Wednesday, 21 March 2018

Mannum BS Interview

نام: سیدہ منعم زہرہ عابدی
رول نمبر:۶۴۱۔بی ایس
انٹرویو :ڈاکٹر شاہین حسنین
 کہتے ہیں دو پیاسے کبھی سیراب نہیں ہوتے ایک ہوس کا اور ایک علم کا۔ ڈاکٹر شاہین کا تعلق دوسرے قسم کے لوگوں سے ہے جو تدریس کے عمل سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر شاہین گجرانوالہ میں مقیم ہیں۔شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کراچی یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے بعد گزشتہ تیس سالوں سے گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرانوالہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں
س: آپ اپنے تعلیمی عمل کے بارے میں بتائیں؟
ج:میں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج سے حاصل کی اور گریجویشن بھی وہیں سے کیا ۔چونکہ میری دلچسپی سائیکولوجی میں تھی تو ماسٹرز کی تعلیم اسی شعبے میں حاصل کی تعلیم حاصل کرنا میرا شوق رہا ہے اِس لئے جب اس وقت ایم فل سائیکولوجی کی فیلڈ میں نہیں ہوتاتھابلکہ پنجاب کی کسی یونیورسٹی میںسائیکولوجی میں ایم فل کا پروگرا م نہیں تھا تو مجھے ایم اے اردو میں کرنا پڑاتاکہ میری پڑھائی کا عمل متاثر نہ ہو سکے اورپھر اسی فیلڈ میں ایم فل مکمل کیا اس کے باوجود جب علم کی پیاس نہ بجھنے پائی تو میں نے پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیااور ابھی پوسٹ پی ایچ ڈی کا ارادہ ہے۔
س :حصولِ علم میں آپ کو کن مشکلات کا سامنا پیش آیا؟
ج: میرے دور میں علم حاصل کرنا مشکل نہیں تھا پر ڈبل ایم اے کرنا اسکے بعد ایم فل پھرپی ایچ ڈی کرنابھی آسان نہ تھا۔ والدین نے کبھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکا نہیں ۔ یہ ان کا ساتھ ہی تھا جس نے میری ہمت و حوصلے کو بڑھایا۔امی تو تنگ آگئیں تھیں پر ابو نے کہا پڑھو جتنا جی کرے اتنا پڑھو۔لوگوں کے طنز و طعنے بھی سنے پر کسی کو بھی اپنے مقصد کے حصول میں حائل نہیں ہونے دیا ۔ایم فل کے دوران کتابوں کیلئے لاہور جانا پڑتا تھا کیونکہ گجرانوالہ میں جوئی ایسا کتاب گھر موجود نہیں تھا جہاںاعلیٰ تعلیم کی کتامیں مہیا ہوتےں اوراسی دوران میری شادی ہوگئی پر خاوند نے بھی میرے تعلیمی عمل کو جاری رکھنے میں بہت ساتھ دیا۔ تعلیم و تدریس کے اس سفر میںسب سے زیادہ میرے اہل وعیال کا ساتھ شاملِ حال رہا جس نے میرے شوق کو متاثر نہ ہونے دیا۔
س:آپ کتنے عرصے سے تدریس کے عمل سے وابستہ ہیں اور کبھی ملازمت چھوڑنے کا جی نہیں کیا؟
ج:میں سنہ۸۸۹۱میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرانوالہ میں لیکچرار کے منصب پہ فائز ہوئی تھی اور اب ایسوسیٹ پروفیسر ہوں ۔اس سفرکواس سال مکمل تیس سال ہو چکے ہیں۔ پڑھانا ایک دوطرفہ عمل ہے جس میں آپ سیکھتے بھی ہیں اور سکھاتے بھی ہیں۔ ہر سال نئے طالبعلموں کا داخلہ ہوتا ہے انہیں پڑھانا ، سکھانا اوران سے سیکھنا سکھانا ایک دلچسپ عمل رہا ہے۔یہی وجہ تھی جو میںنے اس شعبے کو پیشے کے طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے مینجمنٹ کی طرف سے بھی کافی آفر ہوئیں کہ میں مینجمنٹ کا حصہ بن جاو¿ںلیکن اس کے باوجود میں نے ٹیچر بنے رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اس سطح پر رشوت،سیاسی مداخلت ودیگر معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہو جو کام میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں اور دوسرایہ پیشہ میرے پڑھنے لکھنے کے شوق کی مناسبت سے بھی ہے ۔
س:آپ کے نزدیک اردو کو فیلڈکے طور پر اختیار کرنے کا کیا اسکوپ ہے؟
ج:ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو زبان ہم بولتے ہیں اسے ہمیں سیکھنے کی ضرورت نہیں یا اس کے بارے میں پڑھنے اور جاننے کی کوئی اہمیت نہیں ورنہ دیکھا جائے تو اردو کو آپ فیلڈ کے طور پہ اختیار کر کے ٹیچر بننے کے ساتھ ساتھ صحافت میں ،سفارتکاری میںاور ترجمان کے شعبوں کو اختیار کر سکتے ہیں۔
س:آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آج کل لو گوں میںخصوصاً نوجوانوں میں ادب سے دوری کی وجوہات کیاہیں،کیا اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے؟
ج:سوشل میڈیا ایک وجہ ہے۔ پر مجھے لگتا ہے جو شخص جس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے وہ اسی کی لئے تگ و دو کرتا ہے۔سوشل میڈیا اس دور کا ہر نوجوان استعمال کرتاہے پر اپنی دلچسپی کی حد تک ہم اسے بنیادی وجہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ آج کے جدید دور میں یہ ایک نا قابلِ فراموش زریعہ ہے جو تعلیم کی رسائی میں مدد دیتا ہے اور حالاتِ حاضرہ سے آگاہ رکھتا ہے ۔ ادب زندگی کی عکاسی کرتا ہے پر لوگوں کی ادب سے دوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہےبچے غیر نصابی کتابوں کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو پڑھتے نہیںاور کتاب بھی دور کی بات جو روزنامے آتے ہیں لوگ اسے بھی نہیں پڑھتے جو علم و خبر کے ساتھ پڑھنے کی عادت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ۔

Tuesday, 20 March 2018

Rotation Editors List

Rotation Eidtors Urdu
Issue - 4: Awais Raza, Aakash ALi, Taj Haider, Midhat, Hasnain, Iqra Mallah, Usama, Umair
Issue No -5: Ahtesham, Misbah, Sharjeel, Saad Ahmed, Zaira, Bilawal, Arbaz, Munawar
Issue 6: Abdul Wasay, Saad Ali, Shahziab, Waqas, Jahanziab, Imdad, Ahmed Mujtaba, Rabeya
Issue 7: Shazad, Naqash Ali, Haseeb, Tanzeela, Ahmed Raza, Iqra Jawaid, Noman

Note: Editing work carries marks, therefore every student has been allotted issue. THos who will not work will lose marks.



English Rotation Editors



Sindhi ROtation Eidtors

Monday, 19 March 2018

Rabeya mughal BS Profile

To be checked

میرا ٹا پک پہلے پروفیسر زاہدآرٹسٹ تھے لیکن سَر سانگی کی اجازت کے بعد میں نے اپنا ٹاپک تبدیل کرلیا ہے۔

 تحریر۔ربیعہ مغل 
بی ۔ایس۔پارٹ۔۳
رول نمبر۔۲۸
پروفائل۔فاطمہ فیصل:
کہتے ہیں کہ پردیس کی زندگی بڑے آرام اور عیش و عشرت سے بھرپور ہوتی ہے۔لیکن سیّا نوں نے بھی خوب کہا ہے جو عزت اور لّذت اپنے ملک کی ہوتی ہے وہ کوئی اور ملک دے ہی نہیں سکتا۔میں آج ایک ایسی لڑکی کو بیان کرنے جارہی ہوں جس نے پردیس کا بھیانک اور جھوٹ سے بھرپور چہرہ دیکھالیکن اپنے عزم اور
ہمت کے سبب دوسری عورتوں کے لیے مثال بن گئی۔
اِس ظالم دنیا کا فاطمہ ایک زندہ و جاوید کردار ہےفاطمہ صوبہءسندھ کے ایک چھوٹے سے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئیںچار بھائیوں کی اکلوتی بہن اور سارے گھر کی لاڈلی تھیںانہوں نے قریب کے اسکول سے ہی میٹرک کیااور اس کے بعد کالج میں داخلا لیااس کے ساتھ ساتھ مدرسے میں عالمہ کاکو ر س بھی شروع کردیا۔فاطمہ بنیادی طور پر مذہبی تعلیم کی طرف رجحان رکھتی تھیں اس لیے دنیاوی تعلیم کو آگے نہ بڑھایا۔
 متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والی فاطمہ نے اپنی زندگی کے اس رُخ کے بارے میں سوچا بھی نہ ہوگافاطمہ کی ایک خالہ لندن سے اپنے بیٹے کے ساتھ آئی ہوئی تھیںانہوں نے فاطمہ کا ہاتھ بیٹے کے لیے مانگا جس پہ ماں باپ نے خوشی سے ہاں کردی فاطمہ کا نکاح ہوگیا ۔اور چند مہینوں میں حسین خواب سجائے فاطمہ اپنے گھر سے لندن کے لیے رُخصت ہوگئیں ۔اُن کے سا سسرال والوں نے والہانہ استقبال کیالیکن سب شروعات کا دکھاوا ثابت ہوا۔کچھ ہی دن میں فاطمہ پر یہ راز ظاہر ہوا کہ ان کا شوہر پہلے سے شادی شدہ ہے اور بے حَد عیاش اور آزاد ذہنیت بھی رکھتا ہے۔فاطمہ نے اس بات پر صبر کرلیا لیکن پھر شوہر نے اُن پر بے جا تشدد کرنا شروع کردیااور ساتھ ھی دھمکیوں سے بھی ڈراتا رہا کہ اگر کسی کو خبر کی تو اِس انجان شہر میں اکیلی رُسوا ہوجا ¶ گی۔لیکن فاطمہ بھی ہمت کا پیکر تھیں انہوں نے ایک پاکستانی جوڑا جو اُن کے پڑوس میںرہتاتھا،سب کچھ بتادیا۔جبب اس کے شوہر کوپتا چلا تو اس نے بہت زیادہ تشدد کرکے فاطمہ کو گھر سے نکال دیا۔
یقیناً فاطمہ کے لیے وہ رات قیامت سے کم نہ تھیلیکن قدرت نے عورت کو ایسی صلاحیت دی ہے کہ وہ ہر طوفان کا مقابلہ اکیلے ہی کرلیتی ہے۔فاطمہ نے آنسو بہانے کے بجائے عملی قدم اٹھایا اور نئے سِرے سے زندگی کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔چونکہ باہر ممالک میں عورت مرد کو طلاق دیتی ہےاس لیے اب فاطمہ بھی طلاق لینے کے لیے پردیس میں محنت کرنے لگیں ۔وکیل کی فیس کے لیے انہوں ںنے کام کی تلاش شروع کی۔بیچارگی کی انتہاءتھی کہ فاطمہ کے پاس اعلی تعلیم کی ڈگری نہ تھی اور نہ ہی زیادہ وسائل تھے۔وقت نے شاید ہمت ہاری لیکن فاطمہ نے نہیں انہیں پورا یقین تھا کہ ا ﷲ ان کی مشکل آسان کردے گااور پھرا نہیںایک پاکستانی مدرسے میں عالمہ کی جاب مل گئی اور ساتھ ہاسٹل میں ایک کمرہ بھی رہنے کو ملا۔حالات اچھے ہوئے تو فاطمہ نے وکیل دیکھ کر اپنا کیس دائر کروایااور پھر ان دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔
فاطمہ کے لیے یہ مرحلہ َسر کرنا معجزہ سے کم نہ تھا لیکن ارادے جن کے پختہ ہوں ،تو قدرت اور قسمت دونوں ہی مہربان ہوجاتی ہیں اور فاطمہ جیسے باصلاحیت اورصبر کرنے والے لوگ پانی کی طرح اپنا راستہ خود بنالیتے ہیں۔
فاطمہ کے گھر والے اُن کی مصیبتوں سے لاعلم تھے اور وہ خود بھی اُن کو پریشان کرنا نہیں چاہتی تھیں۔فاطمہ نے اپنے آپ کو مظبوط کرنے کے لیے وہاں ڈرائیونگ شروع کی اور ساتھ ہی انگلش لینگویج کے سینٹر میں داخلا لیااور انگریزی زبان پر عبور حاصل کرلیا۔آخر کار دو سال کی انتھک محنت کے بعد فاطمہ کے قدم پردیس میں جم گئے لیکن اِس عرصے میں بہت سی تکالیف اٹھانی پڑی مسلمان ہونے کے سبب فاطمہ نے لندن میں نقاب کو ہی ترجیح دی،اِس پر اُن کو کئی بار ہراساں کیا گیااور وہ لوگوں کی بدتمیزی اور نسلی تعصب کا شکار بھی ہوئیں،لیکن انہیں صرف اﷲ سے امید تھی فاطمہ نے بہادری کے ساتھ اِس کا بھی مقابلہ کیا۔ 
اب تو قدرت بھی فاطمہ کے حوصلے اور ہمت پر اَش اَش کررہی تھی۔فاطمہ کی قسمت ایک بار پھر اُن پہ مہربان ہونا چاہتی تھی لیکن فاطمہ کے دل میں پہلی شادی کی بھیانک تصویر تھی۔لیکن کہتے ہیں نہ نصیب ہر با ر ایک جیسا نہیں ہوتا جب انسان اپنی قسمت بدلنے پر آجائے تو راستے کا ہر پتھر اور ہر چٹان اُس کے جوش و جزبے سے ٹوٹ کر بکھر جا تا ہے۔ایک دن پاکستانی فیملیز کے گیٹ ٹو گیدر میں فاطمہ کی سادگی اور شائستگی فیصل نامی ایک ڈاکٹر کو پسند آگئی وہ ایک اچھے کردار کے حامل شخص تھے۔اور پھر دونوں کی شادی باہمی رضامندی سے ہوگئیآج فاطمہ اپنے شوہر اور دو بیٹیوں کے ساتھ نہایت خوش اور مطمئن زندگی بسر کررہیں ہےںاور اپنی انتھک محنت کامیٹھا پھل کھا رہیں ہیں۔
فاطمہ کی زندگی کسی بھی لڑکی کے لیے آئیڈیل ہے۔اُن کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھا ¶ کا جیسے انہوں نے مقابلہ کیا وہ تعریف کے قابل ہے۔فاطمہ نے دنیا کو بتایا کہ حالات اور لوگ چاہے کتنے ہی سِتم کریں اگر امید،ہمت اورخود پہ یقینِ کامل ہوتو زندگی آپ کے بتائے اور طے کیے ہوئے راستے پر چلے گی۔

Arshia Fatima, interview

ایڈیٹر : تاج حیدر 
نام : عرشیہ فاطمہ 
رول نمبر :2k18/MMC/06
انٹر ویو: عاصم اسماعیل (انٹرنیشنل موٹیویٹر )

عاصم اسماعیل انٹرنیشنل موٹیویشنل اسپیکر ہیں جو کہ بیرونِ ممالک میں بھی اپنی خدمات سر انجام دےتے رہے ہیں ۔عاصم نے کراچی کے ایک گورنمنٹ اسکول سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ اور انٹر میڈیٹ سائنس سبجیکٹ میں لیاقت کالج سے کیا اور گریجوایشن بھی اسی کالج سے کی پھر آگے مزید تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے ایم بی اے کیا اور ابھی اسلامک اسٹیڈیز میں ماسٹر کر رہے ہیں ۔ 
سوال:آپ نے اپنے کیرئیر کی شروعات کیسے کی؟
عاصم : میں انٹر سے تعلیم کے ساتھ ساتھ جاب کر رہا ہوں مجھے شروع سے میڈیا سے لگا تھا جو کہ میں ٹی وی دیکھ کر پیدا ہوا جس کی وجہ سے میں نے میڈیا میں جاب کرنا شروع کردی اسی طرح میرا کریئر شروع ہوا اور کچھ سال میڈیا میں جاب کرنے کے بعد میں نے لوگوں کو ٹریننگ دینا شروع کردی اور آج مجھے اس میں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ 
سوال:آپ نے ٹریننگ کی فیلڈ کا ہی کیوں انتخاب کیا؟
عاصم :میں نے اس فیلڈ کا انتخاب اس لئے کیا تاکہ میں لوگوں کو اسلام کی باتیں بتا سکوں اس فیلڈ کا انتخاب کرنے کے بعد میں نے اکیڈمی سے عربی سیکھی تاکہ لوگوں کو ٹریننگ دے سکوں میں جب خود اچھے سے سمجھ سکوں گا تو آگے لوگوں کو بھی اسی طرح اچھے سے سمجھا سکوں گا اسلام میں ہے کہ اچھی باتیں آگے پھیلا اس لیے میں نے اس فیلڈ کا انتخاب کیا۔ 
سوال : ٹریننگ کے دوران کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
عاصم : بہت سے مایوس کن لمحات کا سامنا کیا میں نے کیونکہ میرا تعلق پہلے شو بز سے تھا اس کی وجہ سے مجھے بہت کچھ سننے کو ملتا تھا لیکن میں نے ان سب باتوں کو درگزر کیا اور اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوگیا۔ 
سوال : آپ کی زندگی میں اور کیا مقاصد ہیں؟
عاصم : میری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کو اسلام کی طرف لے کر آ ¶ں انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی دکھا ¶ں اور اس معاشرے سے غریب امیر کا فرق ختم کردوں۔
سوال:  بیرن ملک جاکر ٹریننگ دینے کے مواقع کےسے حا صل ہوئے ؟
عاصم : میری پہلی ٹریننگ کا موضوع بچوں، والدین اور استاد کے بیچ کا تعلق پر مبنی تھا اور بس ےہی کوشش تھی کہ اپنی بات کو لوگوں کو بہتر انداز سے سمجھا سکوں اور میں اس میں کامیاب ہوگیا میری پہلی ٹریننگ سے لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ کچھ دن بعد مجھے انٹرنیشنل ٹریننگ دینے کی پیشکش ہوئی اور آج میں الگ الگ ملک جاکر ٹریننگ دیتا ہوں جس کے لیے میں نے مختلف زبانیں بھی سیکھی ہیں۔ 
سوال : آپ فی الحال کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟
عاصم : میرا ایک منصوبہ Journey of heartکے نام سے جاری ہے جس کا مقصد بچوں کو مفت تعلیم دینا ہے تاکہ وہ آگے چل کر ایک کامیاب انسان بن جائیں اور ایک میرا عزم یہ بھی ہے جو لوگ گھرو ں سے محروم ہے انہیں چھت مہیا کر سکو ں اور انشاءاللہ یہ دونوں منصوبے جلد مکمل ہوجائےنگے ۔


...................................

انٹر ویو عاصم اسماعیل 
انٹرنیشنل موٹیویٹر 

عاصم اسماعیل انٹرنیشنل موٹیویٹر اسپیکر ہیں جو لوگوں کو دوسرے ممالک جاکر Motivateکرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ گمراہی کی طرف راغب ہوتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ دین کی طرف ان کا دل موڑتا ہے تو وہ معاشرے کا بہت اچھا انسان بن جاتا ہے ۔ جس کی مثال ہم فنکاروں میں سے جنید جمشید سے دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عاصم اسماعیل کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی ہے۔ 
سوال(۱)۔ آپ نے اپنی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
عاصم اسماعیل: کراچی کے ایک گورنمنٹ اسکول سے تعلیمی کیریئر کا آغاز کیا ۔ انٹر لیاقت کالج سے سائنس میں کرنے کے بعد گریجویشن بھی گورنمنٹ لیاقت کالج سے کیا پھر آگے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایم بی اے میں داخلہ لیا پھر میں نے (ایچ آر اور فنانس میں کیا) اور ابھی میں اسلامک اسٹیڈیز میں ماسٹر کر رہا ہوں۔ 
سوال(۲)۔ آپ نے اپنے کیرئیر کی شروعات کیسے کی؟
عاصم اسماعیل: میں انٹر سے تعلیم کے ساتھ ساتھ جاب کر رہا ہوں مجھے شروع سے میڈیا میں لگاﺅ تھا جو کہ میں ٹی وی دیکھ کر پیدا ہوا جس کی وجہ سے میں نے میڈیا میں جاب کرنا شروع کردی اسی طرح میرا کریئر شروع ہوا اور کچھ سال میڈیا میں جاب کرنے کے بعد میں نے لوگوں کو ٹریننگ دینا شروع کردی اور آج مجھے اس میں بہت کامیابی حاصل ہوئی ۔ 
سوال(۳)۔ آپ نے شوبزکی جاب کیوں چھوڑی اور کیا خیالات تھے آپ کے شوبز کی جاب چھوڑتے وقت ؟
عاصم اسماعیل: میں نے شوبز اس لئے چھوڑا کیونکہ یہ گنا ہ ہے جب میں اسلام کی طرف راغب ہوا اور قرآن شریف کو تفصیل سے پڑھنا شروع کیا تو مجھے اس بات کا احساس ہو کہ میں کتنا گناہ گار بندہ ہوں حالانکہ مجھے شوبز چھوڑتے ہوئے دکھ تو بہت ہوا کیونکہ میری تنخواہ بہت اچھی تھی لیکن اللہ پر یقین رکھتے ہوئے میں نے شوبز چھوڑ کر ایک اسکول میں جاب کرنا شروع کردی جہاں میری تنخواہ صرف 7000/-تھی اللہ کے کرم سے اس میں اتنی برکت ہوئی کہ آج میں اس مقام پر ہوں۔ 
سوال (۴)۔ آپ نے ٹریننگ کی فیلڈ کا ہی کیوں انتخاب کیا؟
عاصم اسماعیل: میں نے اس فیلڈ کا انتخاب اس لئے کیا تاکہ میں لوگوں کو اسلام کی باتیں بتا سکوں اس فیلڈ کا انتخاب کرنے کے بعد میں نے اکیڈمی سے عربی سیکھی تاکہ لوگوں کو ٹریننگ دے سکوں میں جب خود اچھے سے سمجھ سکوں گا تو آگے لوگوں کو بھی اسی طرح اچھے سے سکھا سکوں گا اسلام میں ہے کہ اچھی آگے پھیلاﺅ اس لیے میں نے اس فیلڈ کا انتخاب کیا۔ 
سوال (۵)۔ ٹریننگ کے دوران کبھی آپ کو مایوس کن لمحات کا سامنا کرنا پڑا؟
عاصم اسماعیل: بہت سے مایوس کن لمحات کا سامنا کیا میں نے کیونکہ میرا تعلق پہلے شو بز سے تھا اس کی وجہ سے مجھے بہت کچھ سننے کو ملتا تھا لیکن میں نے ان سب باتوں کیا اور اپنا آپ منوانے میں کامیاب ہوگیا۔ 
سوال (۶)۔ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟
عاصم اسماعیل: میری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کو اسلام کی طرف لے کر آﺅں انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی دکھاﺅں اور اس معاشرے سے غریب امیر کا فرق ختم کردوں۔
سوال (۷)۔ پہلی ٹریننگ خود دی اس کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟
عاصم اسماعیل: پہلی ٹریننگ کا میرا موضوع تھا بچوں ، والدین اور استاد کے بیچ کا تعلق ۔ خیال کچھ خاص نہیں تھا بس یہ کوشش تھی کہ اپنی بات کو لوگوںکو سمجھا سکوں اور میں اس میں کامیاب ہوگیا میری پہلی ٹریننگ سے لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ کچھ دن بعد مجھے انٹرنیشنل ٹریننگ دینے کی پیشکش ہوئی اور آج میں الگ الگ ملک جاکر ٹریننگ دیتا ہوں جس کے لیے میں نے مختلف زبانیں بھی سیکھی ہیں۔ 
سوال (۸)۔ آپ فی الحال کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟
عاصم اسماعیل: میرا ایک منصوبہ Journey of heartجس میں میں کام کر رہا ہوں جس میں میں نے بہت سے بچوں کو مفت تعلیم دینا ہے تاکہ وہ آگے چل کر ایک کامیاب انسان بن جائیں اور ایک میرا منصوبہ ہے اپنا گھر جس میں میں غریب لوگوں کو گھر فراہم کرونگا ان شاءاللہ یہ دونوں منصوبے جلد از جلد پورے ہوجائیں گے۔ 
سوال (۹)۔ آنے والے نوجوانوں کو آپ کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
عاصم اسماعیل: نوجوانوں کو بس میرا یہی پیغام ہے کہ کسی کو دکھ نہ دیں، پیسوں کے پیچھے نہ بھاگیں ، معیاری کام کریں نہ کہ مقداری ۔ اپنے آپ کو ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کریں دوسروں کی مدد کریں لوگوں کا کام کریں اور اپنے والدین کی خدمت کریں۔ 

Rabia Wahid BS Interview

Too long,
File anme incoorect 
NOt according to approved outline 
Do not send again
نام:ربیعہ واحد
رول نمبر:۲کے۱۶۔ایم سی۔۰۴۱
کلاس:بی ایس (پارٹ ۳)
  
   ڈین اف اردو ڈپارٹمنٹ:سر جاویداقبال
      حیدرآباد میں ادبی پروگرامز 


ایک ایسی شخصیت جوعام سے خاص بنی جس نے غربت کے گھرا نے میں انکھیں کھولی پڑھنے کے لیے کتابیں کباڑے سے اٹھائیں جس کی محنت اور لگن نے اسے ایک الیکٹر یشن سے ڈین اف اردو ڈپاڑٹمنٹ بنا دیا۔ حیدرآبادکے ضلع لطیف آباد کے رہائشی جاوید اقبال سے خصوصی گفتگو۔ 
سوال نمبر ۲: ایجوکیشن کب اور کہاں سے حا صل کی؟
جواب:غربت اتنی تھی کے اچھے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کی وسعت نہیں تھی اس لیے پرائیمری محلے کے ایک معمولی اسکول سے حاصل کی اس کے بعد میٹر ک گورنمٹ اسکول سے کیا پھر انٹر کے امتحان گورنمٹ کالج سے پرائیوٹ پاس کرے اس کے بعد (۴۶۹۱) میں ایم اے اردو او لڈ کمپس میں پرائیوٹ داخلہ لیا پھرایم فل (۵۹۹ ۱)میں اور پی ایچ ڈی ۲۰۰۲ میں مکمل کیا۔
سوال نمبر۳:آپ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں تو پہلے کے دور کی تعلیم اور آج کل کے دور کی تعلیم میں کیا واضع فرق دیکھتے ہیں؟
جواب:پہلے زمانے میں تعلیم کا میار کم تھا لیکن جو بھی تھا وہ خالص ہوا کرتا تھا طلبہ دل لگا کر پڑھائی کیا کرتے تھے اور ان کے زہن بھی اچھے ہوا کرتے تھے آج کل شاگردوں میں بھی تعلیم کو لیکر وہ دلچسپی دیکھائی نہیں دیتی۔اور ہمارا محکمہ تعلیم بھی کرپشن کا شکار ہے۔ اس لیے لوگ آج کل تعلیم بھی پیسوں سے خریدتے نظر آتے ہیں۔
سوال نمبر ۴:اردو کی فیلڈ میں قدم کیسے رکھا ؟اردو میں آنے کی کوئی خاص وجہ؟
جواب:پڑھنے کا شوق تو بچپن سے بہت تھا تیسری جماعت میں تھا تو محلے کی لائیبرئر ی سے بچوں کی کتابیںاٹھا لاتا تھا پھر ناول،قصصے کہانیاں پڑھنے کا شوق ہو گےاتھا۔تیرا سا ل کی عمر میں الیکٹریشن
 کاکا م شرو ع کیا گھو متا تھا جگہ جگہ جہا ں کبا ڑے میں کتا بیں ملتی وہا ں سے پڑ ھنے کے لئے لے آ تااور اس طر ح اردو سے لگا وہو گیا اور اردو لیٹریچرمیں دا خل ہو گیا جب اردو ایم اے میں دا خلہ لیا تو دیکھا کہ جو سلےبس ہے وہ میں پہلے سے پڑ ھ چکا تھا ۔
سوال نمبر۵:آپ کی نظر میں اردو لیٹریچر کیا ہے؟
جواب:اردو لیٹریچر کی تا ریخ بہت پرا نی ہے تقریباپانچ سو سا ل پہلے شرو ع ہو ئی اور اس میں شعراءکا 
بڑا تسلسل رہا ہے سب سے زیادہ بو لی جا نے وا لی زبا ن اردو ہے بر صغیر میں شا عری کے حوا لے سے
 با ت کی جا ئے تو سب سے زیا دہ شا عری اردو ذبا ن میں کی گئی ہے قومی گیتوں نے بھی اردو کو بہت شہرت بخشی ہے کیو ں کہ وہ بھی اردو میں ہو ا کر تے ہیں لیکن اب لو گو ں کا زوق بدل گیا ہے اردو لیٹریچر ہما ری زندگی میں نہیں رہا ۔
سوال نمبر۶: اردو ادب کا ہما رے حید رآبا د میں کیامعیار ہے؟
جواب: آجکل ہما ری ترجیحات بدل گئی ہیں ہم اردو پر تو جہ ہی نہیں دیتے اسکی بنیا دی وجہ انٹرنیٹ اور ہما را ٹی وی ہے ہم اپنا زیا دہ تر وقت اس پر ضا ئع کر دیتے ہیں آجکل کوئی اردو سیکھنا ہی نہیں چا ہتا لوگو ں میں اردو کا وہ رحجا ن بھی نہیں رہا پہلے مشا عرے بھی ہوا کر تے تھے لیکن اب وہ چیز بھی ختم ہو تی جا رہی ہے 
سوال نمبر۷: حیدرآبا د میں ادبی ادا روں کی کیا صورت حا ل ہے؟ 
جو اب : سرکاری ادا رے تو اپنی جا نب چل رہے ہیں پہلے کے مقا بلے اب کئی زیا ہ کتا بیں شا ٰ ٰ ئع ہو تی ہیں جن میں تحقیقی کتا بیں ،مکالمے،سفر نا مے اور کئی قسم کی کتا بیں مو جو د ہیں لیکن اب حا ل یہ ہے کہ ہمارے پا س کتا بیں تو بہت ہیں لیکن پڑھنے والوں کا فقدان ہے۔
سوال نمبر۸:لو گوں کا رجحا ن اردو کی طرف کیو ں کم ہو تا جا رہا ہے؟
جواب: اس کی بنیا دی وجہ ی ہے کہ ہما رے یہاںانگلش میڈیم اسکولز کی بہتا ت ہے و ہا ںزیادہ طر انگلش 
کو ترجیح دی جا تی ہے اس لئے لو گ اردو سے دور ہو تے جا رے ہیں اس کی وجہ ہما را انٹرنیٹ اور دوسری سوشل سا ئیڈز ہیں پہلے وقتوں میں شا گر دوں کو کا فی معلو ما ت ہو ا کر تی تھی اب ان کو بنیا دمعلوما ت بھی نہیں ہو تی لو گ اردو کو وقت کا ضائع سمجھتے ہیں اس لئے اس پر تو جہ نہیں دیتے۔
سوال نمبر۹:حیدرا ٓباد میں اردو لیٹریچر کے حو الے سے کو ئی کو نفرنس یا سیمینا ر منقعد کیے جا تے ہیں یا نہیں؟ 
جواب: اس حوا لے سے کوئی خا ص کو نفرنس اور سیمنار منعقد نہیں کئے جا تے لو گو ںکی تو جہ نہیں رہی اوردلچسپی بھی کم ہو تی جا ری ہے پہلے کا فی رجحا ن تھا اس کا اب یہ بھی پستی کی طرف جا تی جا ری ہے یہ ہے کہ چند نچلے سطح پر اس حو الے سے پر وگرا م کئے جا تے ہیں ۔
سوال نمبر۰۱:لیٹر یچر کے پر وگرامز نہ ہو نے سے لوگو ں میں کو ئی خا ص تبدیلی دیکھنے میں آئی ؟
جواب: لیٹر یچر ہمیں بنیا دی طو ر پر فطر ت کے قر یب رکھتا ہے ہم فطر ت کو لیٹر یچر کے زریعے آ سا نی سے 
دیکھ سکتے ہیں لیٹریچر ہمیں ارد گر د کے ما حو ل کے با رے میں آ گا ہی بھی دیتا ہے معا شرے کا آئینہ بھی بنتا ہے اگر ہم لیٹریچر سے دور ہو جا ئے گے تو ہم خود بلکل تنہا ہو جا ئے گے یہی وجہ ہے کہ ہم پر جھو ٹ کے
 اثرا ت بڑ ھ گئے ہیں ہم تحیق نہیں کرتے جو دیکھا یاجا تا ہے ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں۔
سوال نمبر ۱۱: پہلے جو پرو گرامز ہوا کر تے تھے وہ کس مو ضو ں پر ہو اکر تھے اور آ پ نے کتنے پروگرا مز کی
 سر برا ہی کی؟
جو اب : مختلف مو ضو عا ت پر ہو ا کر تے تھے تحقیق کے حوالے سے علامہ اقبا ل اور سر سید کے حوالے سے اور مختلف ادبی حوالے سے ہو ا کر تے تھے چو نکہ لو گوں کے زوق بدل گئے ہیں لو گو ں کی دلچسپی نہیں رہی اس لئے اب پر وگرا مز کا ریشو بھی بہت کم ہو تا جا رہا ہے۔ اردو ہما ری ما دری زبا ن ہے اس سے محبت کر نی چا ہیے پا کستا ن میں سب سے زیادہ اردو بو لی جا تی ہے ،لکھی جا تی ہے اور پڑھی بھی جا تی ہے اس لئے بچوں کی تربیت کے دوران اردو کو بھی سا منے رکھا جا ئے ۔
سوال نمبر ۲۱:لوگ آج کل انگلیش پر زیادہ توجہ دیتے ہیںان میںا یک ریس لگی ہوئی ہے او ر ا نگلیش لوگوں کی اولین ترجی بھی بنی ہوئی ہے آ پ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں؟
جواب:انگلیش ہماری دفتاری زبان ہے ہر کام انگلیش میں ہوتا ہے اس لیے لوگ زیادہ اس کی طرف جارہے ہیںتاکہ ان کو ایک اچھی ملازمت مل سکے لیکن آج کل لوگو ں نے اس کو اسٹیسٹ کا مثلا بھی بنا لیا ہے جو کے لوگوں کے دلوں میںفرق پیدا کررہا ہے اور انفرادیت کو خاصہ متا ثر کرراہا ہے۔بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے تاکہ بچہ بہ آسانی اور بہتر انداز میں سیکھ سکے۔۔
سوال نمبر۳۱:کو ئی پیغام جو آپ اردو کے حوا لے سے دینا چا ہیں؟
جواب: ا نگلش کے سا تھ سا تھ اردو پر بھی تو جہ دیں اردو پڑ ھینگے تو ان میں لکھنے کا بھی شوق پیدا ہو گا 
کا لم ،آرٹیکل، مضمو ن نگا ری اور دیگر کا م بہتر طر یقے سے سر انجا م دے سکیں گے اردو سے لگا و ہو گا تو ہی 
لیٹر یچر کی طرف آ ئینگے ہر زبا ن کا لیٹر یچر منفرد ہو تا ہے اس کو سیکھنا چا ہیے اردو پر ہم تو جہ دیں گے تو ہمیں کئی 
نئے شا عر ملیں گے وہ اپناموقف لیٹر یچر کے زریعے بہتر طریقے سے دے سکیں گے۔



Noorulain BS Interview



نورالعین انصاری
بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر : ۰۸
انٹرویو:              ایوننگ ڈائریکٹر آف انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن

              پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار شاہ
تعارف: جس طرح والدین کا سایہ بچوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح ایک استاد بچوں کے لئے والدین کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اچھا استاد نہ جانے کتنے ہی شاگردوں کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچاتاہے۔ایسے ہی ایک استاد پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار شاہ جن کا تعلق سندھ کے گوشے مٹیاری سے ہے۔ 20 مئی1971ئ میں پیدا ہوئے۔ 1995ئ میں جامعہ سندھ کے شعبہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ایم۔بی۔اے کر کے 1995ئ سے ہی انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے طلبہ کو پڑھا کر اپنے فرائض باخوبی انجام دے رہے ہیں۔ 
سوال: سَر آپ کے کرئیر کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا؟
جواب: میں ایم۔بی۔اے کرنے کے بعد جب میں ڈگری کا انتظار کر رہا تھا تو اس دوران کراچی چلے گیا تھا۔ ایک پرائیوٹ کمپنی میں نوکری کر نے، ابھی مجھےوہاں نوکری کرتے ایک مہینہ بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ مجھے جامعہ سندھ کے شعبہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈائریکٹر انور شاہ کی کال آئی اور مجھے جامعہ سندھ میں پڑھانے کے لیے بلایا گیا چونکہ میری بی۔بی۔اے میں تیسری پازیشن تھی چناچہ میرے ایم،بی،اے کے نتائج کا انتظار کئے بنا مجھے جاب مل گئی۔ جبکہ میری پڑھانے کی بلکل خواہش نہ تھی۔میرا شروع سے ذہن بینک میں نوکری کرنے کا تھا۔ لیکن مجھے پڑھانا اچھا لگنے لگا تو میں نے اسے ہی جاری رکھنے کا فیصلہ لیا۔ جون 1995ئ میں مجھےاسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ ملی، 1996ئ میں میں مستقل لیکچرر بن گیا اور دو مہینے پہلے میں نون اور ایوننگ کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا ہوں۔
سوال: سَر آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ ڈائریکٹر کے عہدے کی خدمات سرانجام دیں گے؟
جواب: خدا کی طرف سے ہوتا ہے جو ہوتا ہے۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ٹیچنگ کی طرف جانے کا،آج میرے کرئیر کے 22 ، 23 سال گزر گئے پڑھاتے ہوئے۔ شاید شروع کے پانچ سال بعد میں نے سوچا کہ میں کسی بینک میں میں چلے جاتا ہوں لیکن میں گیا نہیں اور آج میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے تعلیمِ ادارے میں ہی رکھا۔کیونکہ اب میرے نزدیک میرے لیے اس سے بہتر کوئی اور دوسرا شعبہ نہیں ہے۔
سوال:سَر ایک ڈائریکٹر جیسے بڑے عہدے کو سنھبالنا کتنی بڑی ذمہ داری ہے؟
جواب: دراصل یہ کوئی بڑی ذمہداری نہیں ہے۔اگر آپ کے اندر صلاحیت ہو تو بس وقت دینا پڑھتا ہے، لوگوں کی مینجمیٹ دیکھنی پڑھتی ہے، اور سب سے بڑی چیز آپ کا اخلاق اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔ ادارے کو وقت دیں آپ کو خود با خود تمام تر معملات سمجھ میں آنے لگتے ہیں اور آپ آسانی سے مینج کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم لوگوں کا تعلق بزنس ایڈمنسٹریشن سے ہے تو زیادہ پریشانی درپیش نہیں آتی۔
سوال:سَر آپ کے نظریے میں شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کیا ہے؟
جواب: شعبہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ایک بہت میجر اور زبردست قسم کا شعبہ ہے۔ جس کا تعلق بزنس سکھانا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس شعبہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک بہترین قسم کے بزنس مین بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ بینک میں جاب کرسکتے ہیں یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی یا دنیا کے کسی بھی ادارےمیں باآسانی کام کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس مارکیٹنگ، مینجمینٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فانینس، اکاو ¿نٹنگ ، بینکنگ اور ہر قسم کی تعلیم دی جاتی ہے۔تو اس لیے ہمارہ طلبہ کسی بھی ادارے میںبا آسانی کام کرسکتا ہے۔
سوال: سَر ایک بزنس ایڈمنسٹریشن کا شاگرد معاشرے میں کس طرح تبدیلی پیدا کرسکتاہے؟
جواب: ہمارے ادارے کا اصل تعلق بزنس سے ہے اور اگر ملک کے اندر بزنس کو فروخت ملے گا تو روزگار بڑھےگی، گھروں کا چولھا جلے گا، بچوں کو تعلیم ملے گی، پہننے کو کپڑرےملیں گے، گھر ملے گا تواگر بزنس بڑھے گاتو خوشحالی آئے گی ، روزگار ہوگا، انڈسٹریز کھولیں گی تو ملک ترقی کرےگا اورسی طرح ہم اقتصادی ترقی تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ ہی ہمارا اصل مقصد ہے۔
سوال: ہمارے ارد گرد ہر بڑے چھوٹے ادارے میں مینجمینٹ کا بگاڑ ہے جب کے ہر سال انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے بہت سے طلبہ ڈگری حاصل کر رہے ہیں سَر اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: اگر بات بینکنگ کے حوالے سے کی جائے تو میں خوداس بات کا گواہ ہوں کہ ہر بینک میں ٹاپ پازیشن سے لے کر آخر تک ہمارے طلبہ موجود ہیں اسلامی بینک، انشورینس کمپنیز یا سٹیٹ لائف آپ کہیں بھی چلے جائیں اوراللہ کا شکر ہے کہ وہاں سے خاصے اچھے نتائج مل رہے ہیں۔ اگر بات کی جائے گورنمنٹ اداروں کی تو وہاں بھی خاصی کارآمد کارکردگی سرانجام دے رہے ہیں۔

Saman Gul BS Profile


125 words are short. foto needed
ثمن گل 
بی ایس تھری (اردو)
رول نمبر:۴۹
پروفائل:جوتی

جس طرح ہم نے سنا ہے کہ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے ۔ہمیں ہمیں کی ایک چیز کی جستجو ہو تو قدرت ہمارے اس کی طرف جانے والے راستے کھول دیتی ہے۔اسی طرح جوتی نے بھی صرف جستجو کی تھی سماج کی خدمت کے لیے تو قدرت نے اس کے لیے راستے کھول دیئے اور منزل آسان کردی۔ 
  جوتی کراچی اور حیدرآباد کے درمیان کے ایک چھوٹے سے گاﺅں تھانہ بولاخان سے تعلق رکھتی ہے۔جس کی تاریخ پیدائش ۲۱جولائی۵۹۹۱ہے۔ گھارو میں اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور حیدرآباد کے زبیدہ کالج سے بی ایس سی کر کے اب جامعہ سندھ سے شعبہ سائیکولوجی سے ماسٹرز کر رہی ہیں۔
  جوتی نے بہت کم عمر میں ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھنے کا سوچا جو ان کے لوگوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دیں۔جوتی نے اس خیال اور سوچ کو اپنے بڑوں کے سامنے رکھا اور ان کے بڑوں نے ان کا پورا ساتھ دیااور اس طرح حیدرآباد کی سیٹیزن کالونی میں جوتی کے خیالات اور خوابوں کا ادارہ خالصہ انسٹیٹیوٹ کے نام سے تعمیر ہوگیا جس میں جوتی آج پرنسپل کے عہدے پر ہیں اور پورے ادارے کو لے کر چل رہی ہیں ۔
  جوتی نے یہ ادارہ خاص کر اپنی ان ہندﺅ خواتین کے لیے تعمیر کیا جو مشکل سے تین یا چار جماعت پڑھی ہوتی ہیں ۔ جوتی کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کو دنیاوی طور طریقوں کے ساتھ ساتھ اپنے دھرم کے بارے میں بھی سیکھاکے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔
 پہلے خالصہ انسٹیٹیوٹ صرف ہندوستان میں تھا لیکن جوتی کی وجہ سے اب ان کے لوگوں کی آوانی کے لیے اس کی برانچ حیدرآبادمیں بھی ہے اس میں پلے گروپ سے انٹر تک کی تعلیم دی جاتی ہے اور ساتھ ہی انگلش لینگویج کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔
  رہی بات فیس کی تو ہر ادارے کی کچھ نہ کچھ فیس تو ہوتی ہے اسی طرح اس کی بھی ہے لیکن جو فیس دے سکتا ہے وہ دے جو بنہیں دے سکتا وہ فری میں تعلیم حاصل کرے کیونکہ یہ ادارہ بنا ہی ان لوگوں کے لیے ہے جومہنگے اسکو لوں اوراداروں کی فیس نہیں دے سکتے تو وہ یہاں مفت میں تعلیم حاصل کریں اور اپنا مستقبل سنواریں ۔
  جوتی نے اپنے ادارے کی بہتری اور بھلائی کے لیے ہندوستان میں اپنی بڑی سے بھی بات کی ہے کہ وہ بھی اس کا ااس اچھے کام میں ساتھ دیں۔
  محض۲۲سال کی عمر میں اپنی تعلیم کے ساتھ ایک نئے ادارے کو کھڑا کرنا اور چلانا آسان بات نہیں ہے اس کے لیے اچھے تجربے کے ساتھ بہت ٹائم کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن جوتی نے یہ مشکل کام لوگوں کی بھلائی کے لیے کر کے دیکھایا ہے لوگ صحیح کہتے ہیں کہ جب نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔


Munawar Khan BS Interview Sent after deadline

Sent after deadline
Feature and profile are also not sent within deadline
Too short
Question NO 1 should be put in the introduction.
There should be around 12 question
تحریر : منور خان 
رول نمبر : 2K16 / MC / 72
کلاس : بی ۔ایس پارٹ ۳
انٹرویو :-
الحاج اشرف بن محمد
الحاج اشرف بن محمد جوکہ آل سندھ پرا ئیویٹ ایجوکیشن ایسوسی ایشن کے صدر ہیں ۔ انکو انکی تعلیمی صلاحیتوں اور انسانی خدمات کی وجہ سے کئی اعزاز ات سے نوازا جا چکا ہے ۔اس کے علاوہ یہ ٹیچر ز کے حقوق کیلئے گسٹا یونین میں بھی کافی محترک رہے ہیںاور ہر محاظ پر ٹیچر ز حقوق اور ایجوکیشن میں مثبت کردار ادا کرنے کے جذبہ سے سر اشرف بن محمد سے ہو گفتگو نذر قارئین ہے۔
سوال:سب سے پہلے تو آپ اپنی کو الیفیکشن کے بارے میں بتائیں اور آپ کتنے سال سے ایجوکیشن کیلئے خدمات فراہم کررہے ہیں؟
جواب: میں نے ماسٹر کیا ہے (Math)میں اور الحمد اللہ میں بتیس سال سے ایجوکیشن کے حوالے سے خدمات فراہم کر رہا ہوں 
سوال: ایجوکیشن کے علاوہ انسانی حقوق کیلئے آپکی کیا خدمات ہیں ؟
جواب: ہومن رائٹس کا بھی میں (ایچ ۔آر۔ سی ۔پی)ممبر ہوں اور اس میں بھی میں نے آواز جہاں پر اٹھانی تھی اٹھائی ہے اور میں نے چائلڈ لیبر کیلئے ہر لحاظ پر آواز اٹھائی ہے (ایچ۔ آر۔ سی ۔پی ) کے پلیٹ فارم کے تحت کہ حکومت نے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کیلئے تعلیم مفت کردی گئی ہے مگر یہ بچے سڑکوں پر اور کارخانےوغیرہ میں معمولی اجرت پر کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے یہ بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں میں نے کئیں مرتبہ گورنمنٹ سے اس بات پر آواز اٹھائی ہے کہ آپ ان کو پابند کر یں کہ ان بچوں کو مزدوری کے بچائے تعلیم دلائیں ۔
سوال:آپ کا ایجوکیشن کیرئیر کس مقام سے شروع ہو تا ہے ؟
جواب: ابتدا میری جو ہے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 22نومبر 1947میں ہوئی ۔اس کے بعد میں وقتاًفوقتاً پرا ئمری سے ترقی کرتا ہوا ہائرسکینڈری اسکول کای ہیڈ ماسٹر ہوکہ ریٹائرڈ ہوا۔
 سوال : آپکے خیال میں ایسے کیا اقدامات ہونے چائیے جس سے ہماری ایجوکیشن میں بہتری آسکے ؟
جواب: میرے خیال سے پاکستان کے ایجوکیشن سسٹم میں تمام پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکول اور کا بجز میں ایک ہی معیار کی تعلیم ہونی چائیے اور ان کا کانصاب تعلیم بھی ایک جیسا ہونا چائیے ۔ہمارے یہاں المبہ یہ ہے کہ امیر کیلئے الگ معیار تعلیم ہے اور غریب کیلئے الگ یہ امتیازی فرق ختم کرکے سب کو ایک جیسا ماحول اور معیار دینا چائیے ۔جبکہ اساتذہ کو پنکچول کر نا بھی بے حد ضروری ہے ۔

Sunday, 18 March 2018

Mahnoor BS Profile

File name is wrong.
Why u inserted pix in the text? it was repeatedly instructed
This is not proper profile
 عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی سوشالاجسٹ 
ما ہ نور چنا -بی ایس III - ۴۴

غزالہ شوکت نے 10 دسمبر 1978 ءمیں تحصیل سیون کے ایک چھوٹے سے شہر بوبک میں آنکھ کھولی۔ بچپن کے معصومیت بھرے پلوں میں اپنی تعلیم کا ابتدائی سفر اپنے ہی آبائی شہر بوبک میں شروع کیا ۔شروعاتی سفر میں کافی حد تک مشکالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آپ نے اپنا سفر اُس وقت شروع کیا جب عورتوں کو صرف گھروں میں کام کرنے کے لئے محدود رکھا جاتا تھا عورتوں کی تعلیم اُس وقت ایک خواب کی مثل تھی جو خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ لڑکیوں کو پڑھانا معاشرے میں فساد پھیلانا سمجھا جاتا تھا ۔ اُس دور میں اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنا غزالہ کا بنیادی مقصدتھا ۔ اُس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنے گاﺅں میں مڈل کلاس پڑھنے کے بعد جامشورو میں شفٹ ہوئی ۔ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے میٹرک کلاس پاس کرنے کے بعد زبیدہ کالج جامشورو میں پری میڈیکل کی سند اچھے نمبرو ں سے حاصل کی ۔اپنی شہر کی دوسری لڑکیوں کی تعلیم کی پرواہ کرتے ہوئے آپ نے سندھ یونیورسیٹی کے شعبہ سماجیات میں داخلہ لیا ۔ اپنی محنت اور قابلیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے ساتھ اپنی ڈگری حاصل کرکے سماج میں کچھ کرنے کا عزم کیا ۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر غزالہ نے بتایا کہ میرے تعلیمی سفر میں جن جن مشکلات کا سامنہ میں نے کیا وہ مشکالتیں دور کرنے کا عزم کیا تھا ۔ خود میرے گھروالوں نے جو تکلیفیں برداشت کی جس کی بدولت میری پوری فیملی کاہر فرد ماسٹرز کی ڈگری کے ہمراہ نمایا ہے ۔ جبکہ میں نے پی ایچ ڈی کی ہے ۔ڈاکٹر غزالہ نے ماسٹرز کے تھیسز میں ایک این جی او کے ساتھ انٹرنشپ بھی کی جبکہ اُن کے تھیسزکا عنوان بھی عورتوں کے حق سے ملا جھلا تھا ۔اپنے تعلیمی سفر کو بڑھاتے ہوئے 2004 میں رورل ڈیولپمنٹ میں ایم ایس سی جبکہ سوشالوجی شبعہ میں ایم فل کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگر ی کے ساتھ سفر کو اختتام پزیر کیا ۔
اس بات سے یہ انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے پورے تعلیمی سفر میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں آواز اٹھانے ، بیداری کا شوق پیدا کرنانہ صرف آپ کے خاندان بلکہ پوری عورت ذات کے لئے فخر کی بات ہے اپنے تعلیمی سفر میں استادو ں کی محنت کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ میرے استاد بڑی محنت و شفقت سے پڑھاتے تھے ان کے ساتھ ساتھ میرے یہاں تک کے سفر میں میرے بھائی کا بھی اہم کردار رہا ہے جو ہر مشکل وقت مین سہارہ بن کے ابھرتا رہا ہے ۔
تعلیم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں غزالہ کا کہنا تھا کہ ہمارے آج کل کے شاگرد وں میں تخلیقی صلاحیتیں نا ہونے کے برابر ہیں جو انہیں پڑھایا جاتا ہے بس ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جس کے باعث ہمارا تعلیمی رجحان اتنا اچھا نہیں ۔عورتوں کے حوالے سے ایک سوال میں ڈاکٹر غزالہ نے بتایا کہ ہمارے سماج میں عورتوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن دیکھا جائے تو کسی بھی ذات سے پہلے ایک اچھا انسان ہونا لازمی ہے ۔ ہر عورت کو اپنی تعلیمی دنیا اچھی بنانی چاہئے ۔ کیونکہ ایک عورت کے پڑھنے سے پورا گھر پڑھا لکھا نظر آتا ہے ۔عورت کو چاہیئے کہ نوکری نہ ملے مگر ایک ماں کی حیثیت سے وہ اپنی پہچان بنا سکتی ہے ۔اس وقت ڈاکٹر غزالہ شوکت سوشالاجی شعبہ میں سوشالاجی آف ومین ، کمیونٹی ڈولیپمنٹ اسٹڈیز کے ساتھ ساتھ سوشل پرابلمز آف پاکستان جیسے مضمون پڑھانے کے فرائض سر انجام دے رہی ہے ۔ اپنے شاگرد میں حوصلا افزائی کے ساتھ ان کے اُن کے مستقبل معمار کے لئے شعور بیدار کرنا اپنا مقصد سمجھتی ہے ۔

Zaira Ansari BS Profile


زائرہ انصاری
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 121
پروفائل:دانیال حسین زئی

آج کے جدید دور میں انسان ٹیکنالوجی کے لحاظ سے انتہائی عروج پر ہے اور تعلیم یافتہ دور کے مطابق انسان کو قائم رہنے کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت اور کاروباری تعلیم کا ہونا ضروری ہے.. ان ہی ضرورتوں کو پانے کا شوق رکھنے والے لوگوں میں دانیال حسین زئی بھی شامل ہیں...

   جنہوں نے اپنی زندگی کے بہت سے سال غربت میں بسر کیئے کیوں کہ مشکلات نے بچپن ہی سے ان کو اپنے گہرے میں لیا ہوا تھا. مالی حالات کی وجہ سے ان کے باپ ڈیپریشن اور دماغی مرض جیسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے ایسے میں دانیال حسین نے اپنے گھر کی کفالت کرنے کے لیئے بچپن ہی سے محنت کرنی شروع کر دی پڑھائی کا جنون رکھنے والے اس شخص نے ایسے حالات میں نہ صرف خود تعلیم حاصل کی بلکہ بہت سے اسکول اور کالج میں بھی تعلیم دینے کا کام سر انجام دے رہے تھے...
اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے انھوں نے بہت کوششیں کی یہاں تک کہ گھر گھر جاکر بچوں کو تعلیمِ دی اور مختلف ٹیوشن سینٹر میں بھی پڑھایا اور اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کی اپنی پڑھائی کا خرچا اٹھانے کے علاوہ اپنے بہن بائیوں میں بڑا ہونے کی صورت میں ان کی بھی کفالت کی عام طور پر اتنی محنت کرنے سے لوگ غصے میں رہنے لگ جاتے ہیں یا مزاج میں سختی پیدا ہوجاتی ہے لیکن دانیال سر نہایت عجزو انکساری کا پیکر بنے رہے یہی نہیں بلکے انہوں نے اپنی تعلیم آگے جاری رکھی اور کئی کورس اور ڈپلوما کرے سر دانیال ہمارے لیئے بہتریں نمونہ اور باعثِ فخر ہیں

دانیال حسین نے اتنی تنگی ہونے کے باوجود اپنی تعلیمی جنون کو برقرار رکھا اور محنت کرتے ہوے منیجمنٹ سائنس کیمیائی انجینرنگ اور بجلی گھر میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس شعبہ میں بہت سی تحقیق بھی کی ہے جس میں انھیں ایوارڈ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے صرف یہ ہی نہیں بلکہ علم کے جنونی اِس شکس نے آئی ٹی جیسے شعبہ میں بھی سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے جو کہ خود ایک بڑی کمپنی میں پایا جانے والا سوفٹویئر ہے.. اِس کے علاوہ انہوں نے کانفرنس ورک شاپ اور دیگر اعلی پذیر تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں انجام دی ہیں جس میں انہیں مختلف ایوارڈ حاصل کرنے کا عزاز حاصل ہے اور اب وہ بیرونِ ملک کی معروف کمپنیوں کے ممبر ہیں

ان کا اولین مقصد یہی ہے کہ یہ اپنے علم کے ذریعے نوجوان نسل میں تعلیم و تربیت اخلاق اور ادب کی طرف راغب کر سکے.. ان کے بہت سے شاگردوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ بہترین استاذہ کے ساتھ ایک اچھے دوست بھی ہیں خوش اخلاقیات کی وجہ سے ہی بہت سے ان کے شاگرد ان سے ہی تعلیم حاصل کرنا پسند کرتے ہیں اتنی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ان میں غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ یہ لوگوں میں علم کو بنٹ کر خوشی محسوس کرتے ہیں اِن کی ذہانت ک لوگ گرویدہ ہیں بڑے سے بڑے مسلہ کو بھی نہایت سہولت کے ساتھ نبٹا لیتے ہیں۔۔ابھی حال ہی میں انہوں نے اپنے طلبا کے لیئے موٹیویشنال ورک شاپ رکھی جس میں ان کا مقصد نوجوانوں میں تعلیم کی ترغیب دینا تھا یعنی یہ اپنے سے وابستہ لوگوں میں تعلیمی شعور پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اِس طرح اپنے تعلیم کے شوق کو بھی پورا کر رہے ہیں

 دانیال ایک رحم دِل انسان ہیں انکی اتنی خوبیوں کی ہی بدولت یہ آج اِس مقام پر ہیں کہ ہر ایک ان کو عزت کی نگہ سے دیکھتا ہے.. ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے انسان میں ہمت بڑھتی ہے جس کی وجہ سے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے انتھک محنت کرتا ہے اور بالآخر اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے...

Nadir Jatoi BS Interview

To be checked
Revive the Origin: an Interview from Faqeer Faheem Alan Faqeer
Alan Faqeer was a legendary artist of all times in the history of Pakistani. Faqeer Faheem is Son of Alan Faqeer. He is on the mission to continue a legacy of his father by promoting diverse Sindhi local music. My own interest in taking this interview was to understand his philosophy about local music and contemporary music. Readers are invited to read the responses that were thought provoking regarding our struggling local music:

Q: How did you get fond of music?
Faheem: “My fond for Faqeeri Nizam and music is the result of my father’s company. Since my childhood I was with my father. I had to adopt this thing because my father wanted, before he died, anyone of us children to continue this, it should not be stopped. I have learnt from my father from very early age, not only music but perks of spending life, with simplicity it should be spent.”
Q: How was your relation with your father?
Faheem: “We stayed in a hotel, I and baba sain, for a show. He shared, “rest are my kids but you are my Sendho,” I couldn’t get it. Then he clarified, ‘Sendho’ is an old Sindhi word which meant ‘friend’. He said, “Rest are my kids but you are my friend”.  We had frankness just like friends. Whenever we conversed, those hours were soul craving and pleasing.  
Q: What is Sufism according to you?
Faheem: “Sufism is message of love. If you go deep into Sufism, it is description of Allah’s creation and his different colors. Sufism is to make humans the humans and to create harmony and unity among humans. It is our Sindhi culture; our culture has retained it till this date. Sindhi civilization is older than Egyptians. Though our civilizations was first to build the drainage system, we have lost our way, I believe our people has to go far to retrieve lost recognition again.”
Q: Is music in your routine or it depends on your mood?
Faheem: “Zikar (remembering Allah) and music is part of my evening routine. With group of some friends, in daily sitting, I sing and do zikar of mola sain (God). It’s soul refreshing. Man busy in worldly practices and problems gets disturb, here peace is not found. This form of zikar and music is color of Allah sain , malik sain, it offers you peace of mind.”
Q: How do you see contemporary music?
Faheem: “What should be said, whose name should be taken or blamed for destroying our music’s root.  Listeners have no more remarkable taste of music. I am not blaming listeners; it all falls back on the shoulders of musicians. They are the makers and providers, Raja teri parja (pitying the public of king), whatever is available in market you will be buying it.  I was told to work hard but looking at the quality of the ofsteners’ taste, I feel discouraged. They already have developed different taste in music, if you are not having taste for the music that I am going to work on then who will hear it out? Listeners should be aware of music enough that they could take out mistakes of musicians on their own.”  
Q: How do you see future of local music?
Faheem: “Once I performed for the army event. Arif lohar (Legendary artist) was also part of it. One of the Major (rank in army) pointed out on us and said “we should be representing our culture and music. We don’t have war of weapons with our neighboring countries, but cultures. Others are wiping out our culture, changing it from the very core. Although, others have caused this tragedy of dilemmatic cultures to us, however we are our own enemy to let them cause this damage. We have to work on promoting our indigenous culture. Others couldn’t fight face to face wars with us, but later they damaged our culture.” Take an example of Latif’s Raag, it gave our music new identity in the world of music. It has represented and given us prominent status in the world. Looking at the fact we are not anymore paying attention to it, the local music.”  
Q: Any new project or video you are onto?
Faheem: “From a long time, I am in mood to publish something nicely done under my supervision, sooner.” 
Q: Is there any message that you will like to relay to our new generation?  

Faheem: “You cannot put curtains on your eyes or ears. Simply, reward tribute and pride to your origin. Don’t chase the world, look behind and locate your origin. Search answers of who are you? Whom do you belong? What are your roots? Compare the differences. We are supposed to have this much knowledge to know what is worth of our attention and time. You should be competent enough to know what should be done in future. Have a glimpse to your insides everything depends on you.”

Interview by Shifa Agha

Not checked


Interview by Shifa Agha
Bs-Part III       
2K16
Rocky Samuel the student of M.Phil. in the field of Zoology, but his identity does not reflect his complete personality. He has a much more rich background of classical music family. His ancestors belong to Gawaliar family of classical music.

Question: Though you belong to a very famous classical family, why you chose to do M.Phil. or PhD in Zoology instead PhD in music or other subject of Fine Arts like performing art?
Rocky: I chose Zoology because since my childhood I felt immense love for animals. Right now I’m doing M.Phil. under the supervision of Prof. Dr. TahiraChandio (Chairperson Zoology) and co-supervision of Sir Bikha Ram (Vice Chancellor LUMHS). My research topic is ‘Diabetes Foot’. I’m planning to do PhD. I’m also interested in doing PhD in music from Pakistan, because Pakistan is the country with the best classical music.

Question: As you said you are very much interested in doing PhD in music, have you got basic education in music?
Rocky: I am a Tabla player, I have received proper education of tabla playing. I have won ‘All Pakistan challenge’, thrice, held in Faisalabad, Peshawar and Quetta, where I represented ‘University Of Sindh’.

Question: Yes[A1] ! Tabla is a good and important musical instrument, so from which ustaad you learnt the art of tabla playing?
Rocky: I received my basic education from my uncle ‘UstaadAslam’, then I became “Ganda-bandh” student of ‘UstaadHarishchander’.

Question: You mentioned that you learnt the basics of tabla playing from your uncle, so from where and when exactlythis tradition of music started in your family?
Rocky: When my family migrated to Pakistan, our ancestry roots cut off from India, so I don’t know much about ‘when and where exactly’ but my grandmother once told me that our ancestors belonged to Gawaliar originally from Jalandhar, India, and from there my grandfather got his musical education.

Question: May I know the famous names related to music from your family?
Rocky: My father ‘Ustaad Samuel Veero’is a well-known Pakistani classical musician. He is a student of ‘Ustaad Baba Malang Shah’.

Question: What is the speciality of Gawaliar family in classical music?
Rocky: We belong to Punjab Gawaliar family which is the oldest and the biggest tablafamily. Our tabla playing is famous for its pace, all around the world.
Question: What is the mindset of Pakistani’s regarding music and what are the hurdles that you have faced to follow your passion for music?

Rocky: Pakistani’s don’t really prefer music as a career and I have faced a lot of criticism, that I can’t handle music and education together, but I’m a bonafide student of my departmentin fact, I secured 3.9 CGPA in MSc.

Question: In your opinionwhat has become the future of classical music?
Rocky: In my opinion, classical music is natural and is a basic field. It will always be there. One who has to understand music, will have to learn it.
Question: What is your dream?

Rocky: My mother is an educationist and Zoology is her dream, music is my father’s dream and I am taking both along. I wish to earn name in both.





 [A1]

Aqsa BS Interview

To be checked
See spelling mistakes
اقصيٰ   نظاماڻي
     2K16/MC/13
ڊائيريڪٽر سنڌيولوجي ڊاڪٽر اسحاق سميجو
ڊائيريڪٽر سنڌيولوجي ڊاڪٽر اسحاق سميجو ھڪ ليکڪ سان گڏ شاعر ۽ ثڪافتي ڪارڪن پڻ آھن. ڊاڪٽر صاحب سنڌ يونيورسٽي ڄامشوري جي سنڌي شعبي جو ايسوسيئيٽ پروفيسر طور خدمات انجام ڏيڻ سان گڏ 2016 ۾ انسٽيوئٽ آف سنڌيولوجي جو ڊائيريڪٽر ٿيو. اچو تـ ڊاڪٽر صاحب سان سندس زندگي ۽ سنڌي ادب جي باري ۾ گفتگو ڪريون؛
سوال؛ اسلام عليڪم. توھان جي تعليم ۽ ڳوٺ ڪھڙو آھي؟
جواب؛ واليڪم اسلام. بنيادي تور منھنجو واسطو شحيد مخدوم بلاول جي ڀرسان ھڪ ننڊڙي ڳوٺ بھاولپور سان آھي. ان ڳوٺ ۾ ئي پرائمري تعليم حاصل ڪئي. بي اي ۽ ايم اي سنڌ يونيورسٽي مان ڪئي. ان کان پوءِ 2014 ۾ سنڌ يونيورسٽي مان ئي پي ايڇ ڊي ڪئي. جنھن جو موضوع سنڌي شاعري تي انقلابي سوچ ھو.
سوال؛ سنڌي ادب لاءِ توھان جي وڏي جاکوڙ آھي ان بابت ڪجھ ٻڌايو؟
جواب؛ مون ادب ۽ ٻولي تي 14 ڪتاب لکيا آھن، جنھن مان پنج ڪتابن کي ھائير ايجوڪيشن ڪميشن ريسرچ پبليڪيشن ۾ شامل ڪيو. منھنجا ڪتاب ايم اي سنڌي جي سليبس ۾ شامل آھن. مون صحافت بـ ڪئي آھي. ڪاوش جھڙين سنڌ جي نالي وارن اخبارن ۾ ايڊيٽوريل پڻ لکيا. منھنجو اصل شعبو شاعري ۽ تنقيد آھي. منھنجا ٻـ ڪتاب شاعري تي ۽ ھڪ تنقيد تي آھي جنھن جو موضوع شاعري سان دشمني آھي.
سوال؛ توھان جي نظر ۾ ادب ڇا آھي؟
جواب؛ ادب ٻين شعبن وانگر ھڪ شعبو آھي. ادب ھڪ ذريعو آھي، پنھنجو خيال، ڳالھ ۽ احساس کي ماڻھن تائين پھچائڻ جو. اخبار توھان جي جزباتن جي ترجماني نٿي ڪري. اھو ڇو آھي جو اسان ڏک ۾ ڪو گيت ٻڌون ٿا؟ ڇو تـ اخبار ۾ اھا طاقت ناھي جيڪا ادب ۾ آھي، جيڪا توھان جي داخلي معملن کي ڏسي ٿو. توھان جي احساس کي ذبان ڏيئي ٿو. ادب جو ٻيو ڪم توھان کي تصور ڪرڻ ۽ سوچڻ سيکارڻ آھي.
سوال؛ سنڌيولوجي شعبو سنڌ لاءِ ڪھڙو ڪردار ادا ڪيو آھي؟
جواب؛ سنڌيولوجي سنڌ جو ھڪ انتھائي اھم تحقيقي ادارو آھي، جيڪو قديم آثارن جي تاريخ، ثقافت، ادب ۽ سنڌي ٻولي جھڙن موضوعن تي تحقيق، کوج، حفاظت ۽ انھي کي دنيا تائين پھچائڻ جي ذميداري پوري ڪرڻ جي ڪوشش ڪري ٿو. ان کان علاوا ھن جا مختلف شعبا آھن جنھن ۾ ميوزيم جتي آثاري قديما جا ذخيرا موجود آھن، لائبريري جنھن ۾ تقريبن ڏيڊھ لک ڪتاب ڪيترن ئي موضوئن ۽ ٻولين ۾ لکيل آھن.
سوال؛ تفريح جي حوالي سان سنڌيولوجي جي باري ۾ ماڻھن جي ڇا راءِ آھي؟
جواب؛ سنڌيولوجي  ۾ ماڻھو ميوزيم جي طور تي گھمڻ اچن ٿا. اسان ان کي راڻي باغ وانگر ٽريٽ ڪيو آھي. پر ھن جو اصل ڪم اھو آھي تـ نـ صرف اھو تحقيق ڪرائي پنھنجي ريسرچ سيڪشن ڪي فنڪشنل ڪري گڏو گڏ ھُو سماج ۾ تحقيقي روين کي پروموٽ پڻ ڪري.
سوال؛ دنڌيولوجي ۾ ڪيھڙي ٽيڪنولوجي جي ڪمي آھي ؟
جواب؛ 21 صدي جي سنڌيولوجي جي پنھنجي ڪا ويبسائٽ ناھي، ان جي لائبريري دجيٽل ناھي، ان جا اڪثر ڪتاب آنلائن ناھن، ان وٽ اھي سسٽم ناھن جيڪي ھن دور سان مقابلو ڪري سگھن. ان ڪري اول ضرورت آھي تـ ان جا سسٽم اپڊيٽ ڪجن. پنھنجي خواحش آھي تـ سنڌيولوجي لائبريري ۾ موجود ڏيڊھ لک ڪتابن جي لسٽ آنلائن ھجي جيئن سڄي دنيا ڏسي سگھي ۽ ريسرچرز لاءِ آساني ٿئي. ٻيو ھڪ وڏي تعداد ۾ تقسيم کان پھرين جو ورثو جنھن ۾ ڪتاب ۽ اخبارون شامل آھن جيڪي برِصغير ۾ شايد ئي ڪنھن ٻي لائبريري ۾ ملن. اھي اسڪين ڪري پي ڊي ايف فائل ۾ دستياب ھجن.
سوال؛ توھان شاعر بـ آھيو، ڪجھ شعر اسان جي پرھندڙن جي لاءِ عرض ڪجو...
جواب؛ منھنجي اھا ڪوتاھي سمجھو تـ مونکي منھنجا شعر ياد ن رھندا آھن. ان جو سبب اھو آھي تـ سڄو ڏينھن ايترا خيال ذھن ۾ رھن ٿا جو شاعري ياد نٿي بيھي.
سوال؛ نوجوان نسل جي لاءِ ڪو پيغام؟
جواب؛ منھنجي راءِ آھي تـ پنھنجي ٻولي ۽ ماڻھن جي وارثي ڪيو. اھا قوم مٽجي ويندي آھي جيڪا منھنجي ٻولي جي وارثي ناھي ڪندي. پنھنجي روايتن تي فخر ڪرو.
نوٽ؛ توھان جي قيمتي وقت ڏيڻ جي مھرباني.
اقصيٰ   نظاماڻي
     2K16/MC/13


Samman Gul BS Interview


ٰیہ 530 الفاظ ہیں۔ کم از کم 600 الفاظ چاہئے۔
 ذاتی سوالات کے بجائے شعبے سے متعلق کہ یہ شعبہ کیوں اہم ہے، عام لوگوں کے لئے کیا ہے؟ اس کا اسکوپ کیا ہے وغیرہ جیسے سوالات ہونے چاہئیں۔ 
تعارف اچھا نہیں۔ صرف لفاظی ہے معلومات نہیں

ثمن گل 
بی ایس تھری (اردو)
رول نمبر: ۴۹
 انٹرویو:افضل جمالی(لیکچیرار جیولوجی)
تعلیمی دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ان کے پسندیدہ شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ انہی میں سے ایک ہمارے سر افصل جمالی ہیں جنہیں بد قسمتی سے شعبہ جیولوجی ملا لیکن انھوں نے اپنی محنت اور تعلیمی ہنر سے اس نا پسندیدہ شعبے میں بھی بہت سے یادگار اور قابل تعریف کام کر کے دیکھائے ۔
س: آپ کا تعلق کہاں سے اور کیسے گھرانے سے ہے؟
( یہ سوال تعارف میں جانا چاہئے۔ )
ج: میرا تعلق مولوی علی حیدر تعلقہ ںنیوسائیدآبادڈسٹرک مٹیاری سے ہے سادہ اور غریب گھر سے تعلق رکھتا ہوںوالد معمولی کسان تھے۔پانچویں کلاس تک اپنے گاﺅں مولوی علی حیدر میں پڑھا پھر بکھر جمالی گاﺅں سے دسویں کے امتحان دے کر میں نے حیدرآباد آنے کا ارادہ کیا اور انٹر کے بعد ۸۰۰۲ میں سندھ یونیورسٹی کے شعبہ جیولوجی میں داخلہ ہوا۔
س: جیولوجی میں جانا آپ کا شوق تھایا بدقسمتی سے یہ شعبہ آپ کو ملا؟
ج:جی نہیں! جیولوجی میرا پسندیدہ شعبہ نہیں تھا او نہ ہی مجھے اس میں جانا تھا لیکن جب بد قسمتی سے مجھے یہی شعبہ ملا تب مجھے ارضیات کے بارے میں کوئی تفصیلی معلومات نہیں تھی۔ پھر میں نے دن رات محنت کرکے ارضیات کے متعلق ذیادہ سے ذیادہ تعلیم حاصل کی اور جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور ثابت کیا کہ محنت اور لگن سے مشکل سے مشکل کام بھی حل کیا جا سکتا ہے۔
س:تعلیم مکمل کرنے کے فوراًبعد آپ کو ملازمت مل گئی تھی یا جدوجہد کرنی پڑی؟
ج:میں نے۲۱۰۲میں اپنا بیچلرز مکمل کیا اور اس کے بعد کمیشن کے بہت سے امتحانات دیئے بلآخر ۴۱۰۲ میں میں نے اپنا کمیشن پاس کیا جو فیڈرل پبلک سروس کی جانب سے کروایا گیا تھا۔جس میں مجھے بطور اسسٹنٹ ڈائیریکٹر منسٹری اف پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز کا عہدہ ملا۔
س:منسٹری اف پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز میں آپ نے کتنے سال اور کون کون سے پروجیکٹ پر کام کیا؟
ج:میں نے تین سال منسٹری اف پیٹرولیم میں گزارے اور اسی دوران بہت سے پروجیکٹس پر کام کیامیرا پہلا پروجیکٹ پنجاب گورنمنٹ کا تھا۔ ایکسپلوریشن اف مٹیلک منرلز یہپروجیکٹ فیصل آباد کے کرانہ کمپلیکس میں ہواتھااس کے علاوہ بھی میں نے بہت سے مختلف پروجیکٹس پر کام کیا۔
س:منسٹری اف پیٹرولیم اینڈ نیچر ل ریسورسزکے عہدے کو چھوڑکر لیکچیرار بنے کی کوئی خاص وجہ؟
ج:لیکچیرار کی ملازمت قبول کرنے کی پہلی اہم وجہ میری فیملی جنہیں پہلے میں اپنا وقت نہیں دے پاتا تھا۔دوسریاس میں مجھے پی ایچ ڈی کرنے کے بھی بہت مواقع ملیں گے جو میرے مستقبل کو ہی بہترین بنائیں گے۔
س:جس طرح آپکو یہ شعبہ بدقسمتی سے ملا اسی طرح یہاں ایسے اور بھی طالبعلم ہونگے جن پر یہ وقت گزرا ہوگایا کبھی کسی پر گزرے گاتو آپ انہیں کیا کہنا چاہیں گے؟
ج:یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہیں کسی کی خواہشات پوری ہوتی ہیں کسی کی نہیں لیکن کبھی بھی نہ پوری ہونے والی خواہشات سے اداس مت ہواور ہمیشہ یاد رکھو کہ ہر شعبے کا اپنا رتبہ ہے ۔بس اس میں اتنی محنت کرو اتنی لگن سے پڑھو کہ اول نمبر پر آسکو اور اتنا جنون بنا لو کہ وہ شعبہ ہی آپکی پہلی خواہش بن جائے ۔ 

Bilawal Panhwar BS Interview

To be checked

ڊاڪٽر محمد حسن اگهيم؛ اڀرندڙ سائنس جي شعبي جو سائنسدان

بلاول پنهور/انٽرويو/ سنڌي/ بي ايس پارٽ /iiiرول نمبر 2K16/MC/25

ڊاڪٽر محمد حسن اگهيم سنڌ جي ٺٽي شهر ۾ جنم ورتو، ۽ شروعاتي تعليم پڻ ان ئي شهر مان حاصل ڪئي، بنيادي تعليم حاصل ڪرڻ بعداعليٰ تعليم لاءِ  سنڌ يونيورسٽي پوءِ ملڪ ۽ بعد ۾ وري ڄاڻ جي حاصلات لاءِ  دنيا جي مختلف ملڪن ۾ پڻ ويو،  جتي ارضيات ۽ لاڳاپيل شعبي ۾ ڄاڻ حاصل ڪئي. جيڪو هن وقت جيالاجي شعبي جو ڊائريڪٽر مقرر ٿيل آهي. ايئن چئجي ته ارضيات سائنس جي شاخ آهي، ارضيات (Geology) جنهن کي زمين جو علم به چيو ويندو آهي، ان جي ڪجهه وقت اڳ ماڻهن کي گهٽ ڄاڻ هئي، پر هاڻي ان شعبي بابت ماڻهن جي ڄاڻ وڌي رهي آهي. ان حوالي سان اچو ته ارضيات شعبي جي هڪ پروفيسر سان ڳالهه ٻولهه ڪريو. 

سوال: سڀ کان پهرين اسان کي پنهنجي باري ۾ ڪجهه ٻڌايو ته توهان ڪٿي پيدا ٿيا ۽ بنيادي تعليم ڪٿي حاصل ڪئي؟
جواب: سنڌ جي تاريخ جي حوالي سان مشهور شهر ٺٽي ۾ منهنجو جنم ٿيو ۽ بنيادي تعليم سميت ميٽرڪ جيڪا گورنمينٽ بوائز اسڪول ۽ انٽرميڊئيٽ جيڪا به ساڳئي شهر جي گورنمينٽ ڊگري ڪاليج، مان حاصل ڪئي.
سوال: بنيادي تعليم حاصل ڪرڻ بعد توهان اعليٰ تعليم ڪٿي حاصل ڪئي ۽ توهان استاد جي شعبي سان ڪڏهن آيا؟
جواب: ان وقت جي دور ۾ اسان جي علائقي ۾ ڪو اعليٰ تعليمي ادارو نه هو جنهن ڪري ٻئي شهرن ۾ وڃي تعليم حاصل ڪئي ويندي هئي، ۽ مون سنڌ يونيورسٽي مان 1996ع ۾ بي ايس سي ڪئي،  1997 ع ۾ ساڳي ئي يونيورسٽي مان ايم ايس سي ڪرڻ بعد ساڳئي ئي شعبي مان ايم ايس سي ڪئي. جڏهن ته 1999 ۾ پرهائڻ واري شعبي ۾ پير پاتو. جنهن بعد 2007ع ۾ اسسٽنٽ پروفيسر، 2012 ۾ ايسوسئيٽ پروفيسر ۽ 2015 ۾ وري پروفيسر جي عهدي تي ترقي ماڻي ۽ هن وقت ارضيات شعبي جو ڊائريڪٽر پڻ آهيان.
سوال:ارضيات) ڇا آهي ۽ توهان  ٻين شعبن جي ڀيٽ ۾ ان ئي شعبي کي ڇو اهميت ڏني؟
جواب:ارضيات جنهن کي انگريزي ۾جيالاجي چوندا آهن، جنهن جي لفظي معنيٰ جيڪڏهن ڪڍجي ته جيو(Geo)  مطلب زمين ۽ لوگاس(Logos)  يعني علم، جنهن کي ملائجي ته زمين جو علم ٿئي ٿو. ان شعبي جي لفظ مان ئي ان بابت سمجهي سگهجي ٿو، يعني زمين جي علم ان ۾ بناوت، تاريخ، موجوده صورتحال سميت لاڳاپيل شين جي علم کي ارضيات چئجي ٿو.
شروعاتي دور ۾ اهو شعبو ايترو عام نه هو پر هن وقت  ان شعبي جي ڄاڻ ۽ اهميت وڌي رهي آهي. مون کي ان شعبي بابت خاص ڄاڻ نه هئي پر پوءِ دوستن جي صلاح سان ان شعبي ۾ پير پاتو. پر بعد ۾ هاڻي ان جي اهميت جي خبر پئي ته ميڊيڪل ۽ انجنيئرنگ جي شعبن وانگر تمام گهڻي هميت آهي.
سوال:ڇا توهان سنڌ يونيورسٽي کان اعليٰ ٻئي ڪٿي تعليم حاصل ڪئي آهي؟
 جواب: سنڌ يونيورسٽي مان ايم ايس ڪرڻ بعد پشاور جيپشاور يونيورسٽي مان 2008ع ۾ پي ايڇ ڊي ڪئي، جنهن ۾ خصوصن منرالاجي ۽ جيو ڪيميسٽري جي شعبن کي اهميت ڏني. ان سان گڏوگڏ جيالاجي ۽ لاڳاپيل شعبن جي ڄاڻ حاصل ڪرڻ لاءِ هائير ايجوڪيشن ڪميشن جي اعزازرگرانٽ تي مختلف ملڪن جرمني، سائوٿ آفريڪا، نيپال ۽ چائنه ويس.
سوال: جيالاجي جي حوالي سان دنيا ۾ ڪهڙي بدلاءُ اچي رهيو آهي؟
جواب: جيئن ته ارضيات هڪ اهڙي شعبي جو نالو آهي  جنهن جو عمل جاري رهندڙ آهي، اسان محسوس نه ڪندا آهيون پر ان جو عمل جاري هوندو آهي، جيئن آتش فشان جنهن کي باهه جو جبل، زمين جو سرڪڻ، ڀٿرن جو ڀرڻ سميت ٻيا عمل جاري آهن. ان سان گڏوگڏ ماحولياتي ارضيات جو گرمي پد وڌڻ جيڪا هن وقت پوري دنيا جو وڏو مسئلو آهي جيڪو عمل پڻ جاري آهي.
سوال:سائين، ڇا اسان وٽ پاڪستان ۽ سنڌ ۾ جيالاجي جو حوالي سان مسئلا درپيش آهن؟ ان بابت اسان کي ڪجهه ٻڌايو.
جواب:جيئن اڳ ۾ ٻڌايو ته ارضيات هڪ ايڪٽو فيلڊ آهي، اهڙي طرح پاڪستان ۽ سنڌ ۾ ان جو عمل دخل آهي، منهنجي حوالي سان ٻين شين سان گڏوگڏ اسان وٽ ساحلي پٽي سان لڳو لڳ علائقا آهن، انهن کي تمام گهڻو نقصان ٿي رهيو آهي، اسان وٽ انڊس ڊيلٽا جتي درياءَ سمنڊ سان ملي ٿو پر موجوده دور ۾ اهو نه ٿي رهيو آهي جنهن ڪري سمنڊ زمين کي ڳڙڪائي رهيو آهي، ان سان گڏوگڏ ٿر ۾ نڪرندڙ ڪوئلو جنهن جي نڪرڻ سان پڻ مسئلا ٿين ٿا، ان جي بهتر نموني کوٽائي ۽ اتان کان ان جي هڪ جڳهه کان ٻي جڳهه تي منتقلي لاءِ به بهتر قدم کڻڻ گهرجن.
سوال: توهان ان فيلڊ جي حوالي سان نوجوانن کي ڪهڙو پيغام ڏيندا ته جيئن اهي ملڪ جي خدمت ڪري سگهن؟

جواب: جيالاجي هڪ بهترين فيلڊ آهي، جيڪا سائنس جي ٻين شعبن يعني ميڊيڪل ۽ انجنيئرن جي شعبن وانگر اهميت رکندڙ فيلڊ آهي، هن شعبي جو اسڪوپ دائرارو (Scope) تمام وسيع آهي جنهن جي شروعات کان وٺي ڄاڻ ۽ مالي سهولتون ٻين شعبن کان وڌيڪ ٿين ٿيون. ان ڪري مان نوجوانن کي صلاح ڏيندس ته هن شعبي ڏانهن اڃان وڌيڪ لاڙو ڪندا ته انهن لاءِ ۽ ملڪ لاءِ تمام گهڻو ڪارائتو ثابت ٿيندو.