Zaira ansari
BS partlll2k16-121-mc
Assigned by sir sohail sangi
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری :
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری : سندھ کے دوسریبڑے شہر حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہیڈ آفسز گنتی کے موجود ہیں جس میں سندھی پرنٹ میڈیا روزنامہ کاوش ، عبرت ، سندھ ایکسپریس کے ساتھ ساتھ اردو میڈیا سے وابستہ روزنامہ پاسبان ، سفیر ، سرمایہ ، ودیگر ہے ہیڈ آفسز تو ہیں لیکن کام کرنے والوں کو مالکان اجرت ان کی ماہوار 7سے 10 ہزار روپے تک دیتے ہیں اور فوٹوگرافرز اور فیلڈ رپورٹرز کو 4 سے 5 ہزار روپے تک بڑی مشکل سے ملتے ہیں اور نیوز ایڈیٹر ، پروف ایڈیٹر ، اور ایڈیٹر کی تنخواہ صرف سندھی پرنٹ میڈیا کو ہی ملتی ہے اور اردو پرنٹ میڈیا کے دفترز میں ایک ہی افراد تینوں پوسٹوں پر اپنا فرض سرانجام دیتا ہے جس کی تنخواہ 10ہزار روپے سے زائد نہیں ہے اور پرنٹ میڈیا کے مالکان صرف کام کرواتے ہیں ان کو عیدالفطر یا عیدالاضحی یا کسی بھی قسم کے خوشی کے تہواروں میں بونس تک نہیں دیتے ہیں اور کسی بھی ورکرز کی انشورنس یا ویج بورڈ نہیں کرواتے ہیں دوسری طرف بات کی جائے الیکٹرانک میڈیا کے دفتر ہیڈ آفس کی تو وہ حیدرآباد میں ایک ہی ہے جو سندھی نیوز چینل مہران سے موجود ہے جہاں پر تمام اسٹاف کو بھی تنخواہوں کا رونہ روتے ہوئے نظر آتے ہیں کیمرہ مین کی تنخواہ 12سے 15 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے اور فلیڈ رپورٹر کو 7 سے 10 ہزار روپے بڑی مشکل سے دیئے جاتے ہیں مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بیورو دفترز تقریبا 50 کے لگ بھگ موجود ہیں جن کی تنخواہیں تو ملنے کی دور بات آفس تک کرایا ، پیٹرول ، موبائل فون بیلنس اور انٹرنیٹ سروس بھی بڑی مشکل سے نکالتے ہیں کیونکہ مالکان صرف اپنی پروڈکٹ ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس پروڈکٹ کو استعمال جائز یا ناجائز کرنا انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے کچھ بات یہ کی جائے کے وہ فلیڈ رپورٹر یا کیمرہ مین اپنی تنخواہ بلیک میلنگ کے راستے سے نکالتے ہیں باعث نیوز نشر کرنے کے بہانے سے پیسے بٹورتے ہیں اس کے علاوہ ایک حقیقت پسند بات کی جائے تو وہ ایک کڑوی تو ہے لیکن سچ اور حقیقت پر مبنی ہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ %80 پرسن حیدآباد پریس کلب میں ممبر شپ اور عارضی انٹری ہولڈر کے طور پر روزانہ کی بنیاد پر مظاہرین اور پریس کانفرنس کی کوریج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بدقسمتی سے 50 پرسن فیلڈ رپورٹرز کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز ان مظلوم متاثرین افراد کی کوریج کی نشر یا شائع کرنے کے پیسے 200 سو روپے سے 1000 تک وصول کرتے ہیں اور کلب کے اندر پریس کانفرنس کے پیسے چار ہزار روپے وصول کر کے پھر جاری کی جاتی ہے حیدرآباد پریس کلب ایک اسی واحد جگہ ہے جہاں ہر الیکٹرونک میڈیا سے منسلک لوگ موجود ہے کیوں کہ یہ ایک واحد ادارہ ایسا ہے جہاں کسی بھی بڑی شکسیت کی آنے کی معلومات سے لیکر حادثات تک کی معلومات سب سے پہلے حیدرآباد پریس کلب کو ہی وصول ہوتی ہے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کے محکمہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ فیلڈ رپورٹر کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز کو اپنے محکمے میں رجسٹرڈ کرتی ہے اور ان کا فیلڈ ورک کارڈ بھی ہر سال جاری کیاجاتا ہے جس سے پاکستان ریلوے ، پاکستان ایئر لائن جیسی سفری سہولیات 50سے 75 پرسن حاصل کی جاتی اور تو اور وزیر اعظم ،صدر ، وزیر اعلی اور گورنر کے علاوہ وزیر مشیر اور بیورو کریٹ افسران سے باآسانی ملاقات کی جاتی ہے ان چیزوں کے باوجود چند فیلڈ رپورٹرز نے اپنی تنکھا کے لیئے یونین بنا رکھی ہے مگر ان کی بھی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور اس معاملے کو حال کروایا جائے تاکہ نوجوان میڈیا میں آگے آسکے۔
BS partlll2k16-121-mc
Assigned by sir sohail sangi
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری :
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری : سندھ کے دوسریبڑے شہر حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہیڈ آفسز گنتی کے موجود ہیں جس میں سندھی پرنٹ میڈیا روزنامہ کاوش ، عبرت ، سندھ ایکسپریس کے ساتھ ساتھ اردو میڈیا سے وابستہ روزنامہ پاسبان ، سفیر ، سرمایہ ، ودیگر ہے ہیڈ آفسز تو ہیں لیکن کام کرنے والوں کو مالکان اجرت ان کی ماہوار 7سے 10 ہزار روپے تک دیتے ہیں اور فوٹوگرافرز اور فیلڈ رپورٹرز کو 4 سے 5 ہزار روپے تک بڑی مشکل سے ملتے ہیں اور نیوز ایڈیٹر ، پروف ایڈیٹر ، اور ایڈیٹر کی تنخواہ صرف سندھی پرنٹ میڈیا کو ہی ملتی ہے اور اردو پرنٹ میڈیا کے دفترز میں ایک ہی افراد تینوں پوسٹوں پر اپنا فرض سرانجام دیتا ہے جس کی تنخواہ 10ہزار روپے سے زائد نہیں ہے اور پرنٹ میڈیا کے مالکان صرف کام کرواتے ہیں ان کو عیدالفطر یا عیدالاضحی یا کسی بھی قسم کے خوشی کے تہواروں میں بونس تک نہیں دیتے ہیں اور کسی بھی ورکرز کی انشورنس یا ویج بورڈ نہیں کرواتے ہیں دوسری طرف بات کی جائے الیکٹرانک میڈیا کے دفتر ہیڈ آفس کی تو وہ حیدرآباد میں ایک ہی ہے جو سندھی نیوز چینل مہران سے موجود ہے جہاں پر تمام اسٹاف کو بھی تنخواہوں کا رونہ روتے ہوئے نظر آتے ہیں کیمرہ مین کی تنخواہ 12سے 15 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے اور فلیڈ رپورٹر کو 7 سے 10 ہزار روپے بڑی مشکل سے دیئے جاتے ہیں مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بیورو دفترز تقریبا 50 کے لگ بھگ موجود ہیں جن کی تنخواہیں تو ملنے کی دور بات آفس تک کرایا ، پیٹرول ، موبائل فون بیلنس اور انٹرنیٹ سروس بھی بڑی مشکل سے نکالتے ہیں کیونکہ مالکان صرف اپنی پروڈکٹ ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس پروڈکٹ کو استعمال جائز یا ناجائز کرنا انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے کچھ بات یہ کی جائے کے وہ فلیڈ رپورٹر یا کیمرہ مین اپنی تنخواہ بلیک میلنگ کے راستے سے نکالتے ہیں باعث نیوز نشر کرنے کے بہانے سے پیسے بٹورتے ہیں اس کے علاوہ ایک حقیقت پسند بات کی جائے تو وہ ایک کڑوی تو ہے لیکن سچ اور حقیقت پر مبنی ہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ %80 پرسن حیدآباد پریس کلب میں ممبر شپ اور عارضی انٹری ہولڈر کے طور پر روزانہ کی بنیاد پر مظاہرین اور پریس کانفرنس کی کوریج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بدقسمتی سے 50 پرسن فیلڈ رپورٹرز کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز ان مظلوم متاثرین افراد کی کوریج کی نشر یا شائع کرنے کے پیسے 200 سو روپے سے 1000 تک وصول کرتے ہیں اور کلب کے اندر پریس کانفرنس کے پیسے چار ہزار روپے وصول کر کے پھر جاری کی جاتی ہے حیدرآباد پریس کلب ایک اسی واحد جگہ ہے جہاں ہر الیکٹرونک میڈیا سے منسلک لوگ موجود ہے کیوں کہ یہ ایک واحد ادارہ ایسا ہے جہاں کسی بھی بڑی شکسیت کی آنے کی معلومات سے لیکر حادثات تک کی معلومات سب سے پہلے حیدرآباد پریس کلب کو ہی وصول ہوتی ہے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کے محکمہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ فیلڈ رپورٹر کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز کو اپنے محکمے میں رجسٹرڈ کرتی ہے اور ان کا فیلڈ ورک کارڈ بھی ہر سال جاری کیاجاتا ہے جس سے پاکستان ریلوے ، پاکستان ایئر لائن جیسی سفری سہولیات 50سے 75 پرسن حاصل کی جاتی اور تو اور وزیر اعظم ،صدر ، وزیر اعلی اور گورنر کے علاوہ وزیر مشیر اور بیورو کریٹ افسران سے باآسانی ملاقات کی جاتی ہے ان چیزوں کے باوجود چند فیلڈ رپورٹرز نے اپنی تنکھا کے لیئے یونین بنا رکھی ہے مگر ان کی بھی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور اس معاملے کو حال کروایا جائے تاکہ نوجوان میڈیا میں آگے آسکے۔
No comments:
Post a Comment