Saturday, 3 March 2018

Noorulain Feature Urdu BSIII

Is this approved topic?
نورالعین انصاری
بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر: ۸۰
پھلوں کے بادشاہ آم کی پاکستان میں پیداواری کی کمی میں رجحان:
پیلے اور سنہری رنگ کی پوشاک زیب تن کیا ہوا پھلوں کا بادشاہ موسمِ گرما کی شان ہے۔ جو موسمِ گرما کے دنوں میں توانائی حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ خوشبو ، ذائقہ اور صحت مند پھلوں میں سے ایک ہے۔ مرزا غالب کی غزل کی محفلیں ہوں یا امیر خسرو کا دور ہو، موجودا دور میں نواب زدہ نصیراللہ خان کی محفلیں ہوں یا پیر پگاڑا صاحب کی دعوتیں سب ہی اس پھل کے شِیدایوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بلاشبہ جس پھل کا انتظار بچوں، بڑھوں، جوانوں نیز ہر شخص کو رہتا ہے۔ ' وہ آم ہے۔' جی ہاں اس وقت میں پھلوں کے بادشاہ آم
کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔
برِصغیر میں آم کی خوب پیداوار ہوتی ہے۔ اس لئے آم کو پاکستان اور بھارت کا قومی پھل بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے تو آم کی پیداوار بارہ ممالک میں ہوتی ہے لیکن پاکستان کا شمار چوتھے نمبر پر ہوتا ہے۔ جہاں اسکی سالانہ پیداوار آٹھ لاکھ ٹن ہے۔ پاکستان میں صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب آم کی پیداوار میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ صوبہ سندھ کا شہر میرپورخاص آم کی پیداواری کے لحاظ سے سرِفہرست مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ سو آم کی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں سندھڑی، لنگڑا، چونسا، بنگن پلی، فجری، ثمربہشت، انور رٹول اور سرولی سب سے زیادہ پائی جانے والی اقسام میں شامل ہیں۔ جب کے پاکستانی عوام سندھڑی اور چونسا آم کو سب سے زیادہ پسند کرتی ہے۔ جس طرح پھلوں کا بادشاہ آم ہے اسی طرح آم کا بادشاہ سندھڑی آم کو کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں آم کا رقبۂ کاشت 151،500 ہیکڑ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اب پاکستان میں آم کی پیداواری میں کمی بڑھتی دیکھائی دے رہی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 12۔2011 کے درمیان پنجاب میں 304۔1 ملین ٹن کے قریب آم کی پیداوار ہوئی تھی، 15۔2013 کے درمیان 3۔1 ملین پیداواری ہوئی، جب کے 2016 میں 1۔1 ملین ٹن پیداوار ہوئی جو کے اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ ہر سال آم کی پیداواری میں کمی واضح طور پر

نظر آرہی ہے۔

ماہرین نے منتبہ کیا ہے کہ اس کمی کی سب سے بڑی وجہ ' موسمیاتی تغیرات' یعنی کلائمنٹ چینج ہے۔ کلائمنٹ چینج کے باعث موسموں کے غیر معمولی تغیرے ملک کی بیشتر غذائی فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر اپنا منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اور ہر سال اضافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔
سلیم نامی ایک باغبالی کا کہنا تھا کہ تیز ہوائیں آم کے پھولوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں جسکی وجہ سے زیادہ تر آم کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ 2017 میں 23935 سندھ اور 23915 پنجاب کے آم ان ہواوں کا شکار بنے۔ پاکستان میں ہر سال آم پہلے کے مقابلے کم ہونے کی یہی وجہ سامنے آئی ہے۔
اس کے علاوہ اکثر علاقوں میں آم کے درختوں کی درست طریقے سے نگہداشت نہ ہونے کی وجہ اور اسپرے

کی بروقت استعمال میں کوتاہی کے باعث آم کی پیداوار میں کمی بڑھ رہی ہے۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی پاکستان مینگو گرورز ایسوسی ایشن کی سینئیررکن اور ایسوسی ایٹس کی ہنما رابعہ سلطان کا کہنا تھا کہ ان کے اپنے باغات میں گزشتہ سال آم کی فصل 23950 سے تباہ ہوگئی تھی۔ ین کے بقول حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں کا چیلنج قبول کر کے آگے آنا چاہیے۔ اپنے ریسرچ ایڈ ڈیویلپمنٹ کے شعبوں کو بہتر بنانا چاہیے۔ کسانوں کے لیے آگاہی مہم چالانی چاہیے اور سب سے بڑھ کر موسموں کے حوالے سے پیشگی اطلاعات کے نظام کو بھی بہتر بنایا جانا چاہیے۔ بقول ان کے ماسمیاتی تبدیلیاں زرعی شیبے خاص طور پر ہار ٹیکلچرسیکٹر کے لئے تو بہت نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ باغباں آم کے پکنے کے بعد آموں کو مشینری کے بجائے ہاتھوں سے غیر مناسب طریقے سے اتارتے ہیں۔ جس سے آم کو نقصان پہنچتا ہے اور پاکستان میں آم کی کمی نظر آتی ہے۔
لیکن اس تمام تر صورتِ حال کے باوجود بھی، اس مہنگائی کے دور میں جہاں ہر شے آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ پاکستانی عوام آم کو خریدنے یا کھانے میں کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتی۔ چاہے انھیں اسے مہنگا ہی کیوں نہ خریدنا پڑھے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 239100 فیصد میں سے 23997 فیصد عوام آم کو پسند کرتی ہے۔
اس معاملے میں جہانزیب نامی آم فروخت ٹھیلے والے کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے پندرہ سال سے آم کا ٹھیلا لگا رہے ہیں۔ جب آم کی قیمت فی کلو 10 روپے تھی تب بھی آم کے خریدار اتنے ہی ہوا کرتے تھے جتنے آج 80 روپے سے بھی زیادہ ہونے کے باوجود ہے۔ بلکہ اب آم کی مانگ بڑھ رہی ہے جب کے آم کی پاکستان میں پیداواری میں کمی بھی بڑھ رہی ہے

1 comment: