ایک سو الفاظ کم ہیں۔ چھ سو الفاظ ہونے چاہئیں۔
پیرگراف ہونے چاہئیں
یہ کس علاقے میں واقع ہے۔ اس علاقے کی خصوصیات یا کچھ اہم مقامات، کچھ اہم نام وغیرہ
اب وہاں کیا ہوتا ہے؟ کون رھتے ہیں
تحریر: تاج حیدر
رول نمبر: ۲۰۱۶۔ایم سی۔۱۰۶
بی ایس ۔پا رٹ ۳
واڈھو ں کا پڑ
فن اور تخلیق ازل سے اپنے رنگو ں سے اس دنیا کو مزید خوبصورت بناتی آئی ہے ہمارے ارد گرد کئی مختلف قسم کے فن پائے جائے ہیں جن میں لکڑی کا کام یعنی ’بڑھئی‘ کے کام کی خوبصورتی بھی کسی اور فن سے کم نہیں بڑھئی کے کام میں روز مرہ کی ضروریات کی کئی اشیاء بنائی جاتی ہیں جن میں فرنیچر ، کھڑکیاں ، دروازے ، ٹیبل ، مسیری ، چارپائی وغیرہ عام ہیں ۔ شہر حیدرآباد میں بڑھئی کے کام کیلئے ایک خاص علاقہ واڈھوں کے پڑ کے نام سے مقبو ل ہے جس میں اعلیٰ تجربہ ومہارت رکھنے والے واڈھے کاریگروں کا مجمع رہائش پزیر ہے ۔واڈھوں کا پڑ قدیمی علاقوں میں سے ایک ہے اسکی بنیاد 17عیسوی میں میاں غلام شاہ کلھوڑو کے دور میں رکھی گئی ، علاقہ مقین واڈھے کاریگروں کا اصل آبائی خطہ ضلع دادو کا علاقہ ’خدا آباد ‘ ہے ۔میاں محمد غلام شاہ کلھوڑو نے 1768 ء میں حیدرآباد شہر کے تعمیر اتی کام کیلئے خداآباد سے ان چند کاریگروں کو یہاں منتقل کروا کر رہائش پزیر کروایا گیا اور پھر ٹالپروں کے دورِ حکومت میں میر فتح محمد ٹالپر نے خدا آباد سے بھائی اکثریث سے ان واڈھے کاریگروں کو اسی خِطے کی جانب ہجرت کروا کر اس خِطے کے نام ’واڈھوں کا پڑ ‘مقرر کیا گیا خداآباد سے آئے گئے ان ماہر واڈھے کا دیگروں میں اکثر یث ’سومرو‘ ذات رکھنے والے لوگوں کی تھی ۔اُس دور میں ان ماہر واڈھوں سے شہر بھر کے کام لیے گئے جس میں انکی حویلیاں ، عدالتیں ، مقبرے ، مزاریں وغیرہ شامل ہیں اور ان مہارین کی گکاری ان سب عمارتوں کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنی۔میاں غلام شاہ کلھوڑو کے دور سے لے کراب تک ان سو مرو واڈھے کا ریگروں نے گئی ایسی نایاب اور قابل دید بڑھئی کے کام سر انجام دےئے ہیں جن میں سرِ فہرست 1854 ء میں نہرِ سوعز کی کھدائی کے دوران استعمال کی جانے والی کشتیا ں انہیں کاریگروں کی تخلیق کردہ تھیں جو کہ کراچی میں بنائی گئیں تھیں ۔1991 ء میں جامعہ سندھ ( Old Campus) حیدآباد میں بھی انہیں کاریگروں نے بڑھئی کا کام سرا نجام دیا ہے ۔ 1977 ء سیھون شریف میں واقع معاروف مزار’ حضرت لعل شہباز قلندر کی مزار میں بنے دروازے اور دیگر لکڑی کے کام انہیں کاریگروں کا شاہ کار ہے ۔موجو د دور میں ماہِ محرم نکالے جانے والے تازیے علّم وغیرہ کی تخلیق کے کیے واڈ ھوں کاپڑ مقبولیت کا حامی ہے ۔ اور کئی چھوٹی بڑی مسجد وں میں بڑھئی کا فن قابل دید ہے جن میں’ جامعہ مسجد واڈھوں کا پڑ ، اورنگزیب مسجد اور لوہار مسجد شامل ہیں۔17صدی سے لے کر جتنا ان سومروں واڈھے کاریگروں کو اس فن میں عبور حاصل تھا انتا کھیں اور نہیں پایا گیا اور نسل در نسل یہ ھنر اور فن منتقل ہوتا آرہا ہے اور آج بھی انکے کام اور مہارت میں انکا کوئی ثانی نہیں ۔
پیرگراف ہونے چاہئیں
یہ کس علاقے میں واقع ہے۔ اس علاقے کی خصوصیات یا کچھ اہم مقامات، کچھ اہم نام وغیرہ
اب وہاں کیا ہوتا ہے؟ کون رھتے ہیں
تحریر: تاج حیدر
رول نمبر: ۲۰۱۶۔ایم سی۔۱۰۶
بی ایس ۔پا رٹ ۳
واڈھو ں کا پڑ
فن اور تخلیق ازل سے اپنے رنگو ں سے اس دنیا کو مزید خوبصورت بناتی آئی ہے ہمارے ارد گرد کئی مختلف قسم کے فن پائے جائے ہیں جن میں لکڑی کا کام یعنی ’بڑھئی‘ کے کام کی خوبصورتی بھی کسی اور فن سے کم نہیں بڑھئی کے کام میں روز مرہ کی ضروریات کی کئی اشیاء بنائی جاتی ہیں جن میں فرنیچر ، کھڑکیاں ، دروازے ، ٹیبل ، مسیری ، چارپائی وغیرہ عام ہیں ۔ شہر حیدرآباد میں بڑھئی کے کام کیلئے ایک خاص علاقہ واڈھوں کے پڑ کے نام سے مقبو ل ہے جس میں اعلیٰ تجربہ ومہارت رکھنے والے واڈھے کاریگروں کا مجمع رہائش پزیر ہے ۔واڈھوں کا پڑ قدیمی علاقوں میں سے ایک ہے اسکی بنیاد 17عیسوی میں میاں غلام شاہ کلھوڑو کے دور میں رکھی گئی ، علاقہ مقین واڈھے کاریگروں کا اصل آبائی خطہ ضلع دادو کا علاقہ ’خدا آباد ‘ ہے ۔میاں محمد غلام شاہ کلھوڑو نے 1768 ء میں حیدرآباد شہر کے تعمیر اتی کام کیلئے خداآباد سے ان چند کاریگروں کو یہاں منتقل کروا کر رہائش پزیر کروایا گیا اور پھر ٹالپروں کے دورِ حکومت میں میر فتح محمد ٹالپر نے خدا آباد سے بھائی اکثریث سے ان واڈھے کاریگروں کو اسی خِطے کی جانب ہجرت کروا کر اس خِطے کے نام ’واڈھوں کا پڑ ‘مقرر کیا گیا خداآباد سے آئے گئے ان ماہر واڈھے کا دیگروں میں اکثر یث ’سومرو‘ ذات رکھنے والے لوگوں کی تھی ۔اُس دور میں ان ماہر واڈھوں سے شہر بھر کے کام لیے گئے جس میں انکی حویلیاں ، عدالتیں ، مقبرے ، مزاریں وغیرہ شامل ہیں اور ان مہارین کی گکاری ان سب عمارتوں کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنی۔میاں غلام شاہ کلھوڑو کے دور سے لے کراب تک ان سو مرو واڈھے کا ریگروں نے گئی ایسی نایاب اور قابل دید بڑھئی کے کام سر انجام دےئے ہیں جن میں سرِ فہرست 1854 ء میں نہرِ سوعز کی کھدائی کے دوران استعمال کی جانے والی کشتیا ں انہیں کاریگروں کی تخلیق کردہ تھیں جو کہ کراچی میں بنائی گئیں تھیں ۔1991 ء میں جامعہ سندھ ( Old Campus) حیدآباد میں بھی انہیں کاریگروں نے بڑھئی کا کام سرا نجام دیا ہے ۔ 1977 ء سیھون شریف میں واقع معاروف مزار’ حضرت لعل شہباز قلندر کی مزار میں بنے دروازے اور دیگر لکڑی کے کام انہیں کاریگروں کا شاہ کار ہے ۔موجو د دور میں ماہِ محرم نکالے جانے والے تازیے علّم وغیرہ کی تخلیق کے کیے واڈ ھوں کاپڑ مقبولیت کا حامی ہے ۔ اور کئی چھوٹی بڑی مسجد وں میں بڑھئی کا فن قابل دید ہے جن میں’ جامعہ مسجد واڈھوں کا پڑ ، اورنگزیب مسجد اور لوہار مسجد شامل ہیں۔17صدی سے لے کر جتنا ان سومروں واڈھے کاریگروں کو اس فن میں عبور حاصل تھا انتا کھیں اور نہیں پایا گیا اور نسل در نسل یہ ھنر اور فن منتقل ہوتا آرہا ہے اور آج بھی انکے کام اور مہارت میں انکا کوئی ثانی نہیں ۔
No comments:
Post a Comment