Sunday, 22 April 2018

Noorulain Revised Feature BS


میرا یہ ٹاپک 14مارچ 2018 کو تبدیل کیا گیا ،سَر سانگی کی اجازت سے۔
نورالعین انصاری
بی ایس پارٹ
رول نمبر: 80
فیچر: آج کل کی نوجوان نسل اور فیشن
تنگ چوڑی دار پتلون پر لمبی لمبی کمیزیں زیب تن کئے ، رخ پر ڈالی ہوئی کالی لمبی زلفوں کو سمیٹتے ہوئے، رنگین ناخونوں والے خوبصورت ہاتھ۔ ہائے بیڑا غرق ہو فیشن تیرا تو نے اچھے خاصے مرد کو کیا بنا دیا۔ 
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں آج کل کی نوجوان نسل اور انکے فیشن کے بارے میں۔ بلا شبہ نوجوان نسل کا تعلق مالدار گھرانے سے ہو یا تنگدست گھرانے سے وہ اپنے معیار اور حیثیت کے مطابق فیشن پرستی کی
جستجو میں لگے ہی رہتے ہیں۔
بقول مقید علی نامی شخص کے آج کل کی زیادہ تر نوجوان نسل فیشن ٹرینڈ کا نام لے کر اس طرح کے لباس زیب تن کئے گھومتے ہیں ، جیسے دوسرے سیارے کے لوگ ہماری دنیا میں ہجرت کر کے آگئے ہوں۔
جب میں نے آج کل کی نوجوان نسل اور فیشن کے بارے میں ایک زاہد نامی بزرگ محترم سے دریافت کرنا چاہا تو ان کے چہرے کے تاثرات کچھ اس طرح کے تھے گویا میں نے کئی سالوں سے ان کے دلوں دماغ میں موجود کسی پریشانی کا ذکر چھیڑ دیا ہو۔بقول محترم کے نوجوان نسل نے فیشن کو صرف عجیب و غریب کپڑوں کی حدود تک ہی محدود نہیں کر رکھا بلکہ ان پر ہر چیز میں فیشن کا جنون سوار رہتا ہے۔ چاہے وہ سائیکل ہو،گاڑی ہو،موبائل فون ہو، بناؤسنگار کا سامان ہو، کھانے پینے کی اشیاء4 ہو، یا حتیٰ کہ بال تراشی کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ حجام کے پاس گئے ہوں اور آدھی بال تراشی کے بید ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے ہوں لہذا وہ آدھا سَر منڈوا کر گھومنا شروع کرنے لگے۔
آج کل کی نوجوان نسل اور ان کے فیشن کا ذکر چل رہا ہے تو میرے ذہن میں میرے پھوپھا عبدالقیوم خان کے ساتھ حیدآباد کے ایک شادی حال میں پیش آنے والا واقعہ یاد آیا تو سوچا آپ سب کو بیان کرتی چلوں۔ آج سے تقریباً ساتھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ پھوپھا سے تقریب میں چھوٹے بالوں والی پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی سیدھے ہاتھ میں مردانہ گھڑی پہنے ایک لڑکی ملنے آئی ،آتے ہی اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ، پھوپھا نے لڑکا سمجھ کر ہاتھ ملا یا اور گلے لگانے آگے بڑھے کے برابر میں موجود ان کے بیٹے نے انہیں اس بات سے آگاہ کیا کے وہ لڑکی ہے۔ محض اس صورتِ حال کے بعد ان کا صرف یہی کہنا تھا کہآگ لگے ایسے فیشن کو جس میں نوجوان کی جنس کو پہچاننے کے لئے اپنی بینائی پر زور اور دماغ پر غور ڈالنا پڑے، کہ آیا مرد ہے یا عورت۔
جب میں نے بلال نامی لمبی زلفوں والے فیشن ایبل نوجوان سیمعلوم کیا کے انہیں فیشن ٹرینڈ کی پیروی(follow) کر کے کیسا محسوس ہوتا ہے تو بلال کا کہنا تھا کہ فیشن کر کے اس کے دل کو سکون اور روح کو قرار ملتا ہیاور فیشن کر کے گھومنے سے لوگ انہیں دیکھ کر کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ جب کے مجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ انہیں عجوبا سمجھ کر دیکھتے ہوں گے نہ ان کی طرف مائل ہوتے ہوں گے۔
حتٰی کیبڑھے بڑھے برانڈز بھی فیشن پرستی کا نام دیکر اپنے ماڈلز کو اس طرح کے کٹے ہوئے، پھٹے ہوئے کپڑے زیب تن کروا کر والک کرواتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے کچھ دیر قبل ہی ان کے ماڈلز کا مقابلہ کسی شیر یا چیتے سے ہوا ہو ان کے کپڑوں کا یہ حال ان جانوروں نے ہی کیا ہو جس کے بعد انہیں سیدھا ریمپ پر ماڈلنگ کرنے بھیج دیا گیا ہے۔ 

Unaiza Profile BS


انجینئیر عبدل کریم قریشی
نام:عنیزہ زاہد
جماعت:BS PART 3
رول نمبر 2K16\MC\112:
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں شروع دن سے ہی ایک بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنے گا اور کس طرح اپنے ملک کے لیئے خدمات سر انجام دے گا اور تب ہی سے وہ معصوم ذہن اپنی ایک خواہش لیئے بڑا ہوتا ہے کوئی ڈاکٹر تو کوئی انجینیئر کوئی فوجی تو کوئی پائلٹ بننے کے خواب کو پورا کر نے کے عمل میں جُٹ جاتا ہے لیکن شاید اب یہ سوال تبدیل ہو کر کچھ یوں بن گیا ہے کہ کیا آپ مستقبل میں اس خواب کو پورا کرنے کی سقط رکھ سکیں گے؟ یعنی وہ سا رے خواب جو آپ نے دیکھے ہیں اُنھیں پورا کرنے کی قیمت جسے ہم عام طور پر رشوت کہتے ہیں ،ادا کر سکیں گے؟
کچھ ان ہی سوالات کی جیتی جاگتی مثال، سہون شریف سے تعلق رکھنے والے کریم نامی شخص ہیں جنہوں نے بچپن سے انجینئیر بننے کا خواب دیکھا. اپنی ابتدائی تعلیم آرمی پبلک سکول سے حاصل کرنے کے بعد میرٹ کی بنیاد پر مہران یونیورسٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ پیٹرولیم اینڈ گیس میں داخلہ لیا اور بہترین نمبروں کے ساتھ ڈگری کے حقدار بنے.
ڈگری ملنے سے قبل خاندان میں اُنھیں سب اِنجینئیر کریم کے نام سے پہچاننے لگے.جس سے اُنھیں مسلسل حوصلہ افزائی ملتی رہی.
کریم قریشی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو بچپن ہی سے اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ سمجھتے تھے کہ ا نکی خداداد صلاحیتیں ملکی مفاد کے لیئے کارآمد ثابت ہونگی مگر افسوس انکی ذہنی قابلیت کی قدر کسی نے یہ کی.
عام لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے گھر کی ذمہ داری کو بہت اچھے سے جانتے ہیں اور اُنھیں پورا کرنے کا عزم رکھتے ہیں. ابتداء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُنھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا .نوکری کی خاطر در در کی خاک چھاننی پڑی .وہ اپنے اس خاندانی لقب کو بنائے رکھنا چاہتے تھے مگر شایدوہ یہ بات بھول چکے تھے کہ یہاں نوکریاں صرف یا تو قسمت والے کو ملتی ہیں یا پھر پیسے والے کو ، یہاں ڈگریوں کی نہیں نوٹ کی قدر کی جاتی ہے.
اپنے ملک میں نوکری کی تلاش سے بیزارآکر آخرکار بیرونِ ملک کی طرف رُخ کرنے پر مجبور ہو گئے امریکہ جا کر دو سال خدمت سر انجام دینے کے بعد اپنے ملک کی یاد ستانے پراُلٹے پاؤں واپس چلے آئے انھیں اس بات کا شدّت سے احساس تھا کہ وہ ایک غیر ملکی نوکری کر کے اپنے وطن کے حقوق کو فراموش کر رہے ہیں .وطن واپسی پر اپنے مطلوبہ شعبہ میں نوکری نہ ملنے پرمجبورٍچائے خانے کا کاروبار شروع کیا.حیدرآباد، لطیف آباد نمبر ۶ میں ’چائے ہوجائے‘کے نام سے چھوٹے پیمانے پر چائے خانہ متعارف کروایاجووقت گزنے کے ساتھ ساتھ شہرت کی بلندیوں کو چھوتا چلا گیا.کریم اس بات سے بلکل انجان تھے کہ انکا یہ کاروبار دن دُگنی اور رات چگنی ترقی کریگا.
جہاں وہ اپنی زندگی سے بلکل مایوس ہوچکے تھے وہیں شاید قسمت نے ان کے لیئے کچھ اور ہی سوچ رکھاتھا.ضروری نہیں کہ جس چیز کی تمنّا کی جائے وہ آپ کے لئیے اچھی ثابت ہو .
کریم اب اپنے اس شعبہ سے کا فی مطمئین نظر آتے ہیں. انجینئیر کے لقب کے ساتھ ساتھ اب اُنھیں ’چائے والے‘کے نام سے بھی پکارا جانے لگا ہے .اُن کا کہنا ہے کہ یہ شہرت وہ شاید انجینئیر ہو کر بھی نہیں پا سکتے تھے جتنا نام اُنھوں نے اپنے اس کاروبار سے کمایا ہے. 

Saturday, 21 April 2018

Nasim Profile MA


پروفائل 
فہمیدہ فرید خان
فہمیدہ فرید خان آزاد کشمیر کی ضلع وادیء جہلم ایک چھوٹے گاؤں ہٹیاں والا میں پیدا ہوئی ، وہ پیدائشی طور پر Limb Deformityتھی۔ جسے عرف عام میں ٹیڑھے پیروں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔
لوگوں کے لئے یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا جبکہ اس کے والدین کے لئے یہ تکلیف دہ تھاانھوں نے لوگوں کے باتوں سے قطع نظر اس کا علاج کروانے کے لئے بے انتہا کوششیں کیں تا کہ وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکے اس کے پیروں کے کئی میجر آپریشنز ہوئے مگر تمام آپریشن ناکام ہوئے وہ نا صرف کھڑی ہوسکتی تھی نہ ہی زندگی بھر کے لئے چل سکتی تھی ۔دوسال کی عمر میں اس کی اسکولنگ ا سٹارٹ ہوئی اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھااس معذوری کے باوجود بھی M.A انگلش اور اکنامکس میں ماسٹر کیا بلکہ بی، ایڈ بھی کیا۔ جب اس کی پریکٹیکل لائف کا آغاز ہوا تو لوگوں کے بے رحم اور ظالمانہ چہروں پر سے نقاب اُترے تب اس نے جانا کہ جسمانی معذور لوگوں کے لئے صحت مند لوگوں کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں اس کی ذاتی شناخت ، تعلیم ، ہنر، ذہانت، سب جسمانی معذوری کے سبب داؤ پر لگ گیایہ سب اس کے لئے بہت تباہ کن ہوتا اگر اس کی فیملی اور دوست اس کی مدد کے لئے آگے نہ آتے۔ انھوں نے ہر طرح سے اس کی حوصلہ افزائی کی اسی وجہ سے وہ ایک بار پھر پر جوش ، بلند نظر ، بلند حوصلہ، شخصیت بن سکی۔
یہاں تک کہ اب وہ ایک موٹیویٹر اسپیکر اور سوشل ورکر ہے اب وہ لوگوں کو زندگی کا مثبت رخ دکھاتی ہے وہ اپنے اسکول کے زمانے میں اپنے دوستوں کے لئے تر جمہ نگاری کرتی تھی تو اسکے بھائی نے اس کے لئے ایک بلاگ تخلیق کرنے کا سوچا اب وہ ایک FFKبلاگ ایک مقبول ویب شائٹ ہے سیاحوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے۔
اب فہمید فرید خان جسمانی معذوری ، تعلیم اور ماحول پر آرٹیکلز لکھتی ہیں ایک رائٹر ، شاعرہ ، سماجی کارکن، سوشل موبلائزر ، موٹیوشنل اسپیکر، ترجمہ نگاراور ٹور کنسلٹنٹ ہیں ،اپنے فارغ اوقات میں ناولز اور کتابیں پڑھتی ہیں۔ نیٹنگ اور کروشیہ، بُنائی بھی کرتی ہیں ۔
جسمانی معذوری کے باوجود زندگی کے نئے مقابلوں کے لئے پر عزم اور مظبوط ہیں زندگی کے روشن رخ کو دیکھتی ہیں اور اپنے رب پر پختہ عقیدہ ہے کہ وہ اسے گرنے نہیں دے گا۔

Nasim Interview MA


نسیم اختر مغل 
M.M.C/2K18/27 انٹرویو
موسیقی ایک بڑا علم ہے اور سیکھے بنا ہم نہیں گا سکتے۔تنویر آفریدی
تنویر آفریدی موسیقی کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ گائیگی کے پیشے میں بھی انہوں نے طبع آز مائی کی ، بنیادی طور پر وہ میوزک کمپوزر ہیں ۔ ان کی مشہور البم "گڈی " تھی اور بسنت کے حوالے سے ان کا ایک گانا " گڈی میری " بھی کافی عرصہ مقبول رہا۔ باقی ان کی زندگی کے متعلق اس انٹر ویو میں جانتے ہیں ۔
س: اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق بتائیں ، بچپن کہاں اور کیسا گزرا؟
جواب: میری جائے پیدائش حیدرآباد سندھ ہے۔ ریلوے کالونی سے ملحقہ کچی آبادی میں ہمارا ذاتی مکان تھا۔ ٹرین جب اسٹیشن پر رکتی تو ہماری چا ر پائیاں لرز اٹھتیں۔ ابا کی محدود آمدنی تھی جس سے سب بچوں کو پالا۔ ابتدائی تعلیم حالی روڈ پر واقع گورنمنٹ اسکول سے حاصل کی گول بلڈنگ کے قریب اسکول سے میٹرک مکمل کیا۔ اس بعد ہم حیدرآباد سے کراچی شفٹ ہو گئے تو باقی تعلیم کراچی سے مکمل کی۔ بچپن بہت خوبصورت تھا ۔ سادہ طرز زندگی، نہ انٹر نیٹ نہ فیس بک نہ موبائل نہ موبائل چھیننے والے، کشادہ سڑکیں ٹھنڈی ہوائیں۔ سب کھلے دل سے ایک دوسرے سے ملتے تھے۔
س: گائیگی کے پیشے میں کب اور کیسے آئے؟ شوق یا اتفاقیہ؟
جواب: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتفاقیہ آئے وہ پھر اپنے گانے گاتے بھی خود ہیں سنتے بھی خود ہیں میرے نزدیک موسیقی ایک بڑا علم ہے۔ تو میں با قاعدہ اس طرف آیا۔ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن پر چائلڈ آر ٹسٹ تھا ۔آوازیں بدل کر پیروڈی کر لیتا تھا ۔موسیقی میٹرک کے بعد کراچی آکر سیکھی۔ 
س: کن استادوں کے زیر تربیت رہے؟
جواب: اصل حقیقت تو یہ ہے کہ میں گلوکار مشہور تو ہو گیا میری ترتیب کمپوزر کی ہے۔ استاد نثار بزمی میرے استاد ہیں استاد ذوالفقارنے مجھے ہارمونیم کی ترتیب دی تھی ۔ مسعود خان شیلو بھائی سے بھی میں نے کافی سیکھا۔
س: اب تک کتنے البمز ریلیز ہو چکے ہیں؟
جواب: ایک لڑکا آوارہ ، جٹی لے گئی میرا دل ، گڈی ۔
س: شوبز انڈسٹری کے دو بڑے مراکز کراچی اور لاہور ہیں ، تو آپ کے خیال میں حیدرآباد جیسے نسبتاً چھوٹے شہر سے آنے والے فنکاروں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟
جواب: دیکھیں جی پوری دنیا میں جو بھی آرٹسٹ ہوتا ہے اسے آگے بڑھنے کیلئے اپنا ٹاؤن چھوڑنا ہی پڑتا ہے ۔ چھوٹے شہروں میں ذرائع ابلاغ محدود ہوتا ہے۔ نام بنانے کیلئے محنت اور انتظار تو کرنا پڑتا ہے مشکلات ہر جگہ ہوتی ہیں۔ لیکن اپنے کام کو اچھے طریقے سے پروموٹ کر کے آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔


س: آواز اور سر قدرتی تحفہ ہیں یاکوشش کر کے سیکھی جا سکتی ہیں؟
جواب: آواز قدرت کا تحفہ ہوتی ہے ، باقی سر اور لے کو سیکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کی آواز اچھی ہے تو آپ ریاضت سے اچھے معیار پر لاسکتے ہیں سریلا ہو نا بھی تربیت سے مشروط ہے۔
س: موسیقی یا گائیگی کے فروغ کیلئے پاکستان میں کیا کام ہو رہا ہے؟
جواب: دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ پاکستان میں موسیقی کیلئے کوئی کام نہیں ہو رہا، اس میں بہت سے عوامل ہیں ٹی وی انٹر ٹینٹمنٹ چینل کا سارا رجحان ڈراموں کی طرف ہو گیا ہے۔ سارا نظام کارپوریٹ سیکٹر کے ماتحت ہو گیا ہے ۔ پچھلے پندرہ سالوں میں 20 پاکستانی گانے بھی ہٹ نہیں ہوئے۔
س: پاکستان میں گلوکاری کا شعبہ جس طرح تنزلی کا شکار ہو چکا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بطور ذریعہ معاش اس کو پروفیشن بنانا درست ہے؟
جواب: اس شعبے میں تنزلی ہو چاہے لاء اینڈ آرڈر ہو ہمارا تو یہی شوق ہے یہی اوڑھنا بچھونا ہے جن کو موسیقی سے محبت ہے، شوق ہے وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔
س: آپ کو اپنے آبائی شہر حیدرآباد میں کام کرنے کا موقع ملے تو کیا کرنا چاہیں گے؟
جواب: مجھے اپنے آبائی شہر حیدرآباد کی خوشبو نہیں بھولتی، حیدرآباد علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ اب بھی ہم جو بھی کر رہے ہیں جہاں بھی کر رہے ہیں اپنے شہر حیدرآباد کا نام روشن کر رہے ہیں اور آئندہ یہاں آکر بھی کام کرنا چاہیں گے۔
س: نئی نسل میں سے کوئی گائیگی کی فیلڈ میں آنا چاہے تو ان کے لئے کوئی مشورہ یا پیغام؟
جواب: نئی نسل کو یہی کہنا چاہو ں گا کہ اپہلے اپنی تعلیم مکمل کریں پھر کوئی اکیڈمی جوائن کریں تربیت حاصل کریں، مکمل عبور ہوگا تو یہ کامیاب ہو سکیں گے۔

Monday, 16 April 2018

Ahmed Raza Interview MA


انٹر ویو : محمد احمد رضا 
2K18/MMC/20 
M.A (Prev)
پروفیسر ضیا ء الدین شیخ 
پرو فیسر ضیا ء الدین شیخ ۱ جنو ر ی ۱۹۵۴ء کو حیدر آباد میں پیدا ہو ئے ۔آپ کو پڑھنے کا بہت شو ق تھا گھر کے معاشی حا لا ت کی وجہ سے گھر والو ں کے انکا ر کے با وجو د آپ نے ریا ضی(Maths) میں ما سٹر ز کیا اور کمیشن پاس کر کے لیکچررلگے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب آپ ایک پراؤیٹ کالج میں پڑھا رہے ہیں ۔ 
سوال ۔ آپ نے کس طر ح تعلیم حاصل کی اپنے دور طالب علم کے بارے میں بتائیں ؟ 
جوا ب ۔ میرا تعلیمی دور بہت مشکل تھا اور میرے پا س کتا بیں خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہو تے تھے ۔ اسکول سے سیدھا 1 بجے دکا ن پر جا تا تھا ۔ وہا ں سے ۸ بجے فارغ ہو تاتھا ۔ پھر اپنی جما عت اور دوسری جماعت کے ساتھیو ں کو ٹیو شن پڑھا تا تھا۔ دکا ن سے سے جو پیسے ملتے تھے وہ والد صاحب رکھ لیتے تھے ۔اور جو ٹیو شن پڑھا کر تھو ڑے بہت پیسے آتے تھے وہ اپنے تعلیمی اخرا جا ت پو رے کر نے میں لگا دیتا تھا ۔ میں نے۱۹۷۰ء میں گور نمنٹ ہائی اسکو ل حیدر آبا د سے میٹرک کیا ،یہاں تک کے میری میٹر ک کی امتحا نی فیس بھی میرے دوستو ں نے جمع کر وائی، گور نمنٹ کا لج کا لی مو ری سے پری انجینئرنگ میں انٹر اور گریجو یشن (B.Sc )کیا اور پھر ۱۹۷۶ء میں یو نیو ر سٹی سند ھ سے ریا ضی (Maths)میں ماسٹرز کیا ۔ 
سوال ۔دیگر سبجیکٹ کے بجائے آپ نے ریا ضی(Maths) کو اپنا پیشورانہ سبجیکٹ کیو ں چنا ؟
جوا ب ۔جیسا کہ میں نے آپکو بتا یاکہ میرے گھر کے معا شی حا لات ٹھیک نہیں تھے ۔ تو میں ایک پنساری کی دکان پر کا م کر تاتھا مجھے وہا ں بھی جا نا ہو تا تھااور ریاضی(Maths) وہ سبجیکٹ ہے جس میں تحقیق (پریکٹیکل) نہیں ہوتے تو اس سے میرا وقت بچتا تھا اس لئے میں نے اسے اپنا پیشورانہ سبجیکٹ بنا نے کا فیصلہ کیا ۔ 
سوال ۔ آپ کا بچپن کیسا تھا اور آپ بچپن میں کیا بننے کی خوا ہش کر تے تھے ؟
جوا ب ۔ جس عمر میں بچے کھیلتے کو د تے ہیں اس عمر میں میں ایک دکا ن پر کا م کر تا تھا ۔ پڑھائی کو بہت شو ق تھا مگر والد صا حب کہتے تھے (کما کر لا کر دو پڑھا ئی کو چھو ڑ دو)۔ والد صاحب کی بلا وجہ کی مار پیٹ رو ک ٹو ک اور سختی کی وجہ سے سارے شوق مر گئے تھے بس پیسے کما نے کی خوا ہش رکھتے تھے ۔ پر اس دور کے لحاظ سے والد صاحب صحیح تھے کیونکہ آج کے دو ر میں اور اس دور میں بہت فر ق ہے۔
سوال ۔آپ کتنا عرصہ تعلیمی پیشے سے وابستہ رہے ہیں؟
جوا ب ۔میں ۲ فر وری ۱۹۷۷ء کو گورنمنٹ نو ر محمد ہائی اسکول حیدر آباد میں ریا ضی (Maths) کو ٹیچر لگا اور وہیں پڑھا یا کر تا تھا ۔پھر ۱۹۸۱ء میں کمیشن کا امتحا ن پا س کیا اور ۸مئی ۱۹۸۲ء کو گور نمنٹ کا لج آف ٹیکنولو جی حیدر آباد میں ریا ضی (Maths) کا لیکچرر لگا ۔اور پھر وہیں سے پرو فیسر ریٹائرڈ ہو ا۔ 
سوال ۔ آپ کے کتنے بچے ہیں اور وہ کیا کر تے ہیں ؟
جوا ب ۔ میرے ۵ بچے ہیں چا ر بیٹیا ں اور ایک بیٹا ۔بیٹا انجینئر ہے اور دو بیٹیا ں شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹی پرائیویٹ اسکو ل میں پڑھا تی ہے اور دوسری پرا ئیویٹ کمپنی میں کام کر تی ہے ۔ 
سوال ۔ریٹائر منٹ کے بعد آپ کی کیا مصروفیا ت ہیں؟
جوا ب ۔زیا دہ تر گھر میں ہی رہتا ہو ں ۔صبح ایک پرا ئیو یٹ کالج (دی سپریریئر کالج آف سائینس ) میں کلا س لینے جا تا ہو ں اور شا م میں ٹیوشن پڑھا تا ہو ں ۔
سوال ۔تعلیم کے نا م پر جو کا رو بار کیا جارہا ہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟
جوا ب ۔اصل میں ہمارے معا شرے میں یہ جو معا شی دوڑ چل پڑی ہے اب اس میں تعلیم بھی شامل ہے کیونکہ تعلیم بھی اب بکنے والی شہ ہو گئی ہے اسکو ل کھل رہے ہیں پر ان میں تعلیم کا معیا ر نہیں ہے سلیبس (Syllabus) غیر ضروری ہے ۔ جنہیں پڑھنے سے انسا ن کی ذہانت بڑھنے کی بجا ئے اور کم ہو تی ہے اور استاتذہ بھی غیر معیا ری ہیں۔گور نمنٹ پرائمری اسکو ل کا تو بہت برا حال ہے وہا ں سفارش پر ایسے استا د لگائے جا رہے ہیں ۔ جنہیں اپنا نا م تک نہیں لکھنا آتا تو وہ تعلیم کیا دینگے اس لئے استاتذہ کی غیرحاضریاں ہوتی ہیں ۔ 
سوال ۔تعلیمی ادارو ں میں پڑھنے والے طالب علم اور نو جوا نو ں کے لئے آپ کاکیا پیغا م ہے ؟
جوا ب ۔تما م طالب علمو ں کا چا ہیے کہ زیا دہ سے زیا دہ تعلیم حاصل کریں اور اپنی تعلیمی استطاعت کو بڑھائیں محنت کریں کیو نکہ محنت کبھی ناکام نہیں ہو تی کا میا بی ضرو ر ملتی ہے۔ آپس میں اتحا داور اتفا ق اور بھا ئی چارے سے رہیں ۔ آپنے ما ں با پ ، بہن بھائی اور ہر انسا ن سے وفا کریں ۔

Ahmed Raza Profile MA






پروفائل : محمد احمد رضا 
2K18/MMC/20 
M.A (Prev)
خاتو ن ٹیکسی ڈرائیو ر 
حمت مر دا ں مدد خدا اگر انسا ن چا ہے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں ۔ لطیف آباد کے رہا ئشی بشیر اً نا می ایک خاتو ن جو تقریبا تیس (۳۰) سالو ں سے سو زوکی چلا تیں ہیں ۔ 
بشیراً 1950 میں حیدر آباد میں پیدا ہو ئی کم عمری میں ہی شا دی ہو گئی شو ہر کا نا م محمد بنا ر س صدیقی تھا وہ پولیس میں نو کری کر تے تھے ان کے پانچ (۵) بچے ہیں ۔ 
شادی کے کچھ سا لو ں بعد ہی بشیراً کے شو ہر جوا نی میں ہی انتقال کر گئے ۔عدت پو ری کر نے کے بعد محنت مزدوری شرو ع کر دی کیو نکہ بچے چھو ٹے تھے اور سہا را دینے والا کوئی نہ تھا ۔ 
بشیراًنے محنت مزدوری کر کے پیسے جو ڑ جو ڑ کر اپک پرا نی سو زوکی خریدی اور اسے ٹیکسی کی طر ح استعمال کر کے اپنے بچو ں کو پڑھا یا ، جوا ن کیا پھر شادیا ں کی ۔ 
بشیر اً کے پانچ بچے ہیں (۳) تین بیٹے اور (۲) بیٹیا ں ۔ایک بیٹا پو لیس میں نو کری کر تا ہے دوسرا انہیں کی طر ح سو زوکی چلا تا ہے ، اور تیسرا گھر میں رہتا ہے اور دونو ں بیٹیا ں شادی شدہ ہیں ۔
بشیراً کا کہنا ہے کہ کبھی کسی سے مانگ کر خر چ نہیں کیا جو کما یا اسی سے اپنے بچو ں کو کھلا یا اور پہنا یا ، میں نے اپنے بچو ں اور سب نو جو انو ں کو یہی نصیحت کر تی ہو ں کہ جب اﷲ پا ک نے ہا تھ پا ؤ ں سلا مت رکھے ہیں تو محنت کرو محنت میں شر م نہ کر و ۔ ایک نجی این جی او (NGO) نے ان کے محنت اور لگن کوسر احہ اور انہیں ایوا رڈ پیش کیا ۔ 
بشیراً کے پیشے سے تعلق رکھنے والے چنو بھا ئی کا کہنا ہے کہ میں انہیں (۳۰)تیس سالو ں سے جا نتا ہوں یہ شرو ع شروع میں حیدر آباد سے کو ٹری کی سواری اٹھاتی تھیں اس کے بعد سے ابھی تک یہ لطیف آباد سے حیدر چوک تک کی سواری اٹھا تی ہیں ۔یہ انتہا ئی خدار خا تو ن ہیں اور سب سے اخلا ق سے پیش آتی ہیں ان کی اسی محنت اور لگن کی وجہ سے آج اﷲ پاک نے انہیں تین سوزوکیو ں کا مالک بنا دیا ہے ۔ 

Sunday, 15 April 2018

Zaira Article BS


Zaira ansari
BS partlll2k16-121-mc
Assigned by sir sohail sangi
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری :
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری : سندھ کے دوسریبڑے شہر حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہیڈ آفسز گنتی کے موجود ہیں جس میں سندھی پرنٹ میڈیا روزنامہ کاوش ، عبرت ، سندھ ایکسپریس کے ساتھ ساتھ اردو میڈیا سے وابستہ روزنامہ پاسبان ، سفیر ، سرمایہ ، ودیگر ہے ہیڈ آفسز تو ہیں لیکن کام کرنے والوں کو مالکان اجرت ان کی ماہوار 7سے 10 ہزار روپے تک دیتے ہیں اور فوٹوگرافرز اور فیلڈ رپورٹرز کو 4 سے 5 ہزار روپے تک بڑی مشکل سے ملتے ہیں اور نیوز ایڈیٹر ، پروف ایڈیٹر ، اور ایڈیٹر کی تنخواہ صرف سندھی پرنٹ میڈیا کو ہی ملتی ہے اور اردو پرنٹ میڈیا کے دفترز میں ایک ہی افراد تینوں پوسٹوں پر اپنا فرض سرانجام دیتا ہے جس کی تنخواہ 10ہزار روپے سے زائد نہیں ہے اور پرنٹ میڈیا کے مالکان صرف کام کرواتے ہیں ان کو عیدالفطر یا عیدالاضحی یا کسی بھی قسم کے خوشی کے تہواروں میں بونس تک نہیں دیتے ہیں اور کسی بھی ورکرز کی انشورنس یا ویج بورڈ نہیں کرواتے ہیں دوسری طرف بات کی جائے الیکٹرانک میڈیا کے دفتر ہیڈ آفس کی تو وہ حیدرآباد میں ایک ہی ہے جو سندھی نیوز چینل مہران سے موجود ہے جہاں پر تمام اسٹاف کو بھی تنخواہوں کا رونہ روتے ہوئے نظر آتے ہیں کیمرہ مین کی تنخواہ 12سے 15 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے اور فلیڈ رپورٹر کو 7 سے 10 ہزار روپے بڑی مشکل سے دیئے جاتے ہیں مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بیورو دفترز تقریبا 50 کے لگ بھگ موجود ہیں جن کی تنخواہیں تو ملنے کی دور بات آفس تک کرایا ، پیٹرول ، موبائل فون بیلنس اور انٹرنیٹ سروس بھی بڑی مشکل سے نکالتے ہیں کیونکہ مالکان صرف اپنی پروڈکٹ ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس پروڈکٹ کو استعمال جائز یا ناجائز کرنا انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے کچھ بات یہ کی جائے کے وہ فلیڈ رپورٹر یا کیمرہ مین اپنی تنخواہ بلیک میلنگ کے راستے سے نکالتے ہیں باعث نیوز نشر کرنے کے بہانے سے پیسے بٹورتے ہیں اس کے علاوہ ایک حقیقت پسند بات کی جائے تو وہ ایک کڑوی تو ہے لیکن سچ اور حقیقت پر مبنی ہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ %80 پرسن حیدآباد پریس کلب میں ممبر شپ اور عارضی انٹری ہولڈر کے طور پر روزانہ کی بنیاد پر مظاہرین اور پریس کانفرنس کی کوریج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بدقسمتی سے 50 پرسن فیلڈ رپورٹرز کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز ان مظلوم متاثرین افراد کی کوریج کی نشر یا شائع کرنے کے پیسے 200 سو روپے سے 1000 تک وصول کرتے ہیں اور کلب کے اندر پریس کانفرنس کے پیسے چار ہزار روپے وصول کر کے پھر جاری کی جاتی ہے حیدرآباد پریس کلب ایک اسی واحد جگہ ہے جہاں ہر الیکٹرونک میڈیا سے منسلک لوگ موجود ہے کیوں کہ یہ ایک واحد ادارہ ایسا ہے جہاں کسی بھی بڑی شکسیت کی آنے کی معلومات سے لیکر حادثات تک کی معلومات سب سے پہلے حیدرآباد پریس کلب کو ہی وصول ہوتی ہے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کے محکمہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ فیلڈ رپورٹر کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز کو اپنے محکمے میں رجسٹرڈ کرتی ہے اور ان کا فیلڈ ورک کارڈ بھی ہر سال جاری کیاجاتا ہے جس سے پاکستان ریلوے ، پاکستان ایئر لائن جیسی سفری سہولیات 50سے 75 پرسن حاصل کی جاتی اور تو اور وزیر اعظم ،صدر ، وزیر اعلی اور گورنر کے علاوہ وزیر مشیر اور بیورو کریٹ افسران سے باآسانی ملاقات کی جاتی ہے ان چیزوں کے باوجود چند فیلڈ رپورٹرز نے اپنی تنکھا کے لیئے یونین بنا رکھی ہے مگر ان کی بھی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور اس معاملے کو حال کروایا جائے تاکہ نوجوان میڈیا میں آگے آسکے۔

Sumbul Interview BS


نام:سمبل منظور
ایس پارٹ:3
رول نمبر:2k16-mc-150
نوجوان گلوکار وقار ملاح سے بات چیت

سندھ کے مشھور ضلعہ دادو کا پیدائشی نوجوان گلوکا ر وقار ملاح جنھوں ،نے بچپنں سے ہی گلوکاری کا آغاز کیا ، اور تھوڑے ہی عرصے میں پوری سندھ میں مقبولیت حاصل کرلی. نوجوان گلوکار وقارملاح سے ذاتی زندگی اور فن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں.
سوال: آپ کی پیدا ئش کہاں ہوئی اور ابتدائی تعلیم کہاں حاصل کی؟
جواب:میری پیدائش میرے ابائی گاؤں دادو میں پہر جلد ہی وہاں سے حیدرآباد چلے آئے اور رہائش اختیار کرلی میراپورا بچپں حیدرآباد میں حاصل کی. اس کے باد انٹر ڈگری کالیج حیدرآباد سے کیا۔
سوال:گلوکاری کی طرف آپ کیسے متوجہ ہوئے؟
جواب: قدرت کی طرف سے ہی میٹھی آواز عطا کی ہوئی تھی اسی وجہ سے بچپں سے ہی اسکول کہ مختلف پروگرامز میں گانا شروع کردیا۔ اور کئی انعامات حاصل کیے.اور اس شئبے میں آنے کے لئے استادون نے محنت کروائی. 
سوال: گلوکاری کہ شعبے میں مشکلات درپیش ہوئی؟
جواب: غریب گھر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے کافی مشکلات پیش آئی اور ہر کوئی بولتا تھا کہ گلوکاری میں کوئی مستقبل نہیں ہوتاپر میرے والد نے میرا بہت ساتھ دیا۔
سوال: آپ کو گلوکاری میں کونسی شاعری گانا پسند کرتے ہیں؟
جواب:میں ملی نغمے اور قومی ترانے اور رومانوی گیت گانا پسند کرتا ہون۔
سوال: آپ زیادہ تر کس شاعرون کو گنگنانا پسند کرتے ہیں؟
جواب: میں نے اس وقت تک شیخ ایاز،استاد بخاری ، رخسانہ پریت، راشد مورائی، ایازگل، ایوب کھوسہ،آکاش انصاری،لیاقت علی کی شاعری گنگنائی ہے ۔
سوال:کوئی ایسا مقبول گیت جس نے آپ کو ذیادہ مقبولیت دلائی ہو؟
جواب:شاعر مانک ملاح کی شاعری کا گایا ہوا گیت(مٹی منھنجی ماءٌ) سے مجہے شہرت ملی۔ 
سوال: آپ کہ پسندیدہ فنکار کون سے ہیں؟
جواب: عابدہ پروین، لتا ، صادق فقیر ، شفیع فقیر، منظور سخیرانی۔
سوال: آپ کتنے عرصے سے اس فیلڈ میں ہیں اور کتنے نوجوان آپ کو پسند کرتے ہیں ؟
جواب:میں گذشتہ سات برس سے گلوکاری کی دنیا میں کام کر رہا ہونااور نوجوا ن بہت ذیادہ پسند کرتے ہیں ٹیلیوزن کی دنیا میں کم لیکن سوشل میڈیا پر ذیادہ چاہنے والے ہیں سوشل میڈیا پر ذیادہ چاہنے والے ہیں۔
سوال:گلوکاری کہ حوالے سے کوئی پیغام دینا چاہینگے؟
جواب: گلوکاری کہ حوالے سے میں کھونگا کہ ہمیں اس ترقی کہ دور میں دنیا کہ ساتھ چلنا چاہیے،گلوکاری کبہی ختم نہیں ہوگی، بلکہ یہ بہت آگے تک جائیگی،گلوکاری روح کی راحت ہے، اسے گنگنانے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ 

Saadat Interview BS


مزاحیہ فنکار اصغر کھوسو سے خصوصی انٹرویو
روشنی۔ اصغر آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں؟
اصغر کھوسو۔ میرا تعلق سندھ کے قدیمی شہر ضلع دادو تعلقہ جوہی کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے (کاچھو) وہاں سے ہے۔
روشنی۔ آپ نے کامیڈی کی دنیامیں کب قدم رکھا ؟
اصغر کھوسو۔ میں بچپن سے ہی شادیوں، جلسوں، ریلیوں اور دوستوں کی چھوٹی چھوٹی محفلوں میں مزاحیہ پراگرامز کرتا تھا اور لوگ مجھے داد دیتے تھے مگر پانچ سال سے اس فن کو میں نے اپنا پیشا بنا لیا ہے ۔
روشنی۔ آپ کو پہلی بار دنیا کے سامنے کس نے متعارف کروایا ؟
اصغر کھوسو۔ میرا ایک دوست تھا غلام شبیر جس نے سوشل میڈیاپرمیری ایک مزاحیہ ویڈیو رکھی اورکافی لوگوں نے مجھے پسندکیااور میری کامیابی کے دروازے کھلنا شروع ہوگئے ۔
روشنی۔ اصغر بھائی جیسا کہ آپ کو سوشل میڈیا سے ہی اتنی مقبولیت ملی ہے تو آپ کے وہاں پر چاہنے والے کتنے ہیں ؟
اصغر کھوسو۔ سوشل میڈیا پر میرے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہیں کیوں کہ جب بھی میں کوئی ویڈیو رکھتا ہوں تو وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور لوگ دیکھ کر بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔
روشنی۔ ہر انسان پر تنقید ہوتی ہے یقینََ آپ بھی ضرور اس چیز کا نشانہ بنے ہونگے تو کبھی مایوسی ہوئی؟
اصغر کھوسو۔ مایوسی کرنا کفر ہے اور ہر فنکار مشہو ر جب ہوتا ہے اچھا فنکا ربھی جب بنتا ہے جب اس پر تنقید ہوتی ہے اگر سب واہ واہ کرنے والے ہونگے تو انسان کبھی بھی سیکھ نہیں پائے گا میں تو کوشش کرتا ہوں کہ لوگ مجھ پر تنقید کریں تاکہ میں اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرسکوں ۔
روشنی۔ آپ اپنی زندگی میں کس بڑے مزاحیہ فنکار سے متاثر ہوئے ؟
اصغر کھوسو۔ میرے سب سے زیادہ پسندیدہ مزاحیہ فنکار معین اختر صاحب اور عمر شریف ہیں کیوں کہ وہ ایسے فنکار تھے جو کبھی ا سکرپٹ دیکھ کر نہیں بولتے تھے ۔
روشنی ۔ کبھی کوئی ایسا وقت آیا جو آپ ہمت ہار کر بیٹھ گئے؟
اصغر کھوسو۔ ایسا وقت ضرور آتا ہے کیوں کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بہت تکلیف پہنچاتے ہیں تو دل کرتا ہے اس کام کو چھوڑ دوں پھر جب اچھے لوگ آکر داد دیتے ہیں تو پھر ساری باتیں بھول جاتا ہوں ۔
روشنی۔ آپ نے اپنی پہلی ویڈیو کا ٹائٹل (جانا) کیوں رکھا؟
اصغر کھوسو۔ جا نا میرا ایک تکیہ کلام ہے کیوں کہ ہر انسان اپنے کسی کوڈ ورڈ سے پہچانا جاتا ہے جیسے شاہد آفریدی بوم بوم سے مشہور ہیں اس لئے میں نے اپی پہلی ویڈیو کا ٹائٹل جانا رکھا۔
روشنی۔ آپ کو نا صرف پاکستان کے لوگ بلکہ باہر ملک رہنے والے بھی پسند کرتے ہیں تو کیا کبھی پاکستان سے باہر جا کر پروگرام کیے ہیں؟
اصغر کھوسو۔ مجھے پاکستان کے علاوہ سعودیہ عرب ، انڈیا ، امریکہ ، کنیڈا اور دوسرے کئی ممالک میں بھی پسند کرتے ہیں کیوں کے وہ لوگ یہ دیکھتے ہیں ایک انپڑ ھ بندا کتنا خود اعتمادی سے لوگوں کو خوش کرتا ہے تو وہ مجھے اپنی بڑی بڑی تقریبا ت میں بلاتے ہیں جیسے دبئی میں پروگرام کرکے آیا ہوں ۔
روشنی۔ کامیڈی کے ساتھ موسیقی کا شوق کیسے ہوا؟
اصغر کھوسو۔ اس کی ایک اور وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ایک مزاحیہ فنکار زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹا ہنساکر لطف اندوز کرسکتا ہے تو میں نے سوچا بقایا وقت میں موسیقی سنا کر لوگوں کو خوش کرسکوں کیوں کہ میرے گانوں میں مزاحیہ انداز ہی ہوتا ہے جس سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
روشنی۔ دونوں میں آپ کس چیز کو اگے لیکر جائینگے کامیڈی یا موسیقی کو ؟
اصغر کھوسو۔ میری زیادہ توجہ صرف کامیڈی پر ہے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب اصغر کامیڈی چھوڑ دیگا اور موسیکار بن جائیگا مگر یہ بات نہیں ہے مزاحیہ فنکار کی مثال ایسے ہے کہ کھانے کے ساتھ سلاد جہاں دس موسیکار ہیں وہاں ایک مزاحیہ فنکار ضرور ہوتا ہے۔
روشنی۔ آپ اپنی فیملی کو ٹائم کیسے دیتے ہیں کیوں کہ آپ کو پروگرامز میں بھی جانا ہوتا ہے اپنے بچوں پر بھی توجہ دینی ہوتی ہے؟
اصغر کھوسو۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیں خوش کرتا ہے ہنسا تا ہے تو یہ خود بھی بہت خوش ہوگامگر ہمیں پتا ہوتا کہ ہماری زندگی میں کتنی تکلفیں اور مسائل ہوتے ہیں میری بیوی فالج کی پیشنٹ ہے اور میری والدہ شوگر کی پیشنٹ ہیں جب بھی کسی پروگرام میں جانا ہوتا ہے تو ہم مزاحیہ فنکار اپنے دکھ درد تکلیفیں اور غم اپنے گھر میں چھوڑ کر لوگوں کو ہنسانے کے لئے نکل پڑتے ہیں اور دوسری طرف مجھے اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دینے ہوتی ہے کیوں کہ میں چاہتا ہوں کہ میں نہ پڑھ سکا مگر میرے بچے پڑھ لکھ کر کامیاب ہوں ۔
روشنی۔ آپ کو زندگی میں کس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے ؟ 
اصغر کھوسو ۔ مجھے سب سے زیادہ جو کمی محسوس ہوتی ہے وہ ہے تعلیم کیوں کہ میں پڑھ نہیں سکا جس کا مجھے افسوس ہوتا ہے اس لیے میں سب کو تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہوں اس لیے مجھے پڑھے لکھے لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
روشنی۔ ہمارے ملک کے بہت نوجوان ایسے ہیں جو کامیڈی میں شوق رکھتے ہیں اور اس ہی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آپ ان کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟ 
اصغر کھوسو۔ میں یہی کہنا چاہوں گا کہ محنت کریں، لگن سے کام کریں، جستجو جاری رکھیں، اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ دیں اور اپنے والدین کی خدمت کریں ان کی دعائیں لیں اللہ آپ کو ضرور کامیاب کریگا۔

Saturday, 14 April 2018

Mahnoor Interview BS


ہمارے نوجوانوں کو انسان ذات کی بھلائی کیلئے کام کرنا ہوگا۔ نواب کاکا 
ماہ نور چنا ۔ بی ایس (III )۔44







پروفیسر ڈاکٹر نواب کاکا 14 فروری 1978 کو تحصیل سعید آباد ضلع مٹیاری ک گاؤں ابراہیم کاکا میں پیدا ہوئے ۔ آئیں علم و ادب کے حوالے سے بات چیت کرتے ہیں۔
سوال: سر آپ اپنا مختصر تعارف کروائیں ؟
جواب میرانام نواب کاکا ہے ۔ میرا جنم میرے آبائی گاؤں نواب ابراہیم کاکا میں 1978 کو ہوا۔ میں سندھ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور مرزا قلیچ بیگ چےئر کا ڈائریکٹر بھی ہوں ۔
سوال : اپنی تعلیمی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کریں ؟
جواب : میں نے اپنی تعلیم آپ کی طرح اپنے ہی گاؤں کے اسکول سے حاصل کی اس کے بعد بارہویں جماعت کے امتحان ہالا سے پاس کرکے سندھ یونیورسٹی سے سندھی شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری اپنے نام کی ۔ 2005میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد کراچی و دیگر سندھ کے کالیجز میں بطور استاد بھی فرائض سر انجام دے چکاہوں ۔
سوال : سر شاعروں ، ادیبوں کے شعبے یعنی سندھی شعبے کی طرف آپ کا رحجان کیسے گامزن ہوا؟
جواب : دیکھیں ادب سے میرا فطری طورپر لگاؤ رہا تھا ۔ مڈل کلاس سے لے کر ادبی دنیا تک کے سفر میں اپنے والد صاحب سے بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ اس وقت شاہ صاحب کی غزل (بیت) پڑھتے تھے تو میرے شوق میں اضافہ ہوا اور اسی وقت سے شاعری لکھنا شروع کردی ۔مختلف رسالہ وغیرہ پڑھنے کی دلچسپی بھی بڑھ گئی اور اس وقت سے لے کر میری خواہش تھی کہ سندھی ادبی شعبے میں پڑھنے اور کام کرنے کا موقع ملے ۔
سوال: سر آپ کے پیش نظر اد ب کیا ہے ؟ اس حوالے سے آگاہ کریں ۔
جواب : ادب کی وصفیں دنیا کے کتنے ہی فلاسفروں ، محققوں نے د ی ہیں ۔ کچھ نے ادب کو زندگی کی تفسیر بتایا ہے ۔ علامہ آئی آئی قاضی کے مطابق، ادب چھوٹے بچے کو چلنا سکھانے والے عمل جیسا مفہوم رکھتا ہے ۔ میرے نقط نظر سے سیکھنے اور سکھانے والے عمل کو ہم ادب کا نام دے سکتے ہیں ۔ ادب انسانی زندگی کی عکاسی و ترجمانی بھی کرتاہے۔ ادب کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے مسائل پے نظر رکھ کر ان کا حل بتانا ہے ۔ انسانی جذبات، احساسات، اور غم و خوشی کیا ہے اس کی آگاہی ادب سے ملتی ہے ۔ 
سوال : ادب کے حوالے سے میرا اگلا سوال :یہ ہوگا کہ آپ سندھی ادب کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب : دیکھیں سندھی ادب کے مختلف دور گزرے ہیں ۔ کلہوڑوں کا دور سندھی ادب کے عروج کا دور سمجھا جاتا ہے ۔ جس میں کئی کلاسیکل شاعر رونما ہوئے ۔ اس دور میں شاعری کی صنفوں وائی ، غزل وگیتوں کو عروج حاصل ہوا۔ اس کے بعد انگریزوں کا دور آیا جو جدید ادب کے حوالے سے بنیادی دور ہے ۔ جس میں مرزا قلیچ بیگ بھی شامل ہیں جنہوں نے سندھی ادب کی جدید فکر کا بنیا رکھاہے ۔اس کے بعد موجودہ دور ہے جس میں کئی مسائل درپیش ہیں ۔ کئی ایسے مصنف آئے ہیں جن کی لکھائی میں کوئی تخلیقی صلاحیت نہیں ۔ 
سوال : سر اگر سندھی ادب کی بات کی جائے تو آپ کس شاعر سے متاثر رہے ہیں ۔
جواب : شعراء کی بات کی جائے تو سارے شاعر لطیف، سچل ،سامی ، شیخ ایاز اور بھی بہت سارے ہیں ۔ لیکن اگر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی بات کی جائے تو انہوں نے تمام زندگی کے پہلوؤں کو پیش کیاہے ۔ ان کی شاعری میں خوبصورتی اور سچائی بھی سمائی ہوئی ہے ۔
سوال : سر دیکھا جائے تو کلاسیکل شاعری اور مو سیقی میں آج کل کمی نظر آرہی ہے اس کی وجہ کیاہے؟
جواب: کلاسیکل شاعری میں کمی اتنی نہیں آئی ، ہمارے کئی فنکاروں نے شاہ اور دوسرے شاعروں کو اپنے سروں کی زینت بخشی ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے افراد کی پسند تبدیل ہوچکی ہے آج کل کے لوگ کلاسیکل شاعری کو نہیں سنتے ۔ 
سوال : آپ نے اس وقت تک کتنے ادبی تحفوں کو سنبھالا ہے ؟ 
جواب : میری کتاب ’’ سندھی کہانی اور کردار ‘‘ کے نام سے 2017 میں چھپی ہے ۔ اور دیگر میرے پی ایچ ڈی کے تھیسز بھی ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف تحقیقی کھوج جرنلوں اور مقالوں کو شائع کیا گیا ہے اس طرح اگر ان کو جوڑا جائے تو چار پانچ کتاب چھپ سکتے ہیں ۔
سوال : شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ چےئر کے بارے میں تھوڑی آگاہی دیجئے ۔
جواب: دیکھئے بنیادی طور پر ان چےئرز کاکام اس شخص کے کیے ہوئے کام کو آنے والی نسل تک پہنچا نا ہے ۔ ایسے ہی ہمارے مرزا قلیچ بیگ اپنی شخصیت میں ایک ادارہ تھے جنہوں نے علم کی شاخ پر کام کیا ۔ یہ چےئر انہی کے کام محفوظ کرنے کے لیے ہمارے اس وقت کے وائس چانسلر مظہر الحسن صدیقی کی صدارت میں 2008 میں بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے ڈائریکٹر محمد قاسم بگھیو تھے ۔ دسمبر 2017سے یہ چارج میرے پاس ہے ۔ اس وقت تک میں نے تین سیمینار کروائے ہیں جبکہ چار کتاب چھپنے کے لیے بھیجے ہیں ۔
سوال : ہمارے نوجوانوں یا پڑھنے والوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ۔ 
جواب : ان کے لیے پیغام ہے کہ اپنے کام میں مخلص رہیں ، اساتذہ سے سچا عشق اور چاہ پیدا کریں ۔ ہمارے بڑوں سے ملے ہوئے اداروں کی باقائدہ حفاظت کریں ۔ انسان ذات سے بھلائی کریں ۔ ان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ خود بیدارہوں، نیکی کی راہ لیں اور اچھائی کے کامون کی طرف غور و فکر کریں ۔

Munawar Feature BS


تحریر: منور خان
رول نمبر: 2k16/MC/72
کلاس: بی ایس پارٹ3

فیچر:
سینی موش 3D سنیما ہاس
انٹرٹینمنٹ انسانی زندگی کا لازمی مشغلہ ہے۔ انسان کی زندگی جب مشکل حالات، مصائب اور پریشانی سے دوچار ہوتی ہے تو اس کا سامنا کرنے کے لئے اس کے پاس مضباط اعصاب کا ہونا بہت لازمی ہے اور انٹرٹینمنٹ اعصاب کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انٹرٹینمنٹ کی بہت ساری اقسام ہیں جن میں سنیما گھر بھی انٹرٹینمنٹ حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
1947 کی جنگِ آزادی کے بعد لاہور پاکستان کے سنیما گھروں کا مرکز تھا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تاریخ کی سب سے پہلی فلم تیری یاداں ہے جو کہ لاہور کے بربت تھیٹر میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری نے عروج حاصل کرنا شروع کردیا اور پاکستان میں سنیما گھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ آج پاکستان کے تقریبا ہر شہر میں سنیما گھر موجود ہیں جہاں پر لوگ فلم دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے شہر حیدرآباد میں بھی کافی سنیما گھر موجود ہیں جن میں سب سے نمایاں مقام سینی موش 3Dسنیما ہاس کو حاصل ہے۔ یہ حیدرآباد کا سب سے پہلا 3D سنیما ہاس ہے جو کہ پر کشش آٹو بھان روڈ پر واقع ہے۔ شہر حیدرآباد میں کافی سنیما گھر ہیں مگر سینی موش سنیما گھر کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ کی نت نئی فلم سب سے پہلے سینی موش میں ہی دکھائی جاتی ہیں۔ سینی موش دوسرے سنیما گھروں سے اس لئے نمایاں ہے کیوں کہ یہاں کو ماحول اچھے معیار کا ہے۔ یہاں نہ صرف امیر گھرانے کے لوگ فلم دیکھنے جاتے ہیں بلکہ مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ سینی موش میں تین قسم کے ٹکٹ فراہم کیے جاتے ہیں جن میں سب سے نچلے درجے کی ٹکٹ سلور ، اسکے بعد گولڈ اور سب سے نمایاں پلاٹیننیم ہوتی ہے اور ان ٹکٹ پر ان کے رنگ اور درجے کے حساب سے الگ الگ ریٹ پر فروخت کیے جاتے ہیں جب کہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے طالبِ علموں کی خاص تعداد سینی موش کا رخ کرتے ہیں۔
سنیما ہاس میں فلم دیکھنے کی خاص وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو بھی نئی فلم ریلیز ہوتی ہے اس کا ایچ ڈی پرنٹ صرف سنیما گھروں میں ہی دستیاب ہوتا ہے اسی لئے ہر رنگ و نسل اور ذات پات کے لوگ بلا کسی تفریق کے ساتھ بیٹھ کر فلم کو دیکھ کر محظوظ ہوتیہیں۔

Munawar Interview BS


تحریر : منور خان 
رول نمبر : 2K16 / MC / 72
کلاس : بی ۔ایس پارٹ ۳

انٹرویو :-
الحاج اشرف بن محمد

الحاج اشرف بن محمد جوکہ آل سندھ پرا ئیویٹ ایجوکیشن ایسوسی ایشن کے صدر ہیں ۔ انکو انکی تعلیمی صلاحیتوں اور انسانی خدمات کی وجہ سے کئی اعزاز ات سے نوازا جا چکا ہے ۔اس کے علاوہ یہ ٹیچر ز کے حقوق کیلئے گسٹا یونین میں بھی کافی محترک رہے ہیں اور ہر محاظ پر ٹیچر ز حقوق اور ایجوکیشن میں مثبت کردار ادا کرنے کے جذبہ سے سر شار الحاج اشرف بن محمد سے ہونے والی گفتگو سوال وجواب کی صورت میں نذر قارئین ہے۔
سوال نمبر ۱: سب سے پہلے تو آپ اپنی کو الیفیکشن کے بارے میں بتائیں اور آپ کتنے سال سے ایجوکیشن کیلئے خدمات فراہم کررہے ہیں؟
جواب: میں نے ماسٹر کیا ہے (Math)میں اور الحمد اللہ میں بتیس سال سے ایجوکیشن کے حوالے سے خدمات فراہم کر رہا ہوں 
سوال نمبر ۲: ایجوکیشن کے علاوہ انسانی حقوق کیلئے آپکی کیا خدمات ہیں ؟
جواب: ہومن رائٹس کا بھی میں (ایچ ۔آر۔ سی ۔پی)ممبر ہوں اور اس میں بھی میں نے آواز جہاں پر اٹھانی تھی اٹھائی ہے اور میں نے چائلڈ لیبر کیلئے ہر لحاظ پر آواز اٹھائی ہے (ایچ۔ آر۔ سی ۔پی ) کے پلیٹ فارم کے تحت کہ حکومت نے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کیلئے تعلیم مفت کردی گئی ہے مگر یہ بچے سڑکوں پر اور کارخانے وغیرہ میں معمولی اجرت پر کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے یہ بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں میں نے کئیں مرتبہ گورنمنٹ سے اس بات پر آواز اٹھائی ہے کہ آپ ان کو پابند کر یں کہ ان بچوں کو مزدوری کے بچائے تعلیم دلائیں ۔
سوال نمبر ۳: آپ کا ایجوکیشن کیرئیر کس مقام سے شروع ہو تا ہے ؟
جواب: ابتدا میری جو ہے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 22نومبر 1947میں ہوئی ۔اس کے بعد میں وقتاًفوقتاً پرا ئمری سے ترقی کرتا ہوا ہائرسکینڈری اسکول کای ہیڈ ماسٹر ہوکہ ریٹائرڈ ہوا۔

سوال نمبر ۴: آپکے خیال میں ایسے کیا اقدامات ہونے چائیے جس سے ہماری ایجوکیشن میں بہتری آسکے ؟
جواب: میرے خیال سے پاکستان کے ایجوکیشن سسٹم میں تمام پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکول اور کا بجز میں ایک ہی معیار کی تعلیم ہونی چائیے اور ان کا کانصاب تعلیم بھی ایک جیسا ہونا چائیے ۔ہمارے یہاں المبہ یہ ہے کہ امیر کیلئے الگ معیار تعلیم ہے اور غریب کیلئے الگ یہ امتیازی فرق ختم کرکے سب کو ایک جیسا ماحول اور معیار دینا چائیے ۔جبکہ اساتذہ کو پنکچول کر نا بھی بے حد ضروری ہے ۔

Munawar Profile BS



تحریر : منور خان 
رول نمبر : 2K16 / MC / 72
کلاس : بی ۔ایس پارٹ ۳

پروفائل :-
ابتسام شیخ 

اگر انسان کے حوصلے بلند ہوں اور ارادے نیک ہوں اور خدا پر یقین ہوں تو نا ممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔اس کی جیتی جاگتی مثال حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ابتسام شیخ کی ہے جو کہ حالیہ پی ایس ایل کے ٹھرڈ ایڈیشن میں پشاور زلمی کی نمائندہ گی کررہے ہیں ۔ ابتسام شیخ نے تمام مصائب کا سامنا کیا اور ناممکن کو ممکن کردکھایا ۔ 
ابتسام شیخ کو بچپن سے ہی کرکٹ سے جنون کی حدتک لگاؤ تھا ۔ ابتسام شیخ کا بچپن عام بچوں سے مختلف رہا ہے نہ انکی شامیں
آوار اگردی میں گزری نا کسی بڑی عادت کا شکار ہوئے ۔چھوٹی عمرسے ہی ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز بس کرکٹ ہی کو اپنا سب کچھ بنالیا۔ اپنے شوق کو پورا کرنے اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کیلئے ابتسام شیخ نے ما ما شوکت بلوچ کی اکیڈمی جوائن کری جوکہ سنی کالج میں نیٹ پریکٹس کرتے تھے ۔ایسی وجہ سے ابتسام شیخ نے تعلیم بھی وہیں سے حاصلکی یعنی سٹی کالج اور سیٹھ کمال الدین ہائی اسکول سے ابتسام شیخ نے محنت لگن اورجذبہ سے لیگ اسپن کی پریکٹس شروع کی ابتسام شیخ کا پسند یدہ بولر شین وارن ہے اسی لیے شین وارن کی طر ز پر بالنگ سیکھنا شروع کردی ابتسام شیخ کو کم عمری میں ہی لیگ اسپن بالنگ میں مہارت حاصل ہوگئی ۔ابتسام شیخ نے آفیشل کرکٹ 14سال کی عمر میں U-16ریجن کھیل کرشروع کی ۔
ابتسام شیخ کی اصل کامیابی کا اور اس وقت شروع ہوا جب ابتسام نے U-19ڈسٹرک میں ٹاپ کیا پھر ابتسام شیخ کو اس کی اعلیٰ پر فارمنس کی بدولت نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی طرف سے دیجنل کرکٹ کھیلنے کی آفر ہوئی یہ ابتسام شیخ کے کیر ئیر کیلئے ترننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔ کیونکہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں پاکستانی انٹرنیشنل کہ کٹرز کے ساتھ نیٹ پر یلکٹس کرنے کا موقع ملابس سے ان کے موراں میں بے انہتا اضافہ ہوا۔ 
ابتسام شیخ اوور ایج ہونے کی وجہ سے U-19ورلڈ کپ نہ کھیل سکے بد قسمتی سے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ابتسام شیخ نے فیصل آباد کی طرف سے اپنے فرسٹ کلاس میچ کاڈ یو کیا ور اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بدولت سلیکٹر ز کی نظروں میں آگئے ۔ اسی لیے ابتسام شیخ کو پی ایس ایل تھری میں پشاور زلمی کیلئے امر جنگ پلیئرنگ میں شامل کرلیا گیا ۔ واضح رہے کہ ابتسام شیخ دوسرے حیدرآباد کے کھلاڑی ہیں ۔
جوپی ایس ایل میں شامل ہوئے ۔ان سے پہلے شرجیل خان کویہ اعزاز حاصل ہو چکا ہے ۔
ابتسام شیخ کی حسن کارکردگی کا سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ پی ایس ایل میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوا چکے ہیں اور اگر اسی طرح اپنی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا تو اس بات کے قوی امکان ہیں کہ ابتسام شیخ کو جدل ہی پاکستان کی نمائندہ کرنے کا اعزاز حاصل ہوجائے۔

Muhammad Taha Profile BS


نام: محمّد طحہ رول نمبر:(2k16/MC/65) (BS part 3) 

نام: فیصل اطہر 
میجر ٹیم: پاکستان 
بتٹنگ سٹائل: سیدھا ہاتھ
بولنگ سٹائل: دائیں بازو 
عمر: 42 

فیصل اطہر بہترین جدید کرکٹر ہے.فیصل اطہرایک بہادر سٹروک پلیئر ہے وہ بال کو بری ہٹ لگا سکتے ہے، اپنے بازو سے تیز رفتار بولنگ کرا سکتے ہے اور فیصل اطہر میدان میں ایک پرجوس پلیئر کی حیثیت رکتا ہے. یہ پاکستان کی صلاحیتوں کا ایک مجموعہ ہے جو طویل عرصے سے امران خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملا ہے. عظیم غمن نے انہیں کچھ دیر کی امید دی لیکن اس کے بعد اپنے موجودگی کو کھو دیا اور جلد ہی کرکٹ فیلڈ سے غائب ہوگیا. پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ فیصل اپنے اس کھیل کو اور بہتر کرے اور ملک بھر میں تیز رفتار آل راؤنڈ بولنگ کی حیثیت سے پہچانا جائے.فیصل اطہر لاہور میں 15 اکتوبر 1975 میں پیدا ہوے. ابتدائی تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کے. اور اپنی کرکٹ کا آغاز دھرم پورہ کرکٹ کلب سے کیا جہاں پر فیصل اطہر نے 2 سے 3 سال تک کرکٹ کھیلی اور پھر فیصل اطہر حیدرآباد منتکل ہو گئے. حیدرآباد منتکل ہونے کے بعد فیصل اطہر نے غوری کرکٹ کلب سے اپنی کرکٹ کا دوبارہ سے آغاز کیا اور پھر اس کے بعد فرسٹ کلاس میچز میں شاندار کارکردگی کرنے پر چیف سلیکٹر امر سوہیل نے فیصل اطہر کو پاکستان کے لئے سلیکٹ کیا اور نوزیلنڈ کے خلاف سیریز کھیلنے کے لیے روانہ کر دیا اس وقت پاکستان ٹیم میں شعیب اختر' اور رشید لطیف جیسے لیجنڈ پلیئر شامل تھے پہلے دو میچز میں تو فیصل اطہر کو موقع نہیں ملا مگر تری نیشنل سیریز کے فائنل میچ میں فیصل اطہر کو موقع ملا مگر بدقسمتی سے وہ میچ پاکستان کے حق میں نہیں رہا.نوزیلنڈ کا دورہ کرنے کے بعد فیصل اطہر نے انگلینڈ کا دورہ کیا انگلینڈ کے دورے میں انجری کے سبب فیصل اطہر کو پاکستان واپس روانہ ہونا پڑھا.اس کے بعد فیصل نے پاکستان A کے ساتھ ساؤتھ افریقہ کا دورہ کیا.فیصل اطہر نی کافی فارن لیگز بھی کھیل چکے ہی اور انگلینڈ کے کافی کاؤنٹی کے ساتھ بھی منسلک رہے ہی جیسے کے یارکشائر کاؤنٹی کلب 'دربیسھرے کاؤنٹی کلب 'اور لیورپول کاؤنٹی کرکٹ کلب.حالیہ زندگی مے فیصل اطہر نیاز اسٹیڈیم میں کوچنگ کو مینیج کر رہے ہیں.اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کے اسسنگنمنٹ میں کام کر رہے ہیں.فیصل اطہر پاکستان وومن کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی کوچنگ کے فرائیس بھی سرانجام دی چکے ہیں.اور کراچی کنگ ٹیم کے سلیکشن ٹیم کا بھی حصّہ بن چکے ہیں.اور سندھ یونیورسٹی میں ہونے والی کرکٹ ٹرائل کی ذومیداری بھی فیصل اطہر نے لی تھی.فیصل اطہر کے نکتہ نظر میں حیدرآباد میں سپورٹ کا رجحان کم ہو گیا ہیں کرپشن نے سپورٹس اکیڈمیز کا بدترین حال کر دیا ہیں لکن اسکے باوجود حیدرباد کے نوجوان اپنی محنت اور لگن سے اپنا لوہا منوا ہی لیتے ہیں..

Usama Profile BS


محمد اسامہ
2k16/MC/68

نظام بیڑی والا (ایک بہادر انسان)

اُننیس سو سینتالیس (1947) پاک و ہند آزادی کے بعد برصغیر کی دو بڑی قومیں مسلمان اور ہندوؤں نے اپنے دفاعِ وطن کی جانب ہجرت کی_ اس ہجرت کے دوران ایک دس سالہ کمسن نظام الدین بھی مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل تھا۔
غریبِ زمانہ، دکھوں کے مارے، غموں سے چُور نظام الدین دس سالہ کمسن،اپنے خاندان کے اکلوتے چراغ، تمام ذمہ داریاں کاندھے پر اٹھائے چلے آرہے تھے۔ نظام الدین اُننیس سو اڑتیس (1938) میں برصغیر کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔تین سال کی عمر کے دوران ہی آپ کے والد انتقال کرگئے۔ اُننیس سو پینتالیس (1945) کے بعد برصغیر کے حالات بگڑنے لگے اور قیام پاکستان کے بعد آپ نے اپنی والدہ، ماموں زاد اور چچا زاد بہنوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی_ یہ خاندان تیرہ افراد پر مشتمل تھا جو کہ صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے علاقے عثمان آباد میں آکر رہائش پذیر ہوا۔ تیرہ افراد پر مشتمل یہ خاندان جس کا بیڑا اٹھانا نظام الدین کے لئے انتہائی مشکل اور کٹھن تھا_ زندگی کے ان نازک لمحات میں بھی وہ امید کا دامن تھامے رہے اور لکڑی کی ٹال کے ذریعے چھوٹے موٹے کام کا آغاز کیا۔

سر پر باپ کا سایہ تھا نہ کوئی پرسانِ حال جو کہ نظام الدین کی مشکلوں کو آسان کرتا۔زمانے کی گردشوں کے بھنور میں پھنسے نظام الدین ایک مضبوط چٹان بن کر مشکلوں کا سامنا کرتے رہے اور بہت ہی دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ لکڑیوں کا کام چھوڑ کر چھالیہ کا کام شروع کیا جس سے ان کے حالات میں مزید بہتری آئی۔اُننیس سو چھیئتر (1976) میں آپ کی شادی ایک افغانی خاندان کی حسین و جمیل لڑکی بشیرًا سے ہوئی۔ جن سے آپ کے گیارہ بچے ہوئے۔ جس میں چار لڑکیاں اور سات لڑکے شامل ہیں۔

ابتداء میں پہلا لڑکا ہونے کے بعد نظام الدین کے گھر بڑی ڈکیتی ہوئی۔ جس میں زیبِ تن کپڑوں کے علاوہ سب لٹ چکا تھا۔ مختلف زیور، قیمتی اشیاء, گھر کا ساز و سامان تمام چیزیں چوری کرلی گئیں تھیں۔اس وقت پہلی بار نظام الدین کی آنکھیں اشک بار ہوئیں لیکن یہاں ان کی ہمت کو جتنا سراہا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اس ناخوشگوار واقعے سے انھیں گزشتہ وہ زمانہ یاد آیا جب وہ بے سرو سامان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔بہر حال، انھوں نے دو سو روپے مزدوری کے عوض ایک بیڑی کے کارخانے میں نوکری کی۔گھر آ کر اپنے طور پر بھی بیڑی بناتے اور بازار میں بیچا کرتے۔ اس کام میں قدرت نے انھیں ایک بار پھر سے وسعت بخشی اور کاروبار وسیع در وسیع ہوتا چلا گیا۔ وہ جگہ جہاں وہ رہائش پذیر تھے ان کے نام سے منسوب کردی گئی۔ اننیس سو بانوے (1992) میں اپنے ایک دوست کی مدد کرنے کیلئے اس کا تمباکو اپنے گودام میں اتروایا لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کی یہ مال اسمگلنگ ہو کر آیا ہے_ لیکن کہتے ہیں کہ آئی مصیبت کو کون ٹال سکتا ہے ۔ یوں ہوا کہ کسی نے خاموشی سے مخبری کردی اور پولیس نے کارخانہ سیل کر کہ ان کے خلاف مقدمہ کر ڈالا۔ اس طرح نظام الدین ایک عرصہ تک نظربند رہے۔ان کے دوست نے وہ مقدمہ لڑا اور جیسے تیسے کر کہ معاملہ نمٹایا۔

بیڑی کے اس کاروبار کے تحت نظام الدین نے اتنی شہرت حاصل کی کہ دور دور تک ان کا نام اور کاروبار پھیلتا چلا گیا۔ شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں میں ان کے کاروبار نے قدم جمالیے اور یہ شخص نظام الدین جو کہ بے سرو سامان تھا، جس کا نہ باپ تھا اور نہ ہی کوئی مسیحا، اپنی محنت، لگن اور جذبہ کے بلبوتے پر اتنا مشہور ہوا کہ ''نظام بیڑی والا'' کے نام سے پہچانے جانے لگا۔

عدل و انصاف کے پیکر، نیک سوچ، منفرد خیال کے مالک، رحم دلی کے جذبے سے سرشار نظام بیڑی والے سب کو اپنے برابر سمجھتے تھے۔ الغرض اپنی ذات سے نہ ہی کسی کو نقصان پہنچایا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اس کے بیٹے بڑے نا فرمانبردار نکل۔ تمام جائیداد کو تقسیم کر کہ بیچ ڈالا اور اس طرح نظام الدین کا عروج پھر سے زوالی کا شکار ہوا۔ بیٹوں کے چھوڑ جانے کے باوجود اس بہادر انسان نے اپنی شکست کو تسلیم نہ کیا_ اناسی (79) سال کا یہ بوڑھا اب اپنی زوجہ کے ہمراہ ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی گزار رہا ہے اور آج بھی زندگی کو بنا کسی سہارے کے محنت اور لگن کے ساتھ گزارنے کے لئے پر عزم ہے۔

Wednesday, 11 April 2018

Rabeya Mughal Interview BS

انٹرویو۔ربیعہ مغل
بی۔ایس۔پارٹ۔۳
رول نمبر ۔۸۲

ٹیچر۔سَر سہیل سانگی
ہمیں اپنے اِرد گِرد کے ماحول کو بھی گھر سمجھنا ہوگا ...ڈاکٹر امان ا ﷲ مہر سے انٹرویو!


ڈاکٹر امان ا ﷲ مہر جامعہ سندھ کے شعبے سینٹر فار انوائیرومینٹل سائنس میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں.ان کا تعلق صوبہء سندھ کے شہر سکھر سے ہے.انہوں نے ۲۰۰۷ میں اپنی ایم۔فل کی ڈگری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی۔اور پھرچائینہ سے انوائیرومینٹل سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کی۔ 

روشنی:آپ کے حساب سے انوائیرومینٹل اسٹڈیز کا اسکوپ کیا ہے؟
امان اﷲمہر: اسکوپ دیکھیں دو طرح کے ہیں.ایک ہے جابز میں اور دوسرا ہے ریسرچ میں۔سرکاری اور نجی دونوں سیکٹر ز میں اس کا اسکوپ ابھرتا ہوا ہے.خصوصاً ڈیولپمنٹ سیکٹر میں جو این۔جی۔اوز ماحول کے تحفظ کے حوالے سے کا م کررہی ہیں .ان میں وہ طلباء جو تعلیم مکمل کرچکے ہیں باآسانی ملازمت حاصل کرتے ہیں ۔گورنمنٹ کے زیرِنگرانی جو ماحول کے تحفظ کی ایجنسیز کا م کررہی ہیں وہاں بھی اس شعبے کے طلباء کے لیے کافی مواقع ہیں .جبکہ یونیورسٹیز بھی اب پاس آؤٹ ہونے والے طلباء کو اس فیلڈ میں جگہ دے رہی ہیں۔

روشنی: ہمارے قدرتی ماحول میں خرابی کی کیا وجوہات ہیں؟
امان اﷲمہر: اِس کی بہت سی وجاہات ہیں.سب سے پہلے تو ہماری آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے اثرات ہمارے قدرتی وسائل پر پڑ رہے ہیں! اب دیکھیں تو پانی تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہم پانی کو بیدریغ استعمال کررہے ہیں .جبکہ اسے محفوظ کرنے کے طریقوں سے مکمل عاری ہیں.ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں ۲۰۴۵ تک پانی کی قلت انتہائی زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہریالی کو ختم کرتے جا رہے ہیں .جنگلات کو کاٹ کر وہاں سڑکیں اور گھر تعمیر کرتے چلے جارہے ہیں.اس لیے ہمیں دیرپا پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول میں بگاڑ پر قابو پایا جاسکے۔

روشنی: آپ کیا سمجھتے ہیں ہمیں ماحول کے دیرپا اور پائیدار تحفظ کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
امان اﷲمہر: اصل میں ہمارے معاشرے میں ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے آگاہی بہت کم ہے.آپ کسی کو کہیں کہ کچرا ڈسٹبن میں ڈالیں تو وہ کہے گا کہ یہا ں پہلے سے تھا کچرا میں نے ڈال دیا تو کیا ہوگیا؟ اس لیے سب سے پہلے تو ہمیں اپنے اِرد گِرد کے ماحول کوبھی گھر سمجھنا ہوگا ۔اس کے بعد سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ یا پائیدارترقی کو حاصل کرنا آسان ہوجائے گا۔ ماحول کی دیرپا ترقی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی،اچھا اور آلودگی سے پاک ٹرانسپورٹ سسٹم ملے ،شہروں کی صحیح پلانگ ہو ،ہم اپنی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مینیج کریں اور دوسری بات یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائیں .ایک اور اہم بات کہ جو ہمارا سلیبس ہے خصوصاً چھوٹی کلاسس کے نصاب میں انوائیرومینٹل سائنس کا سبجیکٹ متعارف کرواناہوگا.اس سے جوہماری آنے والی نسل ہے وہ ماحول کے مسائل اور اس کے تحفظ کو آسانی سے جان سکے گی۔

روشنی: کیا ماحولیاتی پستی کے اثرات ہمارے ملک کی اکانامی پر بھی ہوتے ہیں؟
امان اﷲمہر: جی بلکل،اس کے اثرات ہماری اکانامی پر ہوتے ہیں ۔جیسے پانی کے وسائل کو ہم آلودہ کررہے ہیں .جس سے ہمارا فشریز سیکٹر تباہ ہورہا ہے.یہی آلادہ پانی ہم صنعتوں کو دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کی پیداوار کم ہورہی ہے۔اس کے علاوہ ہم اپنے سولڈ ویسٹ کو مینج نہیں کرپارہے.نہ ہی اسے کام میں لارہے ہیں .اب چائنہ کو ہی دیکھ لیں وہ سولڈ ویسٹ سے بجلی بنارہا ہے اور دوسرے ممالک سے بھی کچرا اٹھا کر اپنی اکانامی کو اور بھی بہتر کررہا ہے۔

روشنی:آپ کی نظر میں پاکستان میں ماحول کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟اورکیا آپ اِن سے مطمئن ہیں؟
امان اﷲمہر: دیکھیں ، گلوبل وارمنگ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس کے اثرات دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں .حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں نیشنل کلائیمیٹ چینج پالیسی بنائی ہے .اس پالیسی کے زریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات جو صنعت ،پانی اور جنگلات پر پڑ رہے ہیں .حکومت اِن سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے۔اس سارے پروگرام میں حکومت شجر کاری کے زریعے گرین پاکستان مہم کو فروغ دے رہی ہے جبکہ بلین ٹری طرز کے منصوبے بھی بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت کا فوریسٹ ڈپارٹمنٹ بھی جنگلات کے تحفظ خصوصاً ساحلی علاقوں میں درختوں کی حفاظت کے لیے کا م کررہا ہے۔
اب دیکھیں تو چیلنجز بہت سارے ہیں .حال ہی میں آپ نے سُنا ہوگا کہ گندے پانی پر جوڈیشل کمیشن بنا ہے یہ ایک بڑی ڈیولپمنٹ ہے ہمارے ماحول کی بہتری کے لیے۔اس سے ہم امید کرسکتے ہیں کہ ہماری حکومتیں بھی اپنا سنجیدہ کردار ادا کریں گی۔

روشنی: انوائیرومینٹل ریفیوجیز کون ہوتے ہیں ؟
امان اﷲمہر: یہ وہ لوگ ہیں جوماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔جن جگہوں پر خشک سالی بڑھ رہی ہے یا بارشیں نہیں ہورہی تو وہاں کے باشندے اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں.یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں.اِن کو ہم آئی۔ڈی۔پیز بھی کہہ سکتے ہیں۔اب اگر آپ سندھ کے ساحلی علاقے جیسے کیتی بندر یا ٹھٹھہ کا دورہ کریں گے تومعلوم ہوگا کہ جو لوگ وہاں رہتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنے علاقے چھوڑ رہے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ وہاں اب انڈس دریا کا پانی نہیں پہنچ رہا۔جس سے لوگوں کی صنعتی زمینیں تباہ ہوررہی ہیں۔اسی طرح منچھر جھیل کا پانی آلودہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں مر چکی ہیں .اب س جھیل سے وابستہ جو لوگ تھے وہ وہاں سے ہجرت کرررہے ہیں کیونکہ ان کے کاروبار کا مہور مچھلیاں ہی تھیں۔بہر حال ،ہمارے ہاں ماحول سے متاثرہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں .اور ان کے مسائل ہم تب ہی حل کرسکیں گے جب ہم انہیں متاثر سمجھیں گے۔ 

روشنی: آپ نے اپنے شعبے میں کتنا کام کیا؟ اور کوئی کتاب بھی لکھی؟
امان اﷲمہر: ہاں،میں نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی جو ریسرچ ہے اس میں کام کیا ہے۔ریمیڈیئیشن آف کونٹومینیٹڈ سوائل مطلب آلودہ زمین کو صاف کرنے کے لیے کچھ تجربات کیے جوکامیاب رہے.اِس میں سے میں نے ۱۸ ریسرچ پیپرز پبلش کیے.جن میں سے چار ریویو پیپرز ہیں باقی ۱۴ ریسرچ پیپرزہیں،یہ سب آن لائن ہیں .آپ ان کو اسٹڈی کرسکتے ہیں۔ان جرنلز میں سے میں نے دو بُک چیپٹرز بھی لکھے ہیں .کیونکہ آج وہ دور ہے کہ ایک سائنٹسٹ پوری کتاب نہیں لکھتا بلکہ مختلف چیپٹر لکھتا ہے۔

روشنی: آپ کے حساب سے میڈیا کیسے ماحول کی آگاہی دے سکتا ہے؟
امان اﷲمہر: آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو میڈیا ہر چیز آسانی سے کرسکتا ہے.ماحول کے تحفظ کے لیے انوائیرومینٹل جرنلزم ایک انتہائی زبردست فیلڈ ہے.اس کا اسکوپ کافی اچھا اور وسیع ہے.اگرچہ لوگ اس سے ابھی اتنے واقف نہیں ہیں۔آپ بطور صحافی اس شعبے کو اپنا کر عام لوگوں میں ماحول کے تحفظ کے حوالے سے آگاہی پھیلا سکتے ہیں۔