Showing posts with label Mahnoor Channa. Show all posts
Showing posts with label Mahnoor Channa. Show all posts

Saturday, 14 April 2018

Mahnoor Interview BS


ہمارے نوجوانوں کو انسان ذات کی بھلائی کیلئے کام کرنا ہوگا۔ نواب کاکا 
ماہ نور چنا ۔ بی ایس (III )۔44







پروفیسر ڈاکٹر نواب کاکا 14 فروری 1978 کو تحصیل سعید آباد ضلع مٹیاری ک گاؤں ابراہیم کاکا میں پیدا ہوئے ۔ آئیں علم و ادب کے حوالے سے بات چیت کرتے ہیں۔
سوال: سر آپ اپنا مختصر تعارف کروائیں ؟
جواب میرانام نواب کاکا ہے ۔ میرا جنم میرے آبائی گاؤں نواب ابراہیم کاکا میں 1978 کو ہوا۔ میں سندھ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور مرزا قلیچ بیگ چےئر کا ڈائریکٹر بھی ہوں ۔
سوال : اپنی تعلیمی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کریں ؟
جواب : میں نے اپنی تعلیم آپ کی طرح اپنے ہی گاؤں کے اسکول سے حاصل کی اس کے بعد بارہویں جماعت کے امتحان ہالا سے پاس کرکے سندھ یونیورسٹی سے سندھی شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری اپنے نام کی ۔ 2005میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد کراچی و دیگر سندھ کے کالیجز میں بطور استاد بھی فرائض سر انجام دے چکاہوں ۔
سوال : سر شاعروں ، ادیبوں کے شعبے یعنی سندھی شعبے کی طرف آپ کا رحجان کیسے گامزن ہوا؟
جواب : دیکھیں ادب سے میرا فطری طورپر لگاؤ رہا تھا ۔ مڈل کلاس سے لے کر ادبی دنیا تک کے سفر میں اپنے والد صاحب سے بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ اس وقت شاہ صاحب کی غزل (بیت) پڑھتے تھے تو میرے شوق میں اضافہ ہوا اور اسی وقت سے شاعری لکھنا شروع کردی ۔مختلف رسالہ وغیرہ پڑھنے کی دلچسپی بھی بڑھ گئی اور اس وقت سے لے کر میری خواہش تھی کہ سندھی ادبی شعبے میں پڑھنے اور کام کرنے کا موقع ملے ۔
سوال: سر آپ کے پیش نظر اد ب کیا ہے ؟ اس حوالے سے آگاہ کریں ۔
جواب : ادب کی وصفیں دنیا کے کتنے ہی فلاسفروں ، محققوں نے د ی ہیں ۔ کچھ نے ادب کو زندگی کی تفسیر بتایا ہے ۔ علامہ آئی آئی قاضی کے مطابق، ادب چھوٹے بچے کو چلنا سکھانے والے عمل جیسا مفہوم رکھتا ہے ۔ میرے نقط نظر سے سیکھنے اور سکھانے والے عمل کو ہم ادب کا نام دے سکتے ہیں ۔ ادب انسانی زندگی کی عکاسی و ترجمانی بھی کرتاہے۔ ادب کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے مسائل پے نظر رکھ کر ان کا حل بتانا ہے ۔ انسانی جذبات، احساسات، اور غم و خوشی کیا ہے اس کی آگاہی ادب سے ملتی ہے ۔ 
سوال : ادب کے حوالے سے میرا اگلا سوال :یہ ہوگا کہ آپ سندھی ادب کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب : دیکھیں سندھی ادب کے مختلف دور گزرے ہیں ۔ کلہوڑوں کا دور سندھی ادب کے عروج کا دور سمجھا جاتا ہے ۔ جس میں کئی کلاسیکل شاعر رونما ہوئے ۔ اس دور میں شاعری کی صنفوں وائی ، غزل وگیتوں کو عروج حاصل ہوا۔ اس کے بعد انگریزوں کا دور آیا جو جدید ادب کے حوالے سے بنیادی دور ہے ۔ جس میں مرزا قلیچ بیگ بھی شامل ہیں جنہوں نے سندھی ادب کی جدید فکر کا بنیا رکھاہے ۔اس کے بعد موجودہ دور ہے جس میں کئی مسائل درپیش ہیں ۔ کئی ایسے مصنف آئے ہیں جن کی لکھائی میں کوئی تخلیقی صلاحیت نہیں ۔ 
سوال : سر اگر سندھی ادب کی بات کی جائے تو آپ کس شاعر سے متاثر رہے ہیں ۔
جواب : شعراء کی بات کی جائے تو سارے شاعر لطیف، سچل ،سامی ، شیخ ایاز اور بھی بہت سارے ہیں ۔ لیکن اگر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی بات کی جائے تو انہوں نے تمام زندگی کے پہلوؤں کو پیش کیاہے ۔ ان کی شاعری میں خوبصورتی اور سچائی بھی سمائی ہوئی ہے ۔
سوال : سر دیکھا جائے تو کلاسیکل شاعری اور مو سیقی میں آج کل کمی نظر آرہی ہے اس کی وجہ کیاہے؟
جواب: کلاسیکل شاعری میں کمی اتنی نہیں آئی ، ہمارے کئی فنکاروں نے شاہ اور دوسرے شاعروں کو اپنے سروں کی زینت بخشی ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے افراد کی پسند تبدیل ہوچکی ہے آج کل کے لوگ کلاسیکل شاعری کو نہیں سنتے ۔ 
سوال : آپ نے اس وقت تک کتنے ادبی تحفوں کو سنبھالا ہے ؟ 
جواب : میری کتاب ’’ سندھی کہانی اور کردار ‘‘ کے نام سے 2017 میں چھپی ہے ۔ اور دیگر میرے پی ایچ ڈی کے تھیسز بھی ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف تحقیقی کھوج جرنلوں اور مقالوں کو شائع کیا گیا ہے اس طرح اگر ان کو جوڑا جائے تو چار پانچ کتاب چھپ سکتے ہیں ۔
سوال : شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ چےئر کے بارے میں تھوڑی آگاہی دیجئے ۔
جواب: دیکھئے بنیادی طور پر ان چےئرز کاکام اس شخص کے کیے ہوئے کام کو آنے والی نسل تک پہنچا نا ہے ۔ ایسے ہی ہمارے مرزا قلیچ بیگ اپنی شخصیت میں ایک ادارہ تھے جنہوں نے علم کی شاخ پر کام کیا ۔ یہ چےئر انہی کے کام محفوظ کرنے کے لیے ہمارے اس وقت کے وائس چانسلر مظہر الحسن صدیقی کی صدارت میں 2008 میں بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے ڈائریکٹر محمد قاسم بگھیو تھے ۔ دسمبر 2017سے یہ چارج میرے پاس ہے ۔ اس وقت تک میں نے تین سیمینار کروائے ہیں جبکہ چار کتاب چھپنے کے لیے بھیجے ہیں ۔
سوال : ہمارے نوجوانوں یا پڑھنے والوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ۔ 
جواب : ان کے لیے پیغام ہے کہ اپنے کام میں مخلص رہیں ، اساتذہ سے سچا عشق اور چاہ پیدا کریں ۔ ہمارے بڑوں سے ملے ہوئے اداروں کی باقائدہ حفاظت کریں ۔ انسان ذات سے بھلائی کریں ۔ ان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ خود بیدارہوں، نیکی کی راہ لیں اور اچھائی کے کامون کی طرف غور و فکر کریں ۔

Sunday, 18 March 2018

Mahnoor BS Profile

File name is wrong.
Why u inserted pix in the text? it was repeatedly instructed
This is not proper profile
 عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی سوشالاجسٹ 
ما ہ نور چنا -بی ایس III - ۴۴

غزالہ شوکت نے 10 دسمبر 1978 ءمیں تحصیل سیون کے ایک چھوٹے سے شہر بوبک میں آنکھ کھولی۔ بچپن کے معصومیت بھرے پلوں میں اپنی تعلیم کا ابتدائی سفر اپنے ہی آبائی شہر بوبک میں شروع کیا ۔شروعاتی سفر میں کافی حد تک مشکالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آپ نے اپنا سفر اُس وقت شروع کیا جب عورتوں کو صرف گھروں میں کام کرنے کے لئے محدود رکھا جاتا تھا عورتوں کی تعلیم اُس وقت ایک خواب کی مثل تھی جو خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ لڑکیوں کو پڑھانا معاشرے میں فساد پھیلانا سمجھا جاتا تھا ۔ اُس دور میں اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنا غزالہ کا بنیادی مقصدتھا ۔ اُس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنے گاﺅں میں مڈل کلاس پڑھنے کے بعد جامشورو میں شفٹ ہوئی ۔ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے میٹرک کلاس پاس کرنے کے بعد زبیدہ کالج جامشورو میں پری میڈیکل کی سند اچھے نمبرو ں سے حاصل کی ۔اپنی شہر کی دوسری لڑکیوں کی تعلیم کی پرواہ کرتے ہوئے آپ نے سندھ یونیورسیٹی کے شعبہ سماجیات میں داخلہ لیا ۔ اپنی محنت اور قابلیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے ساتھ اپنی ڈگری حاصل کرکے سماج میں کچھ کرنے کا عزم کیا ۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر غزالہ نے بتایا کہ میرے تعلیمی سفر میں جن جن مشکلات کا سامنہ میں نے کیا وہ مشکالتیں دور کرنے کا عزم کیا تھا ۔ خود میرے گھروالوں نے جو تکلیفیں برداشت کی جس کی بدولت میری پوری فیملی کاہر فرد ماسٹرز کی ڈگری کے ہمراہ نمایا ہے ۔ جبکہ میں نے پی ایچ ڈی کی ہے ۔ڈاکٹر غزالہ نے ماسٹرز کے تھیسز میں ایک این جی او کے ساتھ انٹرنشپ بھی کی جبکہ اُن کے تھیسزکا عنوان بھی عورتوں کے حق سے ملا جھلا تھا ۔اپنے تعلیمی سفر کو بڑھاتے ہوئے 2004 میں رورل ڈیولپمنٹ میں ایم ایس سی جبکہ سوشالوجی شبعہ میں ایم فل کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگر ی کے ساتھ سفر کو اختتام پزیر کیا ۔
اس بات سے یہ انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے پورے تعلیمی سفر میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں آواز اٹھانے ، بیداری کا شوق پیدا کرنانہ صرف آپ کے خاندان بلکہ پوری عورت ذات کے لئے فخر کی بات ہے اپنے تعلیمی سفر میں استادو ں کی محنت کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ میرے استاد بڑی محنت و شفقت سے پڑھاتے تھے ان کے ساتھ ساتھ میرے یہاں تک کے سفر میں میرے بھائی کا بھی اہم کردار رہا ہے جو ہر مشکل وقت مین سہارہ بن کے ابھرتا رہا ہے ۔
تعلیم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں غزالہ کا کہنا تھا کہ ہمارے آج کل کے شاگرد وں میں تخلیقی صلاحیتیں نا ہونے کے برابر ہیں جو انہیں پڑھایا جاتا ہے بس ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جس کے باعث ہمارا تعلیمی رجحان اتنا اچھا نہیں ۔عورتوں کے حوالے سے ایک سوال میں ڈاکٹر غزالہ نے بتایا کہ ہمارے سماج میں عورتوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن دیکھا جائے تو کسی بھی ذات سے پہلے ایک اچھا انسان ہونا لازمی ہے ۔ ہر عورت کو اپنی تعلیمی دنیا اچھی بنانی چاہئے ۔ کیونکہ ایک عورت کے پڑھنے سے پورا گھر پڑھا لکھا نظر آتا ہے ۔عورت کو چاہیئے کہ نوکری نہ ملے مگر ایک ماں کی حیثیت سے وہ اپنی پہچان بنا سکتی ہے ۔اس وقت ڈاکٹر غزالہ شوکت سوشالاجی شعبہ میں سوشالاجی آف ومین ، کمیونٹی ڈولیپمنٹ اسٹڈیز کے ساتھ ساتھ سوشل پرابلمز آف پاکستان جیسے مضمون پڑھانے کے فرائض سر انجام دے رہی ہے ۔ اپنے شاگرد میں حوصلا افزائی کے ساتھ ان کے اُن کے مستقبل معمار کے لئے شعور بیدار کرنا اپنا مقصد سمجھتی ہے ۔

Tuesday, 13 March 2018

Mahnoor Feature Urdu BSIII

This is not a feature, rather its an article. 
Feature is always reporting based. 
Basic purpose of feature is to entetain, hence it is written in interesting manner. 
Plz make it feature not article
(شمسی توانائی کا بڑھتا ہوا رجحان )
ما ہ نور چنا -بی ایس III - ۴۴
دور جدید میں سائنس روز بروز ترقی کی راہوں پر گامزن ہے ۔ دن بہ دن نئی ٹیکنالوجی متعارف کراوائی جا رہی ہیں،جو ہمارے ذہنوں کے طاق کھول دیتی ہیں اسی دور جدید میں دنیا کے سانئسدان بجلی جیسے اہم مسائل پر سر لٹکائے جدوجہد کرتے نظر آرہے ہیں اور اب اُن کی نظر اسی بحران کو ختم کرنے کے لیے سورج تک پہنچی ہے جو کہ بہت مفید ثابت ہوتی جارہی ہے ۔سورج ہمیں روشنی اور حرارت فراہم کر رہا ہے جسے ہم توانائی میں تبدیل کر کے شمسی توانائی کا نام دے رہے ہیں۔یہ توانائی پروردگار کی بخشی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ہے اس بڑے سے بحران کو ختم کرنے کے لئے ہم صرف سورج کی روشنی استعمال کرکے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں ۔
جہاں دنیا بھر کے ممالک کو بجلی اور کئی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ۔اُسی میں ہمارے ملک کا بھی شمار ا ہوتا ہے ۔وطن عزیز پاکستان کو خدا نے مختلف وسائل سے نوازہ ہے جس کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہیں کیونکہ جو خطہ ہمارے وطن عزیز کے لئے چنا گیا ہے وہ جغرافیائی طور پر ایسے خطہ میں واقع ہے جہاں سورج پورا سال اپنی آب و تاب سے چمکتا ہے اس سے ہمیں شمسی توانائی بڑے عروج کے ساتھ حاصل ہوتی ہے بجلی کے بحران یعنی لوڈشیڈنگ نے ہماری رنگین اور سر سبزہ زندگیوں کو بے رنگ اور بنجر بنا دیا ہے ۔روشنیوں سے بھرے پل ہمارے ملک میں اس شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے واپس آرہے ہیں گرمی کی بڑھتی ہوئی شدد اور لوڈشیڈنگ سے تنگ آکر لوگوں نے اپنے گھروں میں شمسی توانائی کو عام جام اپنا لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل نہ صرف شہروں میں بلکہ چھوٹے بڑے گاؤں ، صنعتوں ، اور تعلیمی اداروں میں رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس سے لوگوں کو اپنے کام وقت پر سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ بہت سی آسائشیں بھی میسر ہو رہی ہیں۔
لاکھوں روپے بجلی کے بل کی ادائیگی میں خرچ کرنے والے ہمارے لوگوں کا آج کل اس کم خرچ نعمت کو استعمال کرنے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ اپنے گھروں کو چالیس ہزار کی لاگت سے روشن بنا رہے ہیں ۔اسی لاگت میں موٹر، ریفریجریٹراور استری وغیرہ بھی استعمال کرلیتے ہیں ۔یہ نظام دیر سے متعارف ہوا ہے مگر بہت فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے ۔بلکہ اسی نعمت کی بدولت ہمارا ملک ایک بہت بڑے بحران سے چھٹکارہ حاصل کر رہا ہے۔ بنگالی حکومت نے ایک ملین سے بھی زیادہ سولر پینل انسٹال کر لئے ہیں اور اس کام میں اب تک کوئی رکاوٹ حاصل نہیں اور دن بدن اس مسئلے کا حل با آسانی نکل رہا ہے اور اس لئے اس سے حکومت کو دگنا فائدہ پہنچا ہے کیونکہ دیہاتوں کو نیشنل گرڈ کے ساتھ جوڑنے میں کوئی ملین ڈالرز کی بچت ہوئی ہے جبکہ عوام کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوئے ہیں ۔پاکستان کا بہت بڑ ا حصہ دیہات میں شامل ہے ۔پاکستان نے نجی شعبوں میں اس بڑی نعمت کا استعمال بہتر نمونہ سے کیا جا رہا ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کی روشنیوں کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ پارکس اور کئی نجی کمپنیاں اس بات کا ثبوت پیش کر رہی ہیں کہ ہمارے ملک میں شمسی توانائی کا رجحان کافی تیزی سے بڑھ رہا ہے اس بڑھتے ہوئے رجحان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بہت کم عرصہ میں شمسی توانائی کو ملک کے کونے کونے تک پہنچا کر ملکی اندھیروں کو جڑ سے مٹایا جا سکتا ہے ۔

Thursday, 15 February 2018

Mahnoor Channa Artilce BS



آپ کا موضوع مصنوعی مہنگائی ہے لیکن آپ کے آرٹیکل میں کہیں موجود نہیں کہ مصنوعی کیسے؟ 
فائل نیم اور سبجیکٹ لائن غلط ہیں۔ آئندہ اس طرح بھیجی گئی تحریر قابل قبول نہیں ہوگی۔ 
لائن اسپیس زیادہ ہے۔ ایڈیٹنگ میں اور لے آؤٹ میں مسئلہ کرے گی

مصنوعی مہنگائی اور عوام 

ماہ نور چنہ بی ۔ ایس ۔ 44
مہنگائی سے مراد ہے اشیا کی قیمتوں کا آمدنی کے مقابلے میں بڑھ جانا ۔ یا پھر ہم اس طرح کہیں کہ آمدنی کا نہ بڑھنا اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا نا س کو مہنگائی کہتے ہیں ۔ پاکستان میں مہنگائی شددت سے آگے بڑھ رہی ہے ۔جس کو روکنا بہت مشکل نظر آرہا ہے ۔ مہنگائی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی رفتار کے ساتھ جرم ، بروزگاری ، اور جہالت بڑھتی جارہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس برس سے عام آدمی کا جینا مشکل ہو گیا ہے اب اپنے آپ کو موت کی گہری نیند سلانا یعنی خود کشی کر نا آسان لگتا ہے ۔ لیکن اپنے آپکو زندہ رکھنا مشکل ! یہ سچ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے جو جن جس طرح بوتلوں میں برآمد ہوا ہوا ہے اس کا واپس بوتلوں سے نکلنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن لگ رہا ہے ۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس بڑھتے ہوئے عذاب یعنی مہنگائی کے ذمہ دار ساٹھ فیصد ہمارے لوک افسران ، حکمران ، اور تاجر بھائی ہیں تو چالیس فیصد اس کی ذمہ دار خود عوام بھی ہے ۔ 
مہنگائی کا سامنہ کرنے کا ایک سبب غربت بھی ہے کیو کہ جو چیز مہنگی ہو جاتی ہے اس کو خریدنا ہر فرد کے بس کی بات نہیں ایک طرف دیکھا جائے تو ہمارے ملک کی انتالیس فیصد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے ۔ جس میں صوبہ بلوچستان اول ، صوبہ سرحد دو سرے ، صوبہ سندھ تیسری اور صوبہ پنجاب چوتھے نمبر پر نمایا ں ہیں ۔ سندھ میں بھی اگر دیکھا جائے تو Multi Poverty Index ایم پی آئی کی 2016 مین جاری کر دہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ صوبہ میں بھی غربت کی لپیٹ میں آنے والا 84 فیصد کے ساتھ صوبہ تھر پاکر ہے ۔ جس کی باعث اپنا پیٹ بھر نے یا پھر اسی مہنگی چیز کے ریٹ کو پورا کرنے کے لیے چوری چکاری ، دوسرے لوگوں کا حق لوٹنے پر اتر آتے ہیں ۔ جس سے بھی معاشرہ میں بد حالی جہالت جنم لیتی ہے ۔ ڈان اخبار کے ایک سروے کے مطابق پیسے کم ہونے کی وجہ سے مریض سستی دوائی کھانے پر مجبور ہیں ۔ا ور ہسپتالوں میں75 فیصد مریض اپنی زندگی کی جنگ ہا رجاتے ہیں۔ 
مہگائی جیسے بر پا ہونے والے اس طوفان سے متحد ہوکر ہی رہائی پائی جا سکتی ہے ۔ جیسا کہ اگر ایک چیز مہنگی ہوتی ہے تو ہم سب ایک ہوکر اس کو لینا ہی چوڑدیں تو اس چیز کے خراب ہونے کے ڈر سے سستے ریٹ پر فروخت کرنے پر مجبور ہوجائینگے ۔ اسی طرح سے ہی روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرنے والی چیزوں کے مہنگاہونے پر سب ملکر مقابلہ کرینگے تو ایک مہنگائی جیسے طوفان سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ اپنی زندگی میں جلنے والے دیپ کو بھجا سکتا ہے ۔ لیکن متحد ہوکر یا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ شعور پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی سے چھوٹکارا پانے کے لیے ہر کسی کو اجتماعی طو رپر خصوصاً عورتوں کو اپنا کر دار ادا کرنا ہوگا ۔ ہماری میڈیا کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ مہنگائی کے مطابق پروگرام نشر کیئے جائیں اور مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس سے بچنے کے طریقے میڈیا کے ذریعے چلائے جائیں تاکہ لوگوں میں بیداری کا شعور پیدا ہو ۔اس طرح سے اگر معاشرے میں اتحاد پیدا ہوگیا تو مہنگائی تودور کی بات حکمران بھی منمانی نہیں کرسکتے ۔ مہنگائی کو روکنے کا ایک حل یہ بھی ہے ہر فرد کو دن میں اٹھارہ گھنٹے کام کرنا ہوگا ۔دنیا کے دوسرے ممالک کی مثال لیں تو ان کی ترقی کا سبب بھی یہی ہے ۔ کہ ان کے عوام نے اس طوفان کو دور کرنے کے لیے خودکشیاں نہیں کیں بلکے متحد ہو کر اٹھارہ گھنٹے کام کیا اور اپنے ملک کی معیثیت کو مضبوط کیا ۔ حکومت کو چاہیے کہ کرپشن اور منی لانڈرینگ کے بجائے عوام کے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے ۔ بنیادی سہولتوں کو فراہم کرنا اور اس کی فراہمی کو پورا کرنا ملک میں غربت کی شرع کو جڑسے مٹانے کا ذریعہ بھی ہے ۔