نام: سیدہ منعم زہرہ عابدی
رول نمبر:۶۴۱۔بی ایس
انٹرویو :ڈاکٹر شاہین حسنین
کہتے ہیں دو پیاسے کبھی سیراب نہیں ہوتے ایک ہوس کا اور ایک علم کا۔ ڈاکٹر شاہین کا تعلق دوسرے قسم کے لوگوں سے ہے جو تدریس کے عمل سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر شاہین گجرانوالہ میں مقیم ہیں۔شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کراچی یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے بعد گزشتہ تیس سالوں سے گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرانوالہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں
س: آپ اپنے تعلیمی عمل کے بارے میں بتائیں؟
ج:میں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج سے حاصل کی اور گریجویشن بھی وہیں سے کیا ۔چونکہ میری دلچسپی سائیکولوجی میں تھی تو ماسٹرز کی تعلیم اسی شعبے میں حاصل کی تعلیم حاصل کرنا میرا شوق رہا ہے اِس لئے جب اس وقت ایم فل سائیکولوجی کی فیلڈ میں نہیں ہوتاتھابلکہ پنجاب کی کسی یونیورسٹی میںسائیکولوجی میں ایم فل کا پروگرا م نہیں تھا تو مجھے ایم اے اردو میں کرنا پڑاتاکہ میری پڑھائی کا عمل متاثر نہ ہو سکے اورپھر اسی فیلڈ میں ایم فل مکمل کیا اس کے باوجود جب علم کی پیاس نہ بجھنے پائی تو میں نے پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیااور ابھی پوسٹ پی ایچ ڈی کا ارادہ ہے۔
س :حصولِ علم میں آپ کو کن مشکلات کا سامنا پیش آیا؟
ج: میرے دور میں علم حاصل کرنا مشکل نہیں تھا پر ڈبل ایم اے کرنا اسکے بعد ایم فل پھرپی ایچ ڈی کرنابھی آسان نہ تھا۔ والدین نے کبھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکا نہیں ۔ یہ ان کا ساتھ ہی تھا جس نے میری ہمت و حوصلے کو بڑھایا۔امی تو تنگ آگئیں تھیں پر ابو نے کہا پڑھو جتنا جی کرے اتنا پڑھو۔لوگوں کے طنز و طعنے بھی سنے پر کسی کو بھی اپنے مقصد کے حصول میں حائل نہیں ہونے دیا ۔ایم فل کے دوران کتابوں کیلئے لاہور جانا پڑتا تھا کیونکہ گجرانوالہ میں جوئی ایسا کتاب گھر موجود نہیں تھا جہاںاعلیٰ تعلیم کی کتامیں مہیا ہوتےں اوراسی دوران میری شادی ہوگئی پر خاوند نے بھی میرے تعلیمی عمل کو جاری رکھنے میں بہت ساتھ دیا۔ تعلیم و تدریس کے اس سفر میںسب سے زیادہ میرے اہل وعیال کا ساتھ شاملِ حال رہا جس نے میرے شوق کو متاثر نہ ہونے دیا۔
س:آپ کتنے عرصے سے تدریس کے عمل سے وابستہ ہیں اور کبھی ملازمت چھوڑنے کا جی نہیں کیا؟
ج:میں سنہ۸۸۹۱میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرانوالہ میں لیکچرار کے منصب پہ فائز ہوئی تھی اور اب ایسوسیٹ پروفیسر ہوں ۔اس سفرکواس سال مکمل تیس سال ہو چکے ہیں۔ پڑھانا ایک دوطرفہ عمل ہے جس میں آپ سیکھتے بھی ہیں اور سکھاتے بھی ہیں۔ ہر سال نئے طالبعلموں کا داخلہ ہوتا ہے انہیں پڑھانا ، سکھانا اوران سے سیکھنا سکھانا ایک دلچسپ عمل رہا ہے۔یہی وجہ تھی جو میںنے اس شعبے کو پیشے کے طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے مینجمنٹ کی طرف سے بھی کافی آفر ہوئیں کہ میں مینجمنٹ کا حصہ بن جاو¿ںلیکن اس کے باوجود میں نے ٹیچر بنے رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اس سطح پر رشوت،سیاسی مداخلت ودیگر معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہو جو کام میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں اور دوسرایہ پیشہ میرے پڑھنے لکھنے کے شوق کی مناسبت سے بھی ہے ۔
س:آپ کے نزدیک اردو کو فیلڈکے طور پر اختیار کرنے کا کیا اسکوپ ہے؟
ج:ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو زبان ہم بولتے ہیں اسے ہمیں سیکھنے کی ضرورت نہیں یا اس کے بارے میں پڑھنے اور جاننے کی کوئی اہمیت نہیں ورنہ دیکھا جائے تو اردو کو آپ فیلڈ کے طور پہ اختیار کر کے ٹیچر بننے کے ساتھ ساتھ صحافت میں ،سفارتکاری میںاور ترجمان کے شعبوں کو اختیار کر سکتے ہیں۔
س:آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آج کل لو گوں میںخصوصاً نوجوانوں میں ادب سے دوری کی وجوہات کیاہیں،کیا اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے؟
ج:سوشل میڈیا ایک وجہ ہے۔ پر مجھے لگتا ہے جو شخص جس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے وہ اسی کی لئے تگ و دو کرتا ہے۔سوشل میڈیا اس دور کا ہر نوجوان استعمال کرتاہے پر اپنی دلچسپی کی حد تک ہم اسے بنیادی وجہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ آج کے جدید دور میں یہ ایک نا قابلِ فراموش زریعہ ہے جو تعلیم کی رسائی میں مدد دیتا ہے اور حالاتِ حاضرہ سے آگاہ رکھتا ہے ۔ ادب زندگی کی عکاسی کرتا ہے پر لوگوں کی ادب سے دوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہےبچے غیر نصابی کتابوں کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو پڑھتے نہیںاور کتاب بھی دور کی بات جو روزنامے آتے ہیں لوگ اسے بھی نہیں پڑھتے جو علم و خبر کے ساتھ پڑھنے کی عادت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ۔
رول نمبر:۶۴۱۔بی ایس
انٹرویو :ڈاکٹر شاہین حسنین
کہتے ہیں دو پیاسے کبھی سیراب نہیں ہوتے ایک ہوس کا اور ایک علم کا۔ ڈاکٹر شاہین کا تعلق دوسرے قسم کے لوگوں سے ہے جو تدریس کے عمل سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر شاہین گجرانوالہ میں مقیم ہیں۔شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کراچی یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے بعد گزشتہ تیس سالوں سے گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرانوالہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں
س: آپ اپنے تعلیمی عمل کے بارے میں بتائیں؟
ج:میں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج سے حاصل کی اور گریجویشن بھی وہیں سے کیا ۔چونکہ میری دلچسپی سائیکولوجی میں تھی تو ماسٹرز کی تعلیم اسی شعبے میں حاصل کی تعلیم حاصل کرنا میرا شوق رہا ہے اِس لئے جب اس وقت ایم فل سائیکولوجی کی فیلڈ میں نہیں ہوتاتھابلکہ پنجاب کی کسی یونیورسٹی میںسائیکولوجی میں ایم فل کا پروگرا م نہیں تھا تو مجھے ایم اے اردو میں کرنا پڑاتاکہ میری پڑھائی کا عمل متاثر نہ ہو سکے اورپھر اسی فیلڈ میں ایم فل مکمل کیا اس کے باوجود جب علم کی پیاس نہ بجھنے پائی تو میں نے پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیااور ابھی پوسٹ پی ایچ ڈی کا ارادہ ہے۔
س :حصولِ علم میں آپ کو کن مشکلات کا سامنا پیش آیا؟
ج: میرے دور میں علم حاصل کرنا مشکل نہیں تھا پر ڈبل ایم اے کرنا اسکے بعد ایم فل پھرپی ایچ ڈی کرنابھی آسان نہ تھا۔ والدین نے کبھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکا نہیں ۔ یہ ان کا ساتھ ہی تھا جس نے میری ہمت و حوصلے کو بڑھایا۔امی تو تنگ آگئیں تھیں پر ابو نے کہا پڑھو جتنا جی کرے اتنا پڑھو۔لوگوں کے طنز و طعنے بھی سنے پر کسی کو بھی اپنے مقصد کے حصول میں حائل نہیں ہونے دیا ۔ایم فل کے دوران کتابوں کیلئے لاہور جانا پڑتا تھا کیونکہ گجرانوالہ میں جوئی ایسا کتاب گھر موجود نہیں تھا جہاںاعلیٰ تعلیم کی کتامیں مہیا ہوتےں اوراسی دوران میری شادی ہوگئی پر خاوند نے بھی میرے تعلیمی عمل کو جاری رکھنے میں بہت ساتھ دیا۔ تعلیم و تدریس کے اس سفر میںسب سے زیادہ میرے اہل وعیال کا ساتھ شاملِ حال رہا جس نے میرے شوق کو متاثر نہ ہونے دیا۔
س:آپ کتنے عرصے سے تدریس کے عمل سے وابستہ ہیں اور کبھی ملازمت چھوڑنے کا جی نہیں کیا؟
ج:میں سنہ۸۸۹۱میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرانوالہ میں لیکچرار کے منصب پہ فائز ہوئی تھی اور اب ایسوسیٹ پروفیسر ہوں ۔اس سفرکواس سال مکمل تیس سال ہو چکے ہیں۔ پڑھانا ایک دوطرفہ عمل ہے جس میں آپ سیکھتے بھی ہیں اور سکھاتے بھی ہیں۔ ہر سال نئے طالبعلموں کا داخلہ ہوتا ہے انہیں پڑھانا ، سکھانا اوران سے سیکھنا سکھانا ایک دلچسپ عمل رہا ہے۔یہی وجہ تھی جو میںنے اس شعبے کو پیشے کے طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے مینجمنٹ کی طرف سے بھی کافی آفر ہوئیں کہ میں مینجمنٹ کا حصہ بن جاو¿ںلیکن اس کے باوجود میں نے ٹیچر بنے رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اس سطح پر رشوت،سیاسی مداخلت ودیگر معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہو جو کام میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں اور دوسرایہ پیشہ میرے پڑھنے لکھنے کے شوق کی مناسبت سے بھی ہے ۔
س:آپ کے نزدیک اردو کو فیلڈکے طور پر اختیار کرنے کا کیا اسکوپ ہے؟
ج:ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو زبان ہم بولتے ہیں اسے ہمیں سیکھنے کی ضرورت نہیں یا اس کے بارے میں پڑھنے اور جاننے کی کوئی اہمیت نہیں ورنہ دیکھا جائے تو اردو کو آپ فیلڈ کے طور پہ اختیار کر کے ٹیچر بننے کے ساتھ ساتھ صحافت میں ،سفارتکاری میںاور ترجمان کے شعبوں کو اختیار کر سکتے ہیں۔
س:آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آج کل لو گوں میںخصوصاً نوجوانوں میں ادب سے دوری کی وجوہات کیاہیں،کیا اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے؟
ج:سوشل میڈیا ایک وجہ ہے۔ پر مجھے لگتا ہے جو شخص جس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے وہ اسی کی لئے تگ و دو کرتا ہے۔سوشل میڈیا اس دور کا ہر نوجوان استعمال کرتاہے پر اپنی دلچسپی کی حد تک ہم اسے بنیادی وجہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ آج کے جدید دور میں یہ ایک نا قابلِ فراموش زریعہ ہے جو تعلیم کی رسائی میں مدد دیتا ہے اور حالاتِ حاضرہ سے آگاہ رکھتا ہے ۔ ادب زندگی کی عکاسی کرتا ہے پر لوگوں کی ادب سے دوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہےبچے غیر نصابی کتابوں کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو پڑھتے نہیںاور کتاب بھی دور کی بات جو روزنامے آتے ہیں لوگ اسے بھی نہیں پڑھتے جو علم و خبر کے ساتھ پڑھنے کی عادت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ۔
No comments:
Post a Comment