نام:ربیعہ واحد
رول نمبر:۲کے۶۱۔ایم سی۔۰۴۱
کلاس:بی ایس (پارٹ ۳)
پروفائل فیچر : فریدہ آفتاب
رنگ آمیزی بھی اقبال کے خیا لات بول گئی۔۔
خدا تعالی کا ہر بندا دنیامیں خاص اہمیت اور وجود رکھتا ہے اﷲنے ہر انسان کو کسی نہ کسی صلاحیتوں سے نوازہ ہوا ہے ۔قدرت کی ہر شے میں کوئی نہ کوئی جز اورخو بی موجود ہے بس دیکھا جائے تو کسی کاہنر خاص ہے تو کسی کا عام ،کوئی مسیحہ ہے تو کوئی لیکھاری ہے، کوئی سازوآواز رکھتا ہے، تو کسی کو رنگ آمیز بنا دیاگیا اگر ہم وجود انساں پر غور کریں تو ہم سب اپنی اپنی زندگیو ں میں ایک ر نگ آمیزہی تو ہیں اﷲنے ہر انسان کے ہاتھ میں رنگ کا ایک برش تھمادیا ہے جس سے وہ اپنی اپنی زندگی کو جیسے چاہے جس رنگ میں چاہے رنگ دے ایسا ہی ایک روشن ستارہ جو زمین سے فلک تک آپہنچا بچپن سے کاغذ کے پنوں پر رنگ بکھیرتے بکھیرتے آج اپنی زندگی کو رنگین کرگیا۔فریدہ آفتا ب ایک ایسا نام جو حیدرآباد کے نامور اور بہترین مصور طلبہ کے طورپر( ۱۹۷۸) میں جانا اور پہچانا جاتا تھافر یدہ آفتاب (۱۹۶۰) ضلح حیدرآبادمیں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں۔دیکھنے میں آپ ایک عام ،سادہ لوح اور معمولی شکل و صورت کی مالک تھیں۔لیکن آپ میں آرٹ اور مصوری کی خداداد صلاحیتوں کا ایک وسیع خزانہ چھپا ہوا تھا ۔فریدہ آفتاب نے ایک معمولی گورنمنٹ اسکول سے اپنی بنیا دی تعلیم مکمل کی آپ کو اپنے مصوری کے ہنر کا اندازہ آٹھویں جماعت میں ہوا جب آپ نے ایلیمنٹری اسکولز ڈرائینگ کومپٹیشن میں حصہ لیا اور پورے حیدرآباد میں تیسری پوزیشن حاصل کی وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی اس فنی لگن میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہی نہیں بلکے آپ ہمیشہ کھیلوں میں بھی نمایا رہیں (۱۹۷۵)میں ہونے والے انٹر اسکولز ٹورنمنٹ میں ۴۰۰میٹر ریلے ریس میں حصہ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی۔آپ نے کبھی غربت کو اپنے ہنر کے آڑے نہ آنے دیا (۱۹۷۷)یہ آپکی زندگی کا وہ سال تھا جس نے آپ کو لوگوں میں متعارف کروایاعلامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت کے موقعے پر ایک مصوری کا مقابلہ رکھا گیا جس میں اشعارپر منظر کشی کرنی تھی اس مقابلے میں آپ نے حصہ لے کرہزاروں طلبہ اور طلبات میں سے پورے سندھ میں پہلی پوزیشن اپنے نام کی یہ وہ جیت تھی جس نے ترقی کے روشن دروازے آپ کے لیے کھول دیے۔ بچپن سے آپ پڑھائی لیکھائی کی بھی بہت شوقین تھیںآپ ہمیشہ ایک عظیم ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن و قت اورحالات نے یہ موقع نہ دیا اس لیے آپ نے (بی اے) کا پرائیوٹ امتحان پاس کر کے ایک معمولی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔وہاںآپ نے اپنے آڑٹ کے فن کے ساتھ دو سال بطوراستاد کے فرائض سر انجام دیے۔کہتے ہیں حوصلے بلند ہوں تو منزل آسان ہوتی ہے حالات کی سخت مار نے بھی آپ کے حوصلوں کو کبھی ٹوٹنے نہ دیاآپ نے اپنی سخت محنت اور لگن سے اپنے آڑٹ کے اس پیشن کو پروفیشن بنا لیا۔ڈائریکٹر سندھ میوزیم ظفرقاضمی کے زیر نگرانی آپ نے اپنے اس ہنر کو مزید چار چاند لگادے۔اس کے بعد (۱۹۸۸)مشہور و معارف اسکول بیکن ہاوس میں ملازمت شروع کردی وہاں بچوں کو آڑٹ کے نت نئے طریقوں سے اشنا کیاجس پر آپ کو بیسٹ ٹیچر کے ایواڈ سے نوزا گیا۔ملازمت کے ساتھ ساتھ آپ نے کئی آرٹ کورسس کیے جن میں سرفہرست بریڈ فورڈیونیورسٹی (یو کے)سے بریڈفورڈکورس،اور آڑٹ فانڈیشن کورس شامل ہیں۔آپ نے اپنے مشکل سے مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کبھی ہار نا مانی ایسی لگن اور جستجو نے آپ کا نام آج لوگوں میں مقبول کیا۔آپ آج بھی معلمہ کی حثیت سے بیکن ہاوس اسکول میں اپنے فرائض بخوبی سے سر انجام دے رہی ہیں۔رواں سال آپ کو کارکردگی پر پچیس سالہ سرویس ایواڈ سے نوازہ گیا ۔خدا نے آڑٹ کے فن کے ساتھ ساتھ آپ کو خبصورت آواز بھی بخشی ہے جس سے آپ آج کل نعت خوانی کرتیں بھی ہیں اور بچوں کو سیکھاتیں بھی ہیں۔ ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
رول نمبر:۲کے۶۱۔ایم سی۔۰۴۱
کلاس:بی ایس (پارٹ ۳)
پروفائل فیچر : فریدہ آفتاب
رنگ آمیزی بھی اقبال کے خیا لات بول گئی۔۔
خدا تعالی کا ہر بندا دنیامیں خاص اہمیت اور وجود رکھتا ہے اﷲنے ہر انسان کو کسی نہ کسی صلاحیتوں سے نوازہ ہوا ہے ۔قدرت کی ہر شے میں کوئی نہ کوئی جز اورخو بی موجود ہے بس دیکھا جائے تو کسی کاہنر خاص ہے تو کسی کا عام ،کوئی مسیحہ ہے تو کوئی لیکھاری ہے، کوئی سازوآواز رکھتا ہے، تو کسی کو رنگ آمیز بنا دیاگیا اگر ہم وجود انساں پر غور کریں تو ہم سب اپنی اپنی زندگیو ں میں ایک ر نگ آمیزہی تو ہیں اﷲنے ہر انسان کے ہاتھ میں رنگ کا ایک برش تھمادیا ہے جس سے وہ اپنی اپنی زندگی کو جیسے چاہے جس رنگ میں چاہے رنگ دے ایسا ہی ایک روشن ستارہ جو زمین سے فلک تک آپہنچا بچپن سے کاغذ کے پنوں پر رنگ بکھیرتے بکھیرتے آج اپنی زندگی کو رنگین کرگیا۔فریدہ آفتا ب ایک ایسا نام جو حیدرآباد کے نامور اور بہترین مصور طلبہ کے طورپر( ۱۹۷۸) میں جانا اور پہچانا جاتا تھافر یدہ آفتاب (۱۹۶۰) ضلح حیدرآبادمیں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں۔دیکھنے میں آپ ایک عام ،سادہ لوح اور معمولی شکل و صورت کی مالک تھیں۔لیکن آپ میں آرٹ اور مصوری کی خداداد صلاحیتوں کا ایک وسیع خزانہ چھپا ہوا تھا ۔فریدہ آفتاب نے ایک معمولی گورنمنٹ اسکول سے اپنی بنیا دی تعلیم مکمل کی آپ کو اپنے مصوری کے ہنر کا اندازہ آٹھویں جماعت میں ہوا جب آپ نے ایلیمنٹری اسکولز ڈرائینگ کومپٹیشن میں حصہ لیا اور پورے حیدرآباد میں تیسری پوزیشن حاصل کی وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی اس فنی لگن میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہی نہیں بلکے آپ ہمیشہ کھیلوں میں بھی نمایا رہیں (۱۹۷۵)میں ہونے والے انٹر اسکولز ٹورنمنٹ میں ۴۰۰میٹر ریلے ریس میں حصہ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی۔آپ نے کبھی غربت کو اپنے ہنر کے آڑے نہ آنے دیا (۱۹۷۷)یہ آپکی زندگی کا وہ سال تھا جس نے آپ کو لوگوں میں متعارف کروایاعلامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت کے موقعے پر ایک مصوری کا مقابلہ رکھا گیا جس میں اشعارپر منظر کشی کرنی تھی اس مقابلے میں آپ نے حصہ لے کرہزاروں طلبہ اور طلبات میں سے پورے سندھ میں پہلی پوزیشن اپنے نام کی یہ وہ جیت تھی جس نے ترقی کے روشن دروازے آپ کے لیے کھول دیے۔ بچپن سے آپ پڑھائی لیکھائی کی بھی بہت شوقین تھیںآپ ہمیشہ ایک عظیم ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن و قت اورحالات نے یہ موقع نہ دیا اس لیے آپ نے (بی اے) کا پرائیوٹ امتحان پاس کر کے ایک معمولی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔وہاںآپ نے اپنے آڑٹ کے فن کے ساتھ دو سال بطوراستاد کے فرائض سر انجام دیے۔کہتے ہیں حوصلے بلند ہوں تو منزل آسان ہوتی ہے حالات کی سخت مار نے بھی آپ کے حوصلوں کو کبھی ٹوٹنے نہ دیاآپ نے اپنی سخت محنت اور لگن سے اپنے آڑٹ کے اس پیشن کو پروفیشن بنا لیا۔ڈائریکٹر سندھ میوزیم ظفرقاضمی کے زیر نگرانی آپ نے اپنے اس ہنر کو مزید چار چاند لگادے۔اس کے بعد (۱۹۸۸)مشہور و معارف اسکول بیکن ہاوس میں ملازمت شروع کردی وہاں بچوں کو آڑٹ کے نت نئے طریقوں سے اشنا کیاجس پر آپ کو بیسٹ ٹیچر کے ایواڈ سے نوزا گیا۔ملازمت کے ساتھ ساتھ آپ نے کئی آرٹ کورسس کیے جن میں سرفہرست بریڈ فورڈیونیورسٹی (یو کے)سے بریڈفورڈکورس،اور آڑٹ فانڈیشن کورس شامل ہیں۔آپ نے اپنے مشکل سے مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کبھی ہار نا مانی ایسی لگن اور جستجو نے آپ کا نام آج لوگوں میں مقبول کیا۔آپ آج بھی معلمہ کی حثیت سے بیکن ہاوس اسکول میں اپنے فرائض بخوبی سے سر انجام دے رہی ہیں۔رواں سال آپ کو کارکردگی پر پچیس سالہ سرویس ایواڈ سے نوازہ گیا ۔خدا نے آڑٹ کے فن کے ساتھ ساتھ آپ کو خبصورت آواز بھی بخشی ہے جس سے آپ آج کل نعت خوانی کرتیں بھی ہیں اور بچوں کو سیکھاتیں بھی ہیں۔ ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
No comments:
Post a Comment