Monday, 26 February 2018

Saman Gul Article BS


Edited. to be published in first issue of Roshni 2018
سائبرکرائم پاکستان میں بھی پھیل رہا ہے
تحریر : ثمن گل 
دنیا میں سائبر کرائم تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے اثرات پاکستان میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ چارسال میں پاکستان میں ہونے والے سائبر کرائم میں پانچ گنا اضافہ ہو ا ہے۔ پاکستان فیڈرل انسوٹیگیشن ایجنسی کے مطابق ہمارے ملک میں سائبر کرائم کے جو کیس رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ نوجوان لڑکیوں کوہراساں کرنے کے ہوتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ مالی فائدہ حا صل کرنے یا زیادہ پیسہ کمانے کے لیے یہ کام کرتے ہیں یہ لوگ بنا کسی خوف کے اس لیے یہ کام کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں اس سے متعلق قانون کمزور ہیں۔ 
سائبرکرائم کمپیوٹر کے ذریعے کیا جانے والا جرم ہے۔ جس میں شکاری بھی کمپیوٹر ہے۔ فرض کیجئے ایک دن آپ اپنے کمپییوٹر پر اپنا سارا ڈیٹا اور کام مکمل کر کے سوتے ہیں اگلے دن آپکا کمپیوٹر آپکی کوئی بھی فائل شو نہیں کراتا۔ تو آپ اسے کیا سمجھیں گے! آپکی بدقسمتی؟ نہیں یہ ہم اسے سائبرکرائم کہیں گے۔ صرف کمپیوٹرسے کمپیوٹرکرائم نہیں بلکہ دماغ کے کمالات ہیں اصل میں وجہ یہ ہے کہ جتنی رفتارسے کمپیوٹر سوفٹ وئیر رلیزہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ تیزی سے اسکی سکیورٹی توڑنے کیلیئے لائحہ عمل طے پا جاتے ہیں ۔سائبر کرائم دراصل گناہ کے دلدل میں سب سے زیادہ خطرناک کرائم کہلائے جاتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے آپ نہ صرف کسی کے کمپیوٹر تک رسائی پا لیتے ہیں بلکہ اس سے آپ دوسرے کے کمپیوٹرکی پرائیویسی کو بھی ختم کر دیتے ہیں اور ایک طرح سے اس دوسرے کمپیوٹر کے بھی آپ مالک بن جاتے ہیں۔
ان جرائم کو اپنا شیوہ بنانے والوں میں سے کچھ ذہنی طور پر نفسیاتی ہوتے ہیں جو دماغ کے سکون کے لیے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ۔ پاکستان میں سائبر کرئم کرنے میں لڑکیوں کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ چند عرصے قبل ہونے والی گرفتاری اس کاثبوت ہے سیالکوٹ کی سعدیا مرزا جو لندن کے ایک رہائشی حسن رانا کو بلیک میل ,بد سلوکی اور دھمکی دینے کے جرم میں الیکڑانک جرائم ایکٹ کے ذریعے گرفتارہوئی۔
پاکستان میں سائبر کرائم کے قانون پر عمل درآمد دیکھنے میں آیا ہے مگر اس کی گرفت میں چھوٹے ہیکرز ہی آئے ہیں . جبکہ بڑے بڑے گروہ جو اس دھندے سے یومیہ لاکھوں کماتے ہیں ابھی تک پکڑ میں نہیں آسکے ہیں۔پاکستان میں سائبر کرائم کو کنٹرول کرنے والے یونٹ کے مطابق دنیا میں ہر سیکنڈ میں تقریبا چودہ ۱۴ لوگ سائبر کرائم کا شکار ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں روزانہ دس سے بارہ شکایات وصول ہوتی۔شکایات کی یہ تعداد ہمارے لئے مسلسل خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے ۔ ان جرائم کو حل کرنے کے لئے اقدامات صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ نچلی سطح پر بھی لوگوں کو محتاط کرنے کی ضرورت ہے ۔ انٹر نیٹ استعمال کرنے والے عام صارفین کو چاہیے کہ وہ وائرس شدہ ویب سائٹس کو نہ کھولیں ۔عام طور پر وائرس یا ہیکنگ والی ویب سائٹ کا پتہ نہیں چلتا لیکن اگر کمپیوٹر میں وائرس فری سافٹ ویئر ہوتو ان جیسی مصیبتوں سے بچا جاسکتا ہے۔ 
ہیکنگ کی تاریخ سالوں پرانی ہے۔ پہلے ہیکر کا لفظ مثبت طور پر استعمال ہوا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک ایسا شخص جو لکھے جانے والے پروگرام کو بدل سکتا ہے۔ اور اب مختلف قسم کی ہیکنگ کے ساتھ بہت سے گروپ منظر عام پرہیں جن میں چند ایک یہ ہیں: وائیٹ ہیکرزجنہیں اچھے مقاصدکیلیے سیکیور ٹی کو ڈتوڑنے کاکہاجائے۔ بلیک ہیٹ کمپیوٹرسیکیو ر ٹی کو ذاتی مقاصدکے لیے تو ڑ نے و الاگروپ ہے۔ الیٹ ہیکرزسب سے قابل ہیکرز کا گروپ کہلاتا ہے۔ منظن مجرم ذاتی مفاد کے لیے بنایا ھوا مجرموں کا گروپ ہے۔
ہیکرز اس کام کو نہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ پیسے کمانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہر سال پوری دنیا میں ہیکنگ سے متعلق لاکھوں کیس سامنے آئے ہیں۔پاکستان میں ہیکنگ کے ہر ہفتے کیس ضرور سامنے آتے ہیں۔


\

Saman Gul Article BS III

No comments:

Post a Comment