انٹرویو۔ربیعہ مغل
بی۔ایس۔پارٹ۔۳
رول نمبر ۔۸۲
ہمیں اپنے اِرد گِرد کے ماحول کو بھی گھر سمجھنا ہوگا ...ڈاکٹر امان ا ﷲ مہر سے انٹرویو!
ڈاکٹر امان ا ﷲ مہر جامعہ سندھ کے شعبے سینٹر فار انوائیرومینٹل سائنس میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں.ان کا تعلق صوبہء سندھ کے شہر سکھر سے ہے.انہوں نے ۲۰۰۷ میں اپنی ایم۔فل کی ڈگری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی۔اور پھرچائینہ سے انوائیرومینٹل سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کی۔
روشنی:آپ کے حساب سے انوائیرومینٹل اسٹڈیز کا اسکوپ کیا ہے؟
امان اﷲمہر: اسکوپ دیکھیں دو طرح کے ہیں.ایک ہے جابز میں اور دوسرا ہے ریسرچ میں۔سرکاری اور نجی دونوں سیکٹر ز میں اس کا اسکوپ ابھرتا ہوا ہے.خصوصاً ڈیولپمنٹ سیکٹر میں جو این۔جی۔اوز ماحول کے تحفظ کے حوالے سے کا م کررہی ہیں .ان میں وہ طلباء جو تعلیم مکمل کرچکے ہیں باآسانی ملازمت حاصل کرتے ہیں ۔گورنمنٹ کے زیرِنگرانی جو ماحول کے تحفظ کی ایجنسیز کا م کررہی ہیں وہاں بھی اس شعبے کے طلباء کے لیے کافی مواقع ہیں .جبکہ یونیورسٹیز بھی اب پاس آؤٹ ہونے والے طلباء کو اس فیلڈ میں جگہ دے رہی ہیں۔
روشنی: ہمارے قدرتی ماحول میں خرابی کی کیا وجوہات ہیں؟
امان اﷲمہر: اِس کی بہت سی وجاہات ہیں.سب سے پہلے تو ہماری آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے اثرات ہمارے قدرتی وسائل پر پڑ رہے ہیں! اب دیکھیں تو پانی تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہم پانی کو بیدریغ استعمال کررہے ہیں .جبکہ اسے محفوظ کرنے کے طریقوں سے مکمل عاری ہیں.ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں ۲۰۴۵ تک پانی کی قلت انتہائی زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہریالی کو ختم کرتے جا رہے ہیں .جنگلات کو کاٹ کر وہاں سڑکیں اور گھر تعمیر کرتے چلے جارہے ہیں.اس لیے ہمیں دیرپا پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول میں بگاڑ پر قابو پایا جاسکے۔
روشنی: آپ کیا سمجھتے ہیں ہمیں ماحول کے دیرپا اور پائیدار تحفظ کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
امان اﷲمہر: اصل میں ہمارے معاشرے میں ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے آگاہی بہت کم ہے.آپ کسی کو کہیں کہ کچرا ڈسٹبن میں ڈالیں تو وہ کہے گا کہ یہا ں پہلے سے تھا کچرا میں نے ڈال دیا تو کیا ہوگیا؟ اس لیے سب سے پہلے تو ہمیں اپنے اِرد گِرد کے ماحول کوبھی گھر سمجھنا ہوگا ۔اس کے بعد سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ یا پائیدارترقی کو حاصل کرنا آسان ہوجائے گا۔ ماحول کی دیرپا ترقی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی،اچھا اور آلودگی سے پاک ٹرانسپورٹ سسٹم ملے ،شہروں کی صحیح پلانگ ہو ،ہم اپنی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مینیج کریں اور دوسری بات یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائیں .ایک اور اہم بات کہ جو ہمارا سلیبس ہے خصوصاً چھوٹی کلاسس کے نصاب میں انوائیرومینٹل سائنس کا سبجیکٹ متعارف کرواناہوگا.اس سے جوہماری آنے والی نسل ہے وہ ماحول کے مسائل اور اس کے تحفظ کو آسانی سے جان سکے گی۔
روشنی: کیا ماحولیاتی پستی کے اثرات ہمارے ملک کی اکانامی پر بھی ہوتے ہیں؟
امان اﷲمہر: جی بلکل،اس کے اثرات ہماری اکانامی پر ہوتے ہیں ۔جیسے پانی کے وسائل کو ہم آلودہ کررہے ہیں .جس سے ہمارا فشریز سیکٹر تباہ ہورہا ہے.یہی آلادہ پانی ہم صنعتوں کو دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کی پیداوار کم ہورہی ہے۔اس کے علاوہ ہم اپنے سولڈ ویسٹ کو مینج نہیں کرپارہے.نہ ہی اسے کام میں لارہے ہیں .اب چائنہ کو ہی دیکھ لیں وہ سولڈ ویسٹ سے بجلی بنارہا ہے اور دوسرے ممالک سے بھی کچرا اٹھا کر اپنی اکانامی کو اور بھی بہتر کررہا ہے۔
روشنی:آپ کی نظر میں پاکستان میں ماحول کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟اورکیا آپ اِن سے مطمئن ہیں؟
امان اﷲمہر: دیکھیں ، گلوبل وارمنگ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس کے اثرات دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں .حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں نیشنل کلائیمیٹ چینج پالیسی بنائی ہے .اس پالیسی کے زریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات جو صنعت ،پانی اور جنگلات پر پڑ رہے ہیں .حکومت اِن سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے۔اس سارے پروگرام میں حکومت شجر کاری کے زریعے گرین پاکستان مہم کو فروغ دے رہی ہے جبکہ بلین ٹری طرز کے منصوبے بھی بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت کا فوریسٹ ڈپارٹمنٹ بھی جنگلات کے تحفظ خصوصاً ساحلی علاقوں میں درختوں کی حفاظت کے لیے کا م کررہا ہے۔
اب دیکھیں تو چیلنجز بہت سارے ہیں .حال ہی میں آپ نے سُنا ہوگا کہ گندے پانی پر جوڈیشل کمیشن بنا ہے یہ ایک بڑی ڈیولپمنٹ ہے ہمارے ماحول کی بہتری کے لیے۔اس سے ہم امید کرسکتے ہیں کہ ہماری حکومتیں بھی اپنا سنجیدہ کردار ادا کریں گی۔
روشنی: انوائیرومینٹل ریفیوجیز کون ہوتے ہیں ؟
امان اﷲمہر: یہ وہ لوگ ہیں جوماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔جن جگہوں پر خشک سالی بڑھ رہی ہے یا بارشیں نہیں ہورہی تو وہاں کے باشندے اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں.یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں.اِن کو ہم آئی۔ڈی۔پیز بھی کہہ سکتے ہیں۔اب اگر آپ سندھ کے ساحلی علاقے جیسے کیتی بندر یا ٹھٹھہ کا دورہ کریں گے تومعلوم ہوگا کہ جو لوگ وہاں رہتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنے علاقے چھوڑ رہے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ وہاں اب انڈس دریا کا پانی نہیں پہنچ رہا۔جس سے لوگوں کی صنعتی زمینیں تباہ ہوررہی ہیں۔اسی طرح منچھر جھیل کا پانی آلودہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں مر چکی ہیں .اب س جھیل سے وابستہ جو لوگ تھے وہ وہاں سے ہجرت کرررہے ہیں کیونکہ ان کے کاروبار کا مہور مچھلیاں ہی تھیں۔بہر حال ،ہمارے ہاں ماحول سے متاثرہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں .اور ان کے مسائل ہم تب ہی حل کرسکیں گے جب ہم انہیں متاثر سمجھیں گے۔
روشنی: آپ نے اپنے شعبے میں کتنا کام کیا؟ اور کوئی کتاب بھی لکھی؟
امان اﷲمہر: ہاں،میں نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی جو ریسرچ ہے اس میں کام کیا ہے۔ریمیڈیئیشن آف کونٹومینیٹڈ سوائل مطلب آلودہ زمین کو صاف کرنے کے لیے کچھ تجربات کیے جوکامیاب رہے.اِس میں سے میں نے ۱۸ ریسرچ پیپرز پبلش کیے.جن میں سے چار ریویو پیپرز ہیں باقی ۱۴ ریسرچ پیپرزہیں،یہ سب آن لائن ہیں .آپ ان کو اسٹڈی کرسکتے ہیں۔ان جرنلز میں سے میں نے دو بُک چیپٹرز بھی لکھے ہیں .کیونکہ آج وہ دور ہے کہ ایک سائنٹسٹ پوری کتاب نہیں لکھتا بلکہ مختلف چیپٹر لکھتا ہے۔
روشنی: آپ کے حساب سے میڈیا کیسے ماحول کی آگاہی دے سکتا ہے؟
امان اﷲمہر: آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو میڈیا ہر چیز آسانی سے کرسکتا ہے.ماحول کے تحفظ کے لیے انوائیرومینٹل جرنلزم ایک انتہائی زبردست فیلڈ ہے.اس کا اسکوپ کافی اچھا اور وسیع ہے.اگرچہ لوگ اس سے ابھی اتنے واقف نہیں ہیں۔آپ بطور صحافی اس شعبے کو اپنا کر عام لوگوں میں ماحول کے تحفظ کے حوالے سے آگاہی پھیلا سکتے ہیں۔