم انڈسٹری عروج پر جاتی دیکھائی دے رہی ہے۔

Sadaf Baloch Feature Urdu BSIII


حیدرآباد کی چوڑیاں
صدف لاسانی
B.S Part III 88 2k16 

جیسے ہی شادیوں کا مہینہ یا کوئی تہوار ہوں چوڑیون کی مانگ بڑھ جاتی ہیں 
وہ عورتیں جو اپنے گھروں پر چوڑیوں کا کام کرتی ہیں اُ ن کی زندگی میں کوئی چمک یا خوشی نہیں ہوتی کیونکہ بہت کم اجرت پر ٹھیکیدار اُن سے کام لیتے ہیں یہ اُ ن نہ دکھائی دینے والے ہاتھوں کی دل شگن واقعات
کی کہانی ہے جو ہر پاکستانیوں کی شادیوں میں روح پھونکتی ہیں۔
شیشے کی چوڑیوں کی بنائی شیشے کی چوڑیاں بنانے کے لئے بہت محنت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
شیشے کی چوڑیاں کی ایک صنعتی کام کا عمل ہے یہ چوڑی مارکٹ میں فروخت ہونے سے پہلے 60مزدوروں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی ماکٹ میں آتی ہے ۔
شیشے کی چوڑیاں بنانے کے 39سے بھی زیادہ مرحلے مختلف مرحلے استعمال ہوتے ہیں اور ہر مرحلہ پچیدہ اور توجہ طلب ہوتا ہے جبکہ کچھ مرحلے ایسے ہوتے ہیں جن میں خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چوڑیوں کی بنائی میں 39مختلف مرحلے سے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ مرحلے ایسے ہوتے ہیں جو صرف گھروں میں عورتیں اور بچے انجام دیتے ہیں۔
1996میں سیدھائی ۔جوڑائی۔ کٹائی۔اور چھپائی کا کام مکمل طور پر عورتوں اور بچوں کے ذریعے ہو تا تھا ۔
جب سے عورتیں اس ( Indestry)صنعت کا ایم حصہ بنی ہیں ۔
2009میںHome net Pakistanاور Lebour edecation foundinنے تخمینہ لگایا ہے کے 675000عورتیں چوڑی بنانے کے کام میں مصروف ہوتی ہیں ۔
حیدرآباد شہر چوڑیوں کے لئے بہت مشہور ہے 1947میں بہت سے چوڑیاں بنانے والے انڈیا کی ریاست راجستان سے ہجرت کرکے آئے وہ لوگ زیادہ تر حیدرآباد میں آباد ہوگئے ۔
اور اپنے اس ہنر کو جاری رکھا بہت سے لوگوں نے چوڑیاں بنانے کے کاروبار کو تجارت کے طور پر اختیا ر کیا اور پیشہ ورانہ چوڑی بنانے والے بن گئے۔
جب سے لے کر آج تک کا تخمینہ کیا گیا ہے کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ لوگ حیدرآباد کی چوڑیاں بنانے کی صنعت کا پییہ چلاتے ہیں ۔
شیشا بنانے کے تین کارخانے ہیں۔
1۔ sindh Industrial and Tradin Estate
2۔ The old city and Latifabad (Site)۔
3۔ site Areaجہاں بہت سارے چوڑیاں بنانے والے کارخانوں کا مسکن ہیں لیکن The old city اور Latifabad کا ٹیج صنعت کی مانند ہیں جہاں پیداکاری کا حجم ایک یا دو کمروں میں مجتمل ہوتے ہیں ۔
کانچ کی چوڑیا ں ہر خاص و عام میں مقبول رہی ہیں مگر یہ چوڑیاں کسی کی کلائی تک پہنچنے سے پہلے جن ہاتھوں سے بنتی ہے وہ اس کی کھنک پُر کشش رکھتے ہیں
۔

نسرین:۔نسرین کہتی ہے کہ مینے اپنی زندگی کا ایک برا حصہ چوڑیوں کی جوڑائی میں ہی گزارا ہے اور اب میرے بچے بھی یہی کا م کرتے ہیں موسم سرد ہو یا گرم نسرین کے بچوں کے لئے دن ایک سا ہی رہتا ہے سخت گرمی اور آگ کی تپش یہ سارے دن بیٹھ کر ہی سارا خاندان روزانہ صرف250یا 300کماتے ہیں ۔
یہ کہانی صرف نسرین کی نہیں بلکے حیدرآباد کے ہر اس گھر کی ہے جہاں چوڑیوں کا کام ہوتا سندھ کے اس قدیم تاریخی شہر میں قائم چوڑیوں کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک نمایا مقام رکھتی ہے اور افراد حکومت کے حوالے سے جنوب ایشیاء کی سب سے بڑی گھریلوں صنعت تصور کی جاتی ہے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پاکستا کے کم آبادی والے اس شہر میں تین سے چار لاکھ سے زیادہ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں جن میں بڑی تعداد 80فیصد خواتین کی ہے ۔
حیدرآباد کے یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں 35فیکڑیا اور 1600کے قریب ہول سیل کی دکانوں سے حاصل ہونے والی یوم آمدنی دو سے تین کروڑ روپے ہیں مگر اس کے با وجود اس میں کام کرنے والے شدید مسائل سے دو چار ہیں جو عورتیں اور بجے کام کرتے ہیں ان کو اجرت انتہائی کم مل رہی ہے آٹھ دس لوگ کام کرتے ہیں تب جا کر ان کو 250یا 300ملتے ہیں اگر اجرت زیادہ ملے گی تو وہ بھی خوشحال زندگی گزار سکے ۔
اس رپورٹ کے دوران یہ اندازہ ہوا ہے کے چوڑیاں بنانے کا کام بہت محنت اور مشکل والا ہے اور اس میں عورت اور بچوں کو بہت کم اجرت ملتی ہے اس کام کو کرنے کے بعد اگر عورتیں یا بچے بیمار ہوجائے یا زخمی ہوجائے تو ان کا کوئی علاج نہیں کروایا جاتا اور اس کی وجہ بچے بیمار ہوجاتے ہیں اور عورتوں کی آنکھیں نابینا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا کوئی پر سانے حال نہیں حکومت کو اس صنعت کو اپنی تحویل میں لینا چاہیئے تاکہ مزدوروں کو اجرت ان کی محنت کے حساب سے ملے ۔
جب کے 2011میں حکومت پاکستان نے ٹھیکیداروں پر قانون عائد کیا تھا لیکن اُس پر عمل نہیں کرتے حکومت کو چاہیئے کہ قانون پر سختی سے عمل کروئے یا پابند کریں تاکہ یہ لوگ بھی اپنی زندگی بہتر طرقے سے گزار سکیں۔ 

Saad Ahmed Feature Urdu BSIII

600 + words required. 
This is article, it is not feature
A feature must be reporting based and basic purpose is to provide entertainment

سعد احمد
B.S Part-III
رول نمبر87
حیدرآباد کے فلائے اوور

حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جس طرح شہر حیدرآباد میں عوام کی سہولت کے لئے بہت سی چیزیں موجود ہیں ان میں سے ایک چیز فلائے اوور بھی ہیں بڑھتے ہوئے ٹریفک کو قابو کرنے کے لئے فلائے اوور بنائے جاتے ہیں تاکہ عوام الناس کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ 
حیدرآباد کے بناوٹی خاکے کا ایک حصہ فلائے اوور بھی ہے فلائے اوور ایک سٹرک ہے جو تعمیر کی جاتی ہے ان سڑکوں پر جہاں سڑکیں چوڑی ہوتی ہیں اگر سٹرک چوڑائی میں کم ہو تو سٹرک کے نیچے ایک روڈ بنایا جاتا ہے جسے انڈر پاس کیا جاتا ہے۔ 
پاکستان میں جتنے بھی فلائے اوور موجود ہیں وہ ضلع حکومت کی جانب سے پلان کئے گئے ہیں تاکہ ٹریفک جام ہونے کے کے مسئلے پر قابوپایاجاسکے اس وقت شہر حیدرآباد میں 6فلاوئے اوور موجود ہیں جس میں سب سے پہلے کی تعمیر 2009میں کی گئی ان میں لطیف آباد 7نمبر کا فلائے اوور ہالاناکہ کا فلائے اوور سخی عبد الوہاب فلائے اوور جو ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے شہباز قلندر فلائے اوور، ہوش محمد شیدی فلائے اوور اور
غلام شاہ کلہوڑو فلائے اوور جو ریلوے کراسنگ حیدرآباد اور میر پور خاص روڈ پر موجود ہے۔
جب یہ فلائے اوورموجود نہ تھے تو لوگوں کو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑھتا تھا اور وہ چند منٹ کا سفر گھنٹوں میں طے کرپاتے تھے لطیف آباد پونے 7پر جو فلائے اوور تعمیر ہے اس نے عوام الناس کو بے حد فائدہ پہنچا ہے لوگ اسکے استعمال سے اپنا وقت ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ اس فلاوئے اوور کے بننے کے بعد عوام با آسانی اپنی منزل پر بغیر کسی ٹریفک میں پھنسے پہنچ جاتے ہیں۔
شہر حیدرآباد کے فلائے اوور ایک طرف تو لوگوں کے سفر میں آسانیاں پیدا کررہے ہیں ساتھ ہی ساتھ کئی لوگوں کا کاروبار بھی وسیع کررہے ہیں دیکھا جائے تو سخی وہاب فلائے اوور کا اس میں اہم کردار ہے جہاں لوگوں نے اپنے ٹھیلے لگا کر جوتوں، چپلوں کا ٹھیک ٹھاک کاروبار شروع کردیا ہے جہاں شہر حیدرآباد کے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان رخ کرتے ہیں اور اپنے استعمال کے مطابق ان کی پروڈکٹ خرید لیتے ہیں۔
فلائے اوور بنانے کا بنیادی مقصد ٹریفک کی روانی کو بحال کرنا تھا اور صوبائی حکومت اس میں کافی حد تک کامیاب ہوگئی ہے جہاں سڑکوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے گھنٹوں ٹریفک میں کھڑے رہنا پڑتا تھا وہاں اب فلائے اوور کی مدد سے یہ تمام پریشانیاں عوام سے دور کر دی گئی ہیں عوام کا کہنا ہے ان فلائے اوور کی شہر بھر میں ضرورت ہے جہاں جہاں ٹریفک کی روانی مشکل ہورہی ہے اس جگہ چھوٹے چھوٹے فلائے اوور بنادے جائیں تاکہ لوگوں کا گزر بسر باآسانی ہوسکے
۔

شہروں کی ترقی میں اور اسے خوبصورت بنانے میں فلائے اوور اہم کردار ادا کرتے ہیں اب حیدرآباد کا نقشہ پہلے نقشے سے بہتر اور خوبصورت نظر آتاہے جس طرح موجودہ دور میں گاڑیوں کی تعدا د بڑھ رہی ہے اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے شہر کی بناوٹ کو عمدہ عمدہ بنانے کی ضرورت ہے گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ٹریفک پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے جس سے ماحول بھی خراب ہوتا ہے فلائے اوور ہونے کے سبب عوام کو یہ آسانی ہے کہ وہ ٹریفک جیسی بری شے سے بچ جاتے ہیں اور اپنا سفر باآسانی طے کرلیتے ہیں۔ 
فلاوئے اوور کا نچلی حصہ اکثر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوا نظر آتا ہے فلاوئے اوور کے نچلے حصے میں اگر کوئی کاروباری مراکز جیسے دکان وغیرہ بنادی جائیں تو اس گندگی کے ڈھیر سے بھی بچایا جاسکتاہے۔
شہر حیدرآباد کے یہ فلائے اوور ایک طرف تو لوگوں کو سہولتیں مہیا کررہے ہیں مگر دوسری جانب حادثات کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں نئی نسل کے نو جوان رات کو بائیک ریسنگ کرتے ہیں جس میں شرطیں لگائی جاتی ہیں اور لالچ میںآکر یہ نوجوان اپنی جانیں کھو بیٹھتے ہیں اگر اس پر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے تو نوجوانوں کو اس جانی نقصانی سے بچایا جاسکتا ہے۔ 

Mannum Abedi Feature Urdu BSIII

Not reporting based
اسکول کی زندگی:زندگی کا سدا بہار باب
نام:سیدہ منعم زہرہ عابدی
رول نمبر:۱۴۶۔۲کے۶۱
کلاس:بی۔ایس ۱۱۱
کسی بھی شخص سے پو چھیں کہ اس کی زندگی کا حسین دور کون سا تھا تو وہ اپنی جوانی کے لمحوں کو حسین قرار دے گااور اگر یہی بات کسی جوان سے پوچھی جا ئے تو وہ کمسنی میں گزارے بڑے سرما ئے ا سکول کی زندگی کو اپنی بہترین یادگار قراردے گا۔اسکول کی زندگی تعلیم سے بہرہ مندہوئے ہر شخص کا سنہرا باب ہوتی ہے۔وہ زمانہ طفلی کی ہر یاد کو دل سے لگائے ہوتا ہے ماضی کی کوئی یاد دھیان میں آئے تو یکدم مسکرا کے غمگین ہو جاتا ہے کہ اب وہ صرف ماضی سے وابستہ ہے۔اسکول بھی دنیا کی مثال ہے جہاں ہر کوئی روتا داخل ہوتا ہے اور روتے ہوئے اسکول کو خیرباد کہتا ہے۔
اسکول میں مختلف جماعتیں مزید سیکشنزمیں تقسیم ہوتی ہیں۔ہر طالبعلم سینیئر کے رعب میں رہنے اور جونیئر کو رعب میں رکھنے کی تصویر پیش کرتا ہے۔بہت بار تو اس مدبھید میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں اور بات اساتذہ سے آفسز تک پہنچ جاتی ہیں گویا ہر طالبِعلم خود کو حریف کے سامنے جھکنے نہیں دیتا اور معافی کے بنا ہی معاملہ رفع دفع کرنا چاہتا ہے۔بات اگر جماعتوں کی کی جائے تو وہاں کا الگ سماع ہوتا ہے۔الگ الگ مزاج اور طبیعت کے لوگوں کو’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ کے مترادف ایک جماعت میں باندھ دیا جاتا ہے.جہاں مختلف عادت کے ہم عمرطالبعلم ساتھ پڑھتے ہیں،ہسنتے ہیں،شرارت کرتے ہیں اور دوستیاں مضبوط کرتے ہیں جو سال در سال قائم رہتی ہیں۔دنیا میں زیادہ تر افراد کے سچے دوست ان کے اسکول کے ساتھی ہی
ہوتے ہیں۔
جماعت میں شاگرد بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔کوئی کتابی کیڑا ہوتا ہے جو استاد کے پڑھائے ہوئے سبق کواگلے دن یاد بھی کر آتا ہے اور استاد کی واہ واہ سمیٹنے کے لیئے مزید سوال کرتا ہے جیسے ہم جماعتوں نے اسے جماعت کا نمائندہ متعین کیا ہو۔دوسری قسم گم سم افراد کی ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جماعت میں موجود تو ہوتا ہے پر حاضر نہیں ہوتاگو یا اسے کوئی دلچسپی ہی نہیں کسی کی ڈانٹ پڑے یا کسی کو سراہا جائے اور پھر ایک قسم آتی ہے ان کی جو آئے دن جماعت میں کم اور پرنسپل کے کمرے میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور اس شریر ٹولی کا کیا کہییکہ جماعت کی رونق بھی یہی ہوتے ہیں۔دن کی پہلی کلاس سے لے کر آخری کلاس تک وہ چوکس رہتے ہیں کہ دن ختم ہو جائے پر ان کی شرارت نہ ختم ہو پائے۔استاد جب آئے تو اس کے خیر مقدم میں’’گڈ مارننگ‘‘کو کھینچ کر ترنم میں پڑھتے ہیں اور جب پڑھانے لگے تو جانوروں کی آواز نکالنے لگتے ہیں۔استاد کا دھیان زرا مبذول کیا ہو تو شور برپا کر دیتے ہیں اور جب وہ چپ کروانے کے لیے ڈسٹر کی مدد لے تو اسے بھی چھپا دیتے ہیں کہ آخر میں استاد ہی دعا کرتاہے کلاس مکمل ہو اور وہ
جائے۔
شاگردوں کی طرح اساتذہ بھی الگ الگ طبیعت کے ہوتے ہیں کوئی صرف ڈانٹتا رہتا ہے،کوئی بڑی شائستگی سے پڑھاتا ہے، کسی کا پڑھایا باآسانی سمجھ میں آجاتا ہے،کسی کا پڑھایا سر سے گزر جاتا ہے اور کچھ جانبداری کے اصول پر پڑھاتے ہیں۔

سیانے کہتے ہیں’’کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں‘‘۔ اسکول کی لاؤبالی عمر ہم ین سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ اس دوران ہمارے مشاغل صرف کھیل کود،دوستیاں نبھانااور مستیاں کرنا ہوتے ہیں۔اسکول میں پڑھائے مضامین کا بھی کچھ مختلف حال نہیں کسی کو ریاضی اچھی لگتی ہے،تو کوئی سائنس کا دلدادہ ہوتاہے،کسی کو تاریخ وجغرافیہکی سمجھ نہیں آتی،تو کوئی ادبیات سے دلچسپی رکھتا ہے پس سو افراد سو مزاج اور ان سب مراحل سے گزرتے گزرتے آتا ہے آخری معرکہ امتحان کا جس میں ہر لائق فائق اور نالائق

کی پڑھے یا بنا پڑھے کامیاب ہونے کی خواہش ہوتی ہے

۔
مشہور مصنف ٹام بوڈیٹ نے اسکول اور زندگی میں بڑا خوبصورت فرق بیان کیا ہے کہ:’’اسکول میں سبق سکھا کے امتحان لیا جاتا ہے اور زندگی امتحان لے کے سبق سکھاتی ہے۔‘‘ اسکول میں کم عمر میں حاصل کیے تجربے بڑی عمر تک ساتھ دیتے ہیں۔کچھ تلخ حقیقتوں سے آشناکراتے ہیں مثلاً ہر دوست ہمیشہ ساتھ نہیں رہتا اور کبھی کبھی جیتنے سے بہتر سیکھ جانا ہوتا ہے۔بچپن میں پوزیشنز پر لڑائیاں ہو جاتی تھیں اور عملی زندگی میں قدم رکھا تو سمجھ آئی کہ پوزیشنز تو چھینی جا سکتی ہیں پر قابلیت اور اہلیت نہیں۔اسکول کی زندگی ہر انسان کی شخصیت پر گہرا ثر رکھتی ہے۔اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔اسے معاشرتی زندگی سکھانے کی ایک تجربہ گاہ ہوتی ہے۔وہ شخص ببہت خوش نصیب ہے جسے اچھے معلم ملے جن کے علم و تجربے سے مستفید ہو کے انسان اپنی عملی زندگی کا ہر فیصلہ منطقی اعتبار سے کر سکے۔اسکول لائف ماضی کا سنہرا باب ہے جس میں لوٹنے کی انسان صرف خواہش کر سکتا ہے۔جو طلبہ ا بھی اسکول لائف کا حصہ ہیں انہیں مشورہ ہے کہ وہ ایک ایک لمحے کو بھرپور جیئیں۔

Wednesday, 28 February 2018

Saman Gul Feature BS III- Urdu

Not reporting based
تحریر ۔ثمن گل
کلاس:بی۔ایس۔تھری
رول نمبر۔۹۴
بچپن کے کھیل اب کہاں گئے !محض یادوں کے حد تک محدود رہ گئے
یاد ہیں ہمیں ابھی وہ دھوپ میں کھیلنا شام تک گھر سے باہر رہنا ۔ امی سے چھپ چھپ کر دوپہر میں کھانا چھوڑ کر گھر سے جاکر دوستوں کو بلاکر مزے مزے کے کھیل کھیلنا۔ 
کہتے ہیں کہ انسان بچپن کی یادوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ بچپن ہماری زندگی کا ایک بہت خوبصورت لمحہ ہوتا ہے۔ اس کی یادیں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ جس کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں تو چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ بچپن کے دور میں نہ دلوں میں نفرت ہوتی تھی نہ ہی کوئی حسد بلکہ صرف اور صرف محبت ہوتی تھی۔ یاد آتے ہیں بچپن کے وہ دوست اور دلچسپ کھیل جنہیں کھیلتے ہوئے ہم اتنا مگن ہوجاتے تھے کہ کھانا پینا اور اپنے گھر کو بھی بھول جاتے تھے۔ 
ویسے تو دیکھنے میں چھوٹی سی گیند نما ہوتے تھے۔ انگلیوں میں دباکر نشانہ لگاکر دوسرے کنچے کو مارنا
آج نہیں ہے ایسا اب زمانہ لٹو اور جالی کا نام تو سنا ہوالگتا ہے ۔ آج ایسا لگتا ہے کتنے پرانے سے ہوگئے ہیں ہم کہ آج گلی کوچے میں کوئی بچہ نظر نہیں آتا بہت ہی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ لٹو اور جالی کا کھیل اگر آج ہم بچوں سے پوچھیں کہ لٹو اور جالی کیا ہے تو انہیں نہیں پتا ہوگا۔ اور آج بچوں کے ہاتھوں میں لٹو اور جالی کے بجائے سمارٹ فون نے لے لی ہے ۔ ایسے اور بھی کھیل ہیں جو آج کے بچے گلی کوچوں کی رونق مدھم کرکے سمارٹ فون میں کھیل رہے ہیں۔ اب کرکٹ کی ہی بات لے لی جائے تو پہلے بچے کرکٹ ہر اتوار اور جمعے کے روز باقاعدہ ٹیم بناکر کھیلا کرتے تھے۔ لیکن آج نہ کوئی ٹیم ہے نہ کوئی جمعہ اور اتوار جب دل کیا بیٹھے اور سمارٹ فون میں کھیلنا شروع کردیا ۔ پہلے بچوں کی کھیل کی وجہ سے ورزش ہوجایا کرتی تھی ۔ لیکن آج بچے جسمانی کمزوری کا شکار نظر آتے ہیں چھوٹی سی ہی عمر میں بچوں کی نازک آنکھوں پر بڑا موٹاچشمہ ہوتا ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ اب ایسا کیوں ہے اس کا الزام ہم صرف سمارٹ فون کو نہیں دے سکتے ۔ معاشرے کی بڑھتی ہوئی تبدیلیاں بھی ہیں۔ جیسے کہ بچوں کا اغواء ہونا ، چھوٹے سے لڑائی جھگڑے کو بڑی دشمنی بنالینا، لڑکیوں کی آبرو کی حفاظت کاڈر ، والدین کو بچوں اور بچیوں پرپابندی لگانے کا سبب بنتا ہے۔ جو آج ہمیں گلی کوچوں میں بچے نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔ 
بدلتے معاشرے نے اور والدین کی فکر نے بچوں کو ان سب سے تو دور کیا ہی ہے ۔لیکن بچے سمارٹ فون اور گھر ہی کے اندر وقت گز ارنے کی وجہ سے تنہائی ، خود پسندی ، جسمانی کمزوری اور بے اعتمادی کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ اور اگر بچوں کو ان سب کھیلوں کے بارے میں بتایا بھی جاتا ہے تو بچوں کو وہ دلچسپی ہی نہیں ہوتی جو پہلے بچوں کو ہوا کرتی تھی ۔ 
اسی بدلتے معاشرے میں ایک طبقہ ہمارے مزدور بچوں کا بھی ہے جو ان سب چیزوں سے نہ آشنا ہیں کھیل کھلونے ان کی سوچ سے بھی دور ہو تا ہے ۔ ان کا بچپن مزدوری کی نظر ہوجاتا ہے سمارٹ فون تو دور کی بات ہے ۔ ان کے پاس تو گلی میں کھیلنے کا بھی وقت درکار نہیں ہوتا۔ انہیں جو چھٹی کا دن ملتا ہے مزدوری کے بعد وہ بھی ان کی ایسی پریشانی میں گزر جاتا ہے۔ کہ کل پھر سے مزدوری پہ جانا ہے ۔ 
ہمارے اس معاشرے میں جس طرح ہم اپنے بچپن کے کھیلوں کو چھوڑ کر نئے دور کے جانب بڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح ہم نے دوسرے طبقے کے بچوں کو بھی ان کھیلوں سے محروم کردیا ہے۔ 

Bibi Rabia, Feature BS III, Urdu

Plz do not insert foto in text file. 
Put proper file name
نام۔بی بی رابعہ
کلاس۔بی ایس پارٹ تھری
رول نمبر۔۲۴
شام کا سم�أ اور المنظر
دریاے سندھ کے کنارے ایک خوبصورت شام۔۔۔
آج کا انسان مختلف مصروفیات ذندگی سے گرا ہوا ہے وہ ہر وقت ذہنی سکون کی تلاش میں ہوتاہے اس کا دل
کرتا ہے کہ وہ ایسی جگہ جاے جہاں خاموشی اسے اس طرح لپٹی ہوئ ہوکہ وہ دل و دماغ کے جھنجھل سے خالی ہو۔
حیدررآباد جامشوروکی شام کچھ اسی طرح کا انسان کی روح کو تسکین بخشتی ہے شام کے وقت دریا کی جانب ڈوبتے ہوے سورج کا منظر دل کو ایسے لبھاتا ہے کہ باہر سناٹا محسوس ہونے لگتا ہے بس دل چاہتا ہے اس پورے سما کو قید کرلے ،ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں جب پانی پر پڑتی ہیں تو اسے دیکھنے سے ہی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر عجب مسکراہٹ آجاتی ہے المنظر دریاے سندھ سے بہت سی محبتوں بھری سچی کہانیاں بھی جڑی ہیں اس کی ہواہیں دل میں عجب سمأ باندھ دیتی ہیں
آج کی شام میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ا المنظر گئ چونکہ آج چھٹی کا دن تھا اس لئے لوگوں کا کافی ہجوم بھی نظر آیا ، وہاں کوئ دریا کے کنارے مٹی پر بیٹھا تھا تو کوئ باتوں میں مشغول تھا اور کوئ خاموش ہو کر اس منظر سے لطف حاصل کررہاتھا ،کچھ لوگ کشتی میں بیٹھ کر پرندوں کی بنبناتی میٹھی آواز سے جھوم رہے تھے میں دریا کے کنارے کھڑی ہوئ اور اپنی آنکھوں کو بند کر کے لہروں کی آواز کو سننے لگی آنکھیں کھولی تو پھر سامنے ایک حسین سا منظر دیکھا وہ حسین منظر سورج کے غروب ہونے کا تھا ایسا لگ رہاتھا جیسے سورجّ آہستہ آہستہ کشتی پر بیٹھ رہا ہے اس منظر نے شام کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیا ۔
وہاں پر موجود لوگ اس دلکش منظر کے ساتھ سیلفی بنانے لگے ،پھر میں نے بھی اس لمہے کو اپنے موبأل کے کیمرہ میں قید کرلیا ،اس کے بعد وہاں موجود لوگوں سے میری گفتگو ہوئ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں صبح سے آے ہوے ہوتے ہیں اورسورج غروب ہونے کے بعد واپس جاتے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ان کی پسندیدہ
جگہ ہے ۔
المنظر کی جانب کشش دراصل اس کی قدرتی خوبصورتی ہے یہ سیاحوں کے لیے ایک بہترین تفریح گاہ ہے گرمیوں کی چھٹی میں یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں ۔ پلہ جو کہ سندھ کی مشہور مچھلی ہے جو کہ کھارے پانی سے جب اس دریا میں داخل ہوتا ہے تو قدرت کے کرشمے سے میٹھا ہو جاتا ہے المنظر کے اطراف میں ایک ہوٹل ہے جہاں مختلف طریقوں سے مصالحہ دار پلہ تیار کیا جاتاہے جس کو کھاکر مزہ دوبالہ ہوجاتاہے اس کے علاوہ مختلف کھانے کی چیزیں مثلا نمکو ، مکء،گول گپے ،مشروبات وغیرہ کے اسسٹال بھی ہیں 
یہاں ڈراموں اور گانوں کی بھی شوٹنگ کی جاتی ہے ، ذیادہ تریہاں لوگ بارش کے موسم میں آتے ہیں جب بادلوں نے ہر جانب سے آسمان کو گھیرا ہوا ہوتا ہے ہرکوئ اس دلکش منظر سے لطف اندوز ہورہا ہوتاہے 
اس بڑے سے دریا کو جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی پریشانیاں بہت چھوٹی محسوس ہو تی ہیں 
شام کی ٹھنڈی ٹھنڈی دریا کی لہروں سے گزرتی ہوئ ہوا ایسا سکون دیتی ہے کہ پل بھر کے لیے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہوا ہمارے غموں کو دریامیں بہا لے جارہی ہے ایسا لگتا ہے جیسے دریا کی یہ موجیں روح کو بے حد تسکین دے رہی ہو.بس دل چاہتا ہے کہ ہم اس راحت کو حاصل کرتے رہیں یہ شام یہ پل
یونہی تھم جاے ،اور ہم اس منظر میں کھوے رہیں
اہمیں چاہیے کہ ہم قدرت کے اس پیارے دل آرا نظارے کی قدر کرے،کہ جو ہمارے لیے تسکین،تشفی کا زریعہ
ہے۔ 

Monday, 26 February 2018

Rao Hassnain Faeture Urdu



اگر یہ فیچر ہے تو پھر آرٹیکل کیا ہوتا ہے؟ 

فیچر رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تفریح مہیا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا دلچسپ انداز میں لکھا جاتا ہے۔
یہ کسی طور پر بھی فیچر کی صنف میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
تحریر : راؤ حسنین 
رول نمبر: 2k16/MC/84 
کلاس: بی ایس پارٹ 3



فیچر:
کوٹری انڈسٹریل ایریا (سائیٹ کوٹری)
کسی بھی مُلک کی ترقی میں اس ملک کی انڈسٹریز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ مُلک کی آمدن و تجارت کا سارا انحصار اس مُلک کی انڈسٹریز سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔قیامِِ پاکستان کے وقت پاکستان کا سارا کاروبار صرف کراچی اور لاہور تک ہی محدود تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا تو کراچی کے ساتھ مُلک کے دیگر شہروں میں بھی چھوٹی بڑی انڈسٹریز لگنے کا
عمل شروع ہُوا اور مختلف شہروں میں کاروبار کے مواقع پیدا ہوئے۔
اسی طر ح کے ایک انڈسٹریل زون میں سائیٹ کوٹری بھی شمار ہوتا ہے، جو کہ اپنے محلِ وقوع اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وجہ سے خاصہ مشہور ہے۔کوٹری انڈسٹریل ایریا دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے، جسکا کُل رقبہ 1875 ایکڑ پر مُحیط ہے۔کوٹری صنعتی ٹریڈنگ اسٹیٹ کو سن 1960میں برطانیہ ٹریڈنگ اسٹیٹس کے پیٹرن میں شامل کیا گیا۔اس سائیٹ پر دستیاب جدید تعمیرات اور حیدرآباد جامشورو کا دوسرا سب سے بڑا شہر، اور دریائے سندھ کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے اس انڈسٹریل ذون کو بہت کم وقت میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور سائیٹ کوٹری نے بھاری منافع کے ساتھ ترقی کی۔ 
کوٹری ضلع جامشورو کا تعلقہ ہے، کوٹری دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ہونے کی وجہ سے مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انڈسٹریز کی وجہ سے بھی پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ پاکستان کی انڈسٹریز کی اگر بات کی جائے تو ٹیکسٹائل، آئل ، سپےئر پارٹس ، کاٹن اور سیمنٹ فیکٹریاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح کوٹری کے انڈسٹریل ذون میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پورے پاکستان اور
 بیرونِ ملک اپنا دھاگہ سپلائی کرتی ہیں۔

ٹیکسٹائل مِلز کے ساتھ ساتھ کوٹری کی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی عوام میں خاصی مقبولیت کی حامل ہیں۔ ان کمپنیوں میں کولگیٹ پالمولیو، لیکسن ٹوبیکو کمپنی، رولینس ملز، رفحان میز پراڈکٹس ، پاکستان آئل ملز اور برِج پاور بیٹریز شامل ہیں۔ 
؂ کوٹری انڈسٹریل ایریا میں اس وقت 550 سے زائد چھوٹی بڑی فیکٹریاں آب و تاب سے چل رہی ہیں۔جن کی مدد سے غریب طبقے کو روزگار کے اچھے مواقع فراہم ہو رہے ہیں ۔ کوٹری انڈسٹریل ایریا کی تمام فیکٹریوں نے حال ہی میں جامشورو چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جِس کے تحت کوٹری کی فیکٹریوں کی سالانہ آمدن کا تخمینہ لگا کے حکومت کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ 
کوٹری کی تمام فیکٹریوں کو کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے تحت مانیٹر کیا جاتا ہے۔ کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری میں ہر سال ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں ملک کی مشہور و معروف شخصیات شرکت کرتی ہیں ۔ سال 2015 میں اس وقت کے صدرِ پاکستان ممنون حسین نے شرکت کی تھی اور کوٹری کی تاجر برادری سے خطاب کیا تھا۔کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے اس وقت کے روحِ رواں نے صدرِ پاکستان کو یادگاری شیلڈ سے نوازا۔ 
صدرِ پاکستان کے علاوہ گورنر سندھ ، وزیرِ اعلیٰ سندھ اور مخدوم امین فھیم کے ساتھ ساتھ مشہور و معروٖف تاجر بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔
یہ تحریر لکھنے کامقصد پاکستان کے تاریخی و تفریحی مقامات کے علاوہ پاکستان کی انڈسٹریز کی معلومات دینا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو پاکستان کی ان انڈسٹریز کے بارے میں بھی علم ہونا لازمی ہے۔ اُمید ہے قارئین میری تحریر پڑھنے کے بعد کوٹری کی انڈسٹریز کا ایک بار دورہ ضرور کریں گے۔۔