Not reporting based
تحریر ۔ثمن گل
کلاس:بی۔ایس۔تھری
رول نمبر۔۹۴
بچپن کے کھیل اب کہاں گئے !محض یادوں کے حد تک محدود رہ گئے
یاد ہیں ہمیں ابھی وہ دھوپ میں کھیلنا شام تک گھر سے باہر رہنا ۔ امی سے چھپ چھپ کر دوپہر میں کھانا چھوڑ کر گھر سے جاکر دوستوں کو بلاکر مزے مزے کے کھیل کھیلنا۔
کہتے ہیں کہ انسان بچپن کی یادوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ بچپن ہماری زندگی کا ایک بہت خوبصورت لمحہ ہوتا ہے۔ اس کی یادیں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ جس کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں تو چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ بچپن کے دور میں نہ دلوں میں نفرت ہوتی تھی نہ ہی کوئی حسد بلکہ صرف اور صرف محبت ہوتی تھی۔ یاد آتے ہیں بچپن کے وہ دوست اور دلچسپ کھیل جنہیں کھیلتے ہوئے ہم اتنا مگن ہوجاتے تھے کہ کھانا پینا اور اپنے گھر کو بھی بھول جاتے تھے۔
ویسے تو دیکھنے میں چھوٹی سی گیند نما ہوتے تھے۔ انگلیوں میں دباکر نشانہ لگاکر دوسرے کنچے کو مارنا
آج نہیں ہے ایسا اب زمانہ لٹو اور جالی کا نام تو سنا ہوالگتا ہے ۔ آج ایسا لگتا ہے کتنے پرانے سے ہوگئے ہیں ہم کہ آج گلی کوچے میں کوئی بچہ نظر نہیں آتا بہت ہی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ لٹو اور جالی کا کھیل اگر آج ہم بچوں سے پوچھیں کہ لٹو اور جالی کیا ہے تو انہیں نہیں پتا ہوگا۔ اور آج بچوں کے ہاتھوں میں لٹو اور جالی کے بجائے سمارٹ فون نے لے لی ہے ۔ ایسے اور بھی کھیل ہیں جو آج کے بچے گلی کوچوں کی رونق مدھم کرکے سمارٹ فون میں کھیل رہے ہیں۔ اب کرکٹ کی ہی بات لے لی جائے تو پہلے بچے کرکٹ ہر اتوار اور جمعے کے روز باقاعدہ ٹیم بناکر کھیلا کرتے تھے۔ لیکن آج نہ کوئی ٹیم ہے نہ کوئی جمعہ اور اتوار جب دل کیا بیٹھے اور سمارٹ فون میں کھیلنا شروع کردیا ۔ پہلے بچوں کی کھیل کی وجہ سے ورزش ہوجایا کرتی تھی ۔ لیکن آج بچے جسمانی کمزوری کا شکار نظر آتے ہیں چھوٹی سی ہی عمر میں بچوں کی نازک آنکھوں پر بڑا موٹاچشمہ ہوتا ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ اب ایسا کیوں ہے اس کا الزام ہم صرف سمارٹ فون کو نہیں دے سکتے ۔ معاشرے کی بڑھتی ہوئی تبدیلیاں بھی ہیں۔ جیسے کہ بچوں کا اغواء ہونا ، چھوٹے سے لڑائی جھگڑے کو بڑی دشمنی بنالینا، لڑکیوں کی آبرو کی حفاظت کاڈر ، والدین کو بچوں اور بچیوں پرپابندی لگانے کا سبب بنتا ہے۔ جو آج ہمیں گلی کوچوں میں بچے نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔
بدلتے معاشرے نے اور والدین کی فکر نے بچوں کو ان سب سے تو دور کیا ہی ہے ۔لیکن بچے سمارٹ فون اور گھر ہی کے اندر وقت گز ارنے کی وجہ سے تنہائی ، خود پسندی ، جسمانی کمزوری اور بے اعتمادی کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ اور اگر بچوں کو ان سب کھیلوں کے بارے میں بتایا بھی جاتا ہے تو بچوں کو وہ دلچسپی ہی نہیں ہوتی جو پہلے بچوں کو ہوا کرتی تھی ۔
اسی بدلتے معاشرے میں ایک طبقہ ہمارے مزدور بچوں کا بھی ہے جو ان سب چیزوں سے نہ آشنا ہیں کھیل کھلونے ان کی سوچ سے بھی دور ہو تا ہے ۔ ان کا بچپن مزدوری کی نظر ہوجاتا ہے سمارٹ فون تو دور کی بات ہے ۔ ان کے پاس تو گلی میں کھیلنے کا بھی وقت درکار نہیں ہوتا۔ انہیں جو چھٹی کا دن ملتا ہے مزدوری کے بعد وہ بھی ان کی ایسی پریشانی میں گزر جاتا ہے۔ کہ کل پھر سے مزدوری پہ جانا ہے ۔
ہمارے اس معاشرے میں جس طرح ہم اپنے بچپن کے کھیلوں کو چھوڑ کر نئے دور کے جانب بڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح ہم نے دوسرے طبقے کے بچوں کو بھی ان کھیلوں سے محروم کردیا ہے۔
No comments:
Post a Comment