حسیب دیسوالی
بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر ۵۵
ٖٖٖحیدرآباد کی عوام پر شاپنگ مالز کے اثرات:
گزشتہ چند سالوں میں اگر دیکھا جائے تو شہرِ حیدرآباد میں کء تبدیلیاں نمودار ہوئی ہیں. جن کی وجہ سے عوام پر مثبت اور منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملے. اسی بھاگ دوڑ میں حیدرآباد میں کء نئے مالز اور مارٹ بھی شامل ہوئے. جو کہ عوام کی توجہ کا خاصہ مرکز بنے ہوئے نظر آرہیں ہیں.
کچھ عرصہ قبل ہی ہر انسان اپنی چھوٹی بڑی ضروریات کے لئے بازار کا رخ کرتا تھا. لیکن جیسے جیسے مالز کی تعداد بڑھ رہی ہیں. ویسے ویسے بازاروں پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہوئے نظر آرہیں ہیں. کیونکہ ان بڑے مالز میں ہر قسم کی اشیاء ایک ہی جگہ موجود ہیں. جن میں پَرچْون کا سامان، کپڑے، برتن، بچوں کے کھلونے، گوشت، پھل، ریسٹورینٹ، نیز ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہیں. جس کی وجہ سے وقت کی بچت بھی ہوجاتی ہے.
حیدرآباد میں اس وقت بولیوارڈ مال، میگنم مال، نسیم شاپنگ مال، شیلٹر شاپنگ مال موجود ہیں اور کء نئے شاپنگ مالز زیرِ تکمیل کے مرحلے پر ہیں. ان بڑھتی ہوئی مالز کی تعداد سے آندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ عوام پر خاصہ شوپنگ مالز کے اثرات پڑھ رہے ہیں اور خواتین پر اس کے اثرات زیادہ پڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں. کیونکہ یہ بات واضح ہیکہ مرد حظرات کے مقابل خواتیں کو شوپنگ کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے.
اگر دیکھا جائے تو عام بازاروں اور شوپنگ مالز کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے. جو چیز عام بازاروں میں چند روپوں میں مل رہی ہے وہی چیز اس کی تیس فیصد سے چالیس فیصد بڑھ کر مالز میں فروخت کی جارہی ہے. لیکن پھر بھی آرام و سکون کے خاطر اور چند سہولیات کی وجہ سے عوام مالز کا رخ کرتی ہے اور بعض لوگ تو دکھاوے کے لیے بھی زیادہ پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جب واپس گھر آکر اپنی جیب دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے.
شاپنگ مالز کے بارے میں نورالعین نامی گھریلو خاتون کا کہنا ہے کہ وہ مالز میں شاپنگ کے لیے اس وجہ سے رخ کرتی ہیں کہ انہیں ایئرکنڈیشنر اور ونڈو شاپنگ کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے اور وہ اس کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی بچت کرپاتی ہیں. جبکہ اس کے منفی اثرات ان کے شوہر کی جیب پڑھ جاتے ہیں یہی وجہ ہی کہ مالز کا نام سنتے ہی اکثر مرد حضرات پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں.
جب میں نے بولیوارڈ شاپنگ مال میں شاپنگ کرتی ہوئی زائرہ نامی لڑکی سے دریافت کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بازاروں سے مالز میں چیزیں مہنگی ملنے کے باوجود آپ مالز سے شاپنگ کرنے کو بازاروں سے زیادہ ترجیح دیتی ہیں. تو ان کا کہنا تھا کہ سجنا، سنورنا اور سنگھار کرنا خواتین کے لیے ایک ایسا موضوع ہے۔ جس سے ان کی دلچسپی کسی بھی وقت اور کسی بھی عمر میں کم نہیں ہوتی اور اگر بات کی جائے شاپنگ کی تو یہ جتنی اچھی اور آمدہ جگہ سے کی جائے اتنا ہی اس میں لطف بڑھ جاتا ہے. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان مالز کی سب سے زیادہ خاص بات یہ ہے کہ آپ اپنی پوری فیملی کے ساتھ یہاں شاپنگ کے لیے آسکتے ہیں اور نہ ہی صرف شاپنگ کے لیے بلکے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی یہ ایک اچھی جگہ ہے. ان مالز میں ہر عمر کے ہر طبقے کے افراد کی ضروریاتِ زندگی اور اشیاء دستیاب ہیں.
صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات پر بھی مالز کا خاصہ اثر پڑا ہے. ان کے بقول مالز بننے سے پہلے انھیں شاپنگ کے لیے گھروالوں کے ساتھ بازار جانا پڑھتا تھا اور بازاروں میں پارکنگ کا درست بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑھتا تھا. ایک طرف بازار کی گرمی اور دوسری طرف گھچ پچ اور بھیڑ کی وجہ سے وہ حالتِ زار کا شکار ہو جاتے تھے اور اگر بارش ہوجائے تو یہی بازار تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں. انہی وجوہات اور دشواریوں سے بچنے کے لیے وہ مالز کا رخ کرتے ہیں. کیونکہ مالز میں ہر قسم کی سہولیات موجود ہوتی ہیں.
لیکن مالز کھلنے کے بعد سب سے ذیادہ جن لوگوں پر منفی اثرات پائے گئے وہ بازاروں میں موجود دکانوں کے مالکان اور کاروباری افراد پر ہیں. اس معاملے پر ریشم بازار میں موجود اظہر چھیپا نامی دوکاندار کا کہنا ہے کہ مالز کھلنے کے بعد ان کے کاروبار پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔ صرف ان پر ہی نہیں بلکہ اس بات سے ریشم بازار میں موجود ہر کاروباری شخص اعتراف کرے گا. کہ مالز کھلنے کے بعد ان کے کاروبار میں بیس فیصد سے تیس فیصد کمی کی طرف رجحان گیا ہے. ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس موجود چیزوں کے نسبت کر مالز میں اچھی کوالٹی کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ذیادہ قیمت ہونے کے باوجود بھی ہر شخص مالز کی طرف متوجہ ہوکر کھینچا چلا جاتا ہے.
بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر ۵۵
ٖٖٖحیدرآباد کی عوام پر شاپنگ مالز کے اثرات:
گزشتہ چند سالوں میں اگر دیکھا جائے تو شہرِ حیدرآباد میں کء تبدیلیاں نمودار ہوئی ہیں. جن کی وجہ سے عوام پر مثبت اور منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملے. اسی بھاگ دوڑ میں حیدرآباد میں کء نئے مالز اور مارٹ بھی شامل ہوئے. جو کہ عوام کی توجہ کا خاصہ مرکز بنے ہوئے نظر آرہیں ہیں.
کچھ عرصہ قبل ہی ہر انسان اپنی چھوٹی بڑی ضروریات کے لئے بازار کا رخ کرتا تھا. لیکن جیسے جیسے مالز کی تعداد بڑھ رہی ہیں. ویسے ویسے بازاروں پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہوئے نظر آرہیں ہیں. کیونکہ ان بڑے مالز میں ہر قسم کی اشیاء ایک ہی جگہ موجود ہیں. جن میں پَرچْون کا سامان، کپڑے، برتن، بچوں کے کھلونے، گوشت، پھل، ریسٹورینٹ، نیز ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہیں. جس کی وجہ سے وقت کی بچت بھی ہوجاتی ہے.
حیدرآباد میں اس وقت بولیوارڈ مال، میگنم مال، نسیم شاپنگ مال، شیلٹر شاپنگ مال موجود ہیں اور کء نئے شاپنگ مالز زیرِ تکمیل کے مرحلے پر ہیں. ان بڑھتی ہوئی مالز کی تعداد سے آندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ عوام پر خاصہ شوپنگ مالز کے اثرات پڑھ رہے ہیں اور خواتین پر اس کے اثرات زیادہ پڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں. کیونکہ یہ بات واضح ہیکہ مرد حظرات کے مقابل خواتیں کو شوپنگ کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے.
اگر دیکھا جائے تو عام بازاروں اور شوپنگ مالز کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے. جو چیز عام بازاروں میں چند روپوں میں مل رہی ہے وہی چیز اس کی تیس فیصد سے چالیس فیصد بڑھ کر مالز میں فروخت کی جارہی ہے. لیکن پھر بھی آرام و سکون کے خاطر اور چند سہولیات کی وجہ سے عوام مالز کا رخ کرتی ہے اور بعض لوگ تو دکھاوے کے لیے بھی زیادہ پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جب واپس گھر آکر اپنی جیب دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے.
شاپنگ مالز کے بارے میں نورالعین نامی گھریلو خاتون کا کہنا ہے کہ وہ مالز میں شاپنگ کے لیے اس وجہ سے رخ کرتی ہیں کہ انہیں ایئرکنڈیشنر اور ونڈو شاپنگ کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے اور وہ اس کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی بچت کرپاتی ہیں. جبکہ اس کے منفی اثرات ان کے شوہر کی جیب پڑھ جاتے ہیں یہی وجہ ہی کہ مالز کا نام سنتے ہی اکثر مرد حضرات پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں.
جب میں نے بولیوارڈ شاپنگ مال میں شاپنگ کرتی ہوئی زائرہ نامی لڑکی سے دریافت کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بازاروں سے مالز میں چیزیں مہنگی ملنے کے باوجود آپ مالز سے شاپنگ کرنے کو بازاروں سے زیادہ ترجیح دیتی ہیں. تو ان کا کہنا تھا کہ سجنا، سنورنا اور سنگھار کرنا خواتین کے لیے ایک ایسا موضوع ہے۔ جس سے ان کی دلچسپی کسی بھی وقت اور کسی بھی عمر میں کم نہیں ہوتی اور اگر بات کی جائے شاپنگ کی تو یہ جتنی اچھی اور آمدہ جگہ سے کی جائے اتنا ہی اس میں لطف بڑھ جاتا ہے. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان مالز کی سب سے زیادہ خاص بات یہ ہے کہ آپ اپنی پوری فیملی کے ساتھ یہاں شاپنگ کے لیے آسکتے ہیں اور نہ ہی صرف شاپنگ کے لیے بلکے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی یہ ایک اچھی جگہ ہے. ان مالز میں ہر عمر کے ہر طبقے کے افراد کی ضروریاتِ زندگی اور اشیاء دستیاب ہیں.
صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات پر بھی مالز کا خاصہ اثر پڑا ہے. ان کے بقول مالز بننے سے پہلے انھیں شاپنگ کے لیے گھروالوں کے ساتھ بازار جانا پڑھتا تھا اور بازاروں میں پارکنگ کا درست بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑھتا تھا. ایک طرف بازار کی گرمی اور دوسری طرف گھچ پچ اور بھیڑ کی وجہ سے وہ حالتِ زار کا شکار ہو جاتے تھے اور اگر بارش ہوجائے تو یہی بازار تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں. انہی وجوہات اور دشواریوں سے بچنے کے لیے وہ مالز کا رخ کرتے ہیں. کیونکہ مالز میں ہر قسم کی سہولیات موجود ہوتی ہیں.
لیکن مالز کھلنے کے بعد سب سے ذیادہ جن لوگوں پر منفی اثرات پائے گئے وہ بازاروں میں موجود دکانوں کے مالکان اور کاروباری افراد پر ہیں. اس معاملے پر ریشم بازار میں موجود اظہر چھیپا نامی دوکاندار کا کہنا ہے کہ مالز کھلنے کے بعد ان کے کاروبار پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔ صرف ان پر ہی نہیں بلکہ اس بات سے ریشم بازار میں موجود ہر کاروباری شخص اعتراف کرے گا. کہ مالز کھلنے کے بعد ان کے کاروبار میں بیس فیصد سے تیس فیصد کمی کی طرف رجحان گیا ہے. ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس موجود چیزوں کے نسبت کر مالز میں اچھی کوالٹی کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ذیادہ قیمت ہونے کے باوجود بھی ہر شخص مالز کی طرف متوجہ ہوکر کھینچا چلا جاتا ہے.
No comments:
Post a Comment