Showing posts with label Haseeb. Show all posts
Showing posts with label Haseeb. Show all posts

Tuesday, 10 April 2018

Haseeb Interview BS


حسیب دیسوالی
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر: 55
انٹرویو: محنتِ شعاری کی جیتی جاگتی فقیدالمثال شخصیت: 

پروفیسر ڈاکٹر مرزا امام علی بیگ۔
تعارف: پاکستان بننے کے ٹھیک تیرہ سال بعد اسی دن پیدہ ہونے والی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر مرزا امام علی بیگ کا تعلق حیدرآباد کے چھوٹے سے علاقے ٹنڈو میر محمد سے ہے۔ ایک پولیس کانسٹیبل کا بیٹا ہونے کے باوجود محنت کر کے خود کو اس قابل بنایا کے آج حیدرآباد ریجنل ڈائریکٹر آف کالیجز کے عہدہ پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ حافظ اسکول سے کیا۔ البتہ انھوں نے گیارویں جماعت گورنمنٹ سچل کالج سے پڑھی اور انٹر گورنمنٹ سٹی کالج سے مکمل کیا۔ بی اے اور ایم اے بھی وہیں سے کیا۔ اس کے بعدجامعہ سندھ یونیورسٹی میں ایم فل کے لئے داخلہ لیا اور پھر پی ایچ ڈی بھی وہیں سے کی۔
سوال نمبر:۱ سَر آپ کی ملازمت کا سفر کہاں سے شروع ہوا؟
جواب:۱۹۷۷ء4 میں گھریلو حالات کی وجہ سے مجھے میٹرک کے امتحان کے فوراً بعد ہی ملازمت شروع کرنی پڑھی۔ ایک سال میں نے سینٹرل جیل میں کلرک کے عہدے پر نوکری کی۔ اس کے بعد مجھیجامعہ سندھ یونیورسٹی میں سنددولوجی ڈیپارٹمنٹ میں خوش نویسی کی نوکری ملی۔ وہاں ساڑھے پانچ سال خدمات انجام دینے کے بعد میں نے ریڈیو پاکستان میں بھی پانچ سال کام کیا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔
سوال نمبرؔ ۲ سَر کیا آپ نے کبھی یہ سوچھا تھا کہ آپ ریجنل ڈائریکٹر آف کالیجز یا ایسا کوئی دیگر جلیلہ کا اعزاز حاصل کر یں گے؟
جواب: جی ہاں میں نے آپ کو شروع میں بتایا تھا کہ مجھے بچپن ہی سے آفیسر بننے کا بہت شوق تھا۔ اور اسی شوق نے مجھے مشکلات کے آگے بھی جھکنے نہ دیا۔ جس کی وجہ سے ۱۹۹۱ء4 میں پبلک سروس کمیشن ٹیسٹ کلئیر کرنے کے بعد بطور لیکچرر گورنمنٹ کامرس کالج میں داخل ہوا۔ اس کے بعد میں نے ۲۰۰۳ء4 میں دوبارہ پبلک سروس کمیشن ٹیسٹ کلئیر کرکے انسویں گریڈ کے آفیسر کا عہدہ حاصل کیا۔ پھر۲۰۰۹ء4 میں خدا نے مجھے حیدرآباد ریجنل ڈائریکٹر آف کالیجز کے عہدہ کی حرمت سے نوازہ۔ ایک سال یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد میں ۲۰۱۰ء4 سے مسلم کالج کاپرنسپل بن گیا۔ لیکن میں نے اپنی محنت اور کاویش پھر بھی نہ چھوڑی اور ایک بار پھر ۲۰۱۶ء4 سے مجھے حیدرآباد ریجنل ڈائریکٹر آف کالیجز کے عہدہ جلیلہ کو سنبھالنے کا موقع ملا۔ اور خدا کے شکر سے ابھی تک سنبھال رہا ہوں۔
سوال نمبر : ۳ ایک ریجنل ڈائریکٹر جیسے عہدے کو سنبھالنا کتنی بڑی ذمہ داری ہے؟
جواب: بے شک یہ عہدہ 'عہدہِ جلیلہ' ہے۔ اور اس عہدے کو سنبھالنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس میں ایک انسان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ایک ریجنل ڈائریکٹر ہونے کی حیثیت سے میرے ہاتھ میں اس وقت نو ڈسٹرکٹ میں موجود ۵۷ کالیجز ہیں۔ ان کالیجز کی تمام تر ذما داری میرے ذمے ہے۔ وہاں کیسی تعلیم دی جا رہی ہے، اساتذہ کتنی توجہ دے رہے ہیں، پابندی سے کالج آتے ہیں کے نہیں، وغیرہ جیسے بہت سے سوالوں کا میں جواب دہ ہوں۔
سوال نمبر:۴ سَر جب آپ نے ریجنل ڈائریکٹر آف کالیجز کا عہدہ سنبھالا تواس وقت آپ کے نزدیک کالیجز کے بگاڑ کا سب سے بڑا سبب کیا تھا؟
جواب: جب میں نے ۲۰۱۶4 میں دوبارہ یہ عہدہ سنبھالا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے گورنمنٹ کے بہت سے معمولی کالیجز بچوں کو پڑھانے کے لئے گورنمنٹ سے اچھی خاصی تنخواہ حاصل کرنے کیباوجود چند ہزاروں کے پیچھے اپنی ڈیوٹی ٹائم پر پرائیویٹ کالیجز میں پڑھاتے تھے، جن کی وجہ سے گورنمنٹ کالیجز کے طلبہ کو پڑھانے والا کوئی موجود نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایک سنگین اور بڑا مسئلہ تھا۔
سوال نمبر:۵ سَر تو پھر آپ نے اس سنگین مسئلے کو کس طرح حل کیا؟
جواب: جب میں اس صورتِ حال سے واقف ہوا تو فوری طور پر گورنمنٹ کالیجز میں بائیو میٹرک سسٹم کا آغاز کرنا چاہا جسے ہائی کورٹ نے بھی پسند کیا اور اس پر فوری عمل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے میں قافی حد تک بدلاؤ لاچکا ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے تمام کالیجز میں ماہانہ ٹیسٹ سسٹم بھی شروع کیا جس سے طالبِ علم دل لگا کر تعلیم حاصل کر سکیں۔
سوال نمبر: ۶ سَر آپ کے حساب سے گاؤں کے طلبہ زیادہ دل لگا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں یا شہر کے؟
جواب: اگر گورنمنٹ گاؤں کے یا ملک کے اندرونی حصوں میں جو کالیجز موجود ہیں وہاں ٹھوڑی سہولیات فراہم کرے تو مجھے لگتا ہے کے وہاں سے زیادہ ٹیلنٹ سامنے آسکتا ہے۔
سوال نمبر: ۷ سَر آپ کے کرئیر میں کبھی آپ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب: میرے نزدیک مایوسی ایک فریب ہے، جرم ہے جسے انسان خود سے کرتا ہے۔ مایوسی انسان کو تباہ وبرباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ مجھے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات درپیش آئیں لیکن میں نے روبرو ہوکر ان مشکلات کا سامنا کیا۔
اور اسی کے ساتھ میں نے پروفیسر ڈاکٹر مرزا امام علی بیگ سے اجازت مانگی۔

Sunday, 18 March 2018

Haseeb Deswal Profile


حسیب دیسوالی
بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر: ۵۵
پروفائل:            محمد عالم خاصخیلی

اگر کسی متنفس کے دل میں تعلیم حاصل کرنے کی جستعجو پیدا ہوجائے تو اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کی راہِ راست میں کتنی پریشانیاں یا مشکلات موجود ہیں۔ وہ بس اپنی منزلِ مقصود کی جانب دیکھ کر قدم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اورآخر کارکئی بار گرنے کے باوجود اپنی منزل کو پانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔
 نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
 سو بار جب عقیق کٹا تب نگین ہوا۔
اسی طرح محنت و لگن کی بے مثال تابندہ ستارہ ضلع ٹھٹہ کے چھوٹے سے گوشے جھمپیر کے ایک تنگ دست خاندان میں 1975ئ میں طلوع ہوا۔ محم عالم خاصخیلی کا نام پایا، یہ ابھی چھ ماہ کے ہی ہونے کو تھے کہ انھیں سخت بخار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عالم کی والدہ کے مطابق بخار کی شدد اتنی زیادہ تھی کہ ایک دن بعد ہی ان کے پورے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ عالم کے والد ایک کسان تھے۔ ان کے پاس دو بھینس اور ایک گائے تھی۔ جسے بیچ کر انھوں نے فوری طور پرعالم کا علاج کروانے کے بعد عالم کی طبیعت تو ٹھیک ہوگئی لیکن دونوں ٹانگوں نے ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا۔ 
عالم کے مطابق 1989ئ میں یہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ کوٹری رہنے آگئے جہاں ان کا مزید علاج ہوا اور ڈاکٹر کی کاوشوں کے بعد یہ بیساکھی کے سہارے چلنے کے قابل ہوا۔
عالم خاصخیلی کو تعلیم حاصل کرنے کا بچپن سے ہی شوق تھا اور جب یہ بیساکھی کے سہارے تھوڑا بہت چلنے لگے تو والدین سے ضد کر کے اسکول میں داخلہ لیا۔ والد کی اتنی آمدنی نہ ہونے کے باعث پانچویں جماعت کے بعد آگے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ تو عالم نے گھر کے باہر ہی چیز کی چھوٹی سی دکان لگائی۔ جس سے اسکول کا تھوڑا بہت خرچ نکل جاتا تھا۔ لیکن جب 1992ئ میں میٹرک کے امتحان دئے تو والد کی طبعت خراب ہونے کی وجہ سے آگے پڑھنے کے لئے اور پیسے نہ تھے لیکن عالم نے ہمت پھر بھی نہ ہاری اور ہر مشلکل کا دلیری کے ساتھ روبرو ہوکر مقابلہ کیا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے عالم نے کوٹری میں ایک ٹھیکیدار کے پاس 3 سال اس کے بزنس کا حساب کتاب سنبھالا اور پھر جب اتنے پیسے کرلئے تو ایک بار پھر تعلیم کی طرف بڑھ گیا اور پھر 1995ئ میں کوٹری کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔
لیکن پھر بھی عالم کی قسمت کا سکہ زیادہ وقت نہ چل سکھا اور جب اس نے انٹر پاس کر کے یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہا۔ تو یونیورسٹی کی فیس اور دیگر اخراجات کی وجہ سے ان کے والد نے انکو آگے تعلیم حاصل کرنے کے لیے صاف منع کر دیا اور ایک بار پھر عالم اپنی منزل مقصود سےدور ہو گیا۔ لکین کہتے ہیں کہ ہر رات کا اندھیرا صبح کے اجالے کا شدت سے انتظار کرتا ہے۔ چنانچہ رات جس قدر اندھیری اور طویل ہوتی ہے۔ اس کی صبح اسی قدر اجلی اور رنگین ہوتی ہے۔
آخر کار عالم خاصخیلی کے بھی دن بدلنے کا وقت آگیا اور بینظیر بھٹو یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کی جانب سے کوٹری ڈگری کالج میں ٹیچرز ٹریننگ پروگرام منعقد ہوا جس میں چھ ماہ تک پڑھانے کی ٹریننگ کے ساتھ ہی ساتھ اسکول کو کھولنے اور چلانے کی ٹریننگ دی اور جس طالب علم نے یہ کورس مکمل کیا اسے ٹیسٹ کے بعد 25 ہزار روپے بطور انعام بھی دئے۔ عالم خاصخیلی نے اسی 25 ہزار روپے سےاپنا ایک چھوٹا سا اسکول کھولا جسے دن رات محنت کر کے آج اس مقام پر لاکھڑا کیا کے وہاں 250 سےزائد طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 

Saturday, 3 March 2018

Haseeb Feature Urdu BSIII

OK
حسیب دیسوالی
بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر ۵۵
ٖٖٖحیدرآباد کی عوام پر شاپنگ مالز کے اثرات:
گزشتہ چند سالوں میں اگر دیکھا جائے تو شہرِ حیدرآباد میں کء تبدیلیاں نمودار ہوئی ہیں. جن کی وجہ سے عوام پر مثبت اور منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملے. اسی بھاگ دوڑ میں حیدرآباد میں کء نئے مالز اور مارٹ بھی شامل ہوئے. جو کہ عوام کی توجہ کا خاصہ مرکز بنے ہوئے نظر آرہیں ہیں.
کچھ عرصہ قبل ہی ہر انسان اپنی چھوٹی بڑی ضروریات کے لئے بازار کا رخ کرتا تھا. لیکن جیسے جیسے مالز کی تعداد بڑھ رہی ہیں. ویسے ویسے بازاروں پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہوئے نظر آرہیں ہیں. کیونکہ ان بڑے مالز میں ہر قسم کی اشیاء ایک ہی جگہ موجود ہیں. جن میں پَرچْون کا سامان، کپڑے، برتن، بچوں کے کھلونے، گوشت، پھل، ریسٹورینٹ، نیز ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہیں. جس کی وجہ سے وقت کی بچت بھی ہوجاتی ہے.
حیدرآباد میں اس وقت بولیوارڈ مال، میگنم مال، نسیم شاپنگ مال، شیلٹر شاپنگ مال موجود ہیں اور کء نئے شاپنگ مالز زیرِ تکمیل کے مرحلے پر ہیں. ان بڑھتی ہوئی مالز کی تعداد سے آندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ عوام پر خاصہ شوپنگ مالز کے اثرات پڑھ رہے ہیں اور خواتین پر اس کے اثرات زیادہ پڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں. کیونکہ یہ بات واضح ہیکہ مرد حظرات کے مقابل خواتیں کو شوپنگ کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے.

اگر دیکھا جائے تو عام بازاروں اور شوپنگ مالز کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے. جو چیز عام بازاروں میں چند روپوں میں مل رہی ہے وہی چیز اس کی تیس فیصد سے چالیس فیصد بڑھ کر مالز میں فروخت کی جارہی ہے. لیکن پھر بھی آرام و سکون کے خاطر اور چند سہولیات کی وجہ سے عوام مالز کا رخ کرتی ہے اور بعض لوگ تو دکھاوے کے لیے بھی زیادہ پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جب واپس گھر آکر اپنی جیب دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے.
شاپنگ مالز کے بارے میں نورالعین نامی گھریلو خاتون کا کہنا ہے کہ وہ مالز میں شاپنگ کے لیے اس وجہ سے رخ کرتی ہیں کہ انہیں ایئرکنڈیشنر اور ونڈو شاپنگ کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے اور وہ اس کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی بچت کرپاتی ہیں. جبکہ اس کے منفی اثرات ان کے شوہر کی جیب پڑھ جاتے ہیں یہی وجہ ہی کہ مالز کا نام سنتے ہی اکثر مرد حضرات پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں.
جب میں نے بولیوارڈ شاپنگ مال میں شاپنگ کرتی ہوئی زائرہ نامی لڑکی سے دریافت کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بازاروں سے مالز میں چیزیں مہنگی ملنے کے باوجود آپ مالز سے شاپنگ کرنے کو بازاروں سے زیادہ ترجیح دیتی ہیں. تو ان کا کہنا تھا کہ سجنا، سنورنا اور سنگھار کرنا خواتین کے لیے ایک ایسا موضوع ہے۔ جس سے ان کی دلچسپی کسی بھی وقت اور کسی بھی عمر میں کم نہیں ہوتی اور اگر بات کی جائے شاپنگ کی تو یہ جتنی اچھی اور آمدہ جگہ سے کی جائے اتنا ہی اس میں لطف بڑھ جاتا ہے. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان مالز کی سب سے زیادہ خاص بات یہ ہے کہ آپ اپنی پوری فیملی کے ساتھ یہاں شاپنگ کے لیے آسکتے ہیں اور نہ ہی صرف شاپنگ کے لیے بلکے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی یہ ایک اچھی جگہ ہے. ان مالز میں ہر عمر کے ہر طبقے کے افراد کی ضروریاتِ زندگی اور اشیاء دستیاب ہیں.
صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات پر بھی مالز کا خاصہ اثر پڑا ہے. ان کے بقول مالز بننے سے پہلے انھیں شاپنگ کے لیے گھروالوں کے ساتھ بازار جانا پڑھتا تھا اور بازاروں میں پارکنگ کا درست بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑھتا تھا. ایک طرف بازار کی گرمی اور دوسری طرف گھچ پچ اور بھیڑ کی وجہ سے وہ حالتِ زار کا شکار ہو جاتے تھے اور اگر بارش ہوجائے تو یہی بازار تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں. انہی وجوہات اور دشواریوں سے بچنے کے لیے وہ مالز کا رخ کرتے ہیں. کیونکہ مالز میں ہر قسم کی سہولیات موجود ہوتی ہیں.
لیکن مالز کھلنے کے بعد سب سے ذیادہ جن لوگوں پر منفی اثرات پائے گئے وہ بازاروں میں موجود دکانوں کے مالکان اور کاروباری افراد پر ہیں. اس معاملے پر ریشم بازار میں موجود اظہر چھیپا نامی دوکاندار کا کہنا ہے کہ مالز کھلنے کے بعد ان کے کاروبار پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔ صرف ان پر ہی نہیں بلکہ اس بات سے ریشم بازار میں موجود ہر کاروباری شخص اعتراف کرے گا. کہ مالز کھلنے کے بعد ان کے کاروبار میں بیس فیصد سے تیس فیصد کمی کی طرف رجحان گیا ہے. ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس موجود چیزوں کے نسبت کر مالز میں اچھی کوالٹی کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ذیادہ قیمت ہونے کے باوجود بھی ہر شخص مالز کی طرف متوجہ ہوکر کھینچا چلا جاتا ہے.

Tuesday, 20 February 2018

Haseeb BS Article

Deadline was Feb 13. Sent late i.e. 17-02-18 
First two paragraphs are irrelevant
Reasons are manifold include those


کیا پاکستان میں عورتوں پر مظالم کبھی ختم نہیں ہونگے

حسیب دیسوالی 

14 اگست 1947 علیحدہ وطن دنیا کے نقشہ پر نمودوار ہو اجسکا نام اسلامی جمہوریہ ملک پاکستان رکھا گیا اس علیحدہ وطن کے لیے لاکھوں لوگون نے قربانیاں دیں ۔ اورر اپنی جان و مال کا نظرانہ بھی پیش کیا اس قربانی میں عورتوں کا حصہ بھی خاطر خواہ تھا اور اس کو بنانے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو برابری کے حقوق دینا تھے چاہے وہ امیر ہو یا غریب چاہے وہ مرد ہو یا عورت سب کو برابر کے حقوق اور آزادی مرحمت کرنے کے تھے لیکن جب سے لیکر آج تک انسانیت کی ماں اماں حواہ کی بیٹیاں ظلم و بربت شقاوتِ قلبی ، نفرت، حرص و ہوس اور مردوں کی بالادستی کا شکار بنتی چلی آرہی ہیں کبھی غیرتِ حور کو غیرت کے نام پر ہلاق کردیا جاتا ہے تو کبھی اس بنتِ حواہ کو قرآن سے شادی کی غیر اسلامی اور غیر انسانی رسموں کی قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ تو کبھی سرِ بازار ان کی عزتِ اچھالی جاتی ہیں ۔

عورت اگر ماں ہو تو عظمت ،بیوی ہو تو محبت ،بیٹی ہو تو رحمت اور بہن ہوتو عزت ہوتی ہے گویا عورت ہر رشتے میں عزت وقار اور وفاداری کا پیکر ہے ۔ کسی نے اس عظیم ہستی کے بارے میں کیا خوب کلماتِ طیبات ادا کیے ہیں کہ " عورت نے اپنی ترتیب عناصر کے مطابق اپنے کردار سے مختلف رشتوں کو اپنی بے پایاں شفقت ، محبت ، خلوص اور وفا سے نوازا ہے ۔ بیٹی اور بہن کے رشتوں کو تقدس اور احترام کا مرقع بنایا ۔ بیوی اور ماں کی صورت میں قربانی کے لازوال ابواب رقم کیئے ہیں ۔ دنیا کا حسن اس مرقع حسن و وفا کے بغیر نہ صرف تہی دامن بلکہ بے رنگ و بو ہے ۔لیکن جس صنف کو پیغمبرِ اعظم رح نے "رحمت " قرار دیا ایسی بنتِ حواہ کو پاکستان میں ظلم و بربت ، زیادتی ، تشدد کا شکار بنایا جارہا ہے ۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 2014میں 5ہزار 965 ، 2015میں 6ہزار 476 ، 2016میں 7ہزار 311 اور 2017کے جون کے ماہ تک 3ہزار 406کیسز عورتوں کے ساتھ زیادتی کے درج ہوئے جس میں سے عورتوں کے خلاف جرائم کے مطالعے اور مشاہدے سے یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد سے زائد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر بات کی جائے پاکستان کے صوبوں کے حوالے سے تو پاکستان میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا صوبہ ، صوبہ پنجاب میں ایک سروے کے مطابق گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران 9ہزار قتل اور تشدد کے 2ہزار ،غیرت کے نام پر قتل کے 745 کیسز رپورٹ ہوئے بہ نسبت پنجاب کے دیگر صوبوں میں یہ کیسز کم رپورٹ ہوئے لیکن ہر گز یہ نہ سوچا جائے کے وہاں یہ کیسز نہیں ہوتے ۔ 
سانحہ قصور میں ننھی کلی کے ساتھ پیش آنے والے دررد ناک اور ناقابلِ برداشت واقعہ اپنے ساتھ کئی سوالات چھوڑ گیا جس میں سے اول ، کیا پاکستان میں عورتوں پر مظالم کبھی ختم نہیں ہونگے ؟ آخر عورت کو ہی کیوں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ؟ آخر عورت کی مظلومیت کا فائدہ کیوں اٹھایا جاتا ہے غیر ت کے نام پر ماں ، بیٹی ، بہن ، بیوی کو ہی کیوں قتل کیا جاتا ہے کبھی بھائی ، باپ ، بیٹے ، شوہر کو کیوں نہیں کیا جاتا جبکہ غیرت کے نام پر مرد کا عمل دخل زیادہ ہوا ہے ۔ آخر کیوں حکومت اور ریاست ان مجرموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک نہیں پہنچاتی جس سے دوسری ملک کی بچیوں کے ساتھ یہ سانحہ پیش نہ آئے آخر کیوں حکومتِ اور ریاست نے زینب سے پہلے اس مجرم کو 11مرتبہ جرم کرنے کے بعد سزا تو دور کی بات سرے سے پکڑا ہی نہیں جس کی وجہ سے اس مجرم نے بڑی دلیری سے بارہویں بار بھی یہ گھناؤنی حرکت کی ۔ 
اس کے بعد یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اس سانحہ میں جتنا مجرم شامل ہے اتنی ہی ریاست اور حکومت بھی ہے کیونکہ جرائم دنیا کے ہر ملک اور ہر کونے میں ہوتا ہے لیکن ان کو روکنا اور مجرم کو اس کی حرکت کے مطابق سزا دینا حکومت اور ریاست کا کام ہے اگر مجرم کو بروقت سزا مل جائے تو معاشرے میں سے ایک مجرم کی کمی ہوسکتی ہے ۔ اور یہ ہی ایک آسان نقصہ ہے معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کا بھی اور عورتوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کا بھی اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے پولیس اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن جب پنجاب میں پولیس کے احتجاج کرنے والوں کے خلاف بلکل سیدھی سیدھی فائرنگ کے مناظر سامنے آئے اور کئی انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تو عوام کے دلوں میں پولیس کو لیکر ایک خوف طاری ہوگیا اور قوم کے محافظ نما ہی قوم کے لیے ایک خوف اور ڈر کی علامت بن گئے جس کی وجہ سے پاکستان میں پچاس فیصد سے زیادہ عورتیں ان پر ہونے والے مظالم اور زیادتی کے خلاف آواز تک نہیں اٹھا پاتی اور جرائم پیشہ لوگ خلے عام ایک کے بعد ایک جرم کرتے ہی چلے جاتے ہیں عورتوں پر مظالم ختم کرنے کے لیے ہمارے معاشرے کے ایک ایک فرد کو اٹھنا پڑے گا اور اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا ملک بھر کی ایک ایک سیاسی اور سماجی جماعتوں کو ایک ہوکر دن رات اس پر کام کرنا پڑے گا پھر جاکر کوئی اچھی صورت نکلنے کے امکانات ہیں ۔



حسیب دیسوالی 
2K16-MC-55
BSC Part III
ماس کمیونیکیشن