Saturday, 14 April 2018

Usama Profile BS


محمد اسامہ
2k16/MC/68

نظام بیڑی والا (ایک بہادر انسان)

اُننیس سو سینتالیس (1947) پاک و ہند آزادی کے بعد برصغیر کی دو بڑی قومیں مسلمان اور ہندوؤں نے اپنے دفاعِ وطن کی جانب ہجرت کی_ اس ہجرت کے دوران ایک دس سالہ کمسن نظام الدین بھی مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل تھا۔
غریبِ زمانہ، دکھوں کے مارے، غموں سے چُور نظام الدین دس سالہ کمسن،اپنے خاندان کے اکلوتے چراغ، تمام ذمہ داریاں کاندھے پر اٹھائے چلے آرہے تھے۔ نظام الدین اُننیس سو اڑتیس (1938) میں برصغیر کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔تین سال کی عمر کے دوران ہی آپ کے والد انتقال کرگئے۔ اُننیس سو پینتالیس (1945) کے بعد برصغیر کے حالات بگڑنے لگے اور قیام پاکستان کے بعد آپ نے اپنی والدہ، ماموں زاد اور چچا زاد بہنوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی_ یہ خاندان تیرہ افراد پر مشتمل تھا جو کہ صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے علاقے عثمان آباد میں آکر رہائش پذیر ہوا۔ تیرہ افراد پر مشتمل یہ خاندان جس کا بیڑا اٹھانا نظام الدین کے لئے انتہائی مشکل اور کٹھن تھا_ زندگی کے ان نازک لمحات میں بھی وہ امید کا دامن تھامے رہے اور لکڑی کی ٹال کے ذریعے چھوٹے موٹے کام کا آغاز کیا۔

سر پر باپ کا سایہ تھا نہ کوئی پرسانِ حال جو کہ نظام الدین کی مشکلوں کو آسان کرتا۔زمانے کی گردشوں کے بھنور میں پھنسے نظام الدین ایک مضبوط چٹان بن کر مشکلوں کا سامنا کرتے رہے اور بہت ہی دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ لکڑیوں کا کام چھوڑ کر چھالیہ کا کام شروع کیا جس سے ان کے حالات میں مزید بہتری آئی۔اُننیس سو چھیئتر (1976) میں آپ کی شادی ایک افغانی خاندان کی حسین و جمیل لڑکی بشیرًا سے ہوئی۔ جن سے آپ کے گیارہ بچے ہوئے۔ جس میں چار لڑکیاں اور سات لڑکے شامل ہیں۔

ابتداء میں پہلا لڑکا ہونے کے بعد نظام الدین کے گھر بڑی ڈکیتی ہوئی۔ جس میں زیبِ تن کپڑوں کے علاوہ سب لٹ چکا تھا۔ مختلف زیور، قیمتی اشیاء, گھر کا ساز و سامان تمام چیزیں چوری کرلی گئیں تھیں۔اس وقت پہلی بار نظام الدین کی آنکھیں اشک بار ہوئیں لیکن یہاں ان کی ہمت کو جتنا سراہا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اس ناخوشگوار واقعے سے انھیں گزشتہ وہ زمانہ یاد آیا جب وہ بے سرو سامان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔بہر حال، انھوں نے دو سو روپے مزدوری کے عوض ایک بیڑی کے کارخانے میں نوکری کی۔گھر آ کر اپنے طور پر بھی بیڑی بناتے اور بازار میں بیچا کرتے۔ اس کام میں قدرت نے انھیں ایک بار پھر سے وسعت بخشی اور کاروبار وسیع در وسیع ہوتا چلا گیا۔ وہ جگہ جہاں وہ رہائش پذیر تھے ان کے نام سے منسوب کردی گئی۔ اننیس سو بانوے (1992) میں اپنے ایک دوست کی مدد کرنے کیلئے اس کا تمباکو اپنے گودام میں اتروایا لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کی یہ مال اسمگلنگ ہو کر آیا ہے_ لیکن کہتے ہیں کہ آئی مصیبت کو کون ٹال سکتا ہے ۔ یوں ہوا کہ کسی نے خاموشی سے مخبری کردی اور پولیس نے کارخانہ سیل کر کہ ان کے خلاف مقدمہ کر ڈالا۔ اس طرح نظام الدین ایک عرصہ تک نظربند رہے۔ان کے دوست نے وہ مقدمہ لڑا اور جیسے تیسے کر کہ معاملہ نمٹایا۔

بیڑی کے اس کاروبار کے تحت نظام الدین نے اتنی شہرت حاصل کی کہ دور دور تک ان کا نام اور کاروبار پھیلتا چلا گیا۔ شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں میں ان کے کاروبار نے قدم جمالیے اور یہ شخص نظام الدین جو کہ بے سرو سامان تھا، جس کا نہ باپ تھا اور نہ ہی کوئی مسیحا، اپنی محنت، لگن اور جذبہ کے بلبوتے پر اتنا مشہور ہوا کہ ''نظام بیڑی والا'' کے نام سے پہچانے جانے لگا۔

عدل و انصاف کے پیکر، نیک سوچ، منفرد خیال کے مالک، رحم دلی کے جذبے سے سرشار نظام بیڑی والے سب کو اپنے برابر سمجھتے تھے۔ الغرض اپنی ذات سے نہ ہی کسی کو نقصان پہنچایا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اس کے بیٹے بڑے نا فرمانبردار نکل۔ تمام جائیداد کو تقسیم کر کہ بیچ ڈالا اور اس طرح نظام الدین کا عروج پھر سے زوالی کا شکار ہوا۔ بیٹوں کے چھوڑ جانے کے باوجود اس بہادر انسان نے اپنی شکست کو تسلیم نہ کیا_ اناسی (79) سال کا یہ بوڑھا اب اپنی زوجہ کے ہمراہ ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی گزار رہا ہے اور آج بھی زندگی کو بنا کسی سہارے کے محنت اور لگن کے ساتھ گزارنے کے لئے پر عزم ہے۔

No comments:

Post a Comment