Sunday, 22 April 2018

Unaiza Profile BS


انجینئیر عبدل کریم قریشی
نام:عنیزہ زاہد
جماعت:BS PART 3
رول نمبر 2K16\MC\112:
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں شروع دن سے ہی ایک بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنے گا اور کس طرح اپنے ملک کے لیئے خدمات سر انجام دے گا اور تب ہی سے وہ معصوم ذہن اپنی ایک خواہش لیئے بڑا ہوتا ہے کوئی ڈاکٹر تو کوئی انجینیئر کوئی فوجی تو کوئی پائلٹ بننے کے خواب کو پورا کر نے کے عمل میں جُٹ جاتا ہے لیکن شاید اب یہ سوال تبدیل ہو کر کچھ یوں بن گیا ہے کہ کیا آپ مستقبل میں اس خواب کو پورا کرنے کی سقط رکھ سکیں گے؟ یعنی وہ سا رے خواب جو آپ نے دیکھے ہیں اُنھیں پورا کرنے کی قیمت جسے ہم عام طور پر رشوت کہتے ہیں ،ادا کر سکیں گے؟
کچھ ان ہی سوالات کی جیتی جاگتی مثال، سہون شریف سے تعلق رکھنے والے کریم نامی شخص ہیں جنہوں نے بچپن سے انجینئیر بننے کا خواب دیکھا. اپنی ابتدائی تعلیم آرمی پبلک سکول سے حاصل کرنے کے بعد میرٹ کی بنیاد پر مہران یونیورسٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ پیٹرولیم اینڈ گیس میں داخلہ لیا اور بہترین نمبروں کے ساتھ ڈگری کے حقدار بنے.
ڈگری ملنے سے قبل خاندان میں اُنھیں سب اِنجینئیر کریم کے نام سے پہچاننے لگے.جس سے اُنھیں مسلسل حوصلہ افزائی ملتی رہی.
کریم قریشی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو بچپن ہی سے اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ سمجھتے تھے کہ ا نکی خداداد صلاحیتیں ملکی مفاد کے لیئے کارآمد ثابت ہونگی مگر افسوس انکی ذہنی قابلیت کی قدر کسی نے یہ کی.
عام لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے گھر کی ذمہ داری کو بہت اچھے سے جانتے ہیں اور اُنھیں پورا کرنے کا عزم رکھتے ہیں. ابتداء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُنھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا .نوکری کی خاطر در در کی خاک چھاننی پڑی .وہ اپنے اس خاندانی لقب کو بنائے رکھنا چاہتے تھے مگر شایدوہ یہ بات بھول چکے تھے کہ یہاں نوکریاں صرف یا تو قسمت والے کو ملتی ہیں یا پھر پیسے والے کو ، یہاں ڈگریوں کی نہیں نوٹ کی قدر کی جاتی ہے.
اپنے ملک میں نوکری کی تلاش سے بیزارآکر آخرکار بیرونِ ملک کی طرف رُخ کرنے پر مجبور ہو گئے امریکہ جا کر دو سال خدمت سر انجام دینے کے بعد اپنے ملک کی یاد ستانے پراُلٹے پاؤں واپس چلے آئے انھیں اس بات کا شدّت سے احساس تھا کہ وہ ایک غیر ملکی نوکری کر کے اپنے وطن کے حقوق کو فراموش کر رہے ہیں .وطن واپسی پر اپنے مطلوبہ شعبہ میں نوکری نہ ملنے پرمجبورٍچائے خانے کا کاروبار شروع کیا.حیدرآباد، لطیف آباد نمبر ۶ میں ’چائے ہوجائے‘کے نام سے چھوٹے پیمانے پر چائے خانہ متعارف کروایاجووقت گزنے کے ساتھ ساتھ شہرت کی بلندیوں کو چھوتا چلا گیا.کریم اس بات سے بلکل انجان تھے کہ انکا یہ کاروبار دن دُگنی اور رات چگنی ترقی کریگا.
جہاں وہ اپنی زندگی سے بلکل مایوس ہوچکے تھے وہیں شاید قسمت نے ان کے لیئے کچھ اور ہی سوچ رکھاتھا.ضروری نہیں کہ جس چیز کی تمنّا کی جائے وہ آپ کے لئیے اچھی ثابت ہو .
کریم اب اپنے اس شعبہ سے کا فی مطمئین نظر آتے ہیں. انجینئیر کے لقب کے ساتھ ساتھ اب اُنھیں ’چائے والے‘کے نام سے بھی پکارا جانے لگا ہے .اُن کا کہنا ہے کہ یہ شہرت وہ شاید انجینئیر ہو کر بھی نہیں پا سکتے تھے جتنا نام اُنھوں نے اپنے اس کاروبار سے کمایا ہے. 

No comments:

Post a Comment