Showing posts with label Hafeez Baloch. Show all posts
Showing posts with label Hafeez Baloch. Show all posts

Tuesday, 10 April 2018

Hafeez Interview BS



نا م حفیظ الرحمن
شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن بی ایس (iii)
رول نمبر 2k16-mc-33
انٹرویو نواز کھمبر
کسی بھی مضموں کو پڑھنا بظاہر تو آسان ہوتا ہے ،لیکن کوئی ایک مضموں کو اپنے خیالات میں تحریر کرنا ایک انتہائی نازک کام ہے کیونکہ تحریر نگاری ایک فن ہے ہر دوسرا شخص سر انجام نہیں دے سکتا ،مصنف بننے کے لئے محنت درکار ہوتی ہے بلکہ اپنے خیا لات کو تراشنے کے ساتھ ور ق دانی بھی کرنا پڑتا ہے ان محنت کار مصنفوں میں بھی سر نواز کھمبر بھی سر فہرست ہیں جو سندھی ادب سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے سندھ میں سندھی زبان کو اجاگر میں بے شمار خدمات سر انجام دی۔ 
سوال سر میڈیا میں آنے کا شوق تھا یا آپکو قسمت یہاں لے کر آیا ؟
جواب وقت کرتا ہے پرورش کا حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔صحافت میں میرا آنا اچانک نہیں تھا بلکہ شوق بھی تھا اورکچھ مجبوریں بھی تھی ایک تو گھر کا ماحول کشیدہ ہونے کی وجہ سے بھی آنا پڑاکیوں کہ جس کے اثرات میری گھر پر مرتب ہو رہے تھی جس سے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے جس سے نشے کی طرف راغب ہونے لگا ،لیکن جب خیال آیا خدا نے بچا لیا ،اسی دوراں اسکول میں اتفاق کوئز مقابلوں میں حصہ لینا پڑا ،کوئز کی کتابیں بھی تھی ان میں سے کچھ کتابوں کے نام پڑے اچانک خیال آیا کہ یہ کتابیں پڑھ لینی چاہے اور اس وقت سانگھڑ میں نجی لائبریروں کا زمانہ تھا کرایہ پر کتابیں ملتی تھی اس وقت ہم گاؤں سے سانگھڑ منتقل ہوئے تھے میرا اس وقت گھر سے نکلنا منع ہوتا تھا تو میں گھر کا سودا سلف کے بہانے بزار جاتا وہاں سے کرایہ پر کتابیں خریدتا ابو سے چپ کر پڑھتا اور واپس کرتا اپنے خیالات کا اظہار تحریر کرتا اسی طرح 1980پہلی کہانی گلفل سندھی زباں میں چھپی ،یوں ہی کالج میں پہنچے تو ادبی دوستوں سے ملاقتیں بھی ہوئی اور کوئز مقابلوں میں بھی حصہ لیتا رہا ۔سن1985میں سوشل ویلئفر میں ملازمت بھی کی اور یہ محکمہ سماجی تنظیمیں رجسٹر ڈ کرتا تو اچانک مجھے خیال آیا اپنی نوجواں برادری کو ساتھ ملا کر کمبھر بلائی سماجی تنظیم بنائی اور اس تنظیم اغراض و مقاصد کی خبریں بناتا اور پوسٹ کرتا تھا صحافت کی ابتدا یہ تھی ،ایک وجہ یہ ہے شام کے وقت میں واک پہ نکلا تھا مغرب سے پولیس کی گادی آئی اور مجھے گھیرے میں لیا بندوق سر پر اسطرح رھا جیسے میں کوئی دہشت گرد ہوں تو میں بہت پریشان ہوا اسی وجہ سے میں مکمل طور پر صحافت کے پیشے کو چنا۔
سوال میڈیا اس وقت ہمارے معاشرے میں کیا کردار اادا کر رہا ہے؟
جواب میڈیا کا اصل کام معاشرے میں لوگوں کو شعور دلانا ہے ، اخبارات اور رسائل کا اصل کام ہونے والے مسائل کو اجاگر کرنا ہے اورمعاشرے میں تبدیلی لانا ہے لوگوں کی حقوق کی بات کرنا ہے ، لیکن اس وقت بد قسمتی یہ ہے میڈیا خود کو اجاگر کرنے میں مصروٖ ف ہے صحیح معنوں میں جو کردار ادا کرنا چاہے وہ نہیں ہو رہا ہے ، چند گنے چنے صحافی ہیں جن کی وجہ سے صحافت کا نام زندہ ہے ۔جب اخبارات اور چینل ،رسائل کی اغراض کا اجازت نامہ میرٹ پر ،اور بغیر کمیشن اور سفارش کے ہوگا ت،ویج بورڈ کا نفاذ ہوگا اور تب صحیح معنوں میں میڈیا اپنا کردار ادا کر سکے گا اسر وقت تک سوشل میڈیا نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔
سوال آپ جس مقام پر ہیں اس مطمءں ہو یا مزید کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
جواب نزاع کا عالم ہے محبت بھی واپس لے لو جب کشتی دوبنے لگے ساماں اتارا کرے ، ذااتی طور پر اللہ کے احسانات کہ مجھے میری اور توقع سے بڑھ کر عزت،اہمیت،شہرت ملی ،لیکن حقیقت یہ ہے گزشتہ دس برس سے لکھ رہا ہوں،تین سالوں سے ایف ایم پر بھی کام کر رہا ہوں ۔25,30 کتابوں کا مواد بھی موجود ہے کچھ کتابیں چھپ بھی چکی ہیں،کچھ چھپ رہی ہیں جوکہ غریب جوان بیٹی کی اچھے رشتے کی آمد کی طرف سے کسی پبلشر کی منتظر ہیں ،ذاتی طور پر لکھنے کا تو مجھے بہت فائدہ ہوا،لیکن اس لکھنے کا بظاہر تو کسی اور کو فائدہ ہوتا نظر نہیں آیا،تو فائدہ کیا لکھنے کا ،میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے نام کے لئے شاید خودغرضی کا مظاہرہ کیا ،جو وقت میرے والدین کا،بہن بھائیوں کا، بچوں کا ،دوستوں کا تھا وہ میں نے نام نہاد تحقیق اور لکھنے پر لگا دیا جس پر کبھی کھبا ر افسوس ہوتا ہے۔
سوال صحافت میں کافی عزت شہرت ملی اس میں کامیابی کاراز کیا ہے؟
جواب اسکا سبب قہت الرجال ہے اتفاق جو میں نے مضامین چنے یا جو مجھے پسند آئے ان پر لکھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور دوسرا اتفاق یہ ہوا کہ مجھے سندھی کی سب سے بڑی اشاعت اخبار میں میں چھپنے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں تک پہنچنے کا موقع ملا یا پھر خدا کا کرم تھا۔

Saturday, 7 April 2018

Hafeez Profile BS



نام حفیظ الرحمن
شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن بی ایس (iii)
رول نمبر 2k16-mc-33 
پروفائل معلم اکبر


طالب علم کے حقیقی والدین کے بعد انکے روحانی والدین انکے اساتذہ کرام ہوتے ہیں جو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں چلنا تک سکھاتے ہیں بلکہ کامیاب ہونے کے بعد بھی طالب علم کا سہارہ ہوتے ہیں۔ڈاکٹر قاسم علی شاہ کے بقول :طالب علم کی زندگی میں آنے والے اساتذہ کرام میں سے بہترین اساتذہ وہ ہے جو آپکے سوچنے کو انداز کو بدلے۔معلم اکبر بھی ان اساتذہ کرام میں سے ایک ہے،جو ایک روشن خیال دماغ ، سیدھا سادہ اور حلیم مزاج کے مالک ہیں انہوں نے شروع سے لیکر آج تک شفقت بھرے الفاظوں میں لیکچر دیتے رہے ہیں ۔اتنے چھوٹے سے دماغ میں ایک سمندر جتنا گہراعلم محفوظ کر رکھا ہے،ایک سے زائدسند بھی ہیں ،جزل سائنس میں ماسٹر ،ایجوکیشن میں ماسٹر اقتصادیات میں بھی ماسٹر کر رکھا ہے۔اپنے پروفیشن مین مہارت حاصل کرنے کے لئے ۶ سے زائد ٹیچینگ کورس کر رکھا ہے نئے نئے طریقوں سے لیکچر دینا جانتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ کمپیوٹر زبان بھی جانتے ہیں سوفٹوئیر بنا بنا کے فروخت کرتے ہیں جوکہ وہ انکا سائڈ بزنس ہے ۔اتنی معلومات ارو ر تجربہ رکھنے کے باوجود بھی اب تک لیکچر دینے سے پہلے مطالعہ کر کے لیکچر دیتے ہیں ۔انکی سب سے بڑی کامیابی یہ بھی کہ ایک رغبت والے اور صلح کار استاد بھی ہیں،جبکہ آرمی پبلک اسکول میں ۴سال تک صلح کار بھی رہ چکے ہیں ،افسراں اور انکے طالب علمو ں کے مشورہ دیتے تھے،طالب علم کے ساتھ اساتذہ کرام کو بھی ترغییب دینے والے استاد ہیں ۔ انکی طرز زندگی ہمیشہ سادہ رہی ہے ،دن کا آغاز کلام پاک سے کرتے ہیں اس کے بعد صبح سے لیکر شام تک پڑھانااور پڑھانا۔انکا ہمیشہ اپنے طالب علموں ایک ہی نصحیت کرتے ہیں :اب پچھتانے کی کیا ہوت جب چڑیا چگ چگئی کھیت ۔علم ٖحاصل کرنے کا وقت ہی ہے ،زندگی بنانا اور اپنے مقدرکے ستارے کو چکمکانے کا ٹئم ہی ہے ایسا نہ ہو کہہ پچھتانا پڑے بہتر ہی ہے کہ پڑھ لو۔

Tuesday, 13 March 2018

Hafeez Baloch Feature Urdu BSIII

This is all history, what is its condition now?
Feature is always reporting based. 

فیچر
نام حفیظ الرحمان
کلاس بی ایس (iii)
شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز
رول نمبر 2k16/MC/33 
سندھ کا تاریخی شہر بر ہمن آباد تجارت کا مرکز
سندھ میں بہت سے تاریخی شہر دیکھنے کو ملتے ہیں، ساتھ میں ان شہروں کا خاک میں مل جانے کا آثار بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
ان تاریخی شہروں کی حا لت زار اس حد تک پہنچ گئی ہے ،ان جگہوں کو دیکھنے سے بھی پہچان بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ان تاریخی مقامات میں سے ایک تاریخی مقام برہمن آباد جو ماضی میں شان و شوکت رکھنے والاآج
خستہ حال میں بکھر چکی ہے۔
برہمن آباد سانگھڑ کے جنوب می چالیس کلو میٹر کے مفاصلے پر ہے کسی زمانے میں برہمن آباد بارہ کلو میٹر مربع پر پھیلا ہوا تھا ۔گزرتے دن کے ساتھ ڈیڈھ کلو میٹر تک باقی رہ گیا ہے۔برہمن آباد کی تباہی کے حوالے سے کہا جاتا ہے اس شہر میں ظالم حکمران بادشاہ کی ظلم ڈھانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوکر خاک میں مل گیا۔یہاں ایک اسٹوپا بھی ہے ہر آنے والے مہمان کو خود اپنا خستہ حال بیان کرتا ہے۔اس اسٹوپا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں گوتھم بدھ کی راکھ ہے،مگر اسکی اب تک کسی نے تصدیق نہیں کی۔اسٹوپا ٹوت پھوٹ کر سرخ مٹی کا رنگ اختیار کر چکی ہے،چند قدم کے مفاصلے پر ایک قلعہ بھی تعمیر بھی ہے جس میں غلام احمد مرزا دفن ہے جو مسلسل اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے۔ پاس میں ایک قبرستا ن بھی ہے ۔ قلعے کے احاطے
میں پانی کا کنواں بھی ہے۔جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹی کے ڈھیر سے بھر چکا ہے۔
سن1854 میں بیلاسس اور رچرڈسن نے اس شہر کی کدھائی کی تھی ، یہاں سے دو سونے کی مورتیاں بھی ملی ہیں جو آج ممبئی اور برٹش کے عجائب گھروں میں رکھی گئی ہیں ۔ یہ تحقیقی رپورٹ سن1857 میں رائل ایشاٹک سوسائٹی جریدے آلسٹریٹیڈن میں شائع ہوئی۔اس شہر کے حوالے سے سسنے کو بہت کچھ ملا ہے،لیکن کوئی اس ماحقق سے آمادہ نہیں ۔ابو ریحان البیرونی اپنی کتاب (فی تحقیق مان النہد )برہمن آباد کے حوالے سے تحریر قلم بند کیاہے ،محمد بن قاسم نے بہمنوں کا شہر فتح کیا ، اور اس کا نام مہصورہ موسوم کیا ۔ چچ نامہ میں اسے برہمن آباد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔آباد کے حوالے سے کہا جاتا ہے یہ ایک ایرانی نام ہے ،اس کے متعلق دلیل بھی دی جاتی ہے برہمن آباد شہر ایرانی بادشاہ بہمن ارد شیر کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، لیکن بعد
میں نام تبدیل کر کیبرہمن آباد کردیا ۔
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہے کسی زمانے میں برہمن آباد میں ایرانی بادشاہ ارد شیر حکمران ہوتا تھا ۔ جب اس شہر میں راجا چاچ اس خطے پر قابض ہوئے تو اس شہر کو برہمن قرار دے دیا ، اور کا کہنا تھا اس وقت برہمن آباد تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا ،اوراس وقت دریائے سندھ کا بہاؤ شہر کے کنارے تھا ۔جسکی وجہ سے کاروباری مراکز تھا ۔جیسے ہی دریائے سندھ نے اپنا رخ موڑا ساتھ ہی ساتھ میں برہمن نے بھی اپنا منہ موڑ لیا ۔جہاں رونقیں ہوتی تھی ویہاں آج لوگ سرخ مٹی تلے ڈبے ہیں ۔
راجا چچ کی حکمرانی کے وقت یہاں ایک آتش گدہ بھی ہوتا تھا، اور بت پرشتوں نے پرتش کے لئے بت خانہ بھی تعمیر کروایا تھا۔
کہا جاتا ہے ، 712 میں جب عربوں نے سندھ فتح کیا تب اس وقت کے گورنر نے اسکا نام منصورہ آباد موسوم کیا گیا۔
سبط حسین نے اپنی کتاب (پاکستان کی تہذیب کا ارتقا ء)میں تحریر قلم بند کیا ہے، سندھ کی فتح سے قبل ،عرب اور سندھ کے درمیاں تجارت کے لحاظ سے تعلقات بہت اچھے ہوتے تھے۔اس دور میں سندھ کو زرخیز،دولتمند زمین سمجھی جاتی تھی۔اس وقت کا بادشاہ راجا چچ کا بیٹا راجہ ڈاہر بادشاہ تھا ،لیکن رعایہ راجہ کی حکومت سے نا خوش تھے وہ اس لئے کہ راجہ غیر مسلم تھا ۔
مشکور پلھکار محقق اور تاریخدان ہیں،انکا کہنا ہے شہر کے بارے میں تو یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا ہے یہ شہر کب تعمیر ہوا ۔جس زمانے میں یہاں سے ہاکڑوں اور پریاں دریاء بہتے تھے اس وقت اسکا نام رکھا گیاہوگا،اور یہاں پر گاؤں بھی ہوتے تھے۔دریاء سندھ اس وقت ؂؂؂ زریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔برہمن آباد شہر کے میدان اور راستے بہت وسیع ہوا کرتے تھے۔حتی کے اس شہر کی رسائی سمندر تک تھی،اور تجارتی مرکز بھی رہاہے۔انکا مزید کہنا تھا یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا ۔تجارت کی غرض سے مختلف ممالک سے لوگ آتے تھے،جب راجا چچ نے حکومت سنبھالی تب رعایہ بغاوت پر اتر آئی،چچ کیخلاف جنگ کا اعلان کیا گیا چچ نے اپنی دفاع کے لئے فوج کشی بھی کی،انہی دنوں میں ایک اور جنگ راجا گھم کے خلاف ہونے جا رہی تھی ،لیکن گھم کی طبعیت نا ساز ہونے کی وجہ سے جنگ ٹل گئی۔انکا ماننا تھا منصورہ کا یہ شہر نہیں تھا وہ آس
پاس میں تعمیر گیا تھا۔
جب راجا چچ نے رائے سہاسی سے تخت چھینا اور اسکی ملکہ رانی سے شادی کی ساتھ میں گھم بادشاہ کی ملکہ کہ بھی اپنا بنا لیا اسطرح یہ شہر مختلف حصوں میں بٹ گیا۔جب راجاڈاہر نے اقتدار سنبھالی تو حلات کافی سنجیدہ ہوچکے تھے عربوں کی طرف سے کئے گئے حملے شہر کو چکنا چور کر کے خاک میں ملا دیا گیا کیوں کہ عرب اسلام کی دعوت کے لئے سندھ تک پہنچ چکا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے محمود غزنوی نے جب سومنات کی فتح کے بعد واپس جانے پر اس شہر کہ آگ لگا دیا تھا۔
اس زمانے میں بہتے دریا کے نشانات آج بھی موجود ہے جہاں کبھی رونقیں ہوا کرتے تھے ،روشنی کے چراغ جلتے تھے،مگر آج وہاں نظر ڈالے تو وہاں بے جان قبریں ،ریزہ ہونے والی سرخ مٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔

Tuesday, 13 February 2018

Hafeez Baloch Article

Mention in the file that it is article or feature etc and also ur name in urdu. Ur subject line and file name are wrong. Next time sent in this manner will not be consideredBOI is not proper format. U should send it in inpage format.
Ur class, roll number,
Article posted on blog. wait for comments

معدنی وسائل ہونے کے باوجود بھی ضلع سانگھڑ گیس سے محروم

دانشور کے بقول:کنبھار کے گھر مٹی کے برتن کا موجود نہ ہونا ۔درزی کے گھر سوئی کا موجود نہ ہونا ۔اسی طرح بلوچستان کا علاقہ سوئی جہاں سے گیس طوفان کی طرح نکلتاہے ،اسی علاقے سے یہی گیس بلوچستان سے ہوتا ہوا پنجاب اور دوسرے تیسرے علاقوں تک پہنچتا ہے مگر بلوچستان کو خود نصیب نہی ہوتااور گیس کو استعمال کرنے سے محروم ہے ۔ آج بھی بلوچستان ایسے علاقے جہاں گیس موجود نہیں ہے۔جیسا کہ خضدار، ڈالبندیں،آواراں جہاں کے مقامی لوگ آج بھی کھانا پکانے کے لئے لکڑی کا استعمال کرتے ہیں سردیوں میں پانی گرم کرنے کے لئے بھی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں ۔ بلکل یہی خستہ حال ضلع سانگھڑ کا بھی ہے۔ضلع سانگھڑ میں آئل اور گیس کے دو بڑے زخائر موجود ہیں ۔سنجھورو جس میں آئل اور گیس کا پلانٹ موجود ہے جو سانگھڑ کے شمال اور جنوب اور 22.5کلو میٹر کے مفاصلے پر موجود ہے۔دوئم بوبی آئل گیس پلانٹ25 کلو میٹر کے مفاصلے سانگھڑ کے جنوب میں واقع ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر یہ دونو ں پلانٹ تقریبا 3000 بیرل آئل تخلیق کرتے ہیں اور ساتھ میں150 ٹن ایل پی جی گیس تیار کرتے ہیں ۔لیکن افسوس بلوچستان کی عوام کی طرح ضلع ساگھڑ بھی گیس تو دیتا ہے لیکن استعمال کرنے سے محروم ہے سانگھڑ کے 55 کلومیٹیر کے مفاصلے پر تعلقہ کھپرو جہاں آج بھی وہاں کے مقامی لوگ گیس سے محروم ہیں ۔تپتی دھوپ میں تندور پر روٹیاں پکائی جاتی ہیں ۔ اسکے علاوہ سانگھڑ کے اپنے ہی علاقے ورکشاپ اور چکوں کی طرف گیس کا نام ونشان ہی نہیں ہے۔مقامی لوگ گرمیوں میں کوئلے پر کھانا پکانے سے سخت دق میں ہے۔عوام گورنمنٹ سے گذار ش کر کے دق میں ہیں جبکہ ضلع سانگھڑ کو حر کے نام سے جانا جاتا ہے ،دو بڑی جماعت ہے پی پی اور حر جماعت ؛ حرجماعت شروع سے حکومت کرتی آرہی ہیے،لیکن اب پی پی بھی وجود میں ہے الیکشن کے ضمن میں ووٹ کی غرض سے آجاتے ہیں وعدے ،قسم کھالیتے ہیں ،لیکن الیکشن جیتنے کے بعد پھر سے عوام کا وہی حال 
یے معدنی وسائل ہونے کے باوجود بھی ضلع سانگھڑ گیس سے محروم
دانشور کے بقول:کنبھار کے گھر مٹی کے برتن کا موجود نہ ہونا ۔درزی کے گھر سوئی کا موجود نہ ہونا ۔اسی طرح بلوچستان کا علاقہ سوئی جہاں سے گیس طوفان کی طرح نکلتاہے ،اسی علاقے سے یہی گیس بلوچستان سے ہوتا ہوا پنجاب اور دوسرے تیسرے علاقوں تک پہنچتا ہے مگر بلوچستان کو خود نصیب نہیں ہوتی اور گیس کو استعمال کرنے سے محروم ہے ۔ آج بھی بلوچستان ایسے علاقے جہاں گیس موجود نہیں ہے۔جیسا کہ خضدار، ڈالبندیں،آواراں جہاں کے مقامی لوگ آج بھی کھانا پکانے کے لئے لکڑی کا استعمال کرتے ہیں سردیوں میں پانی گرم کرنے کے لئے بھی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں ۔ بلکل یہی خستہ حال ضلع سانگھڑ کا بھی ہے۔ضلع سانگھڑ میں آئل اور گیس کے دو بڑے زخائر موجود ہیں ۔سنجھورو جس میں آئل اور گیس کا پلانٹ موجود ہے جو سانگھڑ کے شمال اور جنوب اور 22.5کلو میٹر کے مفاصلے پر موجود ہے۔دوئم بوبی آئل گیس پلانٹ25 کلو میٹر کے مفاصلے سانگھڑ کے جنوب میں واقع ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر یہ دونو ں پلانٹ تقریبا 3000 بیرل آئل تخلیق کرتے ہیں اور ساتھ میں150 ٹن ایل پی جی گیس تیار کرتے ہیں ۔لیکن افسوس بلوچستان کی عوام کی طرح ضلع ساگھڑ بھی گیس تو دیتا ہے لیکن استعمال کرنے سے محروم ہے سانگھڑ کے 55 کلومیٹیر کے مفاصلے پر تعلقہ کھپرو جہاں آج بھی وہاں کے مقامی لوگ گیس سے محروم ہیں ۔تپتی دھوپ میں تندور پر روٹیاں پکائی جاتی ہیں ۔ اسکے علاوہ سانگھڑ کے اپنے ہی علاقے ورکشاپ اور چکوں کی طرف گیس کا نام ونشان ہی نہیں ہے۔مقامی لوگ گرمیوں میں کوئلے پر کھانا پکانے سے سخت دق میں ہے۔عوام گورنمنٹ سے گذار ش کر کے دق میں آچکی ہے جبکہ ضلع سانگھڑ کو حر کے نام سے جانا جاتا ہے ،دو بڑی جماعت ہے پی پی اور حر جماعت ؛ حرجماعت شروع سے حکومت کرتی آرہی ہیے،لیکن اب پی پی بھی وجود میں ہے الیکشن کے ضمن میں ووٹ کی غرض سے آجاتے ہیں وعدے ،قسم کھالیتے ہیں ،لیکن الیکشن جیتنے کے بعد پھر سے عوام کا وہی حال