Showing posts with label Bibi Rabia. Show all posts
Showing posts with label Bibi Rabia. Show all posts

Tuesday, 10 April 2018

Bibi Rabia Interview BS


نام۔ بی بی رابعہ 
کلاس۔بی۔ایس ۔پارٹ تھری
رول نمبر:۲۴


i
انٹرویو:خورشید پیرزادہ(مصنف)
تعارف:خورشیدپیرزادہ ہفت روز اسپورٹس ورلڈ کے پہلے مدیر معاون ہے وہ ایک ناول نگار بھی ہے ۔پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے لیے انہوں نے کئی پروگرامز لکھے ہیں پی ٹی وی ٹو پر تعلیمی پروگرام ،معین اختر شو کے لیے اسکیٹس اور اے آر وائی پرجنوری ۲۰۰۵ میں لیاری کنگ لائیو لکھنا شروع کیا جو کہ اے آر وائی کے کامیاب ترین شو میں شمار ہوا ۔ایکسپریس نیوز کی اینی میٹڈ قوالی سیریز بانکے میاں کے قوالیاں اور عجب کہ رہے ہو بھئی کی ٹیم میں بھی شامل رہے ،اس کے علاوہ کئی اخبارات و رسائل کے لیے اور ڈائجسٹوں کے لیے بھی بے شمار مواد تحریر کیا ۔آج کل ماہنامہ لہک کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
س : آپ میں لکھنے کا شوق کیسے پیدا ہوا اور سب سے پہلے آپ نے کونسے موضوع پہ لکھا؟
ج :مجھے واقعی میں پچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا اور سب سے پہلے میں نے ایک میگزین اسٹار لائٹ میں فلمی موضوعات پر لکھنا شروع کیا،اس کے بعد کئی اخباروں اور رسالوں میں لکھا۔
س: آپ کیا کہے گے اس بارے میں کہ آج ہماری میڈیا میں جو مواد دکھایا جا ر ہا ہے کیا وہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کر رہا ہے؟
ج: بلکل بھی نہیں ،ہر طرف لچرپن ہے سوشل اصلاحی اور مذہبی مواد سے تو جیسے میڈیاوالوں کو چڑ ہے یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے 
س: ہماری میڈیا تعلیمی حوالے سے پروگرام نہیں دکھا رہی اس کی کیا وجہ ہے؟
ج:میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے تا کہ قوم کا دھیان بھٹکایا جا سکے اور اب تو اتنا ہو چکا ہے کہ ہماری قوم کوبھی اچھے پروگراموں کے بجائے صرف گلیمر چاہیے دنیا سمٹ کر فنگر ٹپس پر آگئی ہے اب لوگ اچھا دیکھنا یا دکھانا نہیں چاہتے بلکہ وہ دیکھتے یا دکھاتے ہیں جو ان کو اچھا لگے۔
س: پھر ہم ایک جرنلسٹ ہونے کے ناتے اس منصوبے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟
ج:اس کی اصلاح تب ہی ھو سکتی ہے جب حکومتی سطح پر سنجیدگی سے اس پر توجہ دی جائے مگر بد قسمتی سے ہر حکومت اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہی وقت گنوا دیتی ہے 
س:ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے جو افسانہ نگار ہیں ان کی تحریروں میں خیالوں کی پختگی نہیں پائی جاتی اس بارے میں آپ کیا کہے گے؟
ج:افسانہ نگاری میں پختگی اس لئے نہیں ہے کہ آج کی نسل مطالعے سے کوسوں دور ہے جب آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں ہوگاتو آپ اچھا لکھ ہی نہیں سکتے اور یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے لائبریری کلچرہی ختم ہوتا جا رہا ہے 
س: آپ مواد کو شائع ہونے سے پہلے کتنی بار پڑھتے ہیں ؟
ج: صرف ایک بار کیونکہ مجھے یقین ہوتا ہے کہ میں نے وہی لکھا ہے جو میں چاہتا ہوں 
س:آپ کو کتنا وقت لگتا ہے ناول کا پلاٹ تیار کرنے میں اور اسے مکمل کرنے میں؟
ج: پلاٹ تو جلد ہی تیار ہو جاتا ہے مکمل ہونے کے دورانیہ کا تعلق ناول کی ضخامت پر منحصر ہے 
س:کیا آپ نے سوچا تھا کبھی کہ آپ مصنف بنے گے؟
ج:ہاں کیونکہ مجھے شروع ہی سے لکھنے لکھانے کا جنون تھا،ہاں یہ نہیں سوچا تھا کہ کبھی ڈرامہ نگار بھی بنوں گا
س:آپ کو اپنی لکھی ہوئی تحریروں میں سے کونسی ذیادہ پسند آئی؟
ج:ہاہاہا۔اس پر تو میں وہی پرانا گسا پٹاجواب دونگاہر تخلیق میرے لیے اولاد کی مانند ہوتی ہے چاہے اولاد اچھی ہو یا بری ۔لیکن الیکٹرانک میڈیا میں مجھے سوشل شوز سے متعلق اپنا طنزیہ و مزاحیہ شو لیاری کنگ لائیو بہت پسند ہے جو ساڑھے تین سال تک اے آر وائی ڈجیٹل پر نشر ہوتا رہا۔
س:آپ کو کتنا عرصہ ہوا ہے پرنٹ میڈیا میں کام کرتے ہوئے؟
ج:مجھے پرنٹ میڈیا میں ۳۶ سال ہوگئے ہیں 
س:ہمارے جو نوجوان جو مصنف بننا چاہتے ہیں ان کو آپ کیا پیغام دینا چاہینگے؟
نوجوانوں کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ کچھ بھی لکھنے کا تعلق ذہنی اپروچ سے ہے موضوع اور بیانیہ بہتر بنانے کے لئے مطالعہ اور مشاہدہ اہمیت کا حامل ہے۔

Monday, 9 April 2018

Bibi Rabia Profile BS



نام :بی بی رابعہ
کلاس:بی۔ایس۔تھری
رول نمبر:۲۴
پروفائل:مہوش عباسی
کہتے ہیں کہ انسان اپنی قسمت اپنی ذندگی میں لیے گئے فیصلوں سے خود بناتاہے ،ایسا شخص جس نے اپنی ذندگی میں ایک مقصد بنا لیاہو اگر قسمت اپنا رخ تبدیل بھی کرلے تب بھی وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ڈٹ جاتاہے،مہوش کی ذندگی میں بھی کچھ ایسی تبدیلی آئی لیکن پھر بھی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے محنت کی اور مقصد کو پورا کیا۔ 
مہوش عباسی شہید بے نظیرآباد کے چھوٹے سے قصبے باندی میں پیدا ہوئی،ابتدائی تعلیم باندی سے حاصل کی۔ بہت ہی کم عمر میں جب مہوش نویں جماعت کی طالبہ تھی تب باندی میں سندھی پرائمری گرلز اسکول نہیں تھا ۔مہوش نے اپنے والد کے ہمراہ جدوجہد کی اور اسکول کی تعمیر کے لئے نواب شاہ ڈی ای اوکے پاس گئے اور باندی میں سندھی گرلز پرائمری اسکول قائم کرنے کے لئے درخواست کی ،بلا آخر یہ کوشش پوری ہوئی اوراسکول ٖتعمیر ہوا،یوں مہوش کی سماجی ذندگی کا آغاز ہوا،اس کے بعد اسکول میں ڈبیڈس اور تقریروں میں حصہ لیا،میٹرک میں مہوش نے نواب شاہ ضلعے میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور یک کے بعد دیگر تقاریر میں حصہ لیتی گئی اور اول نمبر کے انعامات حاصل کرتی گئی،میٹرک کے بعد مہوش نے اپنا تعلیمی سفر روکا نہیں ۔ سکھر سے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیااس طرح سکھر گرلز کالج سے انٹر پاس کیا۔اس دوران انہوں نے سکھر سے انگلش لینگویج میں ڈپلومہ کیا،کالج کے دنوں سے ہی مہوش نے میگزین کے لئے لکھنا شروع کیا،کالمز لکھنے کا آغاز کیااس طرح مہوش کی زندگی میں جرنلزم کی ابتداء ہوئی،علم کی جانب اپنی بیٹی کا شوق دیکھ کر والدین نے حیدرآباد میں شفٹ ہونے کافیصلہ کیا،پھر مہوش نے اعلی تعلیم سندھ یونیورسٹی سے حاصل کی چونکہ ان کا داخلہ شعبہ کیمیاء میں ہوا تھا لیکن جرنلزم کی جانب رحجان ہونے کی وجہ سے مہوش نے شعبہ کیمیاء میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میگزین اور مختلف اخبارات جیسے کاوش ایکسپریس کے لئے لکھنا شروع کیا۔اس کے علاوہ اس دوران مختلف ایوینٹس میں جاتی رہی موٹیویشنل ہو یا ڈبیڈس ایوینٹس میں جاتی رہی اس طرح ان کا شمار سوشل ایکٹیویسٹ میں ہو گیا۔جرنلزم میں ان کے تجربے کی بات کی جائے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی میں تعلیمی سفر کے دوران ہی میڈیا جرنلزم کے کورس کیے،اس کے علاوہ میڈیا جرنلزم سے منسلک ٹریننگز اور ورکشاپ میں جاتی رہی ، اور کراچی ،لاہور ،اسلام آباد،سکھر ،حیدرآباد و دیگر ملکی شہرمیں جرنلزم سیکھنے کے لئے سفر اختیار کیا، انتھک محنت کے ساتھ جرنلزم کے کورس کیے، اس طرح جرنلزم کا شوق مہوش میں پروان چڑھنے لگا۔بہت کم ہی ایسی لڑکیاں ہیں اندرون سندھ میں جو جرنلزم کا راستہ اختیار کرتی ہیں ۔
کے۔ٹی۔ این،مہران ،اے آر وائی ،سندھ ٹی وی اور آواز نیوز چینل نے کئی بار معاشرے کے مختلف مسائل پر گفتگوکے لئے مہوش کو اپنے پروگرامز میں وعوت دی۔ بچوں اور عورتوں کے حقوق پر مہوش نے کئی بار مختلف ٹاک شوز میں گفتگو کی،اس کے ساتھ ساتھ سفراور کلچر کے موضوع پر بھی اکثر اوقات مختلف پروگرامز میں بات کرتے ہوئے نظر آئی،جب مہوش یونیورسٹی کے فائنل ائیر میں پہنچی تو سوچاکہ اب مجھے پریکٹیکل طور پر بھی اپنی اسکلزسدھارنی چاہیے ، پھر مہوش نے کاوش اخبار میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔دو سال تک کاوش میں سب ایڈیٹر کی خدمات انجام دیتی رہی۔اس کے بعد کاوش اخبار ہی میں (کیسے آیا ،کہاں سے آیا) کا سلسلہ شروع کیا۔جس میں وہ پولٹکس ،سنگر،ادیب اور مشہور آرٹسٹ سے انٹرویو لیا کرتی تھی ،یہ سلسلا کافی مشہور ہوا،سندھ کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی جرنلزم کے لئے سفر اختیار کیا،انٹرنیشنل u.s exchange program میں پاکستان سے واحد مہوش کا انتخاب ہوا،جس میں انہیں وائٹ ہاوس اور بی بی سی کا دورہ کروایا گیا ۔اس کے علاوہ نیوز میوزیم اور بہت سے نیوز چینل کا دورہ کروایا گیا،اسس ٹریننگ سے واپس آنے کے بعد ،مہوش نے ایک جرنلسٹ کے طور پر سندھ میںe u.s consulat کے تعاون سے ماس میڈیا کے شاگردوں کو مختلف ٹریننگس کروائی۔اس کے علاوہ u.s pakistan embassy کے تعاون سے انہوں نے ۵۰ شعبہ ماس میڈیا کی طلبہ کوٹریننگ کروائی جس میں انہیں رپورٹنگ کرنے کا طریقہ سکھایا گیا۔اس کے بعد ایک میگا کانفرنس بھی منعقدکروائی جس میں پورے پاکستان سے جرنلسٹ نے شرکت کی ۔
اب تک مہوش کو ۱۵ مختلف ایوارڈ سے نوازا گیاہے جس میں women excellence award بہترین لکھائی پر دیا گیا۔اور تھر میں جب پانی کی قلت ہوئی اس وقت مہوش نے پورے تھر پر رپورٹنگ کی تھی اس کے کلچر، اداروں پر رپورٹنگ کی تھی اس بناء پر بھیwomen excellence کے ایوارڈ سے نوازا گیا،اس کے علاوہ مہوش کودو بار شہید لاشاری کے ایواڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
اس وقت مہوش سندھی اخبارات کے لیے کالم لکھ رہی ہے۔

Wednesday, 28 February 2018

Bibi Rabia, Feature BS III, Urdu

Plz do not insert foto in text file. 
Put proper file name
نام۔بی بی رابعہ
کلاس۔بی ایس پارٹ تھری
رول نمبر۔۲۴
شام کا سم�أ اور المنظر
دریاے سندھ کے کنارے ایک خوبصورت شام۔۔۔
آج کا انسان مختلف مصروفیات ذندگی سے گرا ہوا ہے وہ ہر وقت ذہنی سکون کی تلاش میں ہوتاہے اس کا دل
کرتا ہے کہ وہ ایسی جگہ جاے جہاں خاموشی اسے اس طرح لپٹی ہوئ ہوکہ وہ دل و دماغ کے جھنجھل سے خالی ہو۔
حیدررآباد جامشوروکی شام کچھ اسی طرح کا انسان کی روح کو تسکین بخشتی ہے شام کے وقت دریا کی جانب ڈوبتے ہوے سورج کا منظر دل کو ایسے لبھاتا ہے کہ باہر سناٹا محسوس ہونے لگتا ہے بس دل چاہتا ہے اس پورے سما کو قید کرلے ،ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں جب پانی پر پڑتی ہیں تو اسے دیکھنے سے ہی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر عجب مسکراہٹ آجاتی ہے المنظر دریاے سندھ سے بہت سی محبتوں بھری سچی کہانیاں بھی جڑی ہیں اس کی ہواہیں دل میں عجب سمأ باندھ دیتی ہیں
آج کی شام میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ا المنظر گئ چونکہ آج چھٹی کا دن تھا اس لئے لوگوں کا کافی ہجوم بھی نظر آیا ، وہاں کوئ دریا کے کنارے مٹی پر بیٹھا تھا تو کوئ باتوں میں مشغول تھا اور کوئ خاموش ہو کر اس منظر سے لطف حاصل کررہاتھا ،کچھ لوگ کشتی میں بیٹھ کر پرندوں کی بنبناتی میٹھی آواز سے جھوم رہے تھے میں دریا کے کنارے کھڑی ہوئ اور اپنی آنکھوں کو بند کر کے لہروں کی آواز کو سننے لگی آنکھیں کھولی تو پھر سامنے ایک حسین سا منظر دیکھا وہ حسین منظر سورج کے غروب ہونے کا تھا ایسا لگ رہاتھا جیسے سورجّ آہستہ آہستہ کشتی پر بیٹھ رہا ہے اس منظر نے شام کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیا ۔
وہاں پر موجود لوگ اس دلکش منظر کے ساتھ سیلفی بنانے لگے ،پھر میں نے بھی اس لمہے کو اپنے موبأل کے کیمرہ میں قید کرلیا ،اس کے بعد وہاں موجود لوگوں سے میری گفتگو ہوئ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں صبح سے آے ہوے ہوتے ہیں اورسورج غروب ہونے کے بعد واپس جاتے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ان کی پسندیدہ
جگہ ہے ۔
المنظر کی جانب کشش دراصل اس کی قدرتی خوبصورتی ہے یہ سیاحوں کے لیے ایک بہترین تفریح گاہ ہے گرمیوں کی چھٹی میں یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں ۔ پلہ جو کہ سندھ کی مشہور مچھلی ہے جو کہ کھارے پانی سے جب اس دریا میں داخل ہوتا ہے تو قدرت کے کرشمے سے میٹھا ہو جاتا ہے المنظر کے اطراف میں ایک ہوٹل ہے جہاں مختلف طریقوں سے مصالحہ دار پلہ تیار کیا جاتاہے جس کو کھاکر مزہ دوبالہ ہوجاتاہے اس کے علاوہ مختلف کھانے کی چیزیں مثلا نمکو ، مکء،گول گپے ،مشروبات وغیرہ کے اسسٹال بھی ہیں 
یہاں ڈراموں اور گانوں کی بھی شوٹنگ کی جاتی ہے ، ذیادہ تریہاں لوگ بارش کے موسم میں آتے ہیں جب بادلوں نے ہر جانب سے آسمان کو گھیرا ہوا ہوتا ہے ہرکوئ اس دلکش منظر سے لطف اندوز ہورہا ہوتاہے 
اس بڑے سے دریا کو جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی پریشانیاں بہت چھوٹی محسوس ہو تی ہیں 
شام کی ٹھنڈی ٹھنڈی دریا کی لہروں سے گزرتی ہوئ ہوا ایسا سکون دیتی ہے کہ پل بھر کے لیے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہوا ہمارے غموں کو دریامیں بہا لے جارہی ہے ایسا لگتا ہے جیسے دریا کی یہ موجیں روح کو بے حد تسکین دے رہی ہو.بس دل چاہتا ہے کہ ہم اس راحت کو حاصل کرتے رہیں یہ شام یہ پل
یونہی تھم جاے ،اور ہم اس منظر میں کھوے رہیں
اہمیں چاہیے کہ ہم قدرت کے اس پیارے دل آرا نظارے کی قدر کرے،کہ جو ہمارے لیے تسکین،تشفی کا زریعہ
ہے۔ 

Friday, 16 February 2018

Bibi Rabia BS Article


آرٹیکل
تحریر: بی بی رابعہ
بی ایس پارٹ ااا 
رول نمبر۔24
پاکستان میں سوشل میڈیا کا بڑھتا اثر 

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں سوشل میڈیا اکیسویں صدی میں رابطے کا ایک بہت بڑا زریعہ بن چکا ہے یہ ایک ایسا اوزار ہے جو لوگوں کو اظہارے رائے کے مواقع فراہم کرتا ہے پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے سوشل میڈیا کے بڑھتے اثر سے پاکستانی عوام بھی بچ نہ پائی ہے ایک سوشل میڈیا کمپنی کی تحقیق کے مطابق ہمارے ملک کی عوام کے تقریبا۴۴ ملین سوشل اکانٹس ہیں جس میں فیس بک، ٹوئیٹر،لائن،انسٹاگرام شامل ہیں 
اس وقت ہمارے ملک کو ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اسے تباہی سے بچا سکے لیکن افسوس ہماری یوتھ اس وقت سوشل میڈیا پر ذہنی غلامی میں مصروف ہے سماجی سائٹس نے ہماری یوتھ کو میں میں مبتلا کردیا ہے ہر کوئی اپنا نام ایسے کام کے ساتھ جوڑتا ہوا نظر آرہا ہیجو اس نے کیا ہی نہیں ہے اس ناصور سوشل میڈیا نے محاورہ نیکی کر دریا میں ڈال کو جو بھی کر فیس بک پرڈال میں تبدیل کر دیا ہے فیس بک پر اسٹیٹس ڈالنا ،مسخرہ پن آمیز پوسٹ شیئر کرنا ہمارا مقصد بن گیا ہے صرف یہی نہیں جو کھایا،پیا حتی کہ جس راستے سے بھی گزر ہوا اس کے بارے میں بھی مختلف سماجی سائٹس پر پوسٹ دینا ہمارا مشغلہ بن گیا ہے
ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہورہاہے کہ اس کے ہمہ وقت استعمال نے ہمیں اپنی ذندگی کے اصل مقصد سے دور کر دیا ہے اتنا دور کہ ہم کہیں ایسی جگہ جائے جہاں انٹرنیٹ کی حصول پذیری نہ ہو تو ہمیں پریشانی اور بے سکونی گیرنے لگتی ہے ان سماجی سائٹس کی عادت نے ہمیں اپنے قریبی رشتوں سے دور کردیا ہے اس پر اپنے رائے کے اظہار کا حق تو حاصل ہے لیکن دوسری طرف اس کے غلط استعمال سے کافی انتشار بھی پھیلتا ہے
اس میں کوء شک نہیں ہے کہ انٹرنیٹ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے درست استعمال سے ہم اپنیملک کو ترقی کی جانب لے جاسکتے ہیں اور اپنے مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں لیکن ہم نے اس ٹیکنالوجی کو بد اخلاقی کا سامان کردیا ہے طنز،طعنے،گالیاں سوشل سائٹس پر بد اخلاقی کی تصویر پیش کررہیہیں 
طالبعلم جو کہ پاکستان کے مستقبل کے معمار ہیں جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک کا یہ طبقہ سوشل میڈیا پر مصروف ہے۔ دیکھا جائے تو سماجی سائٹس کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے ہمیں ایک دوسرے کے خیالات جاننے کا موقع ملتا ہے اور یہ بھی کہ اس کی مدد سے ہم ایک دوسرے کی رائے،سوچ،نظریات سے آگاہ ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ اس کے آنے سیبہت سی ایسی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں جو کہ نیوز میڈیا کی نظر سے اوجھل ہوجاتی ہیں
لیکن کء بار سوشل میڈیا پرغلط افواہیں بھی پھیلاء جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بدنظمی کا شکار ہو جاتا ہے سوشل میڈیا ہماری ذندگی میں جو سب سے بڑی تبدیلی لایا وہ یہ کہ ہم اپنے پرانے رسومات سے کافی دور ہوگئے ہیں چاندنی رات میں گھر کے بڑے بزرگ سے قصہ کہانیاں سننے کا رواج تو جیسے ہم بھولا ہی چکے ہیں
اس بات سے انکار نہیں ہے کہ سماجی میڈیا کی وجہ سے ہماری ذندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوگء ہیں جیسا کہ ہم گھر بیٹھے آسانی سے شاپنگ کر سکتے ہیں اونلائن بزنس کرسکتے ہیں اور بھی اس سے کء فائدے حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس کے نقصانات سے واقف ہوجائیں اور اس کا جائز استعمال کریں تا کہ ہمارا آنے والا کل روشن مستقبل کی طرف رواں دواں ہوسکے اور ہم اپنے آپ کو تاریخی حوالے سے مسمار ہونے سے بچاسکے۔

بے محنت پیہم کوء جوہر نہیں کھلتا
روشن شررتیشہ سے ہے خان فرہاد!