Wednesday, 11 April 2018

Dheeraj Profile BS


پروفائیل دھیرج کمار بی ایس پارٹ3رول نمبر 2144k16/mc/27
فاروق کرسی والا
انسان کے بلند حوصلے اسے اس کا مقصد پانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں اور جب یہ حوصلے بلند ہو ں تو انسان اپنی منزل تک با آسانی پہنچ جاتا ہے ۔ اور یہ کامیابی کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے ۔ یہی حوصلے فاروق میں بھی کی زندگی سے جڑے ہیں ۔ فاروق معذور ہونے کے ناوجود کبھی مایوس نہیں ہوا ۔ فاروق بظاہر معذور ہے لیکں اس کے حوصلے معذور نہیں ہے ۔ دن بھر اپنی مدد آپ کے تحت ویل چیئر کو سہار ا بنا کر گھر کا سار ا کام سرانجام دیتا ہے فاروق اپنی بوڑھی مان کا ایک ہی سہارا ہےْ ۔ حکومت کی جانب سے معذورون کا5 فیصد کوٹہ ہونے کے باوجود فاروق بدقسمتی سے حکومت کی چشم پوشی کے باعث تاحال بے روزگار ہے ۔ اور اپنے بنیادی حق سے محروم ہے ۔ اپنی بوڑھی مان اور بہنون کی کفالت کے لیے فاروق مختلف جگہوں پر کرسی بناتاہے اور ان پیسوں سے گھر کا چولا جلتاہے ۔ فاروق جو کہ ایک معذور فرد ہے لیکں معاشرے کے لیے بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ فاروق نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے کیونکہ فاروق ایک خودمختیار انسان ہے اور ہمیشہ قدرت کا شکر ادا کرتاہے کہ اس مالک نے مجھے لاکھوں مفلوج افراد سے بہتر تخلیق کیا خدا نے پیروں سے مفلوج کیا لیکں میرے ان ہاتھوں میں اتنی صلاحیت بیدار کی ہے کہ میں ایک عام آدمی سے ذیادہ اچھاکام کرسکتاہوں ۔
لیکں افسوس اس بات کا ہے ہماری حکومت نے ہم معذور لوگوں کو نظر انداز کیا ہوا ہے ۔ کبھی کبھی یہ آنکھیں بھی ٹپک پڑتی ہے جب میں روزی کمانے میں ناکام ہوجاتاہوں کیونکہ کرسیوں کا کام مجھے کبھی کبھی ملتا ہے ۔لیکن اسے دنوں میں گزر سفر کرنا دشواری کا باعث بنتا ہے ۔ فاروق بھی اس معاشرے کا حصہ ہے اس کے بھی اتنے حقوق ہیں جتنے کے دوسرے معاشرے کے لوگوں کے ہیں ۔فاروق نے مختلف اداروں میں نوکری کے حصول کے لیے درخواستں دی لیکں حکومت کی طرف سے کوئی عملی کاروائی نظر نہیں آئی ۔فاروق کئی دشواریوں اور کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے امید لیکر حکومتی اداروں میں ایک امید کی کرن سے جاتا ہے لیکن بدلے میں مایوسی وصول ہوتی ہے ۔ اور یہ امیدیں صرف ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے ۔
معذور افراد کے ساتھ ہماری حکومت بھی معذور ہوچکی ہے فاروق کئی مرتبہ انٹرویو دینے کے کئی اداروں میں گیا لیکں ان معذور لوگو ں سے عام لوگوں جسیا سلوک کیا جاتا ہے۔انٹرویو کے دوراں معذور افراد کے لیے کسی قسم کاانتظام نہیں کیا جاتاہم اپنی مدد آپ کے تحت کئی کئی منزل اوپر جاتے ہیں جو کہ ایک معذور افراد کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے ۔حکومت نے بائیومٹریک سسٹم کا اغاز تو کیا لیکں اس میں سے بھی معذرو لوگوں کو نظر انداذ کیا کے یہ معذور کس طرح وقت پر پہنچ سکتے ہیں اکثر ہماری ویل چیئر کے ٹائیر پنچر ہوجاتے اور وقت پر کام پر نہیں پہنچ پاتے اور پھر ہماری تنخوائیں کاٹ دی جاتی ہے 
ریلوے اسٹیشں ،بس اسٹاپ اور دیگر ٹرانسپورٹس میں معذور افراد کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں ہم اپنی جان پر کھیل کر سفر کرتے ہیں اور کبھی بھی کسی بھی حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں جبکہ دیکھا جائے تو بیرونی ممالک میں معذوروں کی ایک عام آدمی سے ذیادہ حفاظت کی جاتی ہے لیکں ہمارے ملک میں معذور افراد کو سماجی بوجھ تصور کیا جاتا ہے ۔ ٹرانسپوٹ میں ہم سے معذور ہونے کے باعث زیادہ کرایا لیا جاتاہے معذور ہونا شاہد ہمارے معاشرے میں جرم ہے ۔ لیکں جرم کس بات کا ؟ہم جان بوجھ کر معذور نہیں بنتے ہمیں بھی خدا ہی تخلیق کرتاہے 
کئی لوگ مجھے کہتے ہیں کہ ملک چھوڑکر چلے جاؤ لیکں میں ایک سچا پاکستانی ہو اور کبھی اپنی سرزمین کو دھوکا نہیں دو گا وہ لو گ غدار ہیں جو اس سرزمین کانمک کھا کر اور دوسرے ممالک فرار ہوجاتے ہیں میرا نوجوانو ں سے یہی کہنا ہے کہ چاہے کیسے بھی حالات آجائے لیکن اپنے ملک کو چھوڑکر نہیں جانا ہمیں جینا مرنا اس سرزمین پر ہے اور یہی سرزمیں ہمیں اپبنے اند ر پناہ دے اور ہمیں اس کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے ۔اگر ہمیں یہاں ہمارے حقوق نہیں ملتے تو اس کی مذمت کریں کیونکہ یہ ملک ہمارا اور یہاں سے حقوق مانگنا ہمارا بنیادی فرض ہے ۔

Tuesday, 10 April 2018

Bibi Rabia Interview BS


نام۔ بی بی رابعہ 
کلاس۔بی۔ایس ۔پارٹ تھری
رول نمبر:۲۴


i
انٹرویو:خورشید پیرزادہ(مصنف)
تعارف:خورشیدپیرزادہ ہفت روز اسپورٹس ورلڈ کے پہلے مدیر معاون ہے وہ ایک ناول نگار بھی ہے ۔پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے لیے انہوں نے کئی پروگرامز لکھے ہیں پی ٹی وی ٹو پر تعلیمی پروگرام ،معین اختر شو کے لیے اسکیٹس اور اے آر وائی پرجنوری ۲۰۰۵ میں لیاری کنگ لائیو لکھنا شروع کیا جو کہ اے آر وائی کے کامیاب ترین شو میں شمار ہوا ۔ایکسپریس نیوز کی اینی میٹڈ قوالی سیریز بانکے میاں کے قوالیاں اور عجب کہ رہے ہو بھئی کی ٹیم میں بھی شامل رہے ،اس کے علاوہ کئی اخبارات و رسائل کے لیے اور ڈائجسٹوں کے لیے بھی بے شمار مواد تحریر کیا ۔آج کل ماہنامہ لہک کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
س : آپ میں لکھنے کا شوق کیسے پیدا ہوا اور سب سے پہلے آپ نے کونسے موضوع پہ لکھا؟
ج :مجھے واقعی میں پچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا اور سب سے پہلے میں نے ایک میگزین اسٹار لائٹ میں فلمی موضوعات پر لکھنا شروع کیا،اس کے بعد کئی اخباروں اور رسالوں میں لکھا۔
س: آپ کیا کہے گے اس بارے میں کہ آج ہماری میڈیا میں جو مواد دکھایا جا ر ہا ہے کیا وہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کر رہا ہے؟
ج: بلکل بھی نہیں ،ہر طرف لچرپن ہے سوشل اصلاحی اور مذہبی مواد سے تو جیسے میڈیاوالوں کو چڑ ہے یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے 
س: ہماری میڈیا تعلیمی حوالے سے پروگرام نہیں دکھا رہی اس کی کیا وجہ ہے؟
ج:میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے تا کہ قوم کا دھیان بھٹکایا جا سکے اور اب تو اتنا ہو چکا ہے کہ ہماری قوم کوبھی اچھے پروگراموں کے بجائے صرف گلیمر چاہیے دنیا سمٹ کر فنگر ٹپس پر آگئی ہے اب لوگ اچھا دیکھنا یا دکھانا نہیں چاہتے بلکہ وہ دیکھتے یا دکھاتے ہیں جو ان کو اچھا لگے۔
س: پھر ہم ایک جرنلسٹ ہونے کے ناتے اس منصوبے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟
ج:اس کی اصلاح تب ہی ھو سکتی ہے جب حکومتی سطح پر سنجیدگی سے اس پر توجہ دی جائے مگر بد قسمتی سے ہر حکومت اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہی وقت گنوا دیتی ہے 
س:ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے جو افسانہ نگار ہیں ان کی تحریروں میں خیالوں کی پختگی نہیں پائی جاتی اس بارے میں آپ کیا کہے گے؟
ج:افسانہ نگاری میں پختگی اس لئے نہیں ہے کہ آج کی نسل مطالعے سے کوسوں دور ہے جب آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں ہوگاتو آپ اچھا لکھ ہی نہیں سکتے اور یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے لائبریری کلچرہی ختم ہوتا جا رہا ہے 
س: آپ مواد کو شائع ہونے سے پہلے کتنی بار پڑھتے ہیں ؟
ج: صرف ایک بار کیونکہ مجھے یقین ہوتا ہے کہ میں نے وہی لکھا ہے جو میں چاہتا ہوں 
س:آپ کو کتنا وقت لگتا ہے ناول کا پلاٹ تیار کرنے میں اور اسے مکمل کرنے میں؟
ج: پلاٹ تو جلد ہی تیار ہو جاتا ہے مکمل ہونے کے دورانیہ کا تعلق ناول کی ضخامت پر منحصر ہے 
س:کیا آپ نے سوچا تھا کبھی کہ آپ مصنف بنے گے؟
ج:ہاں کیونکہ مجھے شروع ہی سے لکھنے لکھانے کا جنون تھا،ہاں یہ نہیں سوچا تھا کہ کبھی ڈرامہ نگار بھی بنوں گا
س:آپ کو اپنی لکھی ہوئی تحریروں میں سے کونسی ذیادہ پسند آئی؟
ج:ہاہاہا۔اس پر تو میں وہی پرانا گسا پٹاجواب دونگاہر تخلیق میرے لیے اولاد کی مانند ہوتی ہے چاہے اولاد اچھی ہو یا بری ۔لیکن الیکٹرانک میڈیا میں مجھے سوشل شوز سے متعلق اپنا طنزیہ و مزاحیہ شو لیاری کنگ لائیو بہت پسند ہے جو ساڑھے تین سال تک اے آر وائی ڈجیٹل پر نشر ہوتا رہا۔
س:آپ کو کتنا عرصہ ہوا ہے پرنٹ میڈیا میں کام کرتے ہوئے؟
ج:مجھے پرنٹ میڈیا میں ۳۶ سال ہوگئے ہیں 
س:ہمارے جو نوجوان جو مصنف بننا چاہتے ہیں ان کو آپ کیا پیغام دینا چاہینگے؟
نوجوانوں کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ کچھ بھی لکھنے کا تعلق ذہنی اپروچ سے ہے موضوع اور بیانیہ بہتر بنانے کے لئے مطالعہ اور مشاہدہ اہمیت کا حامل ہے۔

Hafeez Interview BS



نا م حفیظ الرحمن
شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن بی ایس (iii)
رول نمبر 2k16-mc-33
انٹرویو نواز کھمبر
کسی بھی مضموں کو پڑھنا بظاہر تو آسان ہوتا ہے ،لیکن کوئی ایک مضموں کو اپنے خیالات میں تحریر کرنا ایک انتہائی نازک کام ہے کیونکہ تحریر نگاری ایک فن ہے ہر دوسرا شخص سر انجام نہیں دے سکتا ،مصنف بننے کے لئے محنت درکار ہوتی ہے بلکہ اپنے خیا لات کو تراشنے کے ساتھ ور ق دانی بھی کرنا پڑتا ہے ان محنت کار مصنفوں میں بھی سر نواز کھمبر بھی سر فہرست ہیں جو سندھی ادب سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے سندھ میں سندھی زبان کو اجاگر میں بے شمار خدمات سر انجام دی۔ 
سوال سر میڈیا میں آنے کا شوق تھا یا آپکو قسمت یہاں لے کر آیا ؟
جواب وقت کرتا ہے پرورش کا حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔صحافت میں میرا آنا اچانک نہیں تھا بلکہ شوق بھی تھا اورکچھ مجبوریں بھی تھی ایک تو گھر کا ماحول کشیدہ ہونے کی وجہ سے بھی آنا پڑاکیوں کہ جس کے اثرات میری گھر پر مرتب ہو رہے تھی جس سے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے جس سے نشے کی طرف راغب ہونے لگا ،لیکن جب خیال آیا خدا نے بچا لیا ،اسی دوراں اسکول میں اتفاق کوئز مقابلوں میں حصہ لینا پڑا ،کوئز کی کتابیں بھی تھی ان میں سے کچھ کتابوں کے نام پڑے اچانک خیال آیا کہ یہ کتابیں پڑھ لینی چاہے اور اس وقت سانگھڑ میں نجی لائبریروں کا زمانہ تھا کرایہ پر کتابیں ملتی تھی اس وقت ہم گاؤں سے سانگھڑ منتقل ہوئے تھے میرا اس وقت گھر سے نکلنا منع ہوتا تھا تو میں گھر کا سودا سلف کے بہانے بزار جاتا وہاں سے کرایہ پر کتابیں خریدتا ابو سے چپ کر پڑھتا اور واپس کرتا اپنے خیالات کا اظہار تحریر کرتا اسی طرح 1980پہلی کہانی گلفل سندھی زباں میں چھپی ،یوں ہی کالج میں پہنچے تو ادبی دوستوں سے ملاقتیں بھی ہوئی اور کوئز مقابلوں میں بھی حصہ لیتا رہا ۔سن1985میں سوشل ویلئفر میں ملازمت بھی کی اور یہ محکمہ سماجی تنظیمیں رجسٹر ڈ کرتا تو اچانک مجھے خیال آیا اپنی نوجواں برادری کو ساتھ ملا کر کمبھر بلائی سماجی تنظیم بنائی اور اس تنظیم اغراض و مقاصد کی خبریں بناتا اور پوسٹ کرتا تھا صحافت کی ابتدا یہ تھی ،ایک وجہ یہ ہے شام کے وقت میں واک پہ نکلا تھا مغرب سے پولیس کی گادی آئی اور مجھے گھیرے میں لیا بندوق سر پر اسطرح رھا جیسے میں کوئی دہشت گرد ہوں تو میں بہت پریشان ہوا اسی وجہ سے میں مکمل طور پر صحافت کے پیشے کو چنا۔
سوال میڈیا اس وقت ہمارے معاشرے میں کیا کردار اادا کر رہا ہے؟
جواب میڈیا کا اصل کام معاشرے میں لوگوں کو شعور دلانا ہے ، اخبارات اور رسائل کا اصل کام ہونے والے مسائل کو اجاگر کرنا ہے اورمعاشرے میں تبدیلی لانا ہے لوگوں کی حقوق کی بات کرنا ہے ، لیکن اس وقت بد قسمتی یہ ہے میڈیا خود کو اجاگر کرنے میں مصروٖ ف ہے صحیح معنوں میں جو کردار ادا کرنا چاہے وہ نہیں ہو رہا ہے ، چند گنے چنے صحافی ہیں جن کی وجہ سے صحافت کا نام زندہ ہے ۔جب اخبارات اور چینل ،رسائل کی اغراض کا اجازت نامہ میرٹ پر ،اور بغیر کمیشن اور سفارش کے ہوگا ت،ویج بورڈ کا نفاذ ہوگا اور تب صحیح معنوں میں میڈیا اپنا کردار ادا کر سکے گا اسر وقت تک سوشل میڈیا نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔
سوال آپ جس مقام پر ہیں اس مطمءں ہو یا مزید کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
جواب نزاع کا عالم ہے محبت بھی واپس لے لو جب کشتی دوبنے لگے ساماں اتارا کرے ، ذااتی طور پر اللہ کے احسانات کہ مجھے میری اور توقع سے بڑھ کر عزت،اہمیت،شہرت ملی ،لیکن حقیقت یہ ہے گزشتہ دس برس سے لکھ رہا ہوں،تین سالوں سے ایف ایم پر بھی کام کر رہا ہوں ۔25,30 کتابوں کا مواد بھی موجود ہے کچھ کتابیں چھپ بھی چکی ہیں،کچھ چھپ رہی ہیں جوکہ غریب جوان بیٹی کی اچھے رشتے کی آمد کی طرف سے کسی پبلشر کی منتظر ہیں ،ذاتی طور پر لکھنے کا تو مجھے بہت فائدہ ہوا،لیکن اس لکھنے کا بظاہر تو کسی اور کو فائدہ ہوتا نظر نہیں آیا،تو فائدہ کیا لکھنے کا ،میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے نام کے لئے شاید خودغرضی کا مظاہرہ کیا ،جو وقت میرے والدین کا،بہن بھائیوں کا، بچوں کا ،دوستوں کا تھا وہ میں نے نام نہاد تحقیق اور لکھنے پر لگا دیا جس پر کبھی کھبا ر افسوس ہوتا ہے۔
سوال صحافت میں کافی عزت شہرت ملی اس میں کامیابی کاراز کیا ہے؟
جواب اسکا سبب قہت الرجال ہے اتفاق جو میں نے مضامین چنے یا جو مجھے پسند آئے ان پر لکھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور دوسرا اتفاق یہ ہوا کہ مجھے سندھی کی سب سے بڑی اشاعت اخبار میں میں چھپنے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں تک پہنچنے کا موقع ملا یا پھر خدا کا کرم تھا۔

Ahtisham Shoukat Interview MA



محمد احتشا م شو ک 
کلا س M.A (Previous) 2K/18 
رول نمبر 21 # 
انٹر ویو کلیم شیخ 
تعارف :
کلیم شیخ کا تعلق شا ہی بازار حیدر آباد سے ہے وہ ایک کا رو باری شخص ہو نے کے ساتھ ساتھ سما جی کار کن بھی ہے انہو ں نے عبد الستار ایدھی اور رمضا ن چھیپاکی طر ح تو کوئی فلا حی ادارہ تو قا ئم نہیں کیا لیکن اپنے بل بو طے پر بہت سے متاثر ہ لو گو ں کی مدد کر تے ہیں ضرورتمندو ں کی ضرو رت کے وقت ایک مسیحا بن کر ثا بت ہو تے ہیں ۔ 
س۔ آپ سے کا تعلق کہا سے ہے اور ابتدائی تعلیم کہا ں سے حاصل کی ؟ 
ج۔ میرا تعلق شاہی بازار حیدر آباد سے ہے اور میں ابتدائی تعلیم نیو ل اکیڈ می اور انٹر میڈیٹ سند ھ کومر س کا لج سے مکمل کی ۔ 
س۔ آپ کس وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکے ؟ 
ج۔ جب میں نے 1987 میں B.A مکمل کیا تو میرے والد کے ما لی حا لا ت اتنے اچھے نہیں تھے کہ وہ گھر کے اخراجات پو رے کر سکتے اسلئے مجھے فو ری طور پر کا روبار کی ضرو رت تھی تو میں نے اپنے والد کے ساتھ کا م کر نا شرو ع کر دیا اور پڑھائی چھو ڑ نی پڑی ۔ 
س۔ کو نسی شخصیت سے متا ثر ہو کر آپ سما جی کا ر کن بنے؟ 
ج۔ ایک مر تبہ میرے کچھ دوست جو NGOمیں کا م کر تے تھے وہ ایک کا نفر نس میں شمو لیت کے لئے انڈیا جا رہے تھے تو میں نے بھی گھو منے کے ارادہ سے انکے ساتھ چلا گیا کانفر نس میں مو جو دلو گ اور انکی سماجی خد ما ت دیکھ کر میں بہت متاثر ہو ا اور میرے دل میں بھی سما جی خد ما ت کا جذبہ پیدا ہو ا۔ 
س۔ آپ نے اپنی سما جی زند گی کی شرو عا ت کہا ں سے کی ؟ 
ج۔ 2005 میں انڈیا کا نفر نس میں شر کت کے بعد واپس آکر میں نے اپنے دوستو ں کے ساتھ جڑارہا اور جاننے کی کو شش کی کہ وہ متاثر ہ لو گو ں کی مدد میں اپنی خد ما ت کو کیسے سرا نجا م دیتے ہیں ۔ یہ جا ننے کے بعد میں نے بھی سو چا جب میرے پا س کچھ پیسے ہے تو کیو ں نہ میں تھو ڑا وقت نکا ل کر میں بھی لو گو ں کی مدد کرو۔ 
س ۔ آپ نے کن کن ادروں کے ساتھ مل کر کا م کیا ؟ 
ج ۔ مختلف ادارو ں کے ساتھ کا م کیا اور شیڈول کا سٹ کمیو نٹی کے ساتھ بھی کا م کیا ور اس وقت شاہی بازار حید آباد کے سما جی کا رکنو ں کے ایک گرو پ کے ساتھ مل کر کا م کررہا ہو ں ۔ 
س ۔ کیا آپ کا مستقل میں کو ئی ادارہ قائم کر نے کا ارادہ ہے ؟
ج۔ فلحا ل تو ایسا کوئی اردہ نہیں ہے کیو نکہ ماضی میں ہم نے ایک ادارہ قائم کیا تھا People Developed Foundation کے نا م سے جو Society میں بھی رجسٹر ڈ تھا جو بند کر نا پڑا ۔ 
س۔ کیا وجہ تھی آپ کو ادارہ بندکر نا پڑا ؟ 
ج۔ ادارہ بند کر نے کی سب سے بڑی وجہ پیسو کی کمی اور جیسے آفس بریئر کے اخرا جا ت پو رے کر نے مین جو رقم چا ہی ہو تی ہے وہ ہماری پا س کم تھی تو ادارے کے اخرا جا ت پو رے نہیں ہو سک رہے تھے اسلئے ہم نے سو جا ادارے کو بند کیا جا ئے اور آفس بریئر کے اخراجا ت بچا کر یہ پیسے کیو ں نہ متا ثر ہ لو گو ں کی مدد پر لگا ئے جائے اور گرو پ کی شکل میں کا م کرکے ۔ 
س۔ آپ نے اس ادارے کے ما تحت آخری کام کب کیا ؟ 
ج۔ 2010 میں جب سند ھ میں سیلا ب آیا تھا تو بہت سے سیلا ب زدگان مختلف جگا ہوں سے آکر حیدر آباد میں نیو سبزی منڈی کے قریب خیمے بستی بنا کر بیٹھے تھے ان لو گو ں کی ضرو رت کی تما م اشیا ء مہیا کی جیسے کہ کھا نا ، دو دھ ، لکھڑیا ں وغیر ہ جو کہ بنیا د ی ضرورت تھی ۔ 

س ۔ آپ نے مختلف اداروں اور لو گو ں کے ساتھ کا م کیا لیکن کن لو گو ں ے سا تھ مل کر کا م کر نے میں زیا دہ خو شی محسو س ہو ئی ۔ 
ج ۔ ب مجھے شیڈول کا سٹ کمیو نٹی کے ساتھ کا م کر نے کے مو قع ملا تو مجھے حقیقتاََ انکے ساتھ کا م کر کے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور مجھے بہت مزا آیااور انکے ساتھ خد ما ت انجا م دینے میں جو خو شی محسو س ہو ئی شاید ہی میں انہیں اپنے لفظو میں بیا ن کر سکو ں ۔
س۔ لو گو کے مسائل حل کر نے میں کن مشکلا ت کا سا ما کر نا پڑھتا ہے ؟ 
ج۔ بنیا دی طو ر پر جن مسائل کا سا منا کر نا پڑھتا ہے وہ یہ ہے کہ مثال کے طو رپر ہمارے پا س پانچ افرادایسے ہیں جن کے مسا ئل حل کر نا ہے تو ان پا نچ میں سے کسی ایک سے شروع کر تے ہیں تو باقی کے چار لو گ محسو س کر تے ہیں کہ وہ ایک ہمارے قریب ہے تو اس لئے ہم نے پہلے اسکی مدد کر نا شرو ع کی اور بد قسمتی سے وہ شخص بھی خو د معتبرسمجھنے لگتا اور باقی لو گو ں کے ساتھ غیر اخلا قی رویہ کے سا تھ پیس آتا یہ بہت عجیب تاثر دیکھنے کو ملتا ہے جسے ختم کر نا بہت مشکل ہو تا ہے ۔ 
س۔ پاکستا ن کی بڑھتی ہو ئی غر بت پر آپ کے کیا خیا لا ت ہے ؟
ج۔ ہر شخص کا اپنا نظریہ ہے کو ئی کہتا ہے کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے غر بت بڑھ رہے ہے لیکن میرا پنا نظریہ اور ذاتی تجر بہ ہے کہ نئی نسل خو د سے پیا ر کر نا اور خوا ب دیکھنا چھو ڑ دیائے ہے اور اپنے ارادہ میں پختگی نہیں رکھتے یہ بڑھتی ہوئی غر بت کا ایک بڑا سبب ہے ۔ 
س ۔ آپ کے نظریہ میں غر بت کا خا تمہ کیسے ممکن ہے ؟ 
ج۔ ہمیں اپنے پیرو ں پر کھڑے ہو نے کی کو شش کر نی چا ہیے اور ارادے میں مضبو طی ہو نی چا ہیے کیونکہ ارادے کی ایک بڑی اہمیت ہے اور ارادہ ہمیں ضرو ر آگے لیکر جا تا ہے ایک ہی جگہ کھڑا نہیں رکھتا یہ ممکن نہیں کوئی امیر کسی غریب کی غر بت ختم کر دے اس لئے جب تک ہم اپنے لئے خو د سے کچھ نہیں کرینگے تو اپنے غربت ختم نہیں کر سکے گے۔

س۔ بحیثیت سما جی کا ر کن نو جوانو ں کو کیا پیغام دینا چاہو گے؟ 
ج۔ میرے خیا ل سے سما جی ہمدر دی کا جذبہ ہر انسا ن میں مو جو د ہوتا ہے ہمیں اس کا صحیح وقت پر احساس نہیں ہوتا سب ہی انسا ن ایک دوسرے کی مدد کر نا چا ہتے ہیں لیکن اکثر ہم سو چتے ہیں ہمارے پا س بہت سارے پیسے ہونگے تب مدد کرینگے جیسے کہ 10,00000/- ہونگے تو ایک لا کھ غریبو ں پر خر چ کرینگے مگر ایسا نہیں سو چنا چا ہیے ہم چند پیسو ں سے بھی کسی کی مدد کر سکتے ہیں تو اس لئے نو جو ا نو ں کو یہی پیغام دینا چا ہتا ہوں کہ اردگر د مو جو د متاثر ہ لو گو ں کی مدد کرو کیو نکہ کسی کی مدد کر نا بھی عبا دت ہے ۔ 

Sadaf Interview BS



انٹرویو





ڈاکٹر اللہ بخش میمن 
دنیاں میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو انسانوں کو اہمیت دیتے ہیں مگر بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جانوروں سے محبت کرتے ہیں جن میں سے ایک نام ڈاکٹر اللہ بخش میمن کا ہے جن کی پیدائش ماری گاؤں ڈسٹرک شکار پور میں ہوئی انہوں نے اپنی پرائمری ایجوکیشن گاؤں ماری میں ہی حاصل کی اور چھٹی کلاس سے لیکر میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 2 ڈسٹرک شکارپور سے کیا اور SCSمیڈیکل سائنس ڈگری کالج سے کیا اور اگے کی تعلیم سندھ ایگریکلچر یونیو رسٹی ٹنڈو جام سے حاصل کی یونیورسٹی سے بطور فرسٹ پروفیشنل DVM(Doctor of Veterinary Medicien)ڈگری حاصل کی اور پھر سرجری MACاور PHDڈگری حاصل کی ۔ 
ڈاکٹر صاحب آپ نے اس کے علاوہ آپنے کہیں بیرونے ملک تعلیم حاصل کی ؟ 
جی ہاں میں ٹریننگ کیلئے بیرونے ملک بھی گیا ہوں جہاں میں نے اپنی ٹریننگ مکمل کی اور وہاں ٹریننگ بھی دی بیرونے ملک میں Cardiac Surgeryکیلئے گیا تھا خاص طور پر چوہے (Mouse)کی Cardiac Surgery کیلئے ۔ 
آپ نے وہاں کس طرح کی ٹریننگ حاصل کی اور کتنے ملکوں کا دوہرا کیا ؟ 
میں نے وہاں پر Existential Therapyکی ٹریننگ حاصل کرنے جرمنی گیا تھا پھر وہاں سے فرانس پھر سیوزیلنٹ پھر وہاں سے PARAK(ایران کا شہر ہے)پھر Nigerlandاور شہنگائی میں جتنے ملک آتے ہیں میں نے وہاں پر تعلیم کے مقصد کیلئے گیا تھا 
آپ نے جانوروں کے ڈاکٹر کا شعبہ کیوں منتخب کیا ؟ 
جو بھی طالبعلم ہوں چاہے انجینئرینگ کا ہو یا میڈیکل سائنس کا اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے اگر وہ نہیں بن پاتا تو وہ سیکنڈ آپشن رکھتا ہے پر میری فرسٹ چوائس یہ ہی تھی کہ میں Veterian بنوں اورخوش قسمتی سے بن گیا ۔ 
آپ کے علاوہ آپ کے گاؤں سے اور بھی کوئی اس شعبہ میں تھا ؟
میں اپنے گاؤں کا پہلا بندا ہوں جس نے بطور Veterianجوائن کیا باقی نے مجھے دیکھ کر اس فیلڈ میں آئے۔ میرے پاس ایک ہی وقت میں دو چوائس تھی یا تو میں Veterianڈاکٹر بن کے سروس دوں یا پھر یونیورسٹی جوائن کروں Public Service Commissionمیں بھی بطور Veterian آفیسر پاس کیا اور سلیکشن بورڈ کے زریعہ بطور لیکچرار سندھ ایگرکلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام میں بھی سلکٹ ہو ا تھا اور میں نے سندھ ایگریکلچ یونیورسٹی میں ٹیچنگ کرنے کا فیصلا کیا ۔ 
تو آپ یونیورسٹی میں کونسا مضمون پڑھاتے ہیں ؟ 
جیسا کہ میں نے سرجیکل ڈپارٹمنٹ میں MSCکی تو میں نے پڑھانے کیلئے بھی سرجری کا مضمون منتخب کیا اور 27سال ہو چکے ہیں میں وہاں سرجری ڈپارٹمنٹ میں پڑھا رہا ہوں ۔ 
کیا قاسم آباد کے علاوہ بھی اور دوسری کلینک میں بیٹھ تے ہیں آپ ؟ 
جی ہاں میری ایک کلینک ٹنڈو جام میں بھی ہے ٹنڈو جام میں 27سال سے سروس دیتا رہا ہوں پبلک بھی اور پرائیوٹ بھی ٹنڈو جام میں بھی بڑے جانوروں کا علاج کیا جاتا ہے اور گھر بھی جا کر علاج کرتاہوں۔
آپ اس کے علاوہ کسی اور شعبہ میں خدمت انجام دی ہے ؟ 
میں پورا دن اپنی ہی فروفیشن میں کام کرتا ہوں صبح سے دن تک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں اور شام میں کسی اور شعبہ میں کام کرنے کے بجائے اپنی ہی فیلڈ میں سروس دینا پسند کرتا ہوں اور میرے ساتھ میرے دوسرے بھی دوست پڑھاتے ہیں پر انہوں نے مختلف شعبہ میں کام کرنے کو ترجع پر میں نے اپنے ہی پروفیشن میں سروس دینا کو پسند کیا یا ایسا سمجھیں کے یہ میرا جنون ہے اور شوق ہے کے میں Veterinaryفروفیشن میں کام کروں اور جہاں تک جانوروں کی علاج کی بات ہے تو جب تک ان کی میں خد مدد نہیں کرتا تب تک مجھے سکون نہیں ملتا ۔ 
کیا آپ شام میں اپنی کلینک میں اپنے طلب علم کو سپر وائس کرتے ہیں ؟ 
جی نہیں میں چاہوں تو Veterinaryکلینک چلا سکتا ہوں اور میرے طالب علم میرے سپر ویزن میں کام کریں پر میری روح کو سکون نہیں ملتا جب تک میں یہ کام خد نہ کروں اور یہ سب میں پیسہ کمانے کیلئے نہیں کرتا یہ سب میں اپنے شوق سے کرتا ہوں ۔ 
آپ صرف پالتو جانوروں کا ہی علاج کیوں کرتے ہیں ؟ 
طاقت ور کی تو ہر کوئی مدد کرتا ہے اُبھرنے والے سورج کو ہر کوئی سلام کرتا ہے جو گرے ہوئے کو اُٹھائے وہ اصل خدمت ہے اس لئے میں سوچتا ہوں کتا وہ واحد جانوار ہے جس سے انسان نفرت کرتا ہے خاص طور پر پاکستان میں اس کو جس طرح سے ٹریٹ کیا جاتا ہے اگر کوئی 21گریڈ کا پروفیسر ایسے جانوروں کو سروس دیگا تو میں سوچتا ہوں کے لوگوں کا نظریہ بدل جائے ۔ 
آپ کو کیا لگتا ہے آپ لوگوں میں کیسے احساس دیلا سکتے ہیں ؟ 
میرے پاس جو ٹولس موجود ہیں وہ یہ ہے کہ جو میرے طالب علم اور Veterianہیں اُن سے انٹرکٹ کرتا ہوں اُن کی سیاسی اورشعوری ایکٹیوٹیز میں شامل ہوتا ہوں طالب علم سے میرا ڈائریکٹ انٹریکشن ہوتا ہے تو میں اپنی ٹیچنگ اور پریچنگ کو استعمال کرتا ہوں اور اپنے طالب علم کی اخلاقی تعلیم پر ضرور نظر ڈالتا ہوں ۔ 
کمیونیکشن کیلئے آپ کیا استعمال کرتے ہیں؟ 
میں میڈیا الیکٹرونکس میڈیا اور پیپر میڈیا کو بھی ٹول کے طور پر استعمال کرتا ہوں کہ معاشرے میں آہستہ آہستہ ترقی ہوگی کہ آج دس لوگ ہیں تو کل بیس لوگ ہونگے اسی طرح معاشرے میں ترقی آئی گی ضروری نہیں کہ میری سوچ ہر کوئی مانے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری سوچ کو لیکر کوئی اور اس میں ایمپرومنٹ لائے اور کوئی نہ کوئی طالب علم اور معاشرے کا طبقہ نکل پڑھے اور اس میں مدد کریں ۔ 
آپ کیا سمجھتے ہیں شیلٹر فوڈ اور ہیلتھ کیئر کے بندوبس ہو نا چاہیے؟ 
پاکستان میں سوائے کتے اور بلے کے علاوہ ہر جانور کو فوڈ شلٹر اور ہیلتھ کیئر مہیا ہے صرف یہ ہی دو جانور ہیں جن کیلئے کوئی سہولت ہیں ڈپارٹمنٹ جو اتنے سالوں سے کام کر رہا ہے اُن کے پاس ویکسینیشن پروگرام بھی نہیں ہیں ۔ 
آپ نے اور اس کے علاوہ کون کون سی کامیابی حاصل کی ؟ 
میں واحد Veterianہوں جس کو یہ مواقع ملا کہ سرجری کی فیلڈ میں کام کروں ۔ 
الٹراسونو گرافی ایک نیو فیلڈ ہے اور میں پہلا الٹرا سونو لوجسٹ ہوں اور الٹرا سونوگرافی آرام سے کرلیتا ہوں ۔ 
اپنے ڈپارٹمنٹ میں میں پہلا شخص ہوں جس نے ریڈیو گرافی جو کہ ایک نئی فیلڈ ہے اُسے استعمال کیا اور پڑھایا بھی اور اپنی کلینک میں بھی استعمال کرتا ہوں ۔ 
Anesthesiaبیسک ٹول ہے ہر آپریشن کا Anesthesiaمشین ہمارے پاس تھی پر استعمال میں نہیں آتی تھی کیوں کہ کوئی ٹیکنیکل بندا نہیں تھا جو اسے چلا سکے میں نے Anesthesiaمشین کو اسٹارٹ کیا اور اپنے ڈپارٹمنٹ میں بھی انٹروڈیوس کروایا اور اس میں دوسرے Veterianکو M Philبھی کروایا ۔ 
میں پہلا سرجن ہوں جس نے ہیومن سرجنس کے ساتھ ہارٹ ٹرانسپلاسٹیشن کر چکاہوں اور کٹنی ٹرانسپلاسٹیشن اور Cardiacسرجری بھی کی ہے جانوروں پر اور بطور Veterianمیں حصہ لیا ۔ 
Laparoscopicسرجری ایک نئی فیلڈ ہے جو Veterniaryسائٹ پے ابھی معتارف نہیں ہوئی اور میں واحد سرجن ہوں جس نے Laparoscopicسرجری پاکستان میں ہیومن سرجن کے ساتھ کی ہے اور لیاقت نیشنل ہسپتال میں ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں جو بھی نئی چیز جونسن اینڈ جونسن متعارف کرواتے ہیں لوگوں کیلئے وہ میں جانوروں پر استعمال کرتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کوئی پیغام دیں؟ 
صرف کتے بلی بھی نہیں بلکے سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور ہمیں سب کی قدر کرنی چاہیے اور اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ ہر مخلوق کی اُتنی ہی عزت کریں اور اُتنی ہی قدر کریں جتنا وہ خد کیلئے چاہتا ہے اور یہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے کس کو کب موت دے تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کو مارنے والے یا کسی کی موت طے کرنے والے ۔

Zaira Interview BS




زائرہ انصاری
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 121
انٹرویو: لیکچرار حسن شیخ

لیکچرار حسن شیخآرمی کا جنون کی حد تک شوق رکھنے والے کو جب اپنی منزل نہ مل سکی تو کرائم کے شعبے کو اپنا جنون بنا لیا.. حسن شیخ سندھ یونیورسٹی کے شعبے کریمنولوجی میں بطورِ لیکچرار اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جو کہ ایک بہت قابل اساتذہ کے ساتھ ساتھ دوستانہ طبیعت کے مالک بھی ہیں... 
سوال:آپ نے اپنی تعلیم کے سفر کا آغاز کہا سے کیا اور یہاں تک کیسے پہنچے؟
جواب: میں نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز گورنمنٹ کے مشہور ادارے نور محمد ہائی اسکول سے کیا کالج کی تعلیم مسلم سائنس کالج سے حاصل کی B.com کی ڈگری سندھ یونیورسٹی سے اورLLB کی سندھ کالج لا سے کیا.. MSc کرمینولوجی میں کیا جس میں میں پہلی پوزیشن بہی حاصل کی جس کی وجہ سے اس وقت کے گورنر سندھ عشرتالعباد صاحب کی طرف سے ہر پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کو دعوت دی گئی اور اِس کے ساتھ ساتھ کیش انعام بھی دیا گیا تھا جو کے میرے لیئے بڑے عزاز کی بات تھی
....سوال: کیا آپ کو دورانِ تعلیم کہیں ملازمت کرنی پڑی اور کیوں؟جواب:میرا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا اور میری تین سال کی عمر میں ہی والد وفات پا چکے تھے ایسے حالات میں بڑے بھائی نے بہت ذیادہ ساتھ دیا اور میں خود بھی پڑھنے کا بہت شوقین تھا تو ایسے میں اپنے شوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے پڑھنا شروع کر دیا تھا اور مختلف اداروں میں ملازمت کرتا رہتا تھا...
سوال: آپ کے دِل میں تعلیمِ کا شوق تھا تو آپ نے اس سلسلے میں غریبوں کے ساتھ کیا تعاون کیا؟
جواب: جی ہاں میں ہی میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مِل کر ایک ویلفیئر کی تنظیم تھی شاہ عبداللطیف ویلفیئر فانڈیشن جس کا ممبر بھی میں رہ چکا ہوں اس میں ہم لوگ اپنے علاقے کے غریب طبقے کے بچوں کو تعلیم دیتے تھے بنا کسی پیسے کے.۔
سوال: آپ کس طرح کا مزاج رکھتے ہیں؟جواب:میرا مزاج ہر ایک کے ساتھ دوستانہ ہے اور خاص کر اپنے طلبا کے ساتھ کیونکے میں سمجھتا ہوں نرم لہجے میں بولی ہوئی بات دِل میں اتر جاتی ہے بانسبت سخت لہجے میں بولی ہوئی بات کیسوال: کرائم کے شعبے میں دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟
جواب: مجھے آرمی میں جانے کا جنون کی حد تک شوق تھا جس کا ٹیسٹ بھی پاس کر چکا تھا لیکن بچپن ہی سے بیمار رہنے کی وجہ سے میں اپنے شوق کی تکمیل نہیں کر سکا پھر میں نے سوچا کہ میں ایسے ہی کسی ادارے سے وابستہ ہوجاں جس سے میرے جنون کو تسکینِ ملے...
سوال: آپ کو کیا لگتا ہے کے لوگ کس طریقے سے وارداتِ جروم میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور کیسے ہم انکو نکل سکتے ہیں؟جواب: جرم ایک معاشرتی بیماری ہے یہ ایک بہت بڑا مسلہ ہے آپ دنیا میں جہاں بھی دیکھ لیں جرم نظر آئے گا جیسے غریب غربت کی وجہ سے جرم کر رہا ہے تو امیر عیاشی میں ہمیں اپنے ماحول کو پرسکون بنانا ہوگا کیونکے یہ معاشرہ ہی ہے جو انسان کو اچھائی اور برائی کی طرف راغب کرتا ہے..سوال: آپ کتنی کتابیں اپنے مضمون میں دیتے ہیں؟جواب: کرمنولوجی کی کتابیں بہت زیادہ مہنگی ہیں تو میں پی ڈی ایف فائل دیتا ہوں اور ہر طلبا کو دس کتابیں دیتا ہوں...
سوال: کوئی ایسی چیز جو میں نہ پوچھ سکی لیکن آپ بتانا چھاتے ہو؟
جواب: میں یہ چھاتا ہوں کہ کالج میں بھی کریمینولوجی کے مضمون کی تعلیم دی جائے.. اور کرائم جسٹس سسٹم میں کرمینولوجی کے لوگ ہونے چائییسوال: کوئی آپکا پیغام طلبا کے لیے؟جواب: زیادہ تر اپنی توجہ پڑھائی پر دیں اور بیمقصد سرگرمیوں سے دور رہے کیونکہ ہوا کے رخ پر اوڑھنے والا پرندہ کبھی بھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا...

Jahanzaib Interview BS



تحریر جہانزیب خان
بی ایس پارٹ 3
رول نمبر 130
انٹرویو 
شیخ آصف اقبال ظہوری گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج لطیف آباد میں مطالعہ پاکستان کے لیکچرار ہیں اور سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں یہ 15اگست 1979 میں حیدرآباد کے ضلعہ کی تحصیل لطیف آباد میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام شیخ صلاح الدین ہیں جن کا تعلق ضلع گڑگاں بھارت سے ہے_ پروفیسر آصف نے مطالعہ پاکستان کے متعلق کئی کتابیں لکھی ہیںآپ کے میڈیکل اسٹورز اور بک ڈبو ظہوری کے نام سے حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں مشہور ہیں


س: آج کل کے دور میں کافی لوگ ڈاکٹری یا انجینئرنگ کرنا پسند کرتے ہیں پھر آپ نے ٹیچینگ کے شعبہ کو کیوں ترجیح دی؟
ج: یہ بچپن میں میرا شوق بھی رہا ہے اور میرے والدین کی خواہش بھی تھی اور آج کے دور کے مطابق سب سے بہترین کام پڑھانا ہے_کیونکہ ہم اس سے اپنے ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو سدھار بھی سکتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی ذہنی طور پر فٹ سمجھتے ہیں اسلیے اس ٹیچنگ کے شعبے کو ترجیح دی گئی اور میرے والدین کا شوق تھا کے میں ڈاکٹر یا انجینئرنگ کے شعبے میں تعلیم حاصل کروں لیکن میرا ذہن اور دلچسپی ٹیچنگ کے طرف تھی اور آج اس مقام پر ہوں اور میرے والدیں نے بھی مجھے اپنے حال پر چھوڑا کے کس طرف دھیان ہے تو آج میرے والدین بھی خوش ہیں 

س ۔ آپ کے نزدیک پڑھانہ مشکل ہے یا پڑھنا؟
ج: دونوں کاموں میں کوئی مشقت نہیں ہے ۔ اگر دھیان اور لگا پڑھائی کی طرف نہیں ہے تو پڑھنا اور پڑھانا ایک بوجھ لگتا ہے لیکن میرے نزدیک استاد پڑھانے میں اپنے آپ کو زیادہ واقف کرتے ہیں ۔ میں پڑھانے کو نہیں بلکہ پڑھنے پر ترجیح دیتا ہوں، کیونکہ پڑھنے سے دل و دماغ تازہ رہتا ہے اور آج کے اس دور میں پڑھنے پر کم پڑھانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور میرا شوق بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کروں اس لیے میرا آج بھی وہی شوق ہے کے میں مختلف کتابیں ، اخبارات ، میگزین اور معلوماتی کتابیں پڑھتا ہوں 

س:آپ مطالعہ پاکستان کے سبجیکٹ کو یونیورسٹی اور کالج کے مقام پر کس نظریے سے دیکھتے ہیں؟

ج: مطالعہ پاکستان دونوں مقامات پر ایک اہم سبجیکٹ ہے ۔ کالج میں عموما طالب علم اس کی اہمیت پر توجہ نہیں دیتے ۔ حالانکہ مطالعہ پاکستان کی ضرورت ( سی ایس ایس ) اور کئی امتحانات میں درپیش ہوتی ہے ۔اور مطالعہ پاکستان ایک تاریخ کو اجاگر کرتا ہے کے پاکستان کس طرح وجود میں آیا اسلیے زیادہ مطالعہ پاکستان کی اہمیت حاصل ہے 


س: کالج لیول پر فیورٹزم کا کیا زور ہے عموما یونیورسٹی میں اس چیز کا بہت رحجان ہے ؟
ج: یہ ایک قسم کی وبا ہے جو آج کے طالب علموں میں تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ جو طالب علم دل لگا کر پڑھتے ہیں وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے کالجوں میں فیورٹزم جیسا کچھ نہیں ہوتا اور جہاں تک میرا خیال ہے یونیورسٹی میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا


س: دن بہ دن گورنمنٹ کالجز اور اسکولز ویران ہوتے جارہے ہیں اور نجی تعلیمی ادارے ترقی پارہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج: گورنمنٹ کالجز کی ویرانی کی ایک وجہ بچوں کے والدین ہیں جو ان پر توجہ نہیں دیتے ۔ کثیر تعداد میں داخلے ہوتے ہیں پر چند طالبات کالجز میں نظر آتے ہیں جس کے باعث کالجز ویرانی کا شکار ہیں ۔ جبکہ اسکولز میں کوئی ویرانی نہیں ہوتی بچے باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ جہاں تک بات ہے نجی تعلیمی اداروں کی تو یہ بھی نیچے کی طرف جارہے ہیں ۔ کیونکہ ادھر کورس تو بہت اونچے درجہ کا استعمال کیا جاتا ہے,مگر پڑھانے والے اساتذہ اتنے قابل نہیں ہوتے_اگر یہی بچے گورنمنٹ کالجز میں باقاعدگی سے پڑھیں تو انہیں نجی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ حکومت سندھ کو بھی چاہیئے کے اس طرح خصوصا توجہ دیں کافی تعداد میں گورنمنٹ اسکولز اور کالجز میں بہتری آئی ہے جس سے نجی اسکولز اور کالجز کو بڑا فرق پڑا ہے لیکن مزید توجہ اور عملدرآمد کی ضرورت کرنی پڑے گی جس سے غریب سے غریب طر والدین باآسانی اپنے بچے کو بہترین قسم کی اعلی تعلیم دلانے میں کردار ادا کریں گے 

س: پاکستان کے مطالعہ کا شعور ہم طالبعلموں کے اندر کس طرح اجاگر کر سکتے ہیں؟
ج: پاکستان کا ماضی سمجھانے کے لیے حال پر تبصرہ کریں۔طالب علموں میں ایک قوم ہونے کا احساس بیدار کریں۔پھیلتی ہوئی لسانیت کو روکیں۔طالب علموں کو اِس بات کا احساس دلائیں کہ ہمارے بزگوں نے کتنی قربانیاں دے کر پاکستان کو آزاد مملکت کی حیثیت سے نوازا اور آج کے دور میں ہمارے اِس ملک کی کیا حالت ہو رہی ہے۔اِس بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کیلئے ان میں جذبہ محبت اجاگر کریں اور پاکستان کی آزادی سے لیکر آج تک کا صفر پڑھنا ہوگا تاکہ ان کو مطالعہ پاکستان سے ہر چیز کا جواب مل جائے گا 

س: آپ کے خیال سے طالب علموں کو سیاست میں آنا چاہیے؟
ج: طالب علوں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے بلکل کنارہ شی اختیار کر لینی چاہیے۔قائداعظم نے بھی اچھے طالب علموں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔پاکستان کی ترقی کے لئے نوجوان نسل کو پہلے پڑھائی پھر سیاست وغیرہ جیسی چیزوں میں اپنا قدم بڑھانا چاہیے۔

س: نقل کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے کوئی تجویز؟
ج: میرے نزدیک نقل کے رجحان میں بڑھنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ طالب علموں کے والدین ہیں جو پیسہ کھیلا کر اساتذہ کو مجبور کرتے ہیں کہ بچے کو نقل کرنے دیں۔سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں کو نقل سے روکنا چاہئے اور دوسری طرف حکومت کو چاہئے کہ nts کے طرز پر امتحانات لئے جائیں۔

س: آپ آج اِس مقام پر ہیں اِس کا کریڈٹ کس کو دینا چاہیں گے؟
ج: یہ ایک قسم کی وبا ہے جو آج کے طالب علموں میں تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ جو طالب علم دل لگا کر پڑھتے ہیں وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے کالجوں میں فیورٹزم جیسا کچھ نہیں ہوتا اور جہاں تک میرا خیال ہے یونیورسٹی میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا


س: دن بہ دن گورنمنٹ کالجز اور اسکولز ویران ہوتے جارہے ہیں اور نجی تعلیمی ادارے ترقی پارہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج: گورنمنٹ کالجز کی ویرانی کی ایک وجہ بچوں کے والدین ہیں جو ان پر توجہ نہیں دیتے ۔ کثیر تعداد میں داخلے ہوتے ہیں پر چند طالبات کالجز میں نظر آتے ہیں جس کے باعث کالجز ویرانی کا شکار ہیں ۔ جبکہ اسکولز میں کوئی ویرانی نہیں ہوتی بچے باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ جہاں تک بات ہے نجی تعلیمی اداروں کی تو یہ بھی نیچے کی طرف جارہے ہیں ۔ کیونکہ ادھر کورس تو بہت اونچے درجہ کا استعمال کیا جاتا ہے,مگر پڑھانے والے اساتذہ اتنے قابل نہیں ہوتے_اگر یہی بچے گورنمنٹ کالجز میں باقاعدگی سے پڑھیں تو انہیں نجی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ حکومت سندھ کو بھی چاہیئے کے اس طرح خصوصا توجہ دیں کافی تعداد میں گورنمنٹ اسکولز اور کالجز میں بہتری آئی ہے جس سے نجی اسکولز اور کالجز کو بڑا فرق پڑا ہے لیکن مزید توجہ اور عملدرآمد کی ضرورت کرنی پڑے گی جس سے غریب سے غریب طر والدین باآسانی اپنے بچے کو بہترین قسم کی اعلی تعلیم دلانے میں کردار ادا کریں گے 

س: پاکستان کے مطالعہ کا شعور ہم طالبعلموں کے اندر کس طرح اجاگر کر سکتے ہیں؟
ج: پاکستان کا ماضی سمجھانے کے لیے حال پر تبصرہ کریں۔طالب علموں میں ایک قوم ہونے کا احساس بیدار کریں۔پھیلتی ہوئی لسانیت کو روکیں۔طالب علموں کو اِس بات کا احساس دلائیں کہ ہمارے بزگوں نے کتنی قربانیاں دے کر پاکستان کو آزاد مملکت کی حیثیت سے نوازا اور آج کے دور میں ہمارے اِس ملک کی کیا حالت ہو رہی ہے۔اِس بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کیلئے ان میں جذبہ محبت اجاگر کریں اور پاکستان کی آزادی سے لیکر آج تک کا صفر پڑھنا ہوگا تاکہ ان کو مطالعہ پاکستان سے ہر چیز کا جواب مل جائے گا 

س: آپ کے خیال سے طالب علموں کو سیاست میں آنا چاہیے؟
ج: طالب علوں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے بلکل کنارہ شی اختیار کر لینی چاہیے۔قائداعظم نے بھی اچھے طالب علموں کو پڑھائی کے دوران سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔پاکستان کی ترقی کے لئے نوجوان نسل کو پہلے پڑھائی پھر سیاست وغیرہ جیسی چیزوں میں اپنا قدم بڑھانا چاہیے۔

س: نقل کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے کوئی تجویز؟
ج: میرے نزدیک نقل کے رجحان میں بڑھنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ طالب علموں کے والدین ہیں جو پیسہ کھیلا کر اساتذہ کو مجبور کرتے ہیں کہ بچے کو نقل کرنے دیں۔سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں کو نقل سے روکنا چاہئے اور دوسری طرف حکومت کو چاہئے کہ nts کے طرز پر امتحانات لئے جائیں۔

س: آپ آج اِس مقام پر ہیں اِس کا کریڈٹ کس کو دینا چاہیں گے؟
ج: میں اِس کا کریڈٹ اپنے اساتذہ اور والدین کو دینا چاہوں گا جن کی بدولت میں آج کسی کو کچھ سیکھانے کے لائق بنا ہوں اور میرا تمام اسٹوڈنٹس سے بھی امید کرتا ہوں کے اپنے اساتذہ اکرام اور والدین کا احترام کریں عزت کے ساتھ پیش آئیں گے جس جگہ آج اس مقام پر ہوں وہ بھی اس مقام کی بلندی پر ہونگے