To be checked
میرا ٹا پک پہلے پروفیسر زاہدآرٹسٹ تھے لیکن سَر سانگی کی اجازت کے بعد میں نے اپنا ٹاپک تبدیل کرلیا ہے۔
تحریر۔ربیعہ مغل
بی ۔ایس۔پارٹ۔۳
رول نمبر۔۲۸
پروفائل۔فاطمہ فیصل:
کہتے ہیں کہ پردیس کی زندگی بڑے آرام اور عیش و عشرت سے بھرپور ہوتی ہے۔لیکن سیّا نوں نے بھی خوب کہا ہے جو عزت اور لّذت اپنے ملک کی ہوتی ہے وہ کوئی اور ملک دے ہی نہیں سکتا۔میں آج ایک ایسی لڑکی کو بیان کرنے جارہی ہوں جس نے پردیس کا بھیانک اور جھوٹ سے بھرپور چہرہ دیکھالیکن اپنے عزم اور
ہمت کے سبب دوسری عورتوں کے لیے مثال بن گئی۔
اِس ظالم دنیا کا فاطمہ ایک زندہ و جاوید کردار ہےفاطمہ صوبہءسندھ کے ایک چھوٹے سے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئیںچار بھائیوں کی اکلوتی بہن اور سارے گھر کی لاڈلی تھیںانہوں نے قریب کے اسکول سے ہی میٹرک کیااور اس کے بعد کالج میں داخلا لیااس کے ساتھ ساتھ مدرسے میں عالمہ کاکو ر س بھی شروع کردیا۔فاطمہ بنیادی طور پر مذہبی تعلیم کی طرف رجحان رکھتی تھیں اس لیے دنیاوی تعلیم کو آگے نہ بڑھایا۔
متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والی فاطمہ نے اپنی زندگی کے اس رُخ کے بارے میں سوچا بھی نہ ہوگافاطمہ کی ایک خالہ لندن سے اپنے بیٹے کے ساتھ آئی ہوئی تھیںانہوں نے فاطمہ کا ہاتھ بیٹے کے لیے مانگا جس پہ ماں باپ نے خوشی سے ہاں کردی فاطمہ کا نکاح ہوگیا ۔اور چند مہینوں میں حسین خواب سجائے فاطمہ اپنے گھر سے لندن کے لیے رُخصت ہوگئیں ۔اُن کے سا سسرال والوں نے والہانہ استقبال کیالیکن سب شروعات کا دکھاوا ثابت ہوا۔کچھ ہی دن میں فاطمہ پر یہ راز ظاہر ہوا کہ ان کا شوہر پہلے سے شادی شدہ ہے اور بے حَد عیاش اور آزاد ذہنیت بھی رکھتا ہے۔فاطمہ نے اس بات پر صبر کرلیا لیکن پھر شوہر نے اُن پر بے جا تشدد کرنا شروع کردیااور ساتھ ھی دھمکیوں سے بھی ڈراتا رہا کہ اگر کسی کو خبر کی تو اِس انجان شہر میں اکیلی رُسوا ہوجا ¶ گی۔لیکن فاطمہ بھی ہمت کا پیکر تھیں انہوں نے ایک پاکستانی جوڑا جو اُن کے پڑوس میںرہتاتھا،سب کچھ بتادیا۔جبب اس کے شوہر کوپتا چلا تو اس نے بہت زیادہ تشدد کرکے فاطمہ کو گھر سے نکال دیا۔
یقیناً فاطمہ کے لیے وہ رات قیامت سے کم نہ تھیلیکن قدرت نے عورت کو ایسی صلاحیت دی ہے کہ وہ ہر طوفان کا مقابلہ اکیلے ہی کرلیتی ہے۔فاطمہ نے آنسو بہانے کے بجائے عملی قدم اٹھایا اور نئے سِرے سے زندگی کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔چونکہ باہر ممالک میں عورت مرد کو طلاق دیتی ہےاس لیے اب فاطمہ بھی طلاق لینے کے لیے پردیس میں محنت کرنے لگیں ۔وکیل کی فیس کے لیے انہوں ںنے کام کی تلاش شروع کی۔بیچارگی کی انتہاءتھی کہ فاطمہ کے پاس اعلی تعلیم کی ڈگری نہ تھی اور نہ ہی زیادہ وسائل تھے۔وقت نے شاید ہمت ہاری لیکن فاطمہ نے نہیں انہیں پورا یقین تھا کہ ا ﷲ ان کی مشکل آسان کردے گااور پھرا نہیںایک پاکستانی مدرسے میں عالمہ کی جاب مل گئی اور ساتھ ہاسٹل میں ایک کمرہ بھی رہنے کو ملا۔حالات اچھے ہوئے تو فاطمہ نے وکیل دیکھ کر اپنا کیس دائر کروایااور پھر ان دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔
فاطمہ کے لیے یہ مرحلہ َسر کرنا معجزہ سے کم نہ تھا لیکن ارادے جن کے پختہ ہوں ،تو قدرت اور قسمت دونوں ہی مہربان ہوجاتی ہیں اور فاطمہ جیسے باصلاحیت اورصبر کرنے والے لوگ پانی کی طرح اپنا راستہ خود بنالیتے ہیں۔
فاطمہ کے گھر والے اُن کی مصیبتوں سے لاعلم تھے اور وہ خود بھی اُن کو پریشان کرنا نہیں چاہتی تھیں۔فاطمہ نے اپنے آپ کو مظبوط کرنے کے لیے وہاں ڈرائیونگ شروع کی اور ساتھ ہی انگلش لینگویج کے سینٹر میں داخلا لیااور انگریزی زبان پر عبور حاصل کرلیا۔آخر کار دو سال کی انتھک محنت کے بعد فاطمہ کے قدم پردیس میں جم گئے لیکن اِس عرصے میں بہت سی تکالیف اٹھانی پڑی مسلمان ہونے کے سبب فاطمہ نے لندن میں نقاب کو ہی ترجیح دی،اِس پر اُن کو کئی بار ہراساں کیا گیااور وہ لوگوں کی بدتمیزی اور نسلی تعصب کا شکار بھی ہوئیں،لیکن انہیں صرف اﷲ سے امید تھی فاطمہ نے بہادری کے ساتھ اِس کا بھی مقابلہ کیا۔
اب تو قدرت بھی فاطمہ کے حوصلے اور ہمت پر اَش اَش کررہی تھی۔فاطمہ کی قسمت ایک بار پھر اُن پہ مہربان ہونا چاہتی تھی لیکن فاطمہ کے دل میں پہلی شادی کی بھیانک تصویر تھی۔لیکن کہتے ہیں نہ نصیب ہر با ر ایک جیسا نہیں ہوتا جب انسان اپنی قسمت بدلنے پر آجائے تو راستے کا ہر پتھر اور ہر چٹان اُس کے جوش و جزبے سے ٹوٹ کر بکھر جا تا ہے۔ایک دن پاکستانی فیملیز کے گیٹ ٹو گیدر میں فاطمہ کی سادگی اور شائستگی فیصل نامی ایک ڈاکٹر کو پسند آگئی وہ ایک اچھے کردار کے حامل شخص تھے۔اور پھر دونوں کی شادی باہمی رضامندی سے ہوگئیآج فاطمہ اپنے شوہر اور دو بیٹیوں کے ساتھ نہایت خوش اور مطمئن زندگی بسر کررہیں ہےںاور اپنی انتھک محنت کامیٹھا پھل کھا رہیں ہیں۔
فاطمہ کی زندگی کسی بھی لڑکی کے لیے آئیڈیل ہے۔اُن کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھا ¶ کا جیسے انہوں نے مقابلہ کیا وہ تعریف کے قابل ہے۔فاطمہ نے دنیا کو بتایا کہ حالات اور لوگ چاہے کتنے ہی سِتم کریں اگر امید،ہمت اورخود پہ یقینِ کامل ہوتو زندگی آپ کے بتائے اور طے کیے ہوئے راستے پر چلے گی۔
No comments:
Post a Comment