Showing posts with label abdul wasay. Show all posts
Showing posts with label abdul wasay. Show all posts

Saturday, 7 April 2018

Abdul Wasay Profile BS


عبدالواسع اطہر 
2k16/MC/04

علی محمّد (آڈٹ افسر)

انگریزوں کے ظلم و ستم سے تنگ اکر جب مسلمانوں نے 1947 میں پاکستان کو آزاد کروایا تب مسلمانوں کی بڑی تعداد ن پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ انہی لوگوں میں ایک نام علی محمّد صاحب کا بھی اتا ہے۔ جو کہ تین سال کی عمر میں اپنی بہن کے ہمراہ ملتان میں اکر قیام کیا۔
علی محمّد صاحب 1944 میں آرائیں خاندان ضلع حصار میں پیدا ہو۔ آپ کہ تعلق پنجاب کے معزز گھرانے سے ہے۔ بچپن ہی میں آپکے والدین خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ پکی تعلیم و تربیت کا ذمہ شروع سے ہی آپکی بہن نے اپنے سر لیا۔ اسلامیہ ہائی اسکول سے اپنی پرائمری تعلیم حاصل کی۔ لیکن ان پیچیدہ حالات میں اپنے ہمّت نہ ہاری۔ شب و روز محنت کے باد 1959 میں ملتان سے میٹرک کیا۔ بہن کی شادی کے بعد خود بھی اپنی بہن اور بہنوء کے ساتھ رہنے لگے۔مگر وہ خود کو اپنی بہن پر مسلط نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چناچہ اپنی پہچان بنانے کے لئے اپنی معاشی زندگی کا آگاز چھوٹے موٹے کاموں سے کیا۔ آپنے کپڑے بیچے، چوڑیوں کے سٹال لگاے اور اسی طرح کے مختلف کام کرتے رہے۔ 1964 میں راولپنڈی میں پرائیویٹ انٹر اول نمبر سے پاس کیا اور آپکی تعلیمی قابلیت کے پیشِ نظر آپکو گورنمنٹ کی جانب سے ماہانہ وضیفہ مقرر کر دیا گیا۔ 1966 میں راولپنڈی کی یونیورسٹی سے بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1968 میں کراچی شفٹ ہو? جہاں انکی قسمت کا سترہ چمک اٹھا۔ 1972 میں آڈٹ اکاؤنٹ کی نوکری ملی اور 1973 میں اپنی ازدواجی زندگی سے منسلک ہوگئے۔ 1976 میں ایس۔ اے۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد تراققی کے منازل طے کرتے گئے۔ 1986 میں انہوں نے آڈٹ سروس اختیار کی۔ اور 10 سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اور پھر 20 گریڈ میں ریٹائر ہوگئے۔ اسکے بعد کسٹم میں تین سال کے لئے منتخب ہو?۔ اور 2003 تک اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
انکی زندگی آج کے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ جنہوں نے زندگی کے تمام مصائب کو جھیلتے ہو? ترقی کی راہ پر گامزن ہو?۔ انکی زندگی ہمارے لئے بہترین مثال ہے۔ جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کیا

Thursday, 1 March 2018

Abdul Wasay Feature Urdu BSIII

Not reporting based
معذور لوگ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں 
عبد الواسع اطہر 
2K16/MC/04
یوں تو دنیا میں ہر شخص کے آنے کا مقصد کچھ نہ کچھ ہوتا ہے لیکن کچھ خاص لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو شروع سے ہی جسمانی طور پر معذور 
ہوتے ہیں اور کچھ لوگ صلاحیتوں میں عام افراد سے الگ نظرآتے ہیں ۔ 
مگر قربان جائیں خدا کی قدرت کے کہ وہ کسی سے ایک چیز لیتا ہے تو دوگنی عطا بھی کرتا ہے اُن لوگوں میں وہ صلاحیتیں نظر آتی ہیں جو کہ ایک عام انسان کے پاس بھی نہیں یہ معذور افراد ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہیں اور دوسرے لوگوں کی طرح با آسانی مشکلات سے دور رہ کر اپنی زندگی گذارنا چاہتے ہیں دنیا بھر میں یہ طبقہ ’’خصوصی افراد ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے تا کہ یہ لوگ احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچ جائیں مگر یہ نام ان لوگوں کے لئے کافی نہیں ساتھ ساتھ کچھ حقیقی معنوں میں ان کے لئے خصوصی اقدامات اُٹھانا ضروری ہے جس طرح ایک انسان کیلئے ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ ادارے بنے ہو ئے ہیں جو کہ انہیں بنیادی طور پر اُن کے معاشرے کے حالات و واقعات سے آگاہ کر رہے ہیں اِسی طرح کچھ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو کہ ان خصوصی افراد کے لئے کام کر رہے ہیں جہاں ان خصوصی افراد کی دیکھ بھال کی جانے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے کے حالات و وا قعات سے آگاہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ افراد زندگی سے عاجز 
ہونے کے بجائے طرح طرح کے ہنر سیکھ رہے ہیں اور ایک خوشحال زندگی گذارنے کے لئے پر عزم ہیں
۔
یوں تو ہم چند پیسے دے کر اُن کی مالی مدد کر کے اُن کی مشکلات تو دور کر سکتے ہیں مگر ہمارے دلوں میں جب تک معاشرے کے معذور افراد کے لیے کام کرنے کا احساس پیدا نہیں ہو گا تب تک معذوروں کے حالات بہتر نہیں ہو ں گے ، معذور افرادکا معذور ہونا جرم نہیں یہ تو پیدا کرنے والے کی حکمت ہے وہ جسے جو چاہے عطا کرے مگر ہمیں بھی اس چیز کا پابند بنایا گیا ہے کہ ہم ضرورت مند کی تمام ضرورتوں کو پورا 
کریں اور اُسے جینے کا سہارا دیں
۔ 
دیکھا جا ئے تو یہ معذور افرادعام انسانوں سے کسی طور کم نہیں اگر بات کی جا ئے (Blind Cricket Team)تو یہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ عطا کرنے والا ایک چیز لیتا ہے تو دوگنی عطا کرتا ہے وہ بال کو دیکھ نہیں سکتے مگر اُسے آ تے ہو ئے محسوس کرتے ہیں اور اپنی 
صلاحیتوں کے مطابق اس کھیل کو پورا کرتے ہیں ۔ 
معذور افراد کی تعداد کا جائزہ لیں تو ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تیس کروڑ آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جب کہ پاکستان میں ایک کروڑ اسی لاکھ افراد معذور ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے ، کئی ملکوں میں معذور افراد کی صورتحال کا مشاہدہ کیا جا ئے تو سرکاری اور نجی دفاتر ، پبلک ٹرانسپورٹ ، شاپنگ سینٹر ، ایئر پورٹ ، ریلوے اسٹیشن اور اسپتالوں میں معذور افراد کو رسائی با آسانی ممکن نہیں۔بجٹ کی آمد کے موقع پر معذورافراد کی امید تازہ ہو جاتی ہے کہ اب ان کی بحالی کی ضرور بجٹ مختص کیا جا ئے او پھر ان کے مسائل حل 
ہو جائیں او روہ اپنی آگے کی زندگی اچھی طرح گذار سکیں ۔ 
مشکلیں کتنی بھی بڑی ہوں ہمیں کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ معاشرے کے معذور افراد کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اچھے لوگوں کو سامنے آنا چاہیے اور ان کی بحالی کے لئے کام کرنا چاہیے ۔معذور افراد کے لئے علیحدہ وزارت بھی ہونی چاہیے تا کہ ان کے مسائل حل ہو سکیں اس کے علاوہ معذور افراد کے لئے ہیلتھ کارڈ کے اجراء کے ساتھ ساتھ سفری کرا ئے میں رعایت بھی یقینی بنانی چاہیے اور معذور افراد 
کے لئے مختص بجٹ بڑھانا چا ہیے ۔