Not reporting based, all is secondary data, which is lifted and translated.
No proper paragraphing
نام:ربیعہ واحد
رول نمبر:۲کے۱۶۔ایم سی۔۱۴۰
کلا س:بی ایس۔پا ر ٹ ۳
ڈ یجیٹل گیمز
وقت جس برق رافتار ی سے گز ر رہا ہے ا سی کے ساتھ سا تھ چیزوں میں بھی تبد یلی لارہا ہے ۔جس صد ی میں ہم آج رہ رہے ہیں اس صد ی کو ٹیکنا لوجی کا ا نقلا بی دور یا پھر ڈ یجیٹل دور کہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ ٹیکنالوجی کی منا سبت سے آج کل کا دور انٹر نیٹ کا دور ہے جس نے انسا نی زندگی 3
پرگہرا اثر مر تب کیا ہے ۔پچھلے وقتوں کی بات کی جاے تو بچے اور نو جوان ہر کو ئی فر ا غت کے او قات میں اپنی اپنی گلی ،محلے،سڑکو ں پر کھیلا کرتے تھے۔جن میں کر کٹ میچ ،فٹ بال،چور پلس، کھو کو شا مل ہیں۔لیکن دور جدید نے ان تما م کھیلو ں کے آگے ڈیجیٹل گیمز کو متعا ر ف کروا کر بچو ں اور بڑوں دونوں کی دلچسپیاں ا پنی طر ف مائل کرلیں ہیں۔ڈاکٹر اور مہا ہر ین کے کہنے کے مطا بق جسما نی کھیل انسا نی صحت کے لیے بہت مفید اور فائد ے مند ثا بت ہوتے ہیں ۔ ایک تو اسے انسانی ا عضاء حر کت میں رہتے ہیں جس سے جسم میں خو ن کی روانی بہتر طر یقے سے ہو تی ہے تو دوسری طر ف کھیل کود ورزش کا کام بھی سر ا نجام دے رہی ہوتی ہے جس سے انسا ن چاک وچوبند اور چست و توا نا رہتا ہے ۔ڈیجیٹل گیمز کی ابتداء (۱۹۵۰) میں یوایس میں ہو ئی جس کوصرف تعلیمی مقصد یت کے لیے ا ستعمال کیا جاتا تھا لیکن وقت اور ترقی ساتھ ساتھ انسا نی ضر و ر یات بھی بدلتی گئیں۔(۱۹۶۶) میں میگنووکس نا می کنسول متعارف کروایا گیا جس میں اسپیس وار نا می گیم کھیلا جاسکتا تھا ۔یہ گیم اس وقت کا پہلا اور خا صا مقبولیت کا حا می رہا کرتاتھا۔ا س کے بعد (۱۹۷۳) میں اٹاری اور پھر کوائینز گیمز کو منظر عا م پر لا یا گیا جس میں ٹیبل ٹینس اور پن بال شا مل ہیں۔ان گیمز کو کھیلنے کے لیے جوا ئسٹک کی مددلی گئی ۔بنیا دی طور پر جوائسٹک ہوائی طیاروں میں
3
کنٹرولنگ کے لیے استعما ل کی جاتی تھی جس سے پائلٹ بہتر انداز سے طیا رے کا کنٹول سنبھا لتا ہے ۔ اس سے متاثرہو کر جوائسٹک کو ڈیجیٹل گیمز میں استعما ل کیا جانے لگا جس سے گیمز کی کنٹرولنگ میں آسانی ہو سکے ۔ان گیمز کومذید دلچسپ اور رنگیں بنا نے کے لیے جاپان کی ایک مشہور و معاوف کمپنی یا ماہا نے ساؤنڈ سسٹم ایجاد کردیا جس سے ان گیمز کو مز ید پزیرائی ملی یہ تما م تر گیمز پہلے وقتوں میں مالزاور گیم زون میں دستیاب ہوا کرتے تھے جن میں خا صی تعداد نوجوان نسل کی تھی اور خاس کر لڑکوں کی دلچسپی کا مرکز بنے جو کے وقت کے ساتھ ساتھ آج بھی ہیں۔(۱۹۸۰) میں انٹر نیٹ کی مقبولیت کا دور رہا تو ان گیمز کو آگے لانے کے لیے آن لائن گیمز کا سلسلہ شرو ع کردیا جس نے گھر بیٹھے لوگوں کو اپنی طر ف متوجہ کیا اور نت نئے تھر ی ڈی گیمز سی ڈیز اور ڈ ی ویڈ یز میں بھی دستیاب ہونے لگے۔سن ۲۰۰۰ میں ٹنکنالوجی کی مز ید ترقی نے موبائل فون کو ایجا د کر ڈالا تو ان گیمز نے موبائل فون میں بھی اپنی جگہ باخوبی اور کا میا بی سے بنالی ان اان لائن گیمز کی بات کی جائے تو حا ل ہی ۲۰۱۷میں اان لائن گیم لوڈو اسٹار نے بڑی مقبو لیت حا صل کی جس میں گھر بیٹھے دوسرے مما لک کے لوگوں کے ساتھ آن لائن گیم کھیلا جا سکتا ہے سائنس دان کے مطابق ڈیجیٹل گیمز کھیلنے سے انسان کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے دماغ تیزی سے کام کرنے لگتا ہے اور نت نئے خیالات اس کے دماغ میں جنم لینے لگتے ہیں جو اس کو دیگر اموار سر انجام دینے میں مؤون ثابت ہوتے ہیں لیکن ان گیمز کو متواطر طور پر کھیلنے اور پورا پورا دن کمپیوٹراسکرین کے اگے بیٹھنے سے ایک تو ان کی انکھو ں پر گہرا اثر ہوتا ہے اوردوسرا تعلیم سے دوری کا سبب بھی بنتا ہے۔کمپیو ٹر اسکرین کی متواطر ریز سے دماغی بیماریوں میں بھی اضا فہ ہو رہا ہے۔ بچوں کے مطابق وہ دیجیٹل گیمز محض تفریح اور وقت گزار نے لیے کھیلتے ہیں۔لیکن لوگوں نے اس تفر یح کی چیز کو کاروباری شکل دے کراپنا کاروبار تو چمکا لیااور ساتھ ہی دوسروں کی زندگیوں سے بھی با خو بی کھیل رہے ہیں۔ٹیکنالو جی کا یہ دور جس تیزی سے ترقی کی سیڑھی چڑھ رہا ہے جس میں ہر روز نئے نئے کنسول ایجادکرے جارہے ہیں جس میں ایکس باکس اور پلے اسٹیشن شا مل حا ل ہیں یہ قیمت میں انتہا ئی مہنگے اور جدید ہیں جس میں کاؤنٹراسٹرائیک،فیفا،ڈوٹا،ڈبلو ڈبلوایی ،کرائم سین جسے ہیو ی گیمز کھیلے جاسکتے ہیں۔کرایم سین جیسے گیم معاشر ے میں اشتعال پھیلا نے کا کام سر ا نجام دے رہے ہیں جس سے نوجوان نسل خاص طور پر اثر انداز ہورہی ہے ا یک تو ان نو جوانون کو اپنا حا می بنا لیا تو دوسری جانب ان کو جرائم کے نت نئے اندازدیکھا کر اکسایا جا رہا ہے آج کل کے گیمز میں صرف اور صرف مار پیٹ،خون ریزی،چوری،ڈکیتی ،غنڈاگردی اور بہت سے منفی عنصر دکھا ے جا رہے ہیں جن میں جدیداسلحہ کی نمائش اوراس کا استعمال شا مل ذکر ہے جس کو دیکھنے سے کمزور دل بچے دل ودماغ پر گہرا اثر طاری کرلیتے ہیں یا پھر ان گیمز میں دیکھائے جانے والے سینز کو تفر یح کے طور پر کرنے نکل پڑ تے ہیں جو کے کبھی کبھی جا ن لیوا بھی ثا بت ہوتے ہیں جسیے کے ایک یو ایس کی رپورٹ کے مطا بق ایک سولہ سالہ لڑکے نے ا پنے وا لد سے ویڈیو گیم کی سی ڈی حاصل کرنے کے لیے اپنے دالد کے لاکر میں گھس گیا وہاں سے سی ڈی اور والد کی گن نکل کر اپنے دونوں والدین کو گولی مار کر قتل کردیا اور وہ گن والد کے ہاتھ میں پکڑا کر اس قتل کو خودکشی کا رنگ دے دیا ۔دوسری رپو ٹ کے مطا بق مسلسل ۴۰گھنٹے تک ویڈیو گیم کھیلنے سے بچے کی موت ہوگی میڈیئکل رپوٹ کے مطابق اس کی موت کی وجہ۰ ۴ گھنٹے تک ایک ہی جگہ بیٹھنے سے پا ؤ ں میں خو ن کی روانی روک گئی اور پاؤں میں خون کے کلاٹس جم گئے جس سے مو ت واقع ہو گئی کہنے کا مقصد یہ ہے کے یہ گیمز جو بظاہر ایک تفریح کی چیز ہے لیکن لوگو ں نے اس کو کارو بار کا مسکن بنا لیا ہے جدید انداز میں ان گیمز کو دیکھا نے سے بچوں اور نوجوانوں میں غصہ،جارعیت اور تناؤ کو فرو غ مل رہا ہے اور ان میں قوت برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے ۔حا ل ہی۲۰۱۶ میں آنے والے ایک بیلو ویل گیم نے ۱۳۰ لوگوں کی جانیں نگل لیں اس گیم میں پچاس دن کے اندر دئیے گئے ٹاسک کو پورا کرنا ہوتا ہے اور اس کا اختتام انسا نی مو ت پر ہوتا تھا لوگ اس گیم کی بازی کھیلتے کھیلتے جان کی بازی ہا ر جاتے تھے۔3
کیا یہ طریقہ سہی ہے بچوں کو کھیل اور تفریح کی اشیئافراہم کرنے کا ؟مختلف والدین کے انٹرویو کے مطابق پلے اسٹیشن اور ایکس باکس جسے جدیدکنسول بچوں کی شخصیت کو متا ثر کر رہے ہیں ان میں احسا س کم تری کا عنصر ابھر رہا ہے جس کا جتنا مہنگااور جد ید کنسول ہو گا اس کا ایسٹیٹس اتنا اونچا ہوگا ۔ہمارے یہاں یہ المیہ ہے کہ جب بچہ شور کرے یا روے تو اسے موبائل فون پکڑا دیا جاتا ہے کھیلنے کے لیے برائے مہربانی تمام والدین سے گزارش ہے کے وہ اپنے بچوں پر خاص نظر رکھیں کہ وہ گیم کیھلتے وقت کس سمت میں جارہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment