Sunday, 22 April 2018

Noorulain Revised Feature BS


میرا یہ ٹاپک 14مارچ 2018 کو تبدیل کیا گیا ،سَر سانگی کی اجازت سے۔
نورالعین انصاری
بی ایس پارٹ
رول نمبر: 80
فیچر: آج کل کی نوجوان نسل اور فیشن
تنگ چوڑی دار پتلون پر لمبی لمبی کمیزیں زیب تن کئے ، رخ پر ڈالی ہوئی کالی لمبی زلفوں کو سمیٹتے ہوئے، رنگین ناخونوں والے خوبصورت ہاتھ۔ ہائے بیڑا غرق ہو فیشن تیرا تو نے اچھے خاصے مرد کو کیا بنا دیا۔ 
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں آج کل کی نوجوان نسل اور انکے فیشن کے بارے میں۔ بلا شبہ نوجوان نسل کا تعلق مالدار گھرانے سے ہو یا تنگدست گھرانے سے وہ اپنے معیار اور حیثیت کے مطابق فیشن پرستی کی
جستجو میں لگے ہی رہتے ہیں۔
بقول مقید علی نامی شخص کے آج کل کی زیادہ تر نوجوان نسل فیشن ٹرینڈ کا نام لے کر اس طرح کے لباس زیب تن کئے گھومتے ہیں ، جیسے دوسرے سیارے کے لوگ ہماری دنیا میں ہجرت کر کے آگئے ہوں۔
جب میں نے آج کل کی نوجوان نسل اور فیشن کے بارے میں ایک زاہد نامی بزرگ محترم سے دریافت کرنا چاہا تو ان کے چہرے کے تاثرات کچھ اس طرح کے تھے گویا میں نے کئی سالوں سے ان کے دلوں دماغ میں موجود کسی پریشانی کا ذکر چھیڑ دیا ہو۔بقول محترم کے نوجوان نسل نے فیشن کو صرف عجیب و غریب کپڑوں کی حدود تک ہی محدود نہیں کر رکھا بلکہ ان پر ہر چیز میں فیشن کا جنون سوار رہتا ہے۔ چاہے وہ سائیکل ہو،گاڑی ہو،موبائل فون ہو، بناؤسنگار کا سامان ہو، کھانے پینے کی اشیاء4 ہو، یا حتیٰ کہ بال تراشی کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ حجام کے پاس گئے ہوں اور آدھی بال تراشی کے بید ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے ہوں لہذا وہ آدھا سَر منڈوا کر گھومنا شروع کرنے لگے۔
آج کل کی نوجوان نسل اور ان کے فیشن کا ذکر چل رہا ہے تو میرے ذہن میں میرے پھوپھا عبدالقیوم خان کے ساتھ حیدآباد کے ایک شادی حال میں پیش آنے والا واقعہ یاد آیا تو سوچا آپ سب کو بیان کرتی چلوں۔ آج سے تقریباً ساتھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ پھوپھا سے تقریب میں چھوٹے بالوں والی پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی سیدھے ہاتھ میں مردانہ گھڑی پہنے ایک لڑکی ملنے آئی ،آتے ہی اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ، پھوپھا نے لڑکا سمجھ کر ہاتھ ملا یا اور گلے لگانے آگے بڑھے کے برابر میں موجود ان کے بیٹے نے انہیں اس بات سے آگاہ کیا کے وہ لڑکی ہے۔ محض اس صورتِ حال کے بعد ان کا صرف یہی کہنا تھا کہآگ لگے ایسے فیشن کو جس میں نوجوان کی جنس کو پہچاننے کے لئے اپنی بینائی پر زور اور دماغ پر غور ڈالنا پڑے، کہ آیا مرد ہے یا عورت۔
جب میں نے بلال نامی لمبی زلفوں والے فیشن ایبل نوجوان سیمعلوم کیا کے انہیں فیشن ٹرینڈ کی پیروی(follow) کر کے کیسا محسوس ہوتا ہے تو بلال کا کہنا تھا کہ فیشن کر کے اس کے دل کو سکون اور روح کو قرار ملتا ہیاور فیشن کر کے گھومنے سے لوگ انہیں دیکھ کر کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ جب کے مجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ انہیں عجوبا سمجھ کر دیکھتے ہوں گے نہ ان کی طرف مائل ہوتے ہوں گے۔
حتٰی کیبڑھے بڑھے برانڈز بھی فیشن پرستی کا نام دیکر اپنے ماڈلز کو اس طرح کے کٹے ہوئے، پھٹے ہوئے کپڑے زیب تن کروا کر والک کرواتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے کچھ دیر قبل ہی ان کے ماڈلز کا مقابلہ کسی شیر یا چیتے سے ہوا ہو ان کے کپڑوں کا یہ حال ان جانوروں نے ہی کیا ہو جس کے بعد انہیں سیدھا ریمپ پر ماڈلنگ کرنے بھیج دیا گیا ہے۔ 

Unaiza Profile BS


انجینئیر عبدل کریم قریشی
نام:عنیزہ زاہد
جماعت:BS PART 3
رول نمبر 2K16\MC\112:
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں شروع دن سے ہی ایک بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنے گا اور کس طرح اپنے ملک کے لیئے خدمات سر انجام دے گا اور تب ہی سے وہ معصوم ذہن اپنی ایک خواہش لیئے بڑا ہوتا ہے کوئی ڈاکٹر تو کوئی انجینیئر کوئی فوجی تو کوئی پائلٹ بننے کے خواب کو پورا کر نے کے عمل میں جُٹ جاتا ہے لیکن شاید اب یہ سوال تبدیل ہو کر کچھ یوں بن گیا ہے کہ کیا آپ مستقبل میں اس خواب کو پورا کرنے کی سقط رکھ سکیں گے؟ یعنی وہ سا رے خواب جو آپ نے دیکھے ہیں اُنھیں پورا کرنے کی قیمت جسے ہم عام طور پر رشوت کہتے ہیں ،ادا کر سکیں گے؟
کچھ ان ہی سوالات کی جیتی جاگتی مثال، سہون شریف سے تعلق رکھنے والے کریم نامی شخص ہیں جنہوں نے بچپن سے انجینئیر بننے کا خواب دیکھا. اپنی ابتدائی تعلیم آرمی پبلک سکول سے حاصل کرنے کے بعد میرٹ کی بنیاد پر مہران یونیورسٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ پیٹرولیم اینڈ گیس میں داخلہ لیا اور بہترین نمبروں کے ساتھ ڈگری کے حقدار بنے.
ڈگری ملنے سے قبل خاندان میں اُنھیں سب اِنجینئیر کریم کے نام سے پہچاننے لگے.جس سے اُنھیں مسلسل حوصلہ افزائی ملتی رہی.
کریم قریشی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو بچپن ہی سے اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ سمجھتے تھے کہ ا نکی خداداد صلاحیتیں ملکی مفاد کے لیئے کارآمد ثابت ہونگی مگر افسوس انکی ذہنی قابلیت کی قدر کسی نے یہ کی.
عام لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے گھر کی ذمہ داری کو بہت اچھے سے جانتے ہیں اور اُنھیں پورا کرنے کا عزم رکھتے ہیں. ابتداء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُنھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا .نوکری کی خاطر در در کی خاک چھاننی پڑی .وہ اپنے اس خاندانی لقب کو بنائے رکھنا چاہتے تھے مگر شایدوہ یہ بات بھول چکے تھے کہ یہاں نوکریاں صرف یا تو قسمت والے کو ملتی ہیں یا پھر پیسے والے کو ، یہاں ڈگریوں کی نہیں نوٹ کی قدر کی جاتی ہے.
اپنے ملک میں نوکری کی تلاش سے بیزارآکر آخرکار بیرونِ ملک کی طرف رُخ کرنے پر مجبور ہو گئے امریکہ جا کر دو سال خدمت سر انجام دینے کے بعد اپنے ملک کی یاد ستانے پراُلٹے پاؤں واپس چلے آئے انھیں اس بات کا شدّت سے احساس تھا کہ وہ ایک غیر ملکی نوکری کر کے اپنے وطن کے حقوق کو فراموش کر رہے ہیں .وطن واپسی پر اپنے مطلوبہ شعبہ میں نوکری نہ ملنے پرمجبورٍچائے خانے کا کاروبار شروع کیا.حیدرآباد، لطیف آباد نمبر ۶ میں ’چائے ہوجائے‘کے نام سے چھوٹے پیمانے پر چائے خانہ متعارف کروایاجووقت گزنے کے ساتھ ساتھ شہرت کی بلندیوں کو چھوتا چلا گیا.کریم اس بات سے بلکل انجان تھے کہ انکا یہ کاروبار دن دُگنی اور رات چگنی ترقی کریگا.
جہاں وہ اپنی زندگی سے بلکل مایوس ہوچکے تھے وہیں شاید قسمت نے ان کے لیئے کچھ اور ہی سوچ رکھاتھا.ضروری نہیں کہ جس چیز کی تمنّا کی جائے وہ آپ کے لئیے اچھی ثابت ہو .
کریم اب اپنے اس شعبہ سے کا فی مطمئین نظر آتے ہیں. انجینئیر کے لقب کے ساتھ ساتھ اب اُنھیں ’چائے والے‘کے نام سے بھی پکارا جانے لگا ہے .اُن کا کہنا ہے کہ یہ شہرت وہ شاید انجینئیر ہو کر بھی نہیں پا سکتے تھے جتنا نام اُنھوں نے اپنے اس کاروبار سے کمایا ہے. 

Saturday, 21 April 2018

Nasim Profile MA


پروفائل 
فہمیدہ فرید خان
فہمیدہ فرید خان آزاد کشمیر کی ضلع وادیء جہلم ایک چھوٹے گاؤں ہٹیاں والا میں پیدا ہوئی ، وہ پیدائشی طور پر Limb Deformityتھی۔ جسے عرف عام میں ٹیڑھے پیروں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔
لوگوں کے لئے یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا جبکہ اس کے والدین کے لئے یہ تکلیف دہ تھاانھوں نے لوگوں کے باتوں سے قطع نظر اس کا علاج کروانے کے لئے بے انتہا کوششیں کیں تا کہ وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکے اس کے پیروں کے کئی میجر آپریشنز ہوئے مگر تمام آپریشن ناکام ہوئے وہ نا صرف کھڑی ہوسکتی تھی نہ ہی زندگی بھر کے لئے چل سکتی تھی ۔دوسال کی عمر میں اس کی اسکولنگ ا سٹارٹ ہوئی اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھااس معذوری کے باوجود بھی M.A انگلش اور اکنامکس میں ماسٹر کیا بلکہ بی، ایڈ بھی کیا۔ جب اس کی پریکٹیکل لائف کا آغاز ہوا تو لوگوں کے بے رحم اور ظالمانہ چہروں پر سے نقاب اُترے تب اس نے جانا کہ جسمانی معذور لوگوں کے لئے صحت مند لوگوں کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں اس کی ذاتی شناخت ، تعلیم ، ہنر، ذہانت، سب جسمانی معذوری کے سبب داؤ پر لگ گیایہ سب اس کے لئے بہت تباہ کن ہوتا اگر اس کی فیملی اور دوست اس کی مدد کے لئے آگے نہ آتے۔ انھوں نے ہر طرح سے اس کی حوصلہ افزائی کی اسی وجہ سے وہ ایک بار پھر پر جوش ، بلند نظر ، بلند حوصلہ، شخصیت بن سکی۔
یہاں تک کہ اب وہ ایک موٹیویٹر اسپیکر اور سوشل ورکر ہے اب وہ لوگوں کو زندگی کا مثبت رخ دکھاتی ہے وہ اپنے اسکول کے زمانے میں اپنے دوستوں کے لئے تر جمہ نگاری کرتی تھی تو اسکے بھائی نے اس کے لئے ایک بلاگ تخلیق کرنے کا سوچا اب وہ ایک FFKبلاگ ایک مقبول ویب شائٹ ہے سیاحوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے۔
اب فہمید فرید خان جسمانی معذوری ، تعلیم اور ماحول پر آرٹیکلز لکھتی ہیں ایک رائٹر ، شاعرہ ، سماجی کارکن، سوشل موبلائزر ، موٹیوشنل اسپیکر، ترجمہ نگاراور ٹور کنسلٹنٹ ہیں ،اپنے فارغ اوقات میں ناولز اور کتابیں پڑھتی ہیں۔ نیٹنگ اور کروشیہ، بُنائی بھی کرتی ہیں ۔
جسمانی معذوری کے باوجود زندگی کے نئے مقابلوں کے لئے پر عزم اور مظبوط ہیں زندگی کے روشن رخ کو دیکھتی ہیں اور اپنے رب پر پختہ عقیدہ ہے کہ وہ اسے گرنے نہیں دے گا۔

Nasim Interview MA


نسیم اختر مغل 
M.M.C/2K18/27 انٹرویو
موسیقی ایک بڑا علم ہے اور سیکھے بنا ہم نہیں گا سکتے۔تنویر آفریدی
تنویر آفریدی موسیقی کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ گائیگی کے پیشے میں بھی انہوں نے طبع آز مائی کی ، بنیادی طور پر وہ میوزک کمپوزر ہیں ۔ ان کی مشہور البم "گڈی " تھی اور بسنت کے حوالے سے ان کا ایک گانا " گڈی میری " بھی کافی عرصہ مقبول رہا۔ باقی ان کی زندگی کے متعلق اس انٹر ویو میں جانتے ہیں ۔
س: اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق بتائیں ، بچپن کہاں اور کیسا گزرا؟
جواب: میری جائے پیدائش حیدرآباد سندھ ہے۔ ریلوے کالونی سے ملحقہ کچی آبادی میں ہمارا ذاتی مکان تھا۔ ٹرین جب اسٹیشن پر رکتی تو ہماری چا ر پائیاں لرز اٹھتیں۔ ابا کی محدود آمدنی تھی جس سے سب بچوں کو پالا۔ ابتدائی تعلیم حالی روڈ پر واقع گورنمنٹ اسکول سے حاصل کی گول بلڈنگ کے قریب اسکول سے میٹرک مکمل کیا۔ اس بعد ہم حیدرآباد سے کراچی شفٹ ہو گئے تو باقی تعلیم کراچی سے مکمل کی۔ بچپن بہت خوبصورت تھا ۔ سادہ طرز زندگی، نہ انٹر نیٹ نہ فیس بک نہ موبائل نہ موبائل چھیننے والے، کشادہ سڑکیں ٹھنڈی ہوائیں۔ سب کھلے دل سے ایک دوسرے سے ملتے تھے۔
س: گائیگی کے پیشے میں کب اور کیسے آئے؟ شوق یا اتفاقیہ؟
جواب: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتفاقیہ آئے وہ پھر اپنے گانے گاتے بھی خود ہیں سنتے بھی خود ہیں میرے نزدیک موسیقی ایک بڑا علم ہے۔ تو میں با قاعدہ اس طرف آیا۔ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن پر چائلڈ آر ٹسٹ تھا ۔آوازیں بدل کر پیروڈی کر لیتا تھا ۔موسیقی میٹرک کے بعد کراچی آکر سیکھی۔ 
س: کن استادوں کے زیر تربیت رہے؟
جواب: اصل حقیقت تو یہ ہے کہ میں گلوکار مشہور تو ہو گیا میری ترتیب کمپوزر کی ہے۔ استاد نثار بزمی میرے استاد ہیں استاد ذوالفقارنے مجھے ہارمونیم کی ترتیب دی تھی ۔ مسعود خان شیلو بھائی سے بھی میں نے کافی سیکھا۔
س: اب تک کتنے البمز ریلیز ہو چکے ہیں؟
جواب: ایک لڑکا آوارہ ، جٹی لے گئی میرا دل ، گڈی ۔
س: شوبز انڈسٹری کے دو بڑے مراکز کراچی اور لاہور ہیں ، تو آپ کے خیال میں حیدرآباد جیسے نسبتاً چھوٹے شہر سے آنے والے فنکاروں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟
جواب: دیکھیں جی پوری دنیا میں جو بھی آرٹسٹ ہوتا ہے اسے آگے بڑھنے کیلئے اپنا ٹاؤن چھوڑنا ہی پڑتا ہے ۔ چھوٹے شہروں میں ذرائع ابلاغ محدود ہوتا ہے۔ نام بنانے کیلئے محنت اور انتظار تو کرنا پڑتا ہے مشکلات ہر جگہ ہوتی ہیں۔ لیکن اپنے کام کو اچھے طریقے سے پروموٹ کر کے آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔


س: آواز اور سر قدرتی تحفہ ہیں یاکوشش کر کے سیکھی جا سکتی ہیں؟
جواب: آواز قدرت کا تحفہ ہوتی ہے ، باقی سر اور لے کو سیکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کی آواز اچھی ہے تو آپ ریاضت سے اچھے معیار پر لاسکتے ہیں سریلا ہو نا بھی تربیت سے مشروط ہے۔
س: موسیقی یا گائیگی کے فروغ کیلئے پاکستان میں کیا کام ہو رہا ہے؟
جواب: دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ پاکستان میں موسیقی کیلئے کوئی کام نہیں ہو رہا، اس میں بہت سے عوامل ہیں ٹی وی انٹر ٹینٹمنٹ چینل کا سارا رجحان ڈراموں کی طرف ہو گیا ہے۔ سارا نظام کارپوریٹ سیکٹر کے ماتحت ہو گیا ہے ۔ پچھلے پندرہ سالوں میں 20 پاکستانی گانے بھی ہٹ نہیں ہوئے۔
س: پاکستان میں گلوکاری کا شعبہ جس طرح تنزلی کا شکار ہو چکا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بطور ذریعہ معاش اس کو پروفیشن بنانا درست ہے؟
جواب: اس شعبے میں تنزلی ہو چاہے لاء اینڈ آرڈر ہو ہمارا تو یہی شوق ہے یہی اوڑھنا بچھونا ہے جن کو موسیقی سے محبت ہے، شوق ہے وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔
س: آپ کو اپنے آبائی شہر حیدرآباد میں کام کرنے کا موقع ملے تو کیا کرنا چاہیں گے؟
جواب: مجھے اپنے آبائی شہر حیدرآباد کی خوشبو نہیں بھولتی، حیدرآباد علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ اب بھی ہم جو بھی کر رہے ہیں جہاں بھی کر رہے ہیں اپنے شہر حیدرآباد کا نام روشن کر رہے ہیں اور آئندہ یہاں آکر بھی کام کرنا چاہیں گے۔
س: نئی نسل میں سے کوئی گائیگی کی فیلڈ میں آنا چاہے تو ان کے لئے کوئی مشورہ یا پیغام؟
جواب: نئی نسل کو یہی کہنا چاہو ں گا کہ اپہلے اپنی تعلیم مکمل کریں پھر کوئی اکیڈمی جوائن کریں تربیت حاصل کریں، مکمل عبور ہوگا تو یہ کامیاب ہو سکیں گے۔

Monday, 16 April 2018

Ahmed Raza Interview MA


انٹر ویو : محمد احمد رضا 
2K18/MMC/20 
M.A (Prev)
پروفیسر ضیا ء الدین شیخ 
پرو فیسر ضیا ء الدین شیخ ۱ جنو ر ی ۱۹۵۴ء کو حیدر آباد میں پیدا ہو ئے ۔آپ کو پڑھنے کا بہت شو ق تھا گھر کے معاشی حا لا ت کی وجہ سے گھر والو ں کے انکا ر کے با وجو د آپ نے ریا ضی(Maths) میں ما سٹر ز کیا اور کمیشن پاس کر کے لیکچررلگے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب آپ ایک پراؤیٹ کالج میں پڑھا رہے ہیں ۔ 
سوال ۔ آپ نے کس طر ح تعلیم حاصل کی اپنے دور طالب علم کے بارے میں بتائیں ؟ 
جوا ب ۔ میرا تعلیمی دور بہت مشکل تھا اور میرے پا س کتا بیں خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہو تے تھے ۔ اسکول سے سیدھا 1 بجے دکا ن پر جا تا تھا ۔ وہا ں سے ۸ بجے فارغ ہو تاتھا ۔ پھر اپنی جما عت اور دوسری جماعت کے ساتھیو ں کو ٹیو شن پڑھا تا تھا۔ دکا ن سے سے جو پیسے ملتے تھے وہ والد صاحب رکھ لیتے تھے ۔اور جو ٹیو شن پڑھا کر تھو ڑے بہت پیسے آتے تھے وہ اپنے تعلیمی اخرا جا ت پو رے کر نے میں لگا دیتا تھا ۔ میں نے۱۹۷۰ء میں گور نمنٹ ہائی اسکو ل حیدر آبا د سے میٹرک کیا ،یہاں تک کے میری میٹر ک کی امتحا نی فیس بھی میرے دوستو ں نے جمع کر وائی، گور نمنٹ کا لج کا لی مو ری سے پری انجینئرنگ میں انٹر اور گریجو یشن (B.Sc )کیا اور پھر ۱۹۷۶ء میں یو نیو ر سٹی سند ھ سے ریا ضی (Maths)میں ماسٹرز کیا ۔ 
سوال ۔دیگر سبجیکٹ کے بجائے آپ نے ریا ضی(Maths) کو اپنا پیشورانہ سبجیکٹ کیو ں چنا ؟
جوا ب ۔جیسا کہ میں نے آپکو بتا یاکہ میرے گھر کے معا شی حا لات ٹھیک نہیں تھے ۔ تو میں ایک پنساری کی دکان پر کا م کر تاتھا مجھے وہا ں بھی جا نا ہو تا تھااور ریاضی(Maths) وہ سبجیکٹ ہے جس میں تحقیق (پریکٹیکل) نہیں ہوتے تو اس سے میرا وقت بچتا تھا اس لئے میں نے اسے اپنا پیشورانہ سبجیکٹ بنا نے کا فیصلہ کیا ۔ 
سوال ۔ آپ کا بچپن کیسا تھا اور آپ بچپن میں کیا بننے کی خوا ہش کر تے تھے ؟
جوا ب ۔ جس عمر میں بچے کھیلتے کو د تے ہیں اس عمر میں میں ایک دکا ن پر کا م کر تا تھا ۔ پڑھائی کو بہت شو ق تھا مگر والد صا حب کہتے تھے (کما کر لا کر دو پڑھا ئی کو چھو ڑ دو)۔ والد صاحب کی بلا وجہ کی مار پیٹ رو ک ٹو ک اور سختی کی وجہ سے سارے شوق مر گئے تھے بس پیسے کما نے کی خوا ہش رکھتے تھے ۔ پر اس دور کے لحاظ سے والد صاحب صحیح تھے کیونکہ آج کے دو ر میں اور اس دور میں بہت فر ق ہے۔
سوال ۔آپ کتنا عرصہ تعلیمی پیشے سے وابستہ رہے ہیں؟
جوا ب ۔میں ۲ فر وری ۱۹۷۷ء کو گورنمنٹ نو ر محمد ہائی اسکول حیدر آباد میں ریا ضی (Maths) کو ٹیچر لگا اور وہیں پڑھا یا کر تا تھا ۔پھر ۱۹۸۱ء میں کمیشن کا امتحا ن پا س کیا اور ۸مئی ۱۹۸۲ء کو گور نمنٹ کا لج آف ٹیکنولو جی حیدر آباد میں ریا ضی (Maths) کا لیکچرر لگا ۔اور پھر وہیں سے پرو فیسر ریٹائرڈ ہو ا۔ 
سوال ۔ آپ کے کتنے بچے ہیں اور وہ کیا کر تے ہیں ؟
جوا ب ۔ میرے ۵ بچے ہیں چا ر بیٹیا ں اور ایک بیٹا ۔بیٹا انجینئر ہے اور دو بیٹیا ں شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹی پرائیویٹ اسکو ل میں پڑھا تی ہے اور دوسری پرا ئیویٹ کمپنی میں کام کر تی ہے ۔ 
سوال ۔ریٹائر منٹ کے بعد آپ کی کیا مصروفیا ت ہیں؟
جوا ب ۔زیا دہ تر گھر میں ہی رہتا ہو ں ۔صبح ایک پرا ئیو یٹ کالج (دی سپریریئر کالج آف سائینس ) میں کلا س لینے جا تا ہو ں اور شا م میں ٹیوشن پڑھا تا ہو ں ۔
سوال ۔تعلیم کے نا م پر جو کا رو بار کیا جارہا ہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟
جوا ب ۔اصل میں ہمارے معا شرے میں یہ جو معا شی دوڑ چل پڑی ہے اب اس میں تعلیم بھی شامل ہے کیونکہ تعلیم بھی اب بکنے والی شہ ہو گئی ہے اسکو ل کھل رہے ہیں پر ان میں تعلیم کا معیا ر نہیں ہے سلیبس (Syllabus) غیر ضروری ہے ۔ جنہیں پڑھنے سے انسا ن کی ذہانت بڑھنے کی بجا ئے اور کم ہو تی ہے اور استاتذہ بھی غیر معیا ری ہیں۔گور نمنٹ پرائمری اسکو ل کا تو بہت برا حال ہے وہا ں سفارش پر ایسے استا د لگائے جا رہے ہیں ۔ جنہیں اپنا نا م تک نہیں لکھنا آتا تو وہ تعلیم کیا دینگے اس لئے استاتذہ کی غیرحاضریاں ہوتی ہیں ۔ 
سوال ۔تعلیمی ادارو ں میں پڑھنے والے طالب علم اور نو جوا نو ں کے لئے آپ کاکیا پیغا م ہے ؟
جوا ب ۔تما م طالب علمو ں کا چا ہیے کہ زیا دہ سے زیا دہ تعلیم حاصل کریں اور اپنی تعلیمی استطاعت کو بڑھائیں محنت کریں کیو نکہ محنت کبھی ناکام نہیں ہو تی کا میا بی ضرو ر ملتی ہے۔ آپس میں اتحا داور اتفا ق اور بھا ئی چارے سے رہیں ۔ آپنے ما ں با پ ، بہن بھائی اور ہر انسا ن سے وفا کریں ۔

Ahmed Raza Profile MA






پروفائل : محمد احمد رضا 
2K18/MMC/20 
M.A (Prev)
خاتو ن ٹیکسی ڈرائیو ر 
حمت مر دا ں مدد خدا اگر انسا ن چا ہے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں ۔ لطیف آباد کے رہا ئشی بشیر اً نا می ایک خاتو ن جو تقریبا تیس (۳۰) سالو ں سے سو زوکی چلا تیں ہیں ۔ 
بشیراً 1950 میں حیدر آباد میں پیدا ہو ئی کم عمری میں ہی شا دی ہو گئی شو ہر کا نا م محمد بنا ر س صدیقی تھا وہ پولیس میں نو کری کر تے تھے ان کے پانچ (۵) بچے ہیں ۔ 
شادی کے کچھ سا لو ں بعد ہی بشیراً کے شو ہر جوا نی میں ہی انتقال کر گئے ۔عدت پو ری کر نے کے بعد محنت مزدوری شرو ع کر دی کیو نکہ بچے چھو ٹے تھے اور سہا را دینے والا کوئی نہ تھا ۔ 
بشیراًنے محنت مزدوری کر کے پیسے جو ڑ جو ڑ کر اپک پرا نی سو زوکی خریدی اور اسے ٹیکسی کی طر ح استعمال کر کے اپنے بچو ں کو پڑھا یا ، جوا ن کیا پھر شادیا ں کی ۔ 
بشیر اً کے پانچ بچے ہیں (۳) تین بیٹے اور (۲) بیٹیا ں ۔ایک بیٹا پو لیس میں نو کری کر تا ہے دوسرا انہیں کی طر ح سو زوکی چلا تا ہے ، اور تیسرا گھر میں رہتا ہے اور دونو ں بیٹیا ں شادی شدہ ہیں ۔
بشیراً کا کہنا ہے کہ کبھی کسی سے مانگ کر خر چ نہیں کیا جو کما یا اسی سے اپنے بچو ں کو کھلا یا اور پہنا یا ، میں نے اپنے بچو ں اور سب نو جو انو ں کو یہی نصیحت کر تی ہو ں کہ جب اﷲ پا ک نے ہا تھ پا ؤ ں سلا مت رکھے ہیں تو محنت کرو محنت میں شر م نہ کر و ۔ ایک نجی این جی او (NGO) نے ان کے محنت اور لگن کوسر احہ اور انہیں ایوا رڈ پیش کیا ۔ 
بشیراً کے پیشے سے تعلق رکھنے والے چنو بھا ئی کا کہنا ہے کہ میں انہیں (۳۰)تیس سالو ں سے جا نتا ہوں یہ شرو ع شروع میں حیدر آباد سے کو ٹری کی سواری اٹھاتی تھیں اس کے بعد سے ابھی تک یہ لطیف آباد سے حیدر چوک تک کی سواری اٹھا تی ہیں ۔یہ انتہا ئی خدار خا تو ن ہیں اور سب سے اخلا ق سے پیش آتی ہیں ان کی اسی محنت اور لگن کی وجہ سے آج اﷲ پاک نے انہیں تین سوزوکیو ں کا مالک بنا دیا ہے ۔ 

Sunday, 15 April 2018

Zaira Article BS


Zaira ansari
BS partlll2k16-121-mc
Assigned by sir sohail sangi
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری :
حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری حیدرآبا د میڈیا میں بے روزگاری : سندھ کے دوسریبڑے شہر حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہیڈ آفسز گنتی کے موجود ہیں جس میں سندھی پرنٹ میڈیا روزنامہ کاوش ، عبرت ، سندھ ایکسپریس کے ساتھ ساتھ اردو میڈیا سے وابستہ روزنامہ پاسبان ، سفیر ، سرمایہ ، ودیگر ہے ہیڈ آفسز تو ہیں لیکن کام کرنے والوں کو مالکان اجرت ان کی ماہوار 7سے 10 ہزار روپے تک دیتے ہیں اور فوٹوگرافرز اور فیلڈ رپورٹرز کو 4 سے 5 ہزار روپے تک بڑی مشکل سے ملتے ہیں اور نیوز ایڈیٹر ، پروف ایڈیٹر ، اور ایڈیٹر کی تنخواہ صرف سندھی پرنٹ میڈیا کو ہی ملتی ہے اور اردو پرنٹ میڈیا کے دفترز میں ایک ہی افراد تینوں پوسٹوں پر اپنا فرض سرانجام دیتا ہے جس کی تنخواہ 10ہزار روپے سے زائد نہیں ہے اور پرنٹ میڈیا کے مالکان صرف کام کرواتے ہیں ان کو عیدالفطر یا عیدالاضحی یا کسی بھی قسم کے خوشی کے تہواروں میں بونس تک نہیں دیتے ہیں اور کسی بھی ورکرز کی انشورنس یا ویج بورڈ نہیں کرواتے ہیں دوسری طرف بات کی جائے الیکٹرانک میڈیا کے دفتر ہیڈ آفس کی تو وہ حیدرآباد میں ایک ہی ہے جو سندھی نیوز چینل مہران سے موجود ہے جہاں پر تمام اسٹاف کو بھی تنخواہوں کا رونہ روتے ہوئے نظر آتے ہیں کیمرہ مین کی تنخواہ 12سے 15 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے اور فلیڈ رپورٹر کو 7 سے 10 ہزار روپے بڑی مشکل سے دیئے جاتے ہیں مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حیدرآباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بیورو دفترز تقریبا 50 کے لگ بھگ موجود ہیں جن کی تنخواہیں تو ملنے کی دور بات آفس تک کرایا ، پیٹرول ، موبائل فون بیلنس اور انٹرنیٹ سروس بھی بڑی مشکل سے نکالتے ہیں کیونکہ مالکان صرف اپنی پروڈکٹ ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس پروڈکٹ کو استعمال جائز یا ناجائز کرنا انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے کچھ بات یہ کی جائے کے وہ فلیڈ رپورٹر یا کیمرہ مین اپنی تنخواہ بلیک میلنگ کے راستے سے نکالتے ہیں باعث نیوز نشر کرنے کے بہانے سے پیسے بٹورتے ہیں اس کے علاوہ ایک حقیقت پسند بات کی جائے تو وہ ایک کڑوی تو ہے لیکن سچ اور حقیقت پر مبنی ہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ %80 پرسن حیدآباد پریس کلب میں ممبر شپ اور عارضی انٹری ہولڈر کے طور پر روزانہ کی بنیاد پر مظاہرین اور پریس کانفرنس کی کوریج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بدقسمتی سے 50 پرسن فیلڈ رپورٹرز کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز ان مظلوم متاثرین افراد کی کوریج کی نشر یا شائع کرنے کے پیسے 200 سو روپے سے 1000 تک وصول کرتے ہیں اور کلب کے اندر پریس کانفرنس کے پیسے چار ہزار روپے وصول کر کے پھر جاری کی جاتی ہے حیدرآباد پریس کلب ایک اسی واحد جگہ ہے جہاں ہر الیکٹرونک میڈیا سے منسلک لوگ موجود ہے کیوں کہ یہ ایک واحد ادارہ ایسا ہے جہاں کسی بھی بڑی شکسیت کی آنے کی معلومات سے لیکر حادثات تک کی معلومات سب سے پہلے حیدرآباد پریس کلب کو ہی وصول ہوتی ہے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کے محکمہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ فیلڈ رپورٹر کیمرہ مین اور فوٹوگرافرز کو اپنے محکمے میں رجسٹرڈ کرتی ہے اور ان کا فیلڈ ورک کارڈ بھی ہر سال جاری کیاجاتا ہے جس سے پاکستان ریلوے ، پاکستان ایئر لائن جیسی سفری سہولیات 50سے 75 پرسن حاصل کی جاتی اور تو اور وزیر اعظم ،صدر ، وزیر اعلی اور گورنر کے علاوہ وزیر مشیر اور بیورو کریٹ افسران سے باآسانی ملاقات کی جاتی ہے ان چیزوں کے باوجود چند فیلڈ رپورٹرز نے اپنی تنکھا کے لیئے یونین بنا رکھی ہے مگر ان کی بھی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور اس معاملے کو حال کروایا جائے تاکہ نوجوان میڈیا میں آگے آسکے۔