Showing posts with label Rao Hassnain. Show all posts
Showing posts with label Rao Hassnain. Show all posts

Saturday, 7 April 2018

Rao Hassnain Profile BS


تحریر: راؤ حسنین
رول نمبر: 2K16/MC/84
( بی ایس پارٹ : 237237237 )

پروفائل:
کوٹری کے چھوٹے گاؤں کا جیالا (کامریڈ دین محمد خاصخیلی)
؂اگر تاریخ کا مطالعہ کِیا جائے تو دورِ ازل سے ہی شہرت حاصل کرنے کی لگن ابنِ آدم کی فطرت میں ہے، پھر چاہے یہ شہرت حاصل کرنے کے لئے اسے کتنے ہی جتن کیوں نا کرنا پڑیں۔ ایسے لوگوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں نام سے جانے جائیں اور علاقے کی عوام ان کی عزت کرے۔
اس کے بالکل برعکس معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نا چاہتے ہوئے بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے مخصوص علاقے میں اپنے قول و فعل کی وجہ سے مشہور ہوجاتے ہیں۔ اور یہ لوگ اپنے علاقے میں مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔
بالکل اسی طرح کوٹری ضلع جامشورو کے ایک چھوٹے گاؤں کا رہائشی دین محمد خاصخیلی بھی ہے۔ جو ناں تو ایم این اے یا پھر ایم پی اے ہے اور نا ں ہی اپنے علاقے کا کونسلر بلکہ یہ شخص ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کا ایک نہایت چھوٹا سا کارکن ہے۔ کسی سیاسی جماعت میں عام طور پر نِچلے طبقے کے عوام یا اپنی پارٹی کے ہی کارکُنان کی ذیادہ عزت افزائی یا پھر اُنہیں اتنی توجہ نہیں دی جاتی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے ہی اپنے جیالوں کو عزت دیتی آئی ہے جس میں ایک نام کامریڈ دین محمد خاصخیلی کا بھی ہے۔
د ین محمد خاصخیلی پچھلے 35 سالوں سے ہر سال گڑھی خدا بخش جاتا ہے جہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو اور شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو دفن ہیں۔ اب اسے دین محمد کا شوق کہا جائے یا پھر بھٹو خاندان سے عقیدت دونوں ہی قابلِ قبول ہیں۔
آپ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آرہا ہوگا کہ بی بی کے مزار پر سندھ بھر بلکہ پورے پاکستان سے جیالے آتے ہیں تو دین محمد میں کیا خاص ہے تو اس بات کا جواب یہ ہے کہ دین محمد خاصخیلی پچھلے 35سالوں اپنی ایک بوسیدہ سی سائیکل پر جامشورو سے لاڑکانہ کا سفر کرتا ہے یہ چیز کامریڈ دین محمد خاصخیلی کو دیگر جیالوں سے ممتاز بناتی ہے۔
دین محمد خاصخیلی کی پیدائش تھانہ بھولا خان کے ایک غریب گھرانے میں سن 1953 میں ہوئی۔دین محمد چار بہنوں کا اِکلوتا بھائی ہے۔ کم عمری میں ہی والدین کا سایہ رحمت سر سے اُٹھنے کے سبب دین محمد پڑھ نہ سکا۔ وسائل کم ہونے کے سبب دین محمد نے اپنا گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی چار بہنوں سمیت اپنی سائیکل اُٹھا کر کوٹری کے ایک گاؤں قادن شورو گوٹھ میں آبسا۔ کوٹری میں آنے کے بعد دین محمد نے ایک گھانس کاٹنے والی مشین لی اور پیپلز پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے باغیچے میں بہت ہی کم اُجرت پر کام کرنے لگا۔ یہ سن 1975 کی بات ہے جب دین محمد نے مزدوری شروع کی ، پیپلز پارٹی کے عہدیدار کے گھر کام کرنے کی وجہ سے اِسے پارٹی سے متعلق خبریں ملتی رہتی تھی اور دین محمد پارٹی کا باتوں میں کافی دلچسپی رکھتا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہی دین محمد کو ذوالقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر لگ گئی ۔۔ پس اُسی پل اسنے فیصلہ کرلیا کہ کچھ بھی ہوجائے گڑھی خدا بخش جانا ہے، دین محمد کسی کو بتائے بغیر جیب میں 25 روپے لیکر اپنی سائیکل پر نکل پڑا۔دین محمد کی زبانی جامشورو سے لاڑکانہ کا سفر اس نے اپنی سائیکل پر تقریباٌ آٹھ دِنوں میں پورا کیا۔ اندازے کے مطابق یہ سفر تقریباٌ 310 کلومیٹر کا ہے ۔ لاڑکانہ پہنچ کر اس نے ایک مسجد میں قیام کِیا اور اگلے دِن گڑھی خدا بخش کے لئے نکلا وہاں دو دن رُک کر شھید ذولفقار بھٹو کی قبر پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کر کے واپسی کے لئے نکل پڑا ۔ جب سے لیکر اب تک یہ شخص تقریباٌ 35 بار جامشورو سے لاڑکانہ کا سفر کر چُکا ہے اور اس طویل سفر میں اِسے کوئی پریشانی پیش نہیں آتی۔ دین محمد خاصخیلی کے مطابق پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار بذاتِ خود اس کے گھر آتے ہیں اور اس سے مل کر اسکی بہت عزت افزائی بھی کرتے ہیں۔ اب تک اس جیالے نے پارٹی سے کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کِیا ، دین محمد کا کہنا ہے کہ اِسے بیشتر دفعہ پارٹی کے مقامی عیدیداروں نے موٹر سائیکل کا کہا لیکن یہ شخص کہتا ہے کہ جب اتنے سالوں سے سائیکل پر جاتا ہوں تو باقی زندگی بھی اسی پر جاؤں گا۔
دین محمد کی عمر 72 سال ہو گئی ہے لیکن ابھی تک اس کے حوصلے بلند ہیں اور اسکا کہنا ہے کہ اگر زندگی نے ساتھ دیا تو مزید سفر کرنے کی ہمت ہے اس میں۔دین محمد کے مطابق اس کی زندگی کا بہترین لمحہ وہ تھا کہ جب یہ محترمہ بینظیر بھٹو سے مِلا ۔
میرا یہ تحریر لکھنے کا مقصد معاشرے کے عام لوگوں کی جرأت اور اپنے عزائم پر ڈٹے رہنے کی ہمت اُجاگر کرنا ہے ۔ دین محمد بھی اس بارے میں یہی کہتا ہے کہ اگر آپ کوئی کام کرنے کی ٹھان لو تو اسے ادھورا مت چھوڑو ۔ کیونکہ مایوسی کُفر ہے، خودکُشی حرام ، اورہر حال میں جینا ضروری ۔۔۔

Monday, 26 February 2018

Rao Hassnain Faeture Urdu



اگر یہ فیچر ہے تو پھر آرٹیکل کیا ہوتا ہے؟ 

فیچر رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تفریح مہیا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا دلچسپ انداز میں لکھا جاتا ہے۔
یہ کسی طور پر بھی فیچر کی صنف میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
تحریر : راؤ حسنین 
رول نمبر: 2k16/MC/84 
کلاس: بی ایس پارٹ 3



فیچر:
کوٹری انڈسٹریل ایریا (سائیٹ کوٹری)
کسی بھی مُلک کی ترقی میں اس ملک کی انڈسٹریز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ مُلک کی آمدن و تجارت کا سارا انحصار اس مُلک کی انڈسٹریز سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔قیامِِ پاکستان کے وقت پاکستان کا سارا کاروبار صرف کراچی اور لاہور تک ہی محدود تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا تو کراچی کے ساتھ مُلک کے دیگر شہروں میں بھی چھوٹی بڑی انڈسٹریز لگنے کا
عمل شروع ہُوا اور مختلف شہروں میں کاروبار کے مواقع پیدا ہوئے۔
اسی طر ح کے ایک انڈسٹریل زون میں سائیٹ کوٹری بھی شمار ہوتا ہے، جو کہ اپنے محلِ وقوع اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وجہ سے خاصہ مشہور ہے۔کوٹری انڈسٹریل ایریا دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے، جسکا کُل رقبہ 1875 ایکڑ پر مُحیط ہے۔کوٹری صنعتی ٹریڈنگ اسٹیٹ کو سن 1960میں برطانیہ ٹریڈنگ اسٹیٹس کے پیٹرن میں شامل کیا گیا۔اس سائیٹ پر دستیاب جدید تعمیرات اور حیدرآباد جامشورو کا دوسرا سب سے بڑا شہر، اور دریائے سندھ کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے اس انڈسٹریل ذون کو بہت کم وقت میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور سائیٹ کوٹری نے بھاری منافع کے ساتھ ترقی کی۔ 
کوٹری ضلع جامشورو کا تعلقہ ہے، کوٹری دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ہونے کی وجہ سے مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انڈسٹریز کی وجہ سے بھی پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ پاکستان کی انڈسٹریز کی اگر بات کی جائے تو ٹیکسٹائل، آئل ، سپےئر پارٹس ، کاٹن اور سیمنٹ فیکٹریاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح کوٹری کے انڈسٹریل ذون میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پورے پاکستان اور
 بیرونِ ملک اپنا دھاگہ سپلائی کرتی ہیں۔

ٹیکسٹائل مِلز کے ساتھ ساتھ کوٹری کی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی عوام میں خاصی مقبولیت کی حامل ہیں۔ ان کمپنیوں میں کولگیٹ پالمولیو، لیکسن ٹوبیکو کمپنی، رولینس ملز، رفحان میز پراڈکٹس ، پاکستان آئل ملز اور برِج پاور بیٹریز شامل ہیں۔ 
؂ کوٹری انڈسٹریل ایریا میں اس وقت 550 سے زائد چھوٹی بڑی فیکٹریاں آب و تاب سے چل رہی ہیں۔جن کی مدد سے غریب طبقے کو روزگار کے اچھے مواقع فراہم ہو رہے ہیں ۔ کوٹری انڈسٹریل ایریا کی تمام فیکٹریوں نے حال ہی میں جامشورو چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جِس کے تحت کوٹری کی فیکٹریوں کی سالانہ آمدن کا تخمینہ لگا کے حکومت کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ 
کوٹری کی تمام فیکٹریوں کو کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے تحت مانیٹر کیا جاتا ہے۔ کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری میں ہر سال ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں ملک کی مشہور و معروف شخصیات شرکت کرتی ہیں ۔ سال 2015 میں اس وقت کے صدرِ پاکستان ممنون حسین نے شرکت کی تھی اور کوٹری کی تاجر برادری سے خطاب کیا تھا۔کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے اس وقت کے روحِ رواں نے صدرِ پاکستان کو یادگاری شیلڈ سے نوازا۔ 
صدرِ پاکستان کے علاوہ گورنر سندھ ، وزیرِ اعلیٰ سندھ اور مخدوم امین فھیم کے ساتھ ساتھ مشہور و معروٖف تاجر بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔
یہ تحریر لکھنے کامقصد پاکستان کے تاریخی و تفریحی مقامات کے علاوہ پاکستان کی انڈسٹریز کی معلومات دینا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو پاکستان کی ان انڈسٹریز کے بارے میں بھی علم ہونا لازمی ہے۔ اُمید ہے قارئین میری تحریر پڑھنے کے بعد کوٹری کی انڈسٹریز کا ایک بار دورہ ضرور کریں گے۔۔ 

Tuesday, 13 February 2018

Rao Hassnain Article BS

Referred back, file it again in proper format
Mention in the file that it is article or feature etc and also ur name in urdu. Ur subject line and file name are wrong. Next time sent in this manner will not be considered. 
In Urdu it should be in inpage format, not in MSword format.
Wait for further feedback
انٹرنیٹ جنسی بے راہ روی کا ذریعہ۔۔۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق، پاکستانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مجموعی تعداد 44 ملین سے زائد ہو گئی ہے.                
اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا پاکستان میں استعمال کس حد تک بڑھ چکا ہے.

اسی ضمن میں ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ نیٹ پر غیر معمولی وقت صرف کرنے والے نو عمر لڑکے اور لڑکیوں میں ہائی بلڈ پریشر کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ماہرین نے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 134 افراد کا جائزہ لیا جن میں سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 26 افراد کا بلڈ پریشر نوٹ کیا گیا، اس کے بعد ماہرین نے انکشاف کیا کہ ایک ہفتہ میں 14 گھنٹے انٹرنیٹ پر گزارنے والے نو عمر بچوں میں بلڈ پریشر کے امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں گم رہنے والے افراد معاشرے سے الگ تھلگ ذہنی دباؤ اور موٹاپے کا شکار ہونے کے ساتھ بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر نوعمر بچوں میں بلڈ پریشر کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بچے انٹرنیٹ کے استعمال میں وقفہ ضرور دیں اور ورزش بھی ضرور کریں۔انٹرنیٹ کہنے کو تو معلومات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اسی کی وجہ سے ہم ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے عزیز رشتے داروں سے انتہائی آسانی اور سہولت کے ساتھ نہ صرف گفت وشنید کرتے ہیں بلکہ اب تو ان کو جلتے پھرتے کام کرتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ طالب علموں کے لیے تو یہ انمول تحفہ ہے کیوں کہ ان کی کتابوں سے جان چھوٹ گئی ایک کلک پر دنیا جہاں کی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔

بلاشبہ انٹرنیٹ نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کو آئی فون، آئی پیڈ، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ دے کر بے فکر ہوگئے ہیں۔ گھر کوئی آجائے تو بچے اپنے کمروں سے نہیں نکلتے۔ پھر اگر ماں باپ سے پوچھ لیا جائے بھئی بچے کہاں ہیں سیدھا و سہل سا جواب ہوتا ہے اپنے کمرے میں پڑھ رہے ہوں گے۔ یا پھر لیپ ٹاپ یا موبائل وغیرہ پر کچھ کر رہے ہوں گے۔ ماں باپ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو گھر میں رکھ کر ان کو دنیا کے گندے ماحول سے بچا لیا ہے اور ان پر معاشرے میں پھیلتی برائیاں اثر انداز نہیں ہوں گی لیکن یہ ان کی سوچ ہے۔ آئی پیڈ ٹیبلٹ کے نام پر انہوں نے بچوں کو گندگی کے جوہڑ میں غوطہ زن ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اس وقت کم از کم 80فی صد لوگ انٹرنیٹ کو فائدہ کے لیے کم اور ذہنی جسمانی وروحانی تسکین کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔انٹرنیٹ کے فوائد میں یہ ہے کہ قرآن و حدیث جیسی دینی معلومات تک با آسانی رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسلامی سوال جواب سے متعلق ڈھیروں ویب سائٹ دستیاب ہیں۔ اسی طرح آن لائن بزنس کے ذریعے بھی بہت کم وقت میں کوئی بھی چیز منگوائی جاسکتی ہے۔ ان سب سہولتوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ہمارے بچوں ہمارے معاشرے پر انتہائی اذیت ناک اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ آج کل بچے کارٹون چھوڑ چھاڑ انٹرنیٹ کے ہو گئے ہیں۔ سب سے خطرناک نقصان انٹرنیٹ کا یہ ہے کہ اس کے بے دریغ استعمال سے جنسی بے راہ روی ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ ہم آئے دن سنتے ہیں کہ کسی معصوم پری کو آدم زاد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ جب امیر سے امیر اور غریب سے غریب کو انتہائی سستے داموں میں تفریح کا بھر پور سامان دستیاب ہوگا تو وہ کیوں اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا۔ جب کوئی فحاشی دیکھے گا تو وہ کہیں تو اثر دکھائے گی۔آج کل نیٹ کی وجہ سے گندگی اتنی عام ہے کہ بنا عورت اور مرد کی تفریق کے ہر کوئی اس میں مبتلا پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر میری بات کچھ لوگوں سے ہوئی جن کی عمر بمشکل 16سال ہوگی۔ ان کی گفتگو کسی طور پر بھی کسی مہذب گھرانے کہ فرد جیسی نہیں تھی۔ بچوں کی تربیت کا تعلق نہ تو حکومت کا اور نہ ہی سیاست یا لیڈروں کا ہے۔ بلکہ ہمارے اپنے گھروں سے ہے۔ ہمارے والدین اور سرپرست اعلیٰ کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں۔ یہ ہماری ماؤں کی ذمے داری ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتی ہیں۔ہر ماں کو چاہیے کہ وہ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈراموں یا غیر ضروری کاموں میں پڑ کر اپنی ذمے داری کو نظر انداز مت کریں۔ بچے کیا اور کیوں کررہے ہیں یہ چیک اینڈ بلنس کا سلسلہ رکھنا چاہیے۔ مائیں اپنے بچوں کو ہر لحاظ سے تربیت دیں۔ ان کے خفیہ مسائل کو بھی سمجھیں اور انہیں پیار محبت سے سمجھائیں۔ اپنے بچوں کے خود ہی دوست بنیں اس سے پہلے کہ وہ آپ پر اعتماد کرنے کے بجائے کسی اجنبی سے دوستی کرنے پر مجبور ہوجائیں..

Rao Hassnain Yousuf.
2K16-MC-84.
BS part 3.