Tuesday, 6 March 2018

Dheeraj Kumar Feature Urdu BSIII

This is not reporting based, which is esential for a feature. 
No new aspect, angle info is there.
There was Sindh govt's plan for conservation of this fort and shift population. what abt that.? that is more important

(دھیرج کمار بی ، ایس پارٹ 3 رول نمبر 2k16-mc-27)
حیدرآباد پکا قلعہ کی حالت زار 
ہر علاقہ اپنی ثقا فت ، ورثاء اور سوغات کے باعث دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتا ہے ۔اور ان ورثاء کے باعث دنیا میں جانا اور ماننا جاتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر اور دوسرے ممالک میں حیدرآباد پکا قلعہ کو مقبولیت حاصل ہے ۔ اور حیدرآباد میں آنے والے سیاحوں کے لیے حیدرآباد پکا قلعہ بھی ایک دلکش عمارت کی اہمیت رکھتا ہے ۔ شاہی بازار جو کہ پکا قلعہ کے نام سے موسوم ہے سندھ کے کلہوڑون حکمران حاجی غلام شاہ نے گنجو ٹکر کی پہاڑی پر ۸۶۷۱ میں اس وقت تعمیر کرایا جب حیدرآباد کو دارالحکومت بنایا اور اس مقصد کے لیے اس نے یہان کچھ عمارات بھی تعمیر کرائیں۔ سندھ پر ٹالپر حکمران کے دوران ۹۸۷۱ میں میر فتع علی خان خدا آباد کو چھوڑ کر حیدرآباد منتقل ہوئے اور اس قلعہ کو اپنا مسکن بنا یا اور یہنا ن عدالت لگا ئی ۔ قلعہ تقریبا ۸۳.۲۱ ایکڑ پر مشتمل ہے اس کی دیوارین نہایت پکی اینٹون سے بنائی گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے آج اس عمارت کو پکا قلعہ کے نام سے جاننا جاتا ہے ۔ اس عمارت کے چوٹی پر خوبصورت کنگر ے بنے ہوئے ہین قلعے کا ایک ہی داخلی دروازہ ہے جو شمال کی جانب شاہی بازار کے سامنے کھلتا ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں یہان آباد ہوئے اور قلعہ ایک شہر بن گیا ۔ ۷۴۹۱ میں تقسیم ہند کے بعد مہا جریں کی بڑی تعداد میں آ مد کے باعث حکام نے قلعے کو عارضی کیمپ میں تبدیل کردیا ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ عارضی کیمپ ایک بے ہنگم صورت اختیار کر گیا لوگون کی جانب سے قلعے پر قبضے اور غیر قانونی تعمرات بھی قلعے سے جڑے مسائل میں سے ایک ہے
۔ 
لیکں تاحال قلعہ میں لوگ اب تک رہائش پذیر ہیں جب کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے پکے قلعے کو حسا س قرار دیا گیا ہے سندھ بلڈنگ کنٹرول کے نوٹیفکشن جاری ہونے کے باوجود عوام اس میں تاحال رہائش پذیر ہے لیکن حکومت کی غفلت اور متلقہ افسران کی چشم پوشی کے باعث کبھی بھی کوئی سانحہ پییش آسکتا ہے بلکہ حا لیہ ۵۰۱۲ میں قلعہ کے زیر دکانوں میں قلعے کی دیوارین بھی گر چکی ہے لیکن خدا کے رحم سے کوئی جانی نقصان پیش نہ آیا لیکن حکومت سندھ کی بے بسی کے باعث کئی معصوم جاننیں موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے پکا قلعہ کو قدیمی عمارت قرار دیتے ہوئے اس میں رہنے والے رہائشیون کے لیے یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ اس عمارت سے رہائش ختم کی جائے تاکہ اس قدیم عمارت کی اہمیت کو برقرار رکھا جائے مگر تاحال سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور آثار قدیمہ کی جانب سے کوئی عملی کاروائی نظر نہیں آتی اور پکہ قلعہ کی عمارت مزید حستہ حالی کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے اور
ایک کھنڈر عمارت میں تبدیل ہوتی جارہی ہے 

جبکہ علاقہ مکینون کو کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہم نے اپنی نئی زندگیون کا آغاز اسی قلعے سے کیا اور ہمارے آباو اجدد نے اپنی نئی زندگی کی شروعات یہین سے کی اس قلعے مین ہماری بہت سی یادیں جڑی ہیں جو کہ ہمارے دلون میں بہت پختہ ہو چکی ہے یہان سے متبادل جگہ جانا ہمارے لیے بہت کٹھن اور نا ممکن کام ہے ۔ جبکہ کئی رہائشییون کا حکومت سے برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جو کہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کے ہم سند ھ کی تاریخ کو قائم رکھنے کے لیے منتقل ہو نے کو بھی تیار ہیں مگر حکومت اس کے تبادلے میں بہت کم اراضی میں جگہ فراہم کررہی ہے اور ہمیں غیر تعمر پلاٹ فراہم کیے جارہے ہیں جہاں اس مہنگائی کے دور میں دو وقت کی روٹی کھانا عوام کے لیے مشکل ہو وہاں ایک نئے گھر کی تعمر کر نا ایک مصیبت کے پہاڑ کے مانند ہے ۔ 
اس قدیم ورثے کا تحفظ اور فوری بحالی سندھ کی قدیم اور تاریخی شناخت قائم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے قلعے کو اس کی اصلی حالت میں محفوظ کرنا ہی اس کی اصلی بحالی ہوگی اور اس ضمن میں اس اسباب کو مد نظر رکھنا بے حد ضروری ہے جو اس قلعے کی تباہی کا سبب بنے جن مین ماحولیاتی تبدلیان ، برساتی پانی کا جمع ہونا ، نکاسی آب کا فقداں جنگلی پودوں کی افزاہش ، خاص طور پر انسانی مجرمانہ غفلت قابل زکر ہیں ۔ 
قلعے کے نیچے کئی دکانین موجود ہیں جن میں بھاری مشینون کا کام کیا جاتا ہے جس کی دھمک سے قلعے کے وجود پر خاصہ اثر پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ قلعے کی دیواریں اپنا وجود چھوڑتی جارہی ہے جس کے نقصانات نا صرف قلعے کے وجود کو ہیں بلکہ اس میں رہنے والی عوام کو بھی بہت سے نقصانات درپییش ہیں ۔ قلعہ کی دیواریں اور قلعے کے قدیم دروازے اپنی مرمت کو پکار رہے ہیں لیکن متعلقہ اداروں اور حکومت سندھ کی کانون تک جون نہیں رینگتی جو قلعہ حیدرآباد کی شان ہو ا کرتا تھا آج وہ اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے ۔ قلعے کے اندر جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اس چیز کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سندھ کی ان قدیمی عمارتون کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے ان ہی عمارتون کے باعث حیدرآباد شہر کی شناخت ہے جو کہ اب ویرانی کا شکار ہیں پکا قلعہ اب ایک خوف ناک منظر پیش کرتا ہے قلعے میں جلسون کے لیے اور اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے پارکون کا تعمراتی کام تو کیا جاتا ہے مگر سندھ کی پہچان جو تاریخ میں بیان کی جاتی ہے وہ صفہ ہستی سے مٹتی چلی جارہی ہے۔ یہ وہی سندھ کی دھرتی ہے جو کہ دیکھنے میں بہت دلکش اور خوشگوار
نظر آتی تھی 

آج سندھ کی دھرتی اپنی ثقافت اور ورثاء سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے 
آخر کون سندھ کی عظیم الشان تاریخی عمارتون کو محفوظ کرے گا ؟ 
کب ان متعلقہ ادارون اور افسران کو اپنی زمیداری کا احساس ہوگا؟ 
کہ سندھ کی تاریخ کو محفوظ کرنا ان کی زمیداری ہے آخر کون اس سوتی ہوئی قوم کو جگائے گا کہ سندھ کی قدیم عمارتین بلند صداؤن سے پکار رہی ہیں کہ ہے کوئی اس سر زمین کا وارث جو اس کے وجود کو قائم رکھے ۔ 

No comments:

Post a Comment