Showing posts with label Dheeraj Kumar. Show all posts
Showing posts with label Dheeraj Kumar. Show all posts

Wednesday, 11 April 2018

Dheeraj Profile BS


پروفائیل دھیرج کمار بی ایس پارٹ3رول نمبر 2144k16/mc/27
فاروق کرسی والا
انسان کے بلند حوصلے اسے اس کا مقصد پانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں اور جب یہ حوصلے بلند ہو ں تو انسان اپنی منزل تک با آسانی پہنچ جاتا ہے ۔ اور یہ کامیابی کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے ۔ یہی حوصلے فاروق میں بھی کی زندگی سے جڑے ہیں ۔ فاروق معذور ہونے کے ناوجود کبھی مایوس نہیں ہوا ۔ فاروق بظاہر معذور ہے لیکں اس کے حوصلے معذور نہیں ہے ۔ دن بھر اپنی مدد آپ کے تحت ویل چیئر کو سہار ا بنا کر گھر کا سار ا کام سرانجام دیتا ہے فاروق اپنی بوڑھی مان کا ایک ہی سہارا ہےْ ۔ حکومت کی جانب سے معذورون کا5 فیصد کوٹہ ہونے کے باوجود فاروق بدقسمتی سے حکومت کی چشم پوشی کے باعث تاحال بے روزگار ہے ۔ اور اپنے بنیادی حق سے محروم ہے ۔ اپنی بوڑھی مان اور بہنون کی کفالت کے لیے فاروق مختلف جگہوں پر کرسی بناتاہے اور ان پیسوں سے گھر کا چولا جلتاہے ۔ فاروق جو کہ ایک معذور فرد ہے لیکں معاشرے کے لیے بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ فاروق نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے کیونکہ فاروق ایک خودمختیار انسان ہے اور ہمیشہ قدرت کا شکر ادا کرتاہے کہ اس مالک نے مجھے لاکھوں مفلوج افراد سے بہتر تخلیق کیا خدا نے پیروں سے مفلوج کیا لیکں میرے ان ہاتھوں میں اتنی صلاحیت بیدار کی ہے کہ میں ایک عام آدمی سے ذیادہ اچھاکام کرسکتاہوں ۔
لیکں افسوس اس بات کا ہے ہماری حکومت نے ہم معذور لوگوں کو نظر انداز کیا ہوا ہے ۔ کبھی کبھی یہ آنکھیں بھی ٹپک پڑتی ہے جب میں روزی کمانے میں ناکام ہوجاتاہوں کیونکہ کرسیوں کا کام مجھے کبھی کبھی ملتا ہے ۔لیکن اسے دنوں میں گزر سفر کرنا دشواری کا باعث بنتا ہے ۔ فاروق بھی اس معاشرے کا حصہ ہے اس کے بھی اتنے حقوق ہیں جتنے کے دوسرے معاشرے کے لوگوں کے ہیں ۔فاروق نے مختلف اداروں میں نوکری کے حصول کے لیے درخواستں دی لیکں حکومت کی طرف سے کوئی عملی کاروائی نظر نہیں آئی ۔فاروق کئی دشواریوں اور کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے امید لیکر حکومتی اداروں میں ایک امید کی کرن سے جاتا ہے لیکن بدلے میں مایوسی وصول ہوتی ہے ۔ اور یہ امیدیں صرف ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے ۔
معذور افراد کے ساتھ ہماری حکومت بھی معذور ہوچکی ہے فاروق کئی مرتبہ انٹرویو دینے کے کئی اداروں میں گیا لیکں ان معذور لوگو ں سے عام لوگوں جسیا سلوک کیا جاتا ہے۔انٹرویو کے دوراں معذور افراد کے لیے کسی قسم کاانتظام نہیں کیا جاتاہم اپنی مدد آپ کے تحت کئی کئی منزل اوپر جاتے ہیں جو کہ ایک معذور افراد کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے ۔حکومت نے بائیومٹریک سسٹم کا اغاز تو کیا لیکں اس میں سے بھی معذرو لوگوں کو نظر انداذ کیا کے یہ معذور کس طرح وقت پر پہنچ سکتے ہیں اکثر ہماری ویل چیئر کے ٹائیر پنچر ہوجاتے اور وقت پر کام پر نہیں پہنچ پاتے اور پھر ہماری تنخوائیں کاٹ دی جاتی ہے 
ریلوے اسٹیشں ،بس اسٹاپ اور دیگر ٹرانسپورٹس میں معذور افراد کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں ہم اپنی جان پر کھیل کر سفر کرتے ہیں اور کبھی بھی کسی بھی حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں جبکہ دیکھا جائے تو بیرونی ممالک میں معذوروں کی ایک عام آدمی سے ذیادہ حفاظت کی جاتی ہے لیکں ہمارے ملک میں معذور افراد کو سماجی بوجھ تصور کیا جاتا ہے ۔ ٹرانسپوٹ میں ہم سے معذور ہونے کے باعث زیادہ کرایا لیا جاتاہے معذور ہونا شاہد ہمارے معاشرے میں جرم ہے ۔ لیکں جرم کس بات کا ؟ہم جان بوجھ کر معذور نہیں بنتے ہمیں بھی خدا ہی تخلیق کرتاہے 
کئی لوگ مجھے کہتے ہیں کہ ملک چھوڑکر چلے جاؤ لیکں میں ایک سچا پاکستانی ہو اور کبھی اپنی سرزمین کو دھوکا نہیں دو گا وہ لو گ غدار ہیں جو اس سرزمین کانمک کھا کر اور دوسرے ممالک فرار ہوجاتے ہیں میرا نوجوانو ں سے یہی کہنا ہے کہ چاہے کیسے بھی حالات آجائے لیکن اپنے ملک کو چھوڑکر نہیں جانا ہمیں جینا مرنا اس سرزمین پر ہے اور یہی سرزمیں ہمیں اپبنے اند ر پناہ دے اور ہمیں اس کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے ۔اگر ہمیں یہاں ہمارے حقوق نہیں ملتے تو اس کی مذمت کریں کیونکہ یہ ملک ہمارا اور یہاں سے حقوق مانگنا ہمارا بنیادی فرض ہے ۔

Tuesday, 10 April 2018

Dheeraj Kumaar Interview BS


انٹرویو: دھیرج کما ر بی ایس پارٹ3 رول نمبر 2k16/mc/27
شام لعل 
انسان کی مہنت کبھی راہیگان نہیں جاتی ۔ جب انسان کسی چیز کو پانے کی کوشش کرے تو اس انمول چیز کو
 حقیقتن ایک دن ضرور حاصل کر تاہے اور ہر چیز کو پانے میں کئی راستے کانٹے میں آتے ہیں لیکں انسان اپنی قابلیت کے زور سے اسے دور ہٹانے کی کوشش کرتاہے اور اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ وقت کی دشواری کے آگے ناکام ہونا کسی کفر سے کم نہیں اسی قسم کی دشواری شام لعل کو اپنی زندگی میں دیکھنے کو ملی لیکں کبھی مایوسی کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنایا اور اپنے مقصد کو پانے کی جستجومیں لگے رہے ۔ 
شام لعل کا تعلق کہاں سے ہے؟
شام لعل کا تعلق لاڑکانہ شہر سے ہے۔ لیکں لاڑکانہ میں بے روزگاری کے باعث شام لعل اور اس کے والد فقیرا نے شہر حیدرآباد کو اپنا مسکن بنایا ۔ شام لعل کے والد نجی فیکٹری میں ملازم تھے ۔لیکں بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اس فیکٹری میں محنت مزدوری کرنے لگے اور اس طرح حیدرآباد میں مستقل رہنے لگے ۔ 
آپ وکیل کیون بننا چاہتے تھے ؟
میرے والد صاحب بہت غریب تھے تو ہم اپنا گھر بنانے کی کوشش کرتے تو ہمارے پڑوسی ہمیں گھرنہیں بنانے دیتے تھے اور مذمت کرنے پر کئی کئی مہنے میرے والد جیل کاٹ کر آتے تھے میری چھوٹی نازک انکھوں کے لیے یہ سب کچھ دیکھنا بہت بھاری کام تھا اور میرے چھوٹے چھوٹے ہاتھ بھی اپنے والد کی مدد کرنے کے قابل نہ تھے ۔والد کو بار بار جیل ہونے کی باعث والدہ نے گھر کی کفالت کا بیڑا اٹھایا مختلف گھروں میں کھانے پکانے لگی اور انھیں گھروں میں ملاذمت کرنے لگی۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اسکول سے چٹھی کے بعد اپنی مان کو لینے کے لیے گیا تو جس گھر میں میری مان کھانا پکایا کرتی تھی اس گھر میں ایک وکیل رہا کرتا تھااور اس وکیل کو دیکھ کر میرے ذہیں میں یہ خیال آیا کہ کاش میں بھی ایک وکیل بنوں اور اپنے والد کو جیل سے چٹھکارہ دلوا سکو ن ۔دیکھتے ہی دیکھتے میں نے دس جماعت پاس کی اور اس وقت میرے ذہن میں وکالت کا جنون تجاوز کر چکا تھا ۔ایک دن دوبارہ میں اس وکیل کے گھر گیا اور اس وکیل سے اپنی خواہش کا اظہار کیا جس کا نام آفتاب حاکوم تھا۔آفتاب حاکوم نے مجھ سے معلوم کیا کے آپ تعلیم یافتہ ہو میں نے کہا خدا کے کرم سے میں نے ابھی دس جماعت پاس کی ہے اور پھر آفتاب حاکوم نے مجھے سے کہا کہ آج سے میں تمہیں وکالت کا کام سکھاہوں گا ۔لیکں آفتاب حاکوم نے یہ بھی کہا کہ آج تم وعدہ کرو کہ تم بارہویں جماعت کے بعد وکالت کے لیے داخلہ لو گے مین کالج سے فارغ ہوکر سارا دن اس وکیل آفتاب حاکوم کی خدمت کرتا جس کے نتیجے میں وہ رات میں مجھے ڈان نیوز پیپر دیتا جس کو حاصل کرکے میں خود کو خوش نصیب تصورکرتا اور ساری رات اس اخبار سے لطف اندوز ہوتا اور صبح میں کالج پڑھنے جاتا تھا۔کالج کے بعد میں سارا وقت آفتاب حاکوم کے ساتھ کورٹ کچیری میں اور ان کی خدمت میں گزارتااور ان کے وکالت کے طریقے کو زہن نشیں کرتا تھا ۔بارہویں جماعت کے بعد تاحال میں گھریلو مسائل کے باعث وکالت میں داخلہ نہ لے سکا اور میں نے سٹی کالج کلاتھ مارکیٹ میں بی کا م میں داخلہ لیا۔اور وکالت کا سپنا پورا نہ ہو سکا لیکن میں نے خدا پر بھروسہ رکھا اوریہ عزم کیا کہ ایک دن ضرور وکیل بنوں گا ۔ بی کام کے بعد میں نوکری کی تلاش میں سند ھ کے کئی علاقوں میں بٹھکا لیکن نوکری حاصل نہ کرپایا ۔ 
وکیل سے ہائی کورٹ کے ملازم کیسے بنے ؟
کہتے ہیں خدا جو کرتے ہیں ہماری بھلائی کے لیے کرتے ہیں ۔ ایک دن میں نوکری کی تلاش کی نیت سے گھر سے نکلاتو پریس کلب کے قریب ہائی کورٹ کا تعمیراتی کام جاری تھا۔ اس وقت وہان ایک ریجسٹرار کھڑا تھا میں نے ان سے نوکری کے حصول کے حوالے سے معلوم کیا تو جنا ب نے بڑے تلخ لہجے میں جواب دیا کہ جب نوکری آئے گی اخبار سے معلوم پڑجائے گا اور اس طریقے سے جھاڑکر مجھے رخصت کیا ۔ آخر ایک دن ہائی کورٹ کی نوکری کے اخبار میں اشتہار آئے اور میں ہائی کورٹ میں اپنے کاغذات کے ساتھ درخواست جمع کروائی۔پھر ایک دن مجھے انٹرویو کال ہوئی میں انٹرویو دنے گیا تو اس وقت رانا بھگوان داس انٹرویو لے رہے تھے میری قابلیت کی چمک کو دیکھتے ہوئے رانا بھگوان داس نے مجھے باہر جانے کو کہا اور دوبارہ کورٹ میں بلا کر کہا کہ congragulations you are appointed for junior clerk at sindh high court اور آپ کا جوائننگ لیٹر آپ کو بھیج دیا جائے گا یہ سن کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک خواب دیکھ رہا ہو اور لیکن مجھے یقیں نہیں آرہا تھا ۔آخر اس دن احساس ہو ا کہ خد ا نے ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ہمارے لیے سوچا ہوا ہوتا ہے ۔ہائی کورٹ میں بھرتی یہ میرے اکیلے کی جیت نہیں تھی بلکہ میری پوری فیملی کے لیے جیت تھی۔اور اس دن میں نے سیکھا کہ انسان کو اپنے مستقبل کے لیے جستجو کرتے رہنا چاہیے نہ جانے کب اور کہاں اس کی یہ محنت رنگ لے آئے ۔ 
گھر کے مالی حلات خستہ ہونے کے باوجود وکالت کی ڈگری کیسے حاصل کی ؟
ہائی کورٹ میں ملازمت کے بعد گھر کا بوجھ میرے کندھوں پر اچکاتھا۔لیکن میری زوجہ کو معلوم تھا کے مجھے وکالت کا شوق ہے پھر میری زوجہ نے کہا کہ آ ب آپ کو وکلت کرلینی چاہیے کئی سالوں سے آپ کی تمنا ہے کہ آپ بھی دکالت کریں ۔ میں نے اپنی زوجہ کے کہنے پر وکالت میں داخلہ لیا لیکن دو سال وکالت پڑھنے کے بعد میری والدہ بھی انتقال کرگئی اب اور مزید زمیداریاں میرے سر پر آگئی تھی دو سال کے بعد جب میں نے دوبارہ تیسرا سال وکلت کا پورا کرنا چاہا تو کالج والوں نے کہا کے دو سال کے وقفے کے بعد آپ کو اب دوبارہ وکلت کرنی ہو گی کیونکہ یہ ہماری پالیسی ہے لیکں میں نے ہمت نہیں ہاری اور دوبارہ پھر سے تیں سال کی وکالت کی اور اس بار میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ۔ 
موجودہ وقت میں آپ کیا کررہے ہیں ؟
میں ابھی کورٹ میں ریڈر ہو اور کورٹ کے اندرونی معملات کو چلاتا ہوں اور قوم کے لوگوں کی خدمت کرتا ہون اور سچی لگن سے اپنی زمیداری ادا کرتاہوں اور اگر خدا نے ہمت دی تو ریٹائرمیٹ کے بعد وکالت کی بھی پریکٹس کروں گا 
پاکستان کے نوجوانو ں کے لیے پیغام 
نوجوانوں کو اپنی شخصیت پانی جیسی بنا نی چاہیے جو کہ اپنا راستہ خود بناتا ہے نہ کہ پتھر کی طرح جو کہ آتے ہوئے پانی کو بھی روک دیتا ہے ہمیں خود میں ایسی قابلییت رکھنی چاہیے کہ ہم اپنا راستہ خود بنائین اور اپنی اندرونی صلاحیتوں کو جاننا چاہیے کہ ہم میں کیا خوبی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے ۔

Tuesday, 6 March 2018

Dheeraj Kumar Feature Urdu BSIII

This is not reporting based, which is esential for a feature. 
No new aspect, angle info is there.
There was Sindh govt's plan for conservation of this fort and shift population. what abt that.? that is more important

(دھیرج کمار بی ، ایس پارٹ 3 رول نمبر 2k16-mc-27)
حیدرآباد پکا قلعہ کی حالت زار 
ہر علاقہ اپنی ثقا فت ، ورثاء اور سوغات کے باعث دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتا ہے ۔اور ان ورثاء کے باعث دنیا میں جانا اور ماننا جاتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر اور دوسرے ممالک میں حیدرآباد پکا قلعہ کو مقبولیت حاصل ہے ۔ اور حیدرآباد میں آنے والے سیاحوں کے لیے حیدرآباد پکا قلعہ بھی ایک دلکش عمارت کی اہمیت رکھتا ہے ۔ شاہی بازار جو کہ پکا قلعہ کے نام سے موسوم ہے سندھ کے کلہوڑون حکمران حاجی غلام شاہ نے گنجو ٹکر کی پہاڑی پر ۸۶۷۱ میں اس وقت تعمیر کرایا جب حیدرآباد کو دارالحکومت بنایا اور اس مقصد کے لیے اس نے یہان کچھ عمارات بھی تعمیر کرائیں۔ سندھ پر ٹالپر حکمران کے دوران ۹۸۷۱ میں میر فتع علی خان خدا آباد کو چھوڑ کر حیدرآباد منتقل ہوئے اور اس قلعہ کو اپنا مسکن بنا یا اور یہنا ن عدالت لگا ئی ۔ قلعہ تقریبا ۸۳.۲۱ ایکڑ پر مشتمل ہے اس کی دیوارین نہایت پکی اینٹون سے بنائی گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے آج اس عمارت کو پکا قلعہ کے نام سے جاننا جاتا ہے ۔ اس عمارت کے چوٹی پر خوبصورت کنگر ے بنے ہوئے ہین قلعے کا ایک ہی داخلی دروازہ ہے جو شمال کی جانب شاہی بازار کے سامنے کھلتا ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں یہان آباد ہوئے اور قلعہ ایک شہر بن گیا ۔ ۷۴۹۱ میں تقسیم ہند کے بعد مہا جریں کی بڑی تعداد میں آ مد کے باعث حکام نے قلعے کو عارضی کیمپ میں تبدیل کردیا ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ عارضی کیمپ ایک بے ہنگم صورت اختیار کر گیا لوگون کی جانب سے قلعے پر قبضے اور غیر قانونی تعمرات بھی قلعے سے جڑے مسائل میں سے ایک ہے
۔ 
لیکں تاحال قلعہ میں لوگ اب تک رہائش پذیر ہیں جب کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے پکے قلعے کو حسا س قرار دیا گیا ہے سندھ بلڈنگ کنٹرول کے نوٹیفکشن جاری ہونے کے باوجود عوام اس میں تاحال رہائش پذیر ہے لیکن حکومت کی غفلت اور متلقہ افسران کی چشم پوشی کے باعث کبھی بھی کوئی سانحہ پییش آسکتا ہے بلکہ حا لیہ ۵۰۱۲ میں قلعہ کے زیر دکانوں میں قلعے کی دیوارین بھی گر چکی ہے لیکن خدا کے رحم سے کوئی جانی نقصان پیش نہ آیا لیکن حکومت سندھ کی بے بسی کے باعث کئی معصوم جاننیں موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے پکا قلعہ کو قدیمی عمارت قرار دیتے ہوئے اس میں رہنے والے رہائشیون کے لیے یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ اس عمارت سے رہائش ختم کی جائے تاکہ اس قدیم عمارت کی اہمیت کو برقرار رکھا جائے مگر تاحال سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور آثار قدیمہ کی جانب سے کوئی عملی کاروائی نظر نہیں آتی اور پکہ قلعہ کی عمارت مزید حستہ حالی کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے اور
ایک کھنڈر عمارت میں تبدیل ہوتی جارہی ہے 

جبکہ علاقہ مکینون کو کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہم نے اپنی نئی زندگیون کا آغاز اسی قلعے سے کیا اور ہمارے آباو اجدد نے اپنی نئی زندگی کی شروعات یہین سے کی اس قلعے مین ہماری بہت سی یادیں جڑی ہیں جو کہ ہمارے دلون میں بہت پختہ ہو چکی ہے یہان سے متبادل جگہ جانا ہمارے لیے بہت کٹھن اور نا ممکن کام ہے ۔ جبکہ کئی رہائشییون کا حکومت سے برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جو کہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کے ہم سند ھ کی تاریخ کو قائم رکھنے کے لیے منتقل ہو نے کو بھی تیار ہیں مگر حکومت اس کے تبادلے میں بہت کم اراضی میں جگہ فراہم کررہی ہے اور ہمیں غیر تعمر پلاٹ فراہم کیے جارہے ہیں جہاں اس مہنگائی کے دور میں دو وقت کی روٹی کھانا عوام کے لیے مشکل ہو وہاں ایک نئے گھر کی تعمر کر نا ایک مصیبت کے پہاڑ کے مانند ہے ۔ 
اس قدیم ورثے کا تحفظ اور فوری بحالی سندھ کی قدیم اور تاریخی شناخت قائم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے قلعے کو اس کی اصلی حالت میں محفوظ کرنا ہی اس کی اصلی بحالی ہوگی اور اس ضمن میں اس اسباب کو مد نظر رکھنا بے حد ضروری ہے جو اس قلعے کی تباہی کا سبب بنے جن مین ماحولیاتی تبدلیان ، برساتی پانی کا جمع ہونا ، نکاسی آب کا فقداں جنگلی پودوں کی افزاہش ، خاص طور پر انسانی مجرمانہ غفلت قابل زکر ہیں ۔ 
قلعے کے نیچے کئی دکانین موجود ہیں جن میں بھاری مشینون کا کام کیا جاتا ہے جس کی دھمک سے قلعے کے وجود پر خاصہ اثر پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ قلعے کی دیواریں اپنا وجود چھوڑتی جارہی ہے جس کے نقصانات نا صرف قلعے کے وجود کو ہیں بلکہ اس میں رہنے والی عوام کو بھی بہت سے نقصانات درپییش ہیں ۔ قلعہ کی دیواریں اور قلعے کے قدیم دروازے اپنی مرمت کو پکار رہے ہیں لیکن متعلقہ اداروں اور حکومت سندھ کی کانون تک جون نہیں رینگتی جو قلعہ حیدرآباد کی شان ہو ا کرتا تھا آج وہ اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے ۔ قلعے کے اندر جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اس چیز کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سندھ کی ان قدیمی عمارتون کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے ان ہی عمارتون کے باعث حیدرآباد شہر کی شناخت ہے جو کہ اب ویرانی کا شکار ہیں پکا قلعہ اب ایک خوف ناک منظر پیش کرتا ہے قلعے میں جلسون کے لیے اور اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے پارکون کا تعمراتی کام تو کیا جاتا ہے مگر سندھ کی پہچان جو تاریخ میں بیان کی جاتی ہے وہ صفہ ہستی سے مٹتی چلی جارہی ہے۔ یہ وہی سندھ کی دھرتی ہے جو کہ دیکھنے میں بہت دلکش اور خوشگوار
نظر آتی تھی 

آج سندھ کی دھرتی اپنی ثقافت اور ورثاء سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے 
آخر کون سندھ کی عظیم الشان تاریخی عمارتون کو محفوظ کرے گا ؟ 
کب ان متعلقہ ادارون اور افسران کو اپنی زمیداری کا احساس ہوگا؟ 
کہ سندھ کی تاریخ کو محفوظ کرنا ان کی زمیداری ہے آخر کون اس سوتی ہوئی قوم کو جگائے گا کہ سندھ کی قدیم عمارتین بلند صداؤن سے پکار رہی ہیں کہ ہے کوئی اس سر زمین کا وارث جو اس کے وجود کو قائم رکھے ۔ 

Friday, 16 February 2018

Dheeraj Kumar BS article



Write u name in the language in which u are writing. Subject line, file name are wrong. wait for detailed feedback 
سندھ میں پانی کے مسائل
پانی انسانی حیات کی بنیادی ضرورت ہے ہر واحد فرد کو اس زمین پر زندہ رہنے کیلئے 20سے 50لیٹر پانی کی ضرورت ہے جس میں پینے اور کھانے پکانے کی دیگر ضروریات شامل ہیں پانی کے آلودہ ہونے کے باعث انسانی حیات میں کئی مرض جنم لیتے ہیں جس کے باعث 1.8ملین لوگ ہر سال اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں 10ملین لوگ پانی کے باعث خطرناک بیماریوں سے جدو جہد کر رہے ہوتے ہیں یونائٹیڈ نینشن ک مطابق صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اسی سے انسانی صحت تبدیلیاں آتی ہیں۔
پانی کی آلودگی کے باعث معاشرے کے لوگ مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں آتے جارہے ہیں اور معاشرہ اقتصادی طور پر اور معاشی طور پر کمزور پڑتا جارہا ہے یہ حالات کسی دوسرے ملک کے نہیں بلکہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں رہنے والی عوام کیلئے گھمبیر مسئلہ بنتے چلے جارہا ہے بدقسمتی سے صوبہ سندھ میں رہنے والی عوام بھی ان سب پریشانیوں میں مبتلا ہے اور گذشتہ کئی سالوں سے سندھ میں پانی کی صورتحال دن بدن ابتر ہوتی چلی جارہی ہے حالیہ پاکستان کونسل ریسرچ کے مطابق سندھ بھر میں سے چار سو ساٹھ زمینی پانی کے نمونے تحقیق کئے گئے جس سے انکشاف ہوا ہے کہ سندھ بھر میں 80%پانی ناقابل استعمال ہے 
جکبہ 75%سے 80%پانی کی آلودگی تجاوز کر گئی ہے اور یہ پانی کے نمونے مختلف اسپتالوں ،اسکولوں اور دفاتر سے طلب کئے گئے جس سے معلوم ہو اہے کہ سندھ کا موجودہ پانی انسانی حیات کیلئے ناقابل استعمال ہے سندھ بھر میں نو عمر بچے پانی کے باعث بیماریوں کاشکار ہوتے ہیں جس میں ٹائفائیڈ ، پولیو اور دیگر خطرناک بیماریاں شامل ہیں یہ کمسن بچے ہر سال ان بیماریوں کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
لیکن یہ سب مسائل جنم کیوں لیتے ہیں ؟ اس کا جواب نہ حکمرانوں کے پاس ہے نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس کیونکہ متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی پانی کو آلودہ کرنے میں پیش پیش ہیں حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں بسنے والی عوام کو ان کی بنیادی سہولتیں فراہم کرے لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے بے بسی کاشکار ہیں اور اپنی زمہ داری سے غافل ہیں جس کی جیتی جاگتی زندہ مثال SIDAکی ہے یہ ادارہ سندھ میں رہنے والی عوام کیلئے پانی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا لیکن بلاآخر اس کی بھی ناکامی کی قلعی کھل گئی حکومت اور متعلقہ اداروں کی چشم پوشی کے باعث شہری ٹینکر ز اور نجی کمپنیوں کا پانی استعمال کرتے ہیں جب کہ حیدرآباد اور کراچی کے بیشتر علاقوں میں پانی کی فراہمی معطل ہے اور جن علاقوں میں پانی فراہمی موجود ہے وہ بھی بیماریوں سے بھر پور ہے غریب عوام مہنگائی کے دور میں اتنے مہنگے ٹینکرز اور پانی کابھاری خرچہ برداشت کرنے سے قاصر ہے جس کے باعث وہ واسا کا مہیا کردہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے جب کہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھی پانی کے حوالے سے کافی اقدامات پر نوٹس لیا لیکن ان کے اس عمل سے ٹینکرز مافیہ اور نجی پرائیویٹ کمپنیوں کا تو خاتمہ ہوا لیکن پانی میں کسی قسم کی بہتری نہیں آئی اور پانی کی آلودگی کا مسئلہ جوں کا توں کھڑا ہے کراچی حیدرآبا د جیسے بڑے شہروں میں بیشتر علاقوں میں پانی کی فراہمی موجود ہے لیکن کئی علاقے اس حق سے بھی محروم ہیں اور مہیا کردہ پانی کسی آفت سے کم نہیں ساری سندھ کی عوام مضرِ صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے حکمران ساٹھ ساٹھ لاکھ کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور خود کے بچوں کو باہر ممالک میں پڑھاتے ہیں لیکن غریب عوام کیلئے تو پینے کیلئے بہتر پانی بھی میسر نہیں 2300پانی کی اسکیمیوں کا آغاز کیا گیا تھاجس کیلئے 4.59ملین کی لاگت مہیا کی گئی تھی لیکن چوروں اور ڈاکوں کیلئے یہ رقم بھی کم پڑ گئی 2300میں سے 539اسکیمین ناکام ہو گئی عوام کا مرنا جینا سندھ میں ہے لیکن متعلقہ ادارے اور حکومت سندھ سے کوئی پوچھنے والا نہیں یہ غریب عوام کب تک اس چکی میں پستی رہے گی۔