Tuesday, 6 March 2018

Marvi Shoukat Feature Urdu BS


فیچر : ماروی شوکت 
BS-III/2K16/MC/47
بمبئی بیکری کے کیک بنا نے والے 
* دنیا میں جہا ں کسی بھی چیز کا کا میا ب اور مشہور بنا نے کے لئے محنت درکا ر ہو تی ہے اس میں مالکوں کے ساتھ ساتھ مخلص مزدوروں کا بھی برابر کا حصہ ہو تا ہے ۔ بمبئی بیکری کے کیک کی طر ان کے مزدور بھی اتنے ہی اچھے اور مخلص ہے ۔ 
* میٹھا کیک خو شیو ں اور تہواروں کا مزہ دوبالا کر دیتا ہے ۔دنیا کی مشہو ر بیکریو ں میں شامل ہونے والی بمبئی بیکری جو حیدر آباد صدر میں مو جو د ہے اس کے کیک نہ صر ف حیدر آباد ، سند ھ اور پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مشہو ر ہے جہا ں حیدر آباد میں بہت سی مشہو ر بیکریا ں ہے وہی اس بیکری کی اپنی مقبولیت ہے ۔ اسکی مقبولیت کی وجہ اسکے کیک کا ذائقہ ہے جو صدیو ں سے ایک جیسا قائم ہے۔ ملا وٹ کے اس دور میں بھی یہ خالص اشیا ؤ ں سے بہت محنت کے ساتھ یہ کیک تیار کیئے جا نے ہیں اس کوبنا نے میں کسی طر ح کی مشینری کا استعما ل نہیں کیا جا تاہے ۔ 
* یہ بیکری November 1911 میں پہلا ج رائے گنگا رام ٹھا ڈالنی نے حیدر آباد صدر میں قائم کی ان کی ثا بت قد می اور مو ثر کاوشو ن کی وجہ سے کنٹو منٹ اتھا ر ٹی نے اسی جگہ بیکری کی قیا م کی اجا زت دے دی جو 1924 میں مکمل ہوئی ۔ 
* ابتداء سے ہی یہ بیکری ایک نگلے میں قائم ہے ۔ پہلا ج رائے نے اپنے تین بیٹیو ں شمداس ، کرشن چنداور گوپی چند اور پر اعتما د مزدوروں کی مدد سے بیکری کو اعلیٰ مقا م پر پہنچا یا اور ہمیشہ اصلی اور خالص لوازمات کا استعما ل کای اپنی پروڈکٹ میں ۔ 
* 1949 میں پہلا ز جا رئے انتقا ل کر گئے اور بیکری کی ذمہ داری کر شن چند نے سنبھا لی اور اپنے خیالات کے زریعے مزیدار ترقیب تک رسائی حاصل کی جو آج مہیا کی جا تی ہے، کر شن چند 160 میں انتقال کر گئے بھی گو پی چند اور کر شن کے بیٹے کمار نے بیکری کو سنبھا لا کما ر ٹھا ڈالنی ایک عظیم انسا دوس اور با کمال شخص تھے انہو ںے اپنے بڑوں کے اس کا روبار کو اور اچھے سے آگے لے کر گئے اسکی نگرانی میں بزنس کے چا ر چاند لگ گئے تھے ۔کمار ٹھاالنی انسا نو ں کی بہت مدد کر تے ہیں یہی وجہ ہے کہ 2010 مین ایک انتقال پر ہزاروں لو گ عم سے نڈحال تھے ۔ پھر بیکری کی ذمہ داری انکے بیٹے سو نو (سلما ن ) نے سنبھا لی بیکری کو اب ٹھاڈالنی فیملی کی چو تھی نسل سنبھا ل رہی ہے ۔ 
* حیدر آباد کے پر کشش اور خو بصو ر ت علاقے صدر میں چا ندنی کے قریب کنٹو منٹ میں واقع بنگلومیں مو جو د بمبئی بیکری میں داخل ہو تے ہی ایک بہت ہی خوبصو ر ت نظا رو ں دیکھنے کو ملتا ہے ہر طر ف ہر یا لی اور رنگ بھر نگے پھو لو ں کی مہکتی خو شبو کیک کے خریدار کو خو شگوار ماحو ل کا احسا س دلا تی ہے۔اس بیکری میں مختلف قسم کے کیک ملتے ہیں جن میں کا فی کیک ، چاکلیٹ کیک ، میکرو ں کیک کیک ، کریم کیک ، فروٹ کیک ، پلین کیک ، با با کیک ، لیمن کیک اوراور مختلف قسم کے بسکٹ مجس میں ایک نمکیں اور ساتھ میٹھے بسکٹ ہو تے ہیں
۔ 
* بیکری میں کا م کر نے والے مزدور وں کو کہنا ہے کہ کیک کی اتنی مقبولیت کی وجہ سے کیک بنا نے کے لئے جو محنت کی جا تی ہے ۔وہ بہت سے مزدور مل کر اسکی تیا ری کر تے ہیں کو ئی لوازمات ڈالتا ہے ۔ تو کوئی ترقیب اور تعدا کا خیا ل رکھتے ہیں ۔ کوئی انہیں لڑے میں سیٹ کر تا ہے تو کوئی اسکی بیکنگ کا عمل پو را کر تاہے اس کیک کے مزیدار ہو نے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسکی تیار ی میں کو ئی مشین کا نئی بلکہ انسانی ہا تھو ں کی مہا رت ہے مزدوروں کا مزید کہنا تھا کہ بمبئی بیکری کے کیک ممیں جو خاصیت ہے جو اسے دوسروں سے مقبو ل بنائی ہے وہ مکھن ہے کیک اور بسکٹ کی تیا ری کے لئے خالص مکھن استعما ل کیا جا تاہے ۔
* مزدوروں کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں خالص لو از ما ت کا ملنا بہت مشکل ہے لیکن پھر بھی ہم بہت محنت کے بعد اسے خالص چیزو ں کا ہی استعما ل کر تے ہیں مزدوروں کہتے ہیں کہ ہمارے مالک کا کہنا ہے کہ تعداد نہیں معیا ر چا ہیے اسی لئے ان کا 4 ڈیریو ں سے کئی عرصے سے مکھں خرید نے کا کنٹریکٹ ہے اور کیک کے ڈبو ں کے لئے جو چیزیں چا ہیے ہو تی ہے وہ بھی کیں سا لو ں سے ایک ہی جگہ سے خرید ی جا تی ہے تعداد کا مسئلہ ہو تا ہے۔اور سب کیک ایک ٹائم میں تیار نہیں ہو سکتے اس لئے آج تک اپنو نے کوئی اور برانچ نہیں کھو لی ،مزدوروں نے بتایا انہیں کہیں بار مختلف جگہو ں سے پیشکش ہو ئی ہے یہا ں تک کے بہت اعلیٰ مقا م رکھنے والی شخصیت نے انہیں اپنے پا س بلا یا جس میں ایک سا بق صدر بھی شامل ہے لیکن وہ اپنے مالک کے ساتھ مخلص ہیں اور انہیں چھو ڑ کر نہیں جا سکتے ہی۔ مزدوروں کی ڈیو ٹی ٹائمنگ صبح 8 سے شام6 بجے تک ہے یہا ں پر کا م کر نے والو ں کا کہنا ہے ۔ کہ اسکی نو کری کسی سر کاری نو کری سے کم نہیں سمجھی جا تی کیونکہ انہیں یہا ں ہر قسم کی سہو لیا ت مو جو د ہے یہی وجہ ہے کہ یہا ں مو جو د ایک منیجر 1965 اور دوسرا 1971 سے اپنے خد ما ت انجا م دے رہے ہیں تما مزدوروں کا میڈیکل با لکل فری ہے ہر چھ مہینے بعد کینٹو منٹ بو ڑڈ کی ٹیم انکے ٹیسٹ کرتی ہے ۔ اور ویکسینیشن بھی کی جا تی ہے ۔ مزدوروں کو ہر ہفتے ایک ایک کیٹ دیا جاتاہے اور کار کر د گی اچھی ہو تو دو بھی دیئے جا تے ہیں ۔ہر ہفتے ایک دن چھٹی ملتی ہے ۔جس کو وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارتے ہیں ۔ 
* مزدوروں کا کہنا ہے کہ ٹھا ڈالنی فیملی اپنے مزدورو ں کو مزدور نہیں بلکہ گھر کے فر د کے طر ح سمجھتے ہیں ہمارے ہر غم خو شی کے موقع پر ہمارے ساتھ کھڑی رہتی ہے اور ہر طر ح سے مدد کر تی ہے ۔ کچھ سا لو ں سے انہوں نے مزدوروں کیلئے حج پیکچ کا انعقاد کیا ہے ۔ جس سے ہر سا ل دو مزدور حج کی سعادت حاصل کر تے ہیں ہر عا م شہری یہا ں ہر کا م نہیں کر سکتا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ نو کری انہیں ہی ملتی ہے جن کے آباؤاجداد یہا ں کا م کر تے تھے ۔ یہ کہنا بھی منا سب ہو گا کہ یہ نو کری نسل در نسل چلتی آرہی ہے اور آچ بھی چلتی رہے گی ۔بمبئی بیکری میں کیک اور بسکٹ کے سا تھ ساتھ بڑیڈ بھی بنائیں جا تی تھی لیکن کچھ عرصے پہلے بریڈ بنا نے والے کاریگر کے ستعما ل کے باعث بریڈ بنا نی چھو ڑ دی گئی ۔ مزدورون کا مزید کہنا ہے کہ بیکری نے مالک سلطا ن شیخ بھی ہمارے ساتھ اس طر ح میل جو ل رکھتے ہیں جیسے ہمیشہ سے انکے آبا ؤ اجداد نے اپنے مزدوروں کے ساتھ رکھا سلما ن شیخ کا اپنے مزدورو ں پر تنا بروسہ ہے کہ وہ دو یا تین دن بعد بیکری کا چکر لگا تے ہیں اور بیکری کی ساری ذمہ داری منیجر ، اسسٹنٹ منیجر اور مزدوروں پر ہو تی ہے ۔ 
* مزدورون کا کہنا ہے کہ پہلے جمعرا ت اور اتوار کو ہی رش ہوتا تھا لیکن ااب تو روز ہی لمبی لمبی قطاریں ہوتی ہیں ۔ چاکلیٹ اور کافی کیک سب سے زیا دہ بنتے ہیں ۔ لیکن وہ بھی آدھے گھنٹے ہی میں ختم ہو جاتے ہیں۔ بسکٹ کے لئے ایک گھنٹے پہلے لا ئن لگتی ہیں لیکن وہ بھی دس سے پند رہ منٹ میں ختم ہو جا تے ہیں ۔ لیکن سب کو مل سکے اس لئے بیکری نے ایک پالیسی کے مطا بق کسی بھی شخص کو 4 سے زیا دہ کیک نہیں دیئے جا تے اور کسی بھی قسم کی تقریبا ت کے لئے آرڈر پر بھی نہیں تیا ر کیے جا تے صر ف برتھڈے کیک دودن پہلے آرڈر دینے پر تیا ر کیا جاتاہے ۔ بیکری کے اندر اور با ہر کیک خریدنے والو ں کی لمبی لمبی قطارو ں سے اس کیک کو کھانے کی برھتی ہوئی خواہش کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ اور کبھی کبھی تو یہ بھی ظاہر ہو تا ہے جیسے کیک فیری میں مل رہے ہیں ۔جو شخص کیک خرید لیتا ہے اسکے چہرے پر ایک الگ ہی خو ش دیکھنے میں آتی ہے ۔ 

No comments:

Post a Comment