Showing posts with label Jahanzaib. Show all posts
Showing posts with label Jahanzaib. Show all posts

Tuesday, 10 April 2018

Jahanzaib Interview BS



تحریر جہانزیب خان
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 130
انٹرویو 
شیخ آصف اقبال ظہوری گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج لطیف آباد میں مطالعہ پاکستان کے لیکچرار ہیں اور سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں یہ 15اگست 1979 میں حیدرآباد کے ضلعہ کی تحصیل لطیف آباد میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام شیخ صلاح الدین ہیں جن کا تعلق ضلع گڑگاں بھارت سے ہے_ پروفیسر آصف نے مطالعہ پاکستان کے متعلق کئی کتابیں لکھی ہیںآپ کے میڈیکل اسٹورز اور بک ڈبو ظہوری کے نام سے حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں مشہور ہیں


س: آج کل کے دور میں کافی لوگ ڈاکٹری یا انجینئرنگ کرنا پسند کرتے ہیں پھر آپ نے ٹیچینگ کے شعبہ کو کیوں ترجیح دی؟
ج: یہ بچپن میں میرا شوق بھی رہا ہے اور میرے والدین کی خواہش بھی تھی اور آج کے دور کے مطابق سب سے بہترین کام پڑھانا ہے_کیونکہ ہم اس سے اپنے ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو سدھار بھی سکتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی ذہنی طور پر فٹ سمجھتے ہیں اسلیے اس ٹیچنگ کے شعبے کو ترجیح دی گئی اور میرے والدین کا شوق تھا کے میں ڈاکٹر یا انجینئرنگ کے شعبے میں تعلیم حاصل کروں لیکن میرا ذہن اور دلچسپی ٹیچنگ کے طرف تھی اور آج اس مقام پر ہوں اور میرے والدیں نے بھی مجھے اپنے حال پر چھوڑا کے کس طرف دھیان ہے تو آج میرے والدین بھی خوش ہیں 

س ۔ آپ کے نزدیک پڑھانہ مشکل ہے یا پڑھنا؟
ج: دونوں کاموں میں کوئی مشقت نہیں ہے ۔ اگر دھیان اور لگا پڑھائی کی طرف نہیں ہے تو پڑھنا اور پڑھانا ایک بوجھ لگتا ہے لیکن میرے نزدیک استاد پڑھانے میں اپنے آپ کو زیادہ واقف کرتے ہیں ۔ میں پڑھانے کو نہیں بلکہ پڑھنے پر ترجیح دیتا ہوں، کیونکہ پڑھنے سے دل و دماغ تازہ رہتا ہے اور آج کے اس دور میں پڑھنے پر کم پڑھانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور میرا شوق بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کروں اس لیے میرا آج بھی وہی شوق ہے کے میں مختلف کتابیں ، اخبارات ، میگزین اور معلوماتی کتابیں پڑھتا ہوں 

س:آپ مطالعہ پاکستان کے سبجیکٹ کو یونیورسٹی اور کالج کے مقام پر کس نظریے سے دیکھتے ہیں؟

ج: مطالعہ پاکستان دونوں مقامات پر ایک اہم سبجیکٹ ہے ۔ کالج میں عموما طالب علم اس کی اہمیت پر توجہ نہیں دیتے ۔ حالانکہ مطالعہ پاکستان کی ضرورت ( سی ایس ایس ) اور کئی امتحانات میں درپیش ہوتی ہے ۔اور مطالعہ پاکستان ایک تاریخ کو اجاگر کرتا ہے کے پاکستان کس طرح وجود میں آیا اسلیے زیادہ مطالعہ پاکستان کی اہمیت حاصل ہے 


س: کالج لیول پر فیورٹزم کا کیا زور ہے عموما یونیورسٹی میں اس چیز کا بہت رحجان ہے ؟
ج: یہ ایک قسم کی وبا ہے جو آج کے طالب علموں میں تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ جو طالب علم دل لگا کر پڑھتے ہیں وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے کالجوں میں فیورٹزم جیسا کچھ نہیں ہوتا اور جہاں تک میرا خیال ہے یونیورسٹی میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا


س: دن بہ دن گورنمنٹ کالجز اور اسکولز ویران ہوتے جارہے ہیں اور نجی تعلیمی ادارے ترقی پارہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج: گورنمنٹ کالجز کی ویرانی کی ایک وجہ بچوں کے والدین ہیں جو ان پر توجہ نہیں دیتے ۔ کثیر تعداد میں داخلے ہوتے ہیں پر چند طالبات کالجز میں نظر آتے ہیں جس کے باعث کالجز ویرانی کا شکار ہیں ۔ جبکہ اسکولز میں کوئی ویرانی نہیں ہوتی بچے باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ جہاں تک بات ہے نجی تعلیمی اداروں کی تو یہ بھی نیچے کی طرف جارہے ہیں ۔ کیونکہ ادھر کورس تو بہت اونچے درجہ کا استعمال کیا جاتا ہے,مگر پڑھانے والے اساتذہ اتنے قابل نہیں ہوتے_اگر یہی بچے گورنمنٹ کالجز میں باقاعدگی سے پڑھیں تو انہیں نجی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ حکومت سندھ کو بھی چاہیئے کے اس طرح خصوصا توجہ دیں کافی تعداد میں گورنمنٹ اسکولز اور کالجز میں بہتری آئی ہے جس سے نجی اسکولز اور کالجز کو بڑا فرق پڑا ہے لیکن مزید توجہ اور عملدرآمد کی ضرورت کرنی پڑے گی جس سے غریب سے غریب طر والدین باآسانی اپنے بچے کو بہترین قسم کی اعلی تعلیم دلانے میں کردار ادا کریں گے 

س: پاکستان کے مطالعہ کا شعور ہم طالبعلموں کے اندر کس طرح اجاگر کر سکتے ہیں؟
ج: پاکستان کا ماضی سمجھانے کے لیے حال پر تبصرہ کریں۔طالب علموں میں ایک قوم ہونے کا احساس بیدار کریں۔پھیلتی ہوئی لسانیت کو روکیں۔طالب علموں کو اِس بات کا احساس دلائیں کہ ہمارے بزگوں نے کتنی قربانیاں دے کر پاکستان کو آزاد مملکت کی حیثیت سے نوازا اور آج کے دور میں ہمارے اِس ملک کی کیا حالت ہو رہی ہے۔اِس بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کیلئے ان میں جذبہ محبت اجاگر کریں اور پاکستان کی آزادی سے لیکر آج تک کا صفر پڑھنا ہوگا تاکہ ان کو مطالعہ پاکستان سے ہر چیز کا جواب مل جائے گا 

س: آپ کے خیال سے طالب علموں کو سیاست میں آنا چاہیے؟
ج: طالب علوں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے بلکل کنارہ شی اختیار کر لینی چاہیے۔قائداعظم نے بھی اچھے طالب علموں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔پاکستان کی ترقی کے لئے نوجوان نسل کو پہلے پڑھائی پھر سیاست وغیرہ جیسی چیزوں میں اپنا قدم بڑھانا چاہیے۔

س: نقل کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے کوئی تجویز؟
ج: میرے نزدیک نقل کے رجحان میں بڑھنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ طالب علموں کے والدین ہیں جو پیسہ کھیلا کر اساتذہ کو مجبور کرتے ہیں کہ بچے کو نقل کرنے دیں۔سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں کو نقل سے روکنا چاہئے اور دوسری طرف حکومت کو چاہئے کہ nts کے طرز پر امتحانات لئے جائیں۔

س: آپ آج اِس مقام پر ہیں اِس کا کریڈٹ کس کو دینا چاہیں گے؟
ج: یہ ایک قسم کی وبا ہے جو آج کے طالب علموں میں تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ جو طالب علم دل لگا کر پڑھتے ہیں وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے کالجوں میں فیورٹزم جیسا کچھ نہیں ہوتا اور جہاں تک میرا خیال ہے یونیورسٹی میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا


س: دن بہ دن گورنمنٹ کالجز اور اسکولز ویران ہوتے جارہے ہیں اور نجی تعلیمی ادارے ترقی پارہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج: گورنمنٹ کالجز کی ویرانی کی ایک وجہ بچوں کے والدین ہیں جو ان پر توجہ نہیں دیتے ۔ کثیر تعداد میں داخلے ہوتے ہیں پر چند طالبات کالجز میں نظر آتے ہیں جس کے باعث کالجز ویرانی کا شکار ہیں ۔ جبکہ اسکولز میں کوئی ویرانی نہیں ہوتی بچے باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ جہاں تک بات ہے نجی تعلیمی اداروں کی تو یہ بھی نیچے کی طرف جارہے ہیں ۔ کیونکہ ادھر کورس تو بہت اونچے درجہ کا استعمال کیا جاتا ہے,مگر پڑھانے والے اساتذہ اتنے قابل نہیں ہوتے_اگر یہی بچے گورنمنٹ کالجز میں باقاعدگی سے پڑھیں تو انہیں نجی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ حکومت سندھ کو بھی چاہیئے کے اس طرح خصوصا توجہ دیں کافی تعداد میں گورنمنٹ اسکولز اور کالجز میں بہتری آئی ہے جس سے نجی اسکولز اور کالجز کو بڑا فرق پڑا ہے لیکن مزید توجہ اور عملدرآمد کی ضرورت کرنی پڑے گی جس سے غریب سے غریب طر والدین باآسانی اپنے بچے کو بہترین قسم کی اعلی تعلیم دلانے میں کردار ادا کریں گے 

س: پاکستان کے مطالعہ کا شعور ہم طالبعلموں کے اندر کس طرح اجاگر کر سکتے ہیں؟
ج: پاکستان کا ماضی سمجھانے کے لیے حال پر تبصرہ کریں۔طالب علموں میں ایک قوم ہونے کا احساس بیدار کریں۔پھیلتی ہوئی لسانیت کو روکیں۔طالب علموں کو اِس بات کا احساس دلائیں کہ ہمارے بزگوں نے کتنی قربانیاں دے کر پاکستان کو آزاد مملکت کی حیثیت سے نوازا اور آج کے دور میں ہمارے اِس ملک کی کیا حالت ہو رہی ہے۔اِس بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کیلئے ان میں جذبہ محبت اجاگر کریں اور پاکستان کی آزادی سے لیکر آج تک کا صفر پڑھنا ہوگا تاکہ ان کو مطالعہ پاکستان سے ہر چیز کا جواب مل جائے گا 

س: آپ کے خیال سے طالب علموں کو سیاست میں آنا چاہیے؟
ج: طالب علوں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے بلکل کنارہ شی اختیار کر لینی چاہیے۔قائداعظم نے بھی اچھے طالب علموں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔پاکستان کی ترقی کے لئے نوجوان نسل کو پہلے پڑھائی پھر سیاست وغیرہ جیسی چیزوں میں اپنا قدم بڑھانا چاہیے۔

س: نقل کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے کوئی تجویز؟
ج: میرے نزدیک نقل کے رجحان میں بڑھنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ طالب علموں کے والدین ہیں جو پیسہ کھیلا کر اساتذہ کو مجبور کرتے ہیں کہ بچے کو نقل کرنے دیں۔سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں کو نقل سے روکنا چاہئے اور دوسری طرف حکومت کو چاہئے کہ nts کے طرز پر امتحانات لئے جائیں۔

س: آپ آج اِس مقام پر ہیں اِس کا کریڈٹ کس کو دینا چاہیں گے؟
ج: میں اِس کا کریڈٹ اپنے اساتذہ اور والدین کو دینا چاہوں گا جن کی بدولت میں آج کسی کو کچھ سیکھانے کے لائق بنا ہوں اور میرا تمام اسٹوڈنٹس سے بھی امید کرتا ہوں کے اپنے اساتذہ اکرام اور والدین کا احترام کریں عزت کے ساتھ پیش آئیں گے جس جگہ آج اس مقام پر ہوں وہ بھی اس مقام کی بلندی پر ہونگے

Sunday, 18 March 2018

Jahanzaib Khan BS Profile

To be checked
تحریر :جہانزیب خان
 بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 130


پروفائل: 
 ( مجتبی علی بھٹی ( ٹیچر
 دراصل بات کی جائے آج کے اس دور میں تو بہت سے کم ایسے غریب خاندانوں سے ایک ہی نوجوان ملے گا جو دن رات محنت کر کے آج اس مقام پر ہیں ایک محاورہ ہم بچپن سے ہی سنتے آرہے ہیں محنت میں عظمت ہے لیکن مجتبی علی بھٹی اس محاورے کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔یہ نہ صرف ایک اچھے انسان بلکہ اچھے ٹیچر اور بزنس مین بھی ہیں۔
مجتبی علی بھٹی کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم علامہ اقبال ہائی اسکول لطیف آباد سے حاصل کی اور انٹر ڈگری کالج میں کیا۔ مجتبی علی بھٹی کے والد شمشاد علی بھٹی ایک نجی کمپنی میں ملازم بطور چوکیدار اپنی خدمات انجام دی ہیں، انکے گھر کے حالات خاصے اچھے نہ تھےلیکن والد نے انکی اچھی تعلیم کے لئے پارٹ ٹائم ملازمت کر کے انکے اخراجات اٹھائے۔ مجتبی علی بھٹی کا پڑھائی کی طرف کچھ خاص لگا نہ تھا۔ لیکن والد کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیم حاصل کی۔
مجتبی علی بھٹی کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھاان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی کھیل دلچسپی کے ساتھ نہ کھیلا اور نہ ہی ان کا کسی سے زیادہ دوستی یاری تھی ، نہ ہی کبھی راتوں کو آوارہ گردی کے لئے نکلے۔ مجتبی علی بھٹی اپنی محنت سے اپنے والد کا سہارہ بننا چاہتے تھے اور اپنے گھرکے حالات بدلنا چاہتے تھے۔ چناچہ دس سال کی عمر میں مجتبی علی بھٹی نے اپنے گھر کے حالات بدلنے کے خاطر پہلا قدم اٹھایا۔
مجتبی علی بھٹی کا رجحان ٹیچنگ کی جانب تھا۔ والد صاحب زیادہ واسائل نہ ہونے کی وجہ سے بیٹے کا یہ شوق پورا نہ کرسکے تو مجتبی علی بھٹی نے پرائیویٹ نجی اسکولوں میں کسی اسکول میں تعلیم کو اجاگر کرنے کیلئے دو سو روپے ہفتہ وار کام کرنے لگے۔ اور ٹیچر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگے۔ غربت کے باوجودان کے والد صاحب انکی تعلیم میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دے رہے تھے کیونکہ وہ اپنے بچے کودنیا کا کامیاب ترین انسان دیکھنا چاہتے تھے ۔
مجتبی علی بھٹی کا کہنا ہے کہ تعلیم کی فیلڈ میں جانے کے فیصلے سے انکے گھر والے ان سے بہت خوش تھے۔ لیکن مجتبی علی بھٹی نے ہمت نہ ہاری۔ اور اپنی محنت، لگن اور جنون سے خود کو منوایا۔ اب ان کے والد ان کی دلچسپی کو سمجھنے لگے اور انہیں ٹیچنگ کی مکمل تعلیم حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی آف سندھ جامشورو کے ادارے میں داخلہ کروایا لیکن وہاں کی فیس ان کی پہنچ سے دور تھی۔ ان کے والد جیسے تیسیے کرکہ داخلہ کروایا لیکن آگے کی فیس کےلئے مجتبی علی بھٹی نے ایک میڈیکل اسٹور میں نوکری کی اور اپنی فیس ادا کی۔ 

مجتبی علی بھٹی نے صرف دس ماہ میں ہی اپنی محنت اور لگن سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ اور اب مجتبی علی بھٹی خود بھی © ©سی ایم ایس کے مالک ہیں اور ارینا ملٹی میڈیا حیدرآباد کے پارٹنر بطور اپنے فرایض انجام دیے رہے ہیں اور اپنے دونوں انسٹیٹیوٹ میں طالب علموں کو تعلیمات سکھانا شروع کرچکے ہیں مجتبی علی بھٹی کا ٹیچنگ کی دنیا میں ایک اچھا نام ہوتا جانے لگا تھا۔ انکی بہترین کارکردگی کی وجہ سے انہیں یو کے کی جانب سے اسکالر شپ بھی ملی تھی اور مجتبی علی بھٹی نے اپنی تعلیم کو مزید آگے پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا۔ جس کے ذریعے انہوں نے بیس ہزار ماہانہ کمائے۔ 
مجتبی علی بھٹی نے انیس حسن انسٹیٹیوٹ میں ٹیچنگ کی انٹرنشب کرکے اپنی صلاحتیوں کو مزید نکھارا۔ اپنے والد کی مالی مدد کرنے کے لئے کمپیوٹر شاپ کا کام بھی شروع کیا، انھوں نے کمپیوٹر کام فری لانسر پر شروع کیا جہاں پر انہوں نے اپنی مہارت سے ایک کمپیوٹر کو بہترین قسم کا بناکر 12 ہزار روپے کا انعام جیتا، پھر آہستہ آہستہ مجتبی علی بھٹی بھی کمانے لگے اور اپنے والد کی مدد کرنے لگے اور مختلف انسٹیٹیوٹ کی جانب سے انہیں بیسٹ ٹیچرز کا خطاب بھی دیا گیا۔ مجتبی علی بھٹی آج حیدرآباد کے بیسٹ ٹیچرز کمپیوٹر میں سے ایک ہیں۔ ان کے نام سے جانے جاتے بھی ، ٹیچنگ کے میدان میں اب مجتبی علی بھٹی ہیں۔ بہت ہی کم عرصے میں مجتبی علی بھٹی نے اپنا نام اپنی محنت سے بنایا ہے، انکی عمر صرف 35 سال ہے۔ مجتبی علی بھٹی آج کی نوجوان نسل کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔


Saturday, 3 March 2018

Jahanzaib Feature Urdu BSIII

Not reporting based, all secondary data has been used. 
Not written in interesting manner. 
THis is article not feature
تحریر جہانزیب خان 
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 130
فیچر
گرافک ڈزائینگ کی دنیا 

جہاں دنیا کے مختلف فیلڈ پروان چڑہتی دیکھائی دے رہی ہے وہیں ایک شعبہ گرافکس ڈزائینگ کا بھی ہے جو گزشتہ سات سالوں سے بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہوا ہے۔ گرافکس ڈزائینگ کا تعلق ملٹی میڈیا کی فیلڈ میں ضروری سمجھا جاتا ہے چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہو گرافکس کے بغیر کام ممکن نہیں ہوتا بلکہ دنیا بھر کا ایک ایسا منفرد شعبہ ہے جو کہ ہر ٹیکنالوجی کے شعبے میں گرافکس ڈزائینگ کے ذریعے مانا جاتا ہے ۔
گرافکس ایک گریک الفاظ ہے جسے ویوزیلائیزیشن کہتے ہیں ۔جس شخص کو گرافکس ڈزائینگ آتی ہے اسے گرافکس ڈزائینر کہتے ہیں۔ ایک گرافک ڈزائینر عارف کا کہنا تھا کہ گرافس ڈزائینگ کا اصل کام تو اون لائن ورکنگ پر ہوتا ہے جسے ہم فری لانسر بھی کہتے ہیں گرافکس ڈزائینگ وہ بزنسس ہے جس کی شروعات کیلئے کوئی پیسے استعمال نہیں کیئے جاتے ہیں اس میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے ۔

گرافکس ڈزائنگ کے بغیر سرکاری و غیر سرکاری ادارے ہو یا پرائیویٹ انسٹیٹیوٹ کالج یونیورسٹی یا شاپ ودیگر کی بغیر گرافکس ڈزائینگ کے کام نہیں ہوتا ہے۔ ایسے ہی دیکھا جائے تو انٹرٹینمنٹ دنیا کا گرافکس بادشاہ ہے اور عوام اس کو بے انتہا پسند بھی کرتی ہے۔ گرافکس ڈزائینگ میں ایشا 70% عوام اون لائن کے ذریعے گھر بیٹھ کر اپنا روزگار کر رہی ہیں ۔جیسا کے گرافک ڈزائینر پرنٹ میڈیا میں اخبارات ، رسالہ ، میگزین کی گرافکس ڈزائینگ کے بغیر شائع نہیں کیا جاتا ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی گرافکس ڈزائینگ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جبکہ دنیا بھر میں سرکاری یا پرائیویٹ انسٹیٹیوٹ میں گرافکس ڈزائینگ کے کورس کے ذریعے طالب علموں کو سکھایا جاتا ہے ۔
پاکستان کے تمام صوبوں میں بلخصوص سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں ارینا ملٹی میڈیا انسٹیٹیوٹ کا ادارہ موجود ہے جہاں پر طلبہ و طالبات کو ملٹی میڈیا گرافکس سکھائی جاتی ہے۔ انسٹیٹیوٹ میں ایک طالب علم کاشان نے بتایا کہ گرافکس ڈزائینگ کی مدد سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے جیسا کہ پینافلیکس بنانا، بروشر بنانا، وزٹنگ کارڈ لیٹر ہیڈ اور اپنے گھر اور دفتر کو گرافکس ڈزائیننگ کی مدد سے بہترین قسم کا بنانا سیکھا ہے اور گرافکس ڈزائیننگ کا معیار ایک اول نمبر میں شمار ہوتا ہے۔ 
گرافکس کے شعبے میں دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب سے زائد طالب علم کام کرتے ہیں ایشاء میں پاکستان کا شمار دوسرے نمبر پر پہچانا جاتا ہے۔ گرافکس ڈزائیننگ سے فوائد بھی حاصل کیئے جاتے ہیں مثلاً اون لائن ورکنگ، فلم انڈسٹری، نیوز چینلز، اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، بینکنگ، شاپنگ مالز، اسٹیکچرز، فیشن اور دیگر دیکھا جائے تو گرافکس ڈزائیننگ کے بغیر ادھورا ہے۔
بات کی جائے صوبہ سندھ کے شہر کراچی کی تو وہاں پر بڑی بڑی فیکٹریوں میں کپڑے کی گرافس ڈزائینگ کی ہی مدد سے ڈزائیننگ کی جاتی ہے اور وہ کپڑا بہترین گرافکس ڈزائیننگ کی وجہ سے دنیا بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے گرافکس ڈزائینر کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کتنی مہارت سے ذہانت کا استعمال کرتا ہے۔ 
گرافکس ڈزائیننگ دو قسم کی اقسام ہے ایک تو راسٹر گرافکس (Raster Graphics)جس کو ہم ویب کیلئے استعمال کرتے ہیں اور دوسری ویکٹر گرافکس(Vector Graphics) جس کو ہم پرنٹ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ گرافکس ڈزائیننگ میں تین طریقے کے کلر کا استعمال کیا جاتا ہے مثال کیطور پر ریڈ کلر، گرین کلر اور بلو کلر کا زیادہ ویب اور موبائل فون کیلئے استعمال میں کیا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ قدرت کے کلر ہیں جو انسانی نظر کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں گرافکس ڈزائیننگ کی اہمیت دنیا بھر میں مانی جاتی ہے اسی لیے ملٹی میڈیا کا یہ شعبہ باخوبی پروان چڑہتا دیکھائی دے رہا ہے۔

Thursday, 15 February 2018

Jahanzaib Article BS

Needs proper paragraphing.
When ban was imposed? Also write some police action and achievement,
File name and subject line are wrong. Next time it will not be considered
Jahanzaib khan 
2k16-MC-130
Assigned By : Sir Sohail Sangi


مین پوری،گٹکا کی روک تھام



آرٹیکل تحریر جہانزیب خان 
مین پوری اور گٹکا ایک جان لیوا کینسر کی بیماری ہے مین پوری اور گٹکے کی خریدوفروخت روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں کی تعداد میں ہوتی ہے مین پوری کی تیاری میں تیزاب کے پانی سے غیر معیاری چھالیہ کو صاف کیا جاتا ہے جس کے مشین کا تیل مکس کرنے کے بعد لونگ کی جگہ پپیتے کے بیج کے استعمال کے بعد چونے کو ملاکر پیکنگ کی جاتی ہے جس کی قیمت 1991تا 1999 تک ایک روپیہ تھی اور اب 2018 میں 60 سے 70 روپے میں فروخت کی جاتی ہے دوسری طرف بات کی جائے گٹکا کی تو گٹکے کی تیاری میں ناقص قسم کی چھالیہ جس میں کیڑے لگے ہوتے ہیں اس کا استعمال کیا جاتا ہے گٹکے میں تمباکو پتی ، جانوروں کا خون ، چونا اور کتھے کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی قیمت 30 روپے سے 50روپے تک مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے مین پوری اور گٹکے کا استعمال بچوں سے لیکر بوڑھے نوجوان اور خواتین بھی کرتی ہیں بلکہ مین پوری اور گٹکا کی خریدوفروخت کرنے والوں سے ماہوار بھتہ لاکھوں روپے ہفتہ وار پولیس تھانوں ، محکمہ فوڈ اور دیگر کو دیا جاتا تھا مضر صحت مین پوری اور گٹکے کے کھانے سے ہزاروں افراد موں اور گلے کے کینسر میں مبتلا بھی ہوگئے ہیں اور کئی افراد اس موضی جان لیوا بیماری سے اس دنیا سے پردہ کرچکے ہیں مین پوری اور گٹکے کا استعمال خاص طور پر مزدور طبقہ اور گنجان آبادی والے علاقے کے افراد زیادہ کرتے ہیں جبکہ ڈاکٹر حضرات نے بھی تصدیق کی کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی تعداد مین پوری اور گٹکا کھانے والوں کی آتی ہے بلکہ مضر صحت جان لیوا مین پوری اور گٹکا بنانے والے کروڑ پتی بن گئے ہیں اور مین پوری ، گٹکا ایک مضر صحت قرار دیا گیا ہے جس پر حکومت سندھ نے بھی خریدوفروخت پر پابندی عائد کی گئی جس کے باوجود پولیس اور محکمہ فوڈ کی سرپرستی میں کھلے عام پان کی کیبنوں ، دکانوں پر فروخت کیا جاتا رہا جس پر سندھ حکومت نے ایک آئینی پٹیشن داخلی کی گئی جس پر سندھ ہائی کورٹ کراچی کی عدالت نے نوٹس لیا اور آئی سندھ کو سختی سے ہدایت کی گئی کے مضر صحت مین پوری اور گٹکا کی خریدوفروخت پر مکمل طور پر پابندی پر عملدرآمد کرایا جائے جس پر آئی سندھ پولیس نے سندھ بھر کے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کو تحریری طور پر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کے مین پوری اور گٹکے کی خریدوفروخت پر مکمل طور پر پابندی عائد کی جائے جس پر تمام ایس ایچ اوز نے اپنی حدود میں کارروائیاں کی گئی درجنوں کی تعداد میں ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور خام مال اور مین پوری گٹکے کی ہزاروں کی تعداد میں بوریاں برآمد کی گئی ہیں لیکن آج بھی چوری چھپے رات کی اوقات میں مین پوری اور گٹکا کھانے والوں کو باآسانی مل جاتا ہے ایک طرف حکومت سندھ اور عدالت کے احکامات پر پولیس اپنا کردار ادا کرنے میں لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف مین پوری اور گٹکا مافیا سرگرم ہیں عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر کئی تھانے داروں کو معطل بھی کیا گیا ہے اور باعث پولیس اہلکار ، سیاسی اور بااثر افراد کی سرپرستی میں مضر صحت مین پوری اور گٹکے کی خریدوفروخت تاحال جاری ہے جبکہ جہاں پر مین پوری اور گٹکے کی خریدوفروخت کی میڈیا نشاندہی کرتی ہے وہاں پر پولیس بروقت کاروائی کو یقینی بناکر اس پر عملدرآمد کیاجاتا ہے عوام کو بھی چاہیئے کے مضر صحت جان لیوا کینسر جیسی بیماری مین پوری اور گٹکے کے کھانے کے بجائے مضر صحت کا بائیکاٹ کریں اور بنانے والوں کی نشاندہی کر کے نوجوان نسل کو بچائیں