Tuesday, 13 February 2018

Mannum Abedi Article BS




سیدہ منعم عابدی
5:57PM
Syeda Manum
کسی بھی ملک کی ترقی اس کے نوجوانوں کی باصلاحیت آبادی پر منحصر ہے آج کم عمر اور با صلاحیت آبادی ہر حوالے سے ملک کا سرمایہ تصور کی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک مثلا۔چین،بھارت اور جاپان اپنی آئندہ ترقی کے لئے جوان آبادی کو ضروری سمجھتے ہیں پاکستان بھی اس نعمت سے نوازا گیا ہے لیکن افسوس اس نعمت سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔
سن 2017 میں شائع ہونے والی ورلڈ ایکانامک فورم کی گلونل ہیومن کیپٹل رپورٹ کے مطابق پاکستان 130مملک میں سے 125واں ملک ہے۔جو تعلیم اور قابلیت کی فراہمی کے لائق نہیں،اب اگر رپورٹ کے اعدادوشمار پر شرمندگی کے بعد ملک کی جوان نسل پر نظر ڈالی جائے تو ان کے شب وروز کچھ متاثر کن نہیں البتہ ملک کو متاثرہ کر دینے والے ضرور ہیں۔اگر دیکھا جائے تو آج کا نوجوان رات سوشلائزنگ کرتا ہے یا دیگر غیر ضروری مصروفیات میں گزار کر صبح دیر سے اٹھ کر کھایا پیا اور کچھ سطحی امور انجام دے کر اپنی ذمہ داری مکمل کردیتا ہے (اس کی نظر میں) لیکن حقیقتا یہ غلط ہے کیونکہ وہ نہ صرف اپنے ساتھ حق تلفی کررہا ہے بلکہ اپنے ملک کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔اور جب وطن عزیز کی خدمت کا وقت آئے گا تو یہ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے بجائے ملک کو ترقی پذیر کرتے جائیں گے۔
اگر ہم ماسئلہ کی جڑ کی جانب دیکھیں تو شاید سمجھ سکیں کہ نوجوان نسل تعلیم سے،کھیل سے اور غیر نصابی سرگرمیوں سے دور کیوں ہیں ملک کے تعلیمی نظام کی طرف نظر دوڑاء جائے تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ سالوں میں ایسے کء واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں پڑھے لکھے سند یافتہ نوجوان اپنی اہلیت کے مطابق نوکری حاصل نہیں کرسکے اور آنے والوں کو بھی یہی صلاح دے رہے ہیں کہ مت پڑھنا ورنہ ڈگری تو ملے گی پر نوکری نہیں۔اگر یہ مسئلہ ان کی نا اہلی سے جنم لیتا تو بات سمجھنے کی تھی پر اہلیت،ڈگری اور تعلیم کے باوجود وہ اپنے اصل منصب پر فائز نہ ہو سکے تو یہ سسٹم کی مہربانی ہے۔وہ سسٹم جو ووٹ لے کر کیے وعدے بھول جاتا ہے،وہ وزیر جو وزارت تعلیم کو بہتر پالیسی سے خالی رکھتے ہیں یا اسے صحیح اور حقیقی معنوں میں عمل پیرا نہ ہونے پر کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔پھر وہ ادارے جو میرٹ پہ نوکریاں تقسیم نہی کرتے اور ادارے کو تباہی کی طرف لے جاررہے ہیں۔کھیل کے میدان میں روشنی ڈالی جائے تو وہ سونے پڑے ہیں لیاری فٹبالر بچے ہوں یا نوجوان کرکٹر ہر کھلاڑی وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیچھے ہیں اور پاکستان کا نام عالمی سطح پر لانے میں قاصر ہے۔یہ منظر سب نے دیکھا ہوگا کہ محلے میں کھیلتے بچے اس بچے کو ضرور کھلاتے ہیں جس کی فٹبال ہوتی ہے۔کیونکہ اگر اسے نہ کھلایا تو وہ بھی کھیل نہیں سکیں گے لیکن پاکستان وہ ملک ہے جس کی فٹبال فیفا ورلڈ کپ میں بھیجی جاتی ہے پر ٹیلنٹ کو گھر میں رکھ کر سڑایا جاتا ہے۔



کسی بھی ملک کی ترقی اس کے نوجوانوں کی باصلاحیت آبادی پر منحصر ہے آج کم عمر اور با صلاحیت آبادی ہر حوالے سے ملک کا سرمایہ تصور کی جاتی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک مثلا۔چین،بھارت اور جاپان اپنی آئندہ ترقی کے لئے جوان آبادی کو ضروری سمجھتے ہیں۔پاکستان بھی اس نعمت سے نوازا گیا ہے لیکن افسوس اس نعمت سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔
سن 2017 میں شائع ہونے والی ورلڈ ایکانامک فورم کی گلوبل ہیومن کیپٹل رپورٹ کے مطابق پاکستان 130ممالک میں سے 125واں ملک ہے۔جو تعلیم اور قابلیت کی فراہمی کے لائق نہیں،اب اگر رپورٹ کے اعدادوشمار پر شرمندگی کے بعد ملک کی جوان نسل پر نظر ڈالی جائے تو ان کے شب وروز کچھ متاثر کن نہیں البتہ ملک کو متاثرہ کر دینے والے ضرور ہیں۔دیکھا جائے تو آج کا نوجوان رات سوشلائزنگ کرتا ہے یا دیگر غیر ضروری مصروفیات میں گزار کر صبح دیر سے اٹھ کر کھایا پیا اور کچھ سطحی امور انجام دے کر اپنی ذمہ داری مکمل کردیتا ہے (اس کی نظر میں) لیکن حقیقتا یہ غلط ہے کیونکہ وہ نہ صرف اپنے ساتھ حق تلفی کررہا ہے بلکہ اپنے ملک کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے اور جب وطن عزیز کی خدمت کا وقت آئے گا تو یہ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے بجائے ملک کو ترقی پذیر کرتے جائیں گے۔
اگر ہم مسئلہ کی جڑ کی جانب دیکھیں تو سمجھ سکیں گے کہ نوجوان نسل تعلیم سے،کھیل سے اور غیر نصابی سرگرمیوں سے دور کیوں ہے۔ملک کے تعلیمی نظام کی طرف نظر دوڑاء جائے تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ سالوں میں ایسے کء واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں پڑھے لکھے سند یافتہ نوجوان اپنی اہلیت کے مطابق نوکری حاصل نہیں کرسکے اور آنے والوں کو بھی یہی صلاح دے رہے ہیں کہ مت پڑھنا ورنہ ڈگری تو ملے گی پر نوکری نہیں۔اگر یہ مسئلہ ان کی نا اہلی سے جنم لیتا تو بات سمجھنے کی تھی پر اہلیت،ڈگری اور تعلیم کے باوجود وہ اپنے اصل منصب پر فائز نہ ہو سکے تو یہ سسٹم کی مہربانی ہے۔وہ سسٹم جو ووٹ لے کر کیے وعدے بھول جاتا ہے،وہ وزیر جو وزارت تعلیم کو بہتر پالیسی سے خالی رکھتے ہیں یا اسے صحیح اور حقیقی معنوں میں عمل پیرا نہ ہونے پر کوئی قدم نہیں اٹھاتے اور پھر وہ ادارے جو میرٹ پہ نوکریاں تقسیم نہیں کرتے اور ادارے کو تباہی کی طرف لے جاررہے ہیں۔کھیل کے میدان میں روشنی ڈالی جائے تو وہ سونے نظر آئیں گے۔لیاری فٹبالر بچے ہوں یا نوجوان کرکٹر ہر کھلاڑی وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیچھے ہے اور پاکستان کا نام عالمی سطح پر لانے سے قاصر ہے۔یہ منظر سب نے دیکھا ہوگا کہ محلے میں کھیلتے بچے اس بچے کو ضرور کھلاتے ہیں جس کی فٹبال ہوتی ہے۔کیونکہ اگر اسے نہ کھلایا تو وہ بھی کھیل نہیں سکیں گے لیکن پاکستان وہ ملک ہے جس کی فٹبال فیفا ورلڈ کپ میں بھیجی جاتی ہے پر ٹیلنٹ کو گھر میں رکھ کر سڑایا جاتا ہے۔
رہ گئی غیرنصابی سرگرمیوں کی بات تو اب ادب کی،گلوکاری کی، فنکاری و اداکاری کی وہ محفلیں بھی نہیں جو لوگوں میں خصوصا نوجوانوں میں ادبی ذوق اور معاشرے میں صحت افزا ماحول پیدا کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان سوشلائزنگ و ماڈرنآئزیشن پر دن کا زیادہ تر حصہ موقوف کئے ہے اور آخر اثر یہ ہوتا ہے کہ غربت،بدعنوانی،جسمانی و ذہنی صحت تنزلی کا شکار ہوتی ہے اور زیادہ تر نوجوان ارادی و غیرارادی طور پر غیراخلاقی حرکات میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ 
تم آسماں سے زمیں پر آجاو
مجھے زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے



تعلیم زندگی کی تکمیل ہے۔آئین کے آرٹیکل25 اے "تعلیم سب کے لئے" کے تحت 5 سے 16 سال تک کے بچے کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔جیسے ملک کی تعمیر میں علی گڑھ کے نوجوانوں نے حصہ ڈالا تھا کہ جون ایلیا نے خوب کہا:۔
" پاکستان۔۔۔یہ سب علی گڑھ کے 
لونڈوں کی شرارت تھی"
اسی طرح ملک کو ترقی یافتہ بنانے میں آج کے نوجوان کو حصہ ڈالنا ہوگا۔وقت کی ضرورت ہے کہ ہم قومیت کے ایک دھارے میں آجائیں تاکہ ملک وقوم کی ترقی کی راہیں ہموار ہوسکیں۔

No comments:

Post a Comment