Appropved topic was tea shpos in Hyd
feature must be reporting based and basic purpose is to provided entertainment
چائے خانوں کا نیا رجحان
نام:عنیزہ زاہد
جماعت:بی ایس پارٹ ۳
فیچر:چائے خانوں کا نیا رجحان
رول نمبر: ۲۱۱ ایم سی ۲۰۱۶
کسی بھی دن کا آغاز اگر چائے کی گرم چسکی سے نہ ہو تو دن ادھورا سمجھا جاتا ہے .کیونکہ چائے ہی وہ واحد چیز ہے جو تھکا و ٹ کو آ نے تو کیاپا س بھٹکنے بھی نہیں دیتی.پھر چا ہے وہ گھر ہو یا دفتر کسی نہ کسی طرح اس ضرورت کو پورا کر ہی لیا جا تا ہے اور یہ نسخہ کو ئ آج کا نہیں بلکہ صد یوں پہلے کا تخلیق کر دہ ہے . چا ئے دراصل چینیوں نے پہلی با ر دوا کے طور پر متعارف کر وائ جس کے بعد یہ کا فی تبدیلیوں سے گزر کر کئ اقسام میں بنٹ گئ اور پھردیوارِچین کو پھلانگ کر رشیا 249 ایران 249ترکی میں بھی خاصی مقبول ہوتی چلی گئ جن میں پاکستان چوتھے نمبر پر شامل ہے جہاں سال میں تقریباً ۱۷۵لاکھ کلو گرام چائے استعمال کی جاتی ہے .
پاکستان میں چائے کی طرف بڑھتا ہوا یہ رجحان اب فیشن میں شمار ہونے لگا ہے .دن بہ دن لوگ اس کو اپنا رہے ہیں کیونکہ چائے وہ واحد ساتھی ہے جو محفلوں میں تو کیا امتحان کی راتوں میں بھی ساتھ نبھاتی ہے چائے کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ چائے ہر طبقے کے لوگوں کا دل رکھتی ہے .بچے سے لے کر بوڑھے تک اس کا شوق رکھتے ہیں .ناشتے میں پراٹھے کے ساتھ اور شام میں بِسکٹ کے ساتھ بہترین جوڑ بناتی ہے .اس بڑھتے ہوےء شوق کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے اسے کاروبار بنا لیا ہے جس میں شاید منافے کے علاوہ کچھ نہیں .چھوٹے بڑے چائے کے ھوٹلوں نے چائے کے شیدائیوں کی توجہ اپنی طرف کھینچناشروع کر دی ہے . گلی 249کوچوں اور مین شاراہوں پر موجود یہ ھوٹل مداہوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں جو چائے کے ساتھ ساتھ تفریح کا بہترین موقعہ بھی فراہم کر رہے ہیں. حیدرآباد کے پر رونق علاقے آٹو بھان 249لطیف آباداور ڈِِ فینس جیسے مقامات پرنئے اور بہترین چائے خانوں کے افتتاح نے حیدر آباد کی عوام کو خوب متاثر
کر رکھا ہے جن میں چائے پانی 249چائے ہوجائے 249چائے ششتم 249 چائے شائے وغیرہ سرِِفہرست ہیں . جو نا م سے ہی چائے کی طلب کو جگا دیتے ہیں . ان کی طرف ر’خ کرنے والا زیادہ تر نوجوان طبقہ ہوتا ہے جو رات کے پہربھی ان ھوٹلوں پر چہل پہل کا سماں بنائے رکھتے ہیں . وہاں موجود چھوٹے موٹے گیمز جیسے لوڈو اِسنوکر وغیرہ میں چائے کی گھونٹ کے ساتھ گزرتے وقت کا پتا ہی نہیں چلتا .اِسی لیے اگر اسے نوجوانوں کی بیٹھک بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا جہاں کئ راز اور خبریں کھل کر سامنے آتی ہیں .یہاں دوستوں کی ہنسی ٹھٹوں کے ساتھ ساتھ کاروباری میٹنگز بھی چلتی نظر آتی ہیں. کافی لوگ تو اپنے کام سے فراغت اختیار کر کے اپنی تھکن مٹانے کے لیئے ان چائے خانوں پر حاضری دیتے ہیں .یہ کم خرچ ہونے کے ساتھ زیادہ وقت بھی نہیں لیتی جس سے کام کا کام بھی ہوجاتا ہے اور جیب کو پتا بھی نہیں چلتا .
نئے دور کے چائے خانوں میں اب خواتین بھی با آسانی آجا سکتی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف آمدورفت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ڈھابوں کے مقابلے انکی کمائی بھی خاصی بڑھ گئی ہے.جہاں اب چائے کے ساتھ مختلف قسم کے پراٹھے اور بن کباب بھی ملتے ہیں جنہیں اب نوجوان طبقہ فاسٹ فوڈ پر زیادہ فوقیت دے رہا ہے.ویسے تو یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی پرانی چیز سے اْکتاجاتا ہے تو نئی چیز کی تلاش میں نکل پڑتاہے اور جب اسے اپنے مطلب کی شے مل جائے تو کیا ہی بات ہے.یہ ہی فطرت شاید چائے خانوں کی شہرت کا سبب بن رہی ہے.ان ھوٹلوں کا رات دیر تک کھلے رہنے سے اس بات کاصاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ چائے پینے کا کوئی خاص وقت نہیں ہوتا .یہاں ایک دن میں کم سے کم ۲۰۰ سے زائد مرتبہ چائے پیش کی جاتی ہے.ہر آدمی اپنے مطلب کی چائے منگواتا ہے کوئی زیادہ میٹھی تو کوئی ز یادہ کڑک کوئی شوگر فری تو کوئی کٹ چائے منگوا کر اپنی ضرورت کو پورا کرتا ہے.
لوگ اس کے عادی تو ہو رہے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ اگر چائے کا استعمال حد سے تجاوز کر جائے تو کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے .آج پاکستان میں ۷۳فیصدلوگ چائے کا استعمال کر تے ہیں یہ بات جانے بِنا کے اس سے بینائی اور دماغ پر منفی اثرات پڑتے ہیں کہ شاید اسی لیئے ایدھی صاحب بھی ہر مشکل سے نجات کا حل ترکِ چائے کو سمجھتے تھے .لیکن اب پاکستانیوں کا چائے کی طرف بڑھتا ہوایہ جذبہ تھمتے ہوئے مشکل ہی نظر آتا ہے بس اب ضرورت ہے تو آگا ہی کی .
No comments:
Post a Comment