Saturday, 14 April 2018

Mahnoor Interview BS


ہمارے نوجوانوں کو انسان ذات کی بھلائی کیلئے کام کرنا ہوگا۔ نواب کاکا 
ماہ نور چنا ۔ بی ایس (III )۔44







پروفیسر ڈاکٹر نواب کاکا 14 فروری 1978 کو تحصیل سعید آباد ضلع مٹیاری ک گاؤں ابراہیم کاکا میں پیدا ہوئے ۔ آئیں علم و ادب کے حوالے سے بات چیت کرتے ہیں۔
سوال: سر آپ اپنا مختصر تعارف کروائیں ؟
جواب میرانام نواب کاکا ہے ۔ میرا جنم میرے آبائی گاؤں نواب ابراہیم کاکا میں 1978 کو ہوا۔ میں سندھ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور مرزا قلیچ بیگ چےئر کا ڈائریکٹر بھی ہوں ۔
سوال : اپنی تعلیمی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کریں ؟
جواب : میں نے اپنی تعلیم آپ کی طرح اپنے ہی گاؤں کے اسکول سے حاصل کی اس کے بعد بارہویں جماعت کے امتحان ہالا سے پاس کرکے سندھ یونیورسٹی سے سندھی شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری اپنے نام کی ۔ 2005میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد کراچی و دیگر سندھ کے کالیجز میں بطور استاد بھی فرائض سر انجام دے چکاہوں ۔
سوال : سر شاعروں ، ادیبوں کے شعبے یعنی سندھی شعبے کی طرف آپ کا رحجان کیسے گامزن ہوا؟
جواب : دیکھیں ادب سے میرا فطری طورپر لگاؤ رہا تھا ۔ مڈل کلاس سے لے کر ادبی دنیا تک کے سفر میں اپنے والد صاحب سے بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ اس وقت شاہ صاحب کی غزل (بیت) پڑھتے تھے تو میرے شوق میں اضافہ ہوا اور اسی وقت سے شاعری لکھنا شروع کردی ۔مختلف رسالہ وغیرہ پڑھنے کی دلچسپی بھی بڑھ گئی اور اس وقت سے لے کر میری خواہش تھی کہ سندھی ادبی شعبے میں پڑھنے اور کام کرنے کا موقع ملے ۔
سوال: سر آپ کے پیش نظر اد ب کیا ہے ؟ اس حوالے سے آگاہ کریں ۔
جواب : ادب کی وصفیں دنیا کے کتنے ہی فلاسفروں ، محققوں نے د ی ہیں ۔ کچھ نے ادب کو زندگی کی تفسیر بتایا ہے ۔ علامہ آئی آئی قاضی کے مطابق، ادب چھوٹے بچے کو چلنا سکھانے والے عمل جیسا مفہوم رکھتا ہے ۔ میرے نقط نظر سے سیکھنے اور سکھانے والے عمل کو ہم ادب کا نام دے سکتے ہیں ۔ ادب انسانی زندگی کی عکاسی و ترجمانی بھی کرتاہے۔ ادب کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے مسائل پے نظر رکھ کر ان کا حل بتانا ہے ۔ انسانی جذبات، احساسات، اور غم و خوشی کیا ہے اس کی آگاہی ادب سے ملتی ہے ۔ 
سوال : ادب کے حوالے سے میرا اگلا سوال :یہ ہوگا کہ آپ سندھی ادب کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب : دیکھیں سندھی ادب کے مختلف دور گزرے ہیں ۔ کلہوڑوں کا دور سندھی ادب کے عروج کا دور سمجھا جاتا ہے ۔ جس میں کئی کلاسیکل شاعر رونما ہوئے ۔ اس دور میں شاعری کی صنفوں وائی ، غزل وگیتوں کو عروج حاصل ہوا۔ اس کے بعد انگریزوں کا دور آیا جو جدید ادب کے حوالے سے بنیادی دور ہے ۔ جس میں مرزا قلیچ بیگ بھی شامل ہیں جنہوں نے سندھی ادب کی جدید فکر کا بنیا رکھاہے ۔اس کے بعد موجودہ دور ہے جس میں کئی مسائل درپیش ہیں ۔ کئی ایسے مصنف آئے ہیں جن کی لکھائی میں کوئی تخلیقی صلاحیت نہیں ۔ 
سوال : سر اگر سندھی ادب کی بات کی جائے تو آپ کس شاعر سے متاثر رہے ہیں ۔
جواب : شعراء کی بات کی جائے تو سارے شاعر لطیف، سچل ،سامی ، شیخ ایاز اور بھی بہت سارے ہیں ۔ لیکن اگر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی بات کی جائے تو انہوں نے تمام زندگی کے پہلوؤں کو پیش کیاہے ۔ ان کی شاعری میں خوبصورتی اور سچائی بھی سمائی ہوئی ہے ۔
سوال : سر دیکھا جائے تو کلاسیکل شاعری اور مو سیقی میں آج کل کمی نظر آرہی ہے اس کی وجہ کیاہے؟
جواب: کلاسیکل شاعری میں کمی اتنی نہیں آئی ، ہمارے کئی فنکاروں نے شاہ اور دوسرے شاعروں کو اپنے سروں کی زینت بخشی ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے افراد کی پسند تبدیل ہوچکی ہے آج کل کے لوگ کلاسیکل شاعری کو نہیں سنتے ۔ 
سوال : آپ نے اس وقت تک کتنے ادبی تحفوں کو سنبھالا ہے ؟ 
جواب : میری کتاب ’’ سندھی کہانی اور کردار ‘‘ کے نام سے 2017 میں چھپی ہے ۔ اور دیگر میرے پی ایچ ڈی کے تھیسز بھی ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف تحقیقی کھوج جرنلوں اور مقالوں کو شائع کیا گیا ہے اس طرح اگر ان کو جوڑا جائے تو چار پانچ کتاب چھپ سکتے ہیں ۔
سوال : شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ چےئر کے بارے میں تھوڑی آگاہی دیجئے ۔
جواب: دیکھئے بنیادی طور پر ان چےئرز کاکام اس شخص کے کیے ہوئے کام کو آنے والی نسل تک پہنچا نا ہے ۔ ایسے ہی ہمارے مرزا قلیچ بیگ اپنی شخصیت میں ایک ادارہ تھے جنہوں نے علم کی شاخ پر کام کیا ۔ یہ چےئر انہی کے کام محفوظ کرنے کے لیے ہمارے اس وقت کے وائس چانسلر مظہر الحسن صدیقی کی صدارت میں 2008 میں بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے ڈائریکٹر محمد قاسم بگھیو تھے ۔ دسمبر 2017سے یہ چارج میرے پاس ہے ۔ اس وقت تک میں نے تین سیمینار کروائے ہیں جبکہ چار کتاب چھپنے کے لیے بھیجے ہیں ۔
سوال : ہمارے نوجوانوں یا پڑھنے والوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ۔ 
جواب : ان کے لیے پیغام ہے کہ اپنے کام میں مخلص رہیں ، اساتذہ سے سچا عشق اور چاہ پیدا کریں ۔ ہمارے بڑوں سے ملے ہوئے اداروں کی باقائدہ حفاظت کریں ۔ انسان ذات سے بھلائی کریں ۔ ان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ خود بیدارہوں، نیکی کی راہ لیں اور اچھائی کے کامون کی طرف غور و فکر کریں ۔

Munawar Feature BS


تحریر: منور خان
رول نمبر: 2k16/MC/72
کلاس: بی ایس پارٹ3

فیچر:
سینی موش 3D سنیما ہاس
انٹرٹینمنٹ انسانی زندگی کا لازمی مشغلہ ہے۔ انسان کی زندگی جب مشکل حالات، مصائب اور پریشانی سے دوچار ہوتی ہے تو اس کا سامنا کرنے کے لئے اس کے پاس مضباط اعصاب کا ہونا بہت لازمی ہے اور انٹرٹینمنٹ اعصاب کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انٹرٹینمنٹ کی بہت ساری اقسام ہیں جن میں سنیما گھر بھی انٹرٹینمنٹ حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
1947 کی جنگِ آزادی کے بعد لاہور پاکستان کے سنیما گھروں کا مرکز تھا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تاریخ کی سب سے پہلی فلم تیری یاداں ہے جو کہ لاہور کے بربت تھیٹر میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری نے عروج حاصل کرنا شروع کردیا اور پاکستان میں سنیما گھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ آج پاکستان کے تقریبا ہر شہر میں سنیما گھر موجود ہیں جہاں پر لوگ فلم دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے شہر حیدرآباد میں بھی کافی سنیما گھر موجود ہیں جن میں سب سے نمایاں مقام سینی موش 3Dسنیما ہاس کو حاصل ہے۔ یہ حیدرآباد کا سب سے پہلا 3D سنیما ہاس ہے جو کہ پر کشش آٹو بھان روڈ پر واقع ہے۔ شہر حیدرآباد میں کافی سنیما گھر ہیں مگر سینی موش سنیما گھر کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ کی نت نئی فلم سب سے پہلے سینی موش میں ہی دکھائی جاتی ہیں۔ سینی موش دوسرے سنیما گھروں سے اس لئے نمایاں ہے کیوں کہ یہاں کو ماحول اچھے معیار کا ہے۔ یہاں نہ صرف امیر گھرانے کے لوگ فلم دیکھنے جاتے ہیں بلکہ مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ سینی موش میں تین قسم کے ٹکٹ فراہم کیے جاتے ہیں جن میں سب سے نچلے درجے کی ٹکٹ سلور ، اسکے بعد گولڈ اور سب سے نمایاں پلاٹیننیم ہوتی ہے اور ان ٹکٹ پر ان کے رنگ اور درجے کے حساب سے الگ الگ ریٹ پر فروخت کیے جاتے ہیں جب کہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے طالبِ علموں کی خاص تعداد سینی موش کا رخ کرتے ہیں۔
سنیما ہاس میں فلم دیکھنے کی خاص وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو بھی نئی فلم ریلیز ہوتی ہے اس کا ایچ ڈی پرنٹ صرف سنیما گھروں میں ہی دستیاب ہوتا ہے اسی لئے ہر رنگ و نسل اور ذات پات کے لوگ بلا کسی تفریق کے ساتھ بیٹھ کر فلم کو دیکھ کر محظوظ ہوتیہیں۔

Munawar Interview BS


تحریر : منور خان 
رول نمبر : 2K16 / MC / 72
کلاس : بی ۔ایس پارٹ ۳

انٹرویو :-
الحاج اشرف بن محمد

الحاج اشرف بن محمد جوکہ آل سندھ پرا ئیویٹ ایجوکیشن ایسوسی ایشن کے صدر ہیں ۔ انکو انکی تعلیمی صلاحیتوں اور انسانی خدمات کی وجہ سے کئی اعزاز ات سے نوازا جا چکا ہے ۔اس کے علاوہ یہ ٹیچر ز کے حقوق کیلئے گسٹا یونین میں بھی کافی محترک رہے ہیں اور ہر محاظ پر ٹیچر ز حقوق اور ایجوکیشن میں مثبت کردار ادا کرنے کے جذبہ سے سر شار الحاج اشرف بن محمد سے ہونے والی گفتگو سوال وجواب کی صورت میں نذر قارئین ہے۔
سوال نمبر ۱: سب سے پہلے تو آپ اپنی کو الیفیکشن کے بارے میں بتائیں اور آپ کتنے سال سے ایجوکیشن کیلئے خدمات فراہم کررہے ہیں؟
جواب: میں نے ماسٹر کیا ہے (Math)میں اور الحمد اللہ میں بتیس سال سے ایجوکیشن کے حوالے سے خدمات فراہم کر رہا ہوں 
سوال نمبر ۲: ایجوکیشن کے علاوہ انسانی حقوق کیلئے آپکی کیا خدمات ہیں ؟
جواب: ہومن رائٹس کا بھی میں (ایچ ۔آر۔ سی ۔پی)ممبر ہوں اور اس میں بھی میں نے آواز جہاں پر اٹھانی تھی اٹھائی ہے اور میں نے چائلڈ لیبر کیلئے ہر لحاظ پر آواز اٹھائی ہے (ایچ۔ آر۔ سی ۔پی ) کے پلیٹ فارم کے تحت کہ حکومت نے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کیلئے تعلیم مفت کردی گئی ہے مگر یہ بچے سڑکوں پر اور کارخانے وغیرہ میں معمولی اجرت پر کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے یہ بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں میں نے کئیں مرتبہ گورنمنٹ سے اس بات پر آواز اٹھائی ہے کہ آپ ان کو پابند کر یں کہ ان بچوں کو مزدوری کے بچائے تعلیم دلائیں ۔
سوال نمبر ۳: آپ کا ایجوکیشن کیرئیر کس مقام سے شروع ہو تا ہے ؟
جواب: ابتدا میری جو ہے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 22نومبر 1947میں ہوئی ۔اس کے بعد میں وقتاًفوقتاً پرا ئمری سے ترقی کرتا ہوا ہائرسکینڈری اسکول کای ہیڈ ماسٹر ہوکہ ریٹائرڈ ہوا۔

سوال نمبر ۴: آپکے خیال میں ایسے کیا اقدامات ہونے چائیے جس سے ہماری ایجوکیشن میں بہتری آسکے ؟
جواب: میرے خیال سے پاکستان کے ایجوکیشن سسٹم میں تمام پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکول اور کا بجز میں ایک ہی معیار کی تعلیم ہونی چائیے اور ان کا کانصاب تعلیم بھی ایک جیسا ہونا چائیے ۔ہمارے یہاں المبہ یہ ہے کہ امیر کیلئے الگ معیار تعلیم ہے اور غریب کیلئے الگ یہ امتیازی فرق ختم کرکے سب کو ایک جیسا ماحول اور معیار دینا چائیے ۔جبکہ اساتذہ کو پنکچول کر نا بھی بے حد ضروری ہے ۔

Munawar Profile BS



تحریر : منور خان 
رول نمبر : 2K16 / MC / 72
کلاس : بی ۔ایس پارٹ ۳

پروفائل :-
ابتسام شیخ 

اگر انسان کے حوصلے بلند ہوں اور ارادے نیک ہوں اور خدا پر یقین ہوں تو نا ممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔اس کی جیتی جاگتی مثال حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ابتسام شیخ کی ہے جو کہ حالیہ پی ایس ایل کے ٹھرڈ ایڈیشن میں پشاور زلمی کی نمائندہ گی کررہے ہیں ۔ ابتسام شیخ نے تمام مصائب کا سامنا کیا اور ناممکن کو ممکن کردکھایا ۔ 
ابتسام شیخ کو بچپن سے ہی کرکٹ سے جنون کی حدتک لگاؤ تھا ۔ ابتسام شیخ کا بچپن عام بچوں سے مختلف رہا ہے نہ انکی شامیں
آوار اگردی میں گزری نا کسی بڑی عادت کا شکار ہوئے ۔چھوٹی عمرسے ہی ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز بس کرکٹ ہی کو اپنا سب کچھ بنالیا۔ اپنے شوق کو پورا کرنے اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کیلئے ابتسام شیخ نے ما ما شوکت بلوچ کی اکیڈمی جوائن کری جوکہ سنی کالج میں نیٹ پریکٹس کرتے تھے ۔ایسی وجہ سے ابتسام شیخ نے تعلیم بھی وہیں سے حاصلکی یعنی سٹی کالج اور سیٹھ کمال الدین ہائی اسکول سے ابتسام شیخ نے محنت لگن اورجذبہ سے لیگ اسپن کی پریکٹس شروع کی ابتسام شیخ کا پسند یدہ بولر شین وارن ہے اسی لیے شین وارن کی طر ز پر بالنگ سیکھنا شروع کردی ابتسام شیخ کو کم عمری میں ہی لیگ اسپن بالنگ میں مہارت حاصل ہوگئی ۔ابتسام شیخ نے آفیشل کرکٹ 14سال کی عمر میں U-16ریجن کھیل کرشروع کی ۔
ابتسام شیخ کی اصل کامیابی کا اور اس وقت شروع ہوا جب ابتسام نے U-19ڈسٹرک میں ٹاپ کیا پھر ابتسام شیخ کو اس کی اعلیٰ پر فارمنس کی بدولت نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی طرف سے دیجنل کرکٹ کھیلنے کی آفر ہوئی یہ ابتسام شیخ کے کیر ئیر کیلئے ترننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔ کیونکہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں پاکستانی انٹرنیشنل کہ کٹرز کے ساتھ نیٹ پر یلکٹس کرنے کا موقع ملابس سے ان کے موراں میں بے انہتا اضافہ ہوا۔ 
ابتسام شیخ اوور ایج ہونے کی وجہ سے U-19ورلڈ کپ نہ کھیل سکے بد قسمتی سے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ابتسام شیخ نے فیصل آباد کی طرف سے اپنے فرسٹ کلاس میچ کاڈ یو کیا ور اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بدولت سلیکٹر ز کی نظروں میں آگئے ۔ اسی لیے ابتسام شیخ کو پی ایس ایل تھری میں پشاور زلمی کیلئے امر جنگ پلیئرنگ میں شامل کرلیا گیا ۔ واضح رہے کہ ابتسام شیخ دوسرے حیدرآباد کے کھلاڑی ہیں ۔
جوپی ایس ایل میں شامل ہوئے ۔ان سے پہلے شرجیل خان کویہ اعزاز حاصل ہو چکا ہے ۔
ابتسام شیخ کی حسن کارکردگی کا سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ پی ایس ایل میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوا چکے ہیں اور اگر اسی طرح اپنی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا تو اس بات کے قوی امکان ہیں کہ ابتسام شیخ کو جدل ہی پاکستان کی نمائندہ کرنے کا اعزاز حاصل ہوجائے۔

Muhammad Taha Profile BS


نام: محمّد طحہ رول نمبر:(2k16/MC/65) (BS part 3) 

نام: فیصل اطہر 
میجر ٹیم: پاکستان 
بتٹنگ سٹائل: سیدھا ہاتھ
بولنگ سٹائل: دائیں بازو 
عمر: 42 

فیصل اطہر بہترین جدید کرکٹر ہے.فیصل اطہرایک بہادر سٹروک پلیئر ہے وہ بال کو بری ہٹ لگا سکتے ہے، اپنے بازو سے تیز رفتار بولنگ کرا سکتے ہے اور فیصل اطہر میدان میں ایک پرجوس پلیئر کی حیثیت رکتا ہے. یہ پاکستان کی صلاحیتوں کا ایک مجموعہ ہے جو طویل عرصے سے امران خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملا ہے. عظیم غمن نے انہیں کچھ دیر کی امید دی لیکن اس کے بعد اپنے موجودگی کو کھو دیا اور جلد ہی کرکٹ فیلڈ سے غائب ہوگیا. پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ فیصل اپنے اس کھیل کو اور بہتر کرے اور ملک بھر میں تیز رفتار آل راؤنڈ بولنگ کی حیثیت سے پہچانا جائے.فیصل اطہر لاہور میں 15 اکتوبر 1975 میں پیدا ہوے. ابتدائی تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کے. اور اپنی کرکٹ کا آغاز دھرم پورہ کرکٹ کلب سے کیا جہاں پر فیصل اطہر نے 2 سے 3 سال تک کرکٹ کھیلی اور پھر فیصل اطہر حیدرآباد منتکل ہو گئے. حیدرآباد منتکل ہونے کے بعد فیصل اطہر نے غوری کرکٹ کلب سے اپنی کرکٹ کا دوبارہ سے آغاز کیا اور پھر اس کے بعد فرسٹ کلاس میچز میں شاندار کارکردگی کرنے پر چیف سلیکٹر امر سوہیل نے فیصل اطہر کو پاکستان کے لئے سلیکٹ کیا اور نوزیلنڈ کے خلاف سیریز کھیلنے کے لیے روانہ کر دیا اس وقت پاکستان ٹیم میں شعیب اختر' اور رشید لطیف جیسے لیجنڈ پلیئر شامل تھے پہلے دو میچز میں تو فیصل اطہر کو موقع نہیں ملا مگر تری نیشنل سیریز کے فائنل میچ میں فیصل اطہر کو موقع ملا مگر بدقسمتی سے وہ میچ پاکستان کے حق میں نہیں رہا.نوزیلنڈ کا دورہ کرنے کے بعد فیصل اطہر نے انگلینڈ کا دورہ کیا انگلینڈ کے دورے میں انجری کے سبب فیصل اطہر کو پاکستان واپس روانہ ہونا پڑھا.اس کے بعد فیصل نے پاکستان A کے ساتھ ساؤتھ افریقہ کا دورہ کیا.فیصل اطہر نی کافی فارن لیگز بھی کھیل چکے ہی اور انگلینڈ کے کافی کاؤنٹی کے ساتھ بھی منسلک رہے ہی جیسے کے یارکشائر کاؤنٹی کلب 'دربیسھرے کاؤنٹی کلب 'اور لیورپول کاؤنٹی کرکٹ کلب.حالیہ زندگی مے فیصل اطہر نیاز اسٹیڈیم میں کوچنگ کو مینیج کر رہے ہیں.اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کے اسسنگنمنٹ میں کام کر رہے ہیں.فیصل اطہر پاکستان وومن کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی کوچنگ کے فرائیس بھی سرانجام دی چکے ہیں.اور کراچی کنگ ٹیم کے سلیکشن ٹیم کا بھی حصّہ بن چکے ہیں.اور سندھ یونیورسٹی میں ہونے والی کرکٹ ٹرائل کی ذومیداری بھی فیصل اطہر نے لی تھی.فیصل اطہر کے نکتہ نظر میں حیدرآباد میں سپورٹ کا رجحان کم ہو گیا ہیں کرپشن نے سپورٹس اکیڈمیز کا بدترین حال کر دیا ہیں لکن اسکے باوجود حیدرباد کے نوجوان اپنی محنت اور لگن سے اپنا لوہا منوا ہی لیتے ہیں..

Usama Profile BS


محمد اسامہ
2k16/MC/68

نظام بیڑی والا (ایک بہادر انسان)

اُننیس سو سینتالیس (1947) پاک و ہند آزادی کے بعد برصغیر کی دو بڑی قومیں مسلمان اور ہندوؤں نے اپنے دفاعِ وطن کی جانب ہجرت کی_ اس ہجرت کے دوران ایک دس سالہ کمسن نظام الدین بھی مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل تھا۔
غریبِ زمانہ، دکھوں کے مارے، غموں سے چُور نظام الدین دس سالہ کمسن،اپنے خاندان کے اکلوتے چراغ، تمام ذمہ داریاں کاندھے پر اٹھائے چلے آرہے تھے۔ نظام الدین اُننیس سو اڑتیس (1938) میں برصغیر کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔تین سال کی عمر کے دوران ہی آپ کے والد انتقال کرگئے۔ اُننیس سو پینتالیس (1945) کے بعد برصغیر کے حالات بگڑنے لگے اور قیام پاکستان کے بعد آپ نے اپنی والدہ، ماموں زاد اور چچا زاد بہنوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی_ یہ خاندان تیرہ افراد پر مشتمل تھا جو کہ صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے علاقے عثمان آباد میں آکر رہائش پذیر ہوا۔ تیرہ افراد پر مشتمل یہ خاندان جس کا بیڑا اٹھانا نظام الدین کے لئے انتہائی مشکل اور کٹھن تھا_ زندگی کے ان نازک لمحات میں بھی وہ امید کا دامن تھامے رہے اور لکڑی کی ٹال کے ذریعے چھوٹے موٹے کام کا آغاز کیا۔

سر پر باپ کا سایہ تھا نہ کوئی پرسانِ حال جو کہ نظام الدین کی مشکلوں کو آسان کرتا۔زمانے کی گردشوں کے بھنور میں پھنسے نظام الدین ایک مضبوط چٹان بن کر مشکلوں کا سامنا کرتے رہے اور بہت ہی دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ لکڑیوں کا کام چھوڑ کر چھالیہ کا کام شروع کیا جس سے ان کے حالات میں مزید بہتری آئی۔اُننیس سو چھیئتر (1976) میں آپ کی شادی ایک افغانی خاندان کی حسین و جمیل لڑکی بشیرًا سے ہوئی۔ جن سے آپ کے گیارہ بچے ہوئے۔ جس میں چار لڑکیاں اور سات لڑکے شامل ہیں۔

ابتداء میں پہلا لڑکا ہونے کے بعد نظام الدین کے گھر بڑی ڈکیتی ہوئی۔ جس میں زیبِ تن کپڑوں کے علاوہ سب لٹ چکا تھا۔ مختلف زیور، قیمتی اشیاء, گھر کا ساز و سامان تمام چیزیں چوری کرلی گئیں تھیں۔اس وقت پہلی بار نظام الدین کی آنکھیں اشک بار ہوئیں لیکن یہاں ان کی ہمت کو جتنا سراہا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اس ناخوشگوار واقعے سے انھیں گزشتہ وہ زمانہ یاد آیا جب وہ بے سرو سامان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔بہر حال، انھوں نے دو سو روپے مزدوری کے عوض ایک بیڑی کے کارخانے میں نوکری کی۔گھر آ کر اپنے طور پر بھی بیڑی بناتے اور بازار میں بیچا کرتے۔ اس کام میں قدرت نے انھیں ایک بار پھر سے وسعت بخشی اور کاروبار وسیع در وسیع ہوتا چلا گیا۔ وہ جگہ جہاں وہ رہائش پذیر تھے ان کے نام سے منسوب کردی گئی۔ اننیس سو بانوے (1992) میں اپنے ایک دوست کی مدد کرنے کیلئے اس کا تمباکو اپنے گودام میں اتروایا لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کی یہ مال اسمگلنگ ہو کر آیا ہے_ لیکن کہتے ہیں کہ آئی مصیبت کو کون ٹال سکتا ہے ۔ یوں ہوا کہ کسی نے خاموشی سے مخبری کردی اور پولیس نے کارخانہ سیل کر کہ ان کے خلاف مقدمہ کر ڈالا۔ اس طرح نظام الدین ایک عرصہ تک نظربند رہے۔ان کے دوست نے وہ مقدمہ لڑا اور جیسے تیسے کر کہ معاملہ نمٹایا۔

بیڑی کے اس کاروبار کے تحت نظام الدین نے اتنی شہرت حاصل کی کہ دور دور تک ان کا نام اور کاروبار پھیلتا چلا گیا۔ شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں میں ان کے کاروبار نے قدم جمالیے اور یہ شخص نظام الدین جو کہ بے سرو سامان تھا، جس کا نہ باپ تھا اور نہ ہی کوئی مسیحا، اپنی محنت، لگن اور جذبہ کے بلبوتے پر اتنا مشہور ہوا کہ ''نظام بیڑی والا'' کے نام سے پہچانے جانے لگا۔

عدل و انصاف کے پیکر، نیک سوچ، منفرد خیال کے مالک، رحم دلی کے جذبے سے سرشار نظام بیڑی والے سب کو اپنے برابر سمجھتے تھے۔ الغرض اپنی ذات سے نہ ہی کسی کو نقصان پہنچایا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اس کے بیٹے بڑے نا فرمانبردار نکل۔ تمام جائیداد کو تقسیم کر کہ بیچ ڈالا اور اس طرح نظام الدین کا عروج پھر سے زوالی کا شکار ہوا۔ بیٹوں کے چھوڑ جانے کے باوجود اس بہادر انسان نے اپنی شکست کو تسلیم نہ کیا_ اناسی (79) سال کا یہ بوڑھا اب اپنی زوجہ کے ہمراہ ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی گزار رہا ہے اور آج بھی زندگی کو بنا کسی سہارے کے محنت اور لگن کے ساتھ گزارنے کے لئے پر عزم ہے۔

Wednesday, 11 April 2018

Rabeya Mughal Interview BS

انٹرویو۔ربیعہ مغل
بی۔ایس۔پارٹ۔۳
رول نمبر ۔۸۲

ٹیچر۔سَر سہیل سانگی
ہمیں اپنے اِرد گِرد کے ماحول کو بھی گھر سمجھنا ہوگا ...ڈاکٹر امان ا ﷲ مہر سے انٹرویو!


ڈاکٹر امان ا ﷲ مہر جامعہ سندھ کے شعبے سینٹر فار انوائیرومینٹل سائنس میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں.ان کا تعلق صوبہء سندھ کے شہر سکھر سے ہے.انہوں نے ۲۰۰۷ میں اپنی ایم۔فل کی ڈگری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی۔اور پھرچائینہ سے انوائیرومینٹل سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کی۔ 

روشنی:آپ کے حساب سے انوائیرومینٹل اسٹڈیز کا اسکوپ کیا ہے؟
امان اﷲمہر: اسکوپ دیکھیں دو طرح کے ہیں.ایک ہے جابز میں اور دوسرا ہے ریسرچ میں۔سرکاری اور نجی دونوں سیکٹر ز میں اس کا اسکوپ ابھرتا ہوا ہے.خصوصاً ڈیولپمنٹ سیکٹر میں جو این۔جی۔اوز ماحول کے تحفظ کے حوالے سے کا م کررہی ہیں .ان میں وہ طلباء جو تعلیم مکمل کرچکے ہیں باآسانی ملازمت حاصل کرتے ہیں ۔گورنمنٹ کے زیرِنگرانی جو ماحول کے تحفظ کی ایجنسیز کا م کررہی ہیں وہاں بھی اس شعبے کے طلباء کے لیے کافی مواقع ہیں .جبکہ یونیورسٹیز بھی اب پاس آؤٹ ہونے والے طلباء کو اس فیلڈ میں جگہ دے رہی ہیں۔

روشنی: ہمارے قدرتی ماحول میں خرابی کی کیا وجوہات ہیں؟
امان اﷲمہر: اِس کی بہت سی وجاہات ہیں.سب سے پہلے تو ہماری آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے اثرات ہمارے قدرتی وسائل پر پڑ رہے ہیں! اب دیکھیں تو پانی تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہم پانی کو بیدریغ استعمال کررہے ہیں .جبکہ اسے محفوظ کرنے کے طریقوں سے مکمل عاری ہیں.ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں ۲۰۴۵ تک پانی کی قلت انتہائی زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہریالی کو ختم کرتے جا رہے ہیں .جنگلات کو کاٹ کر وہاں سڑکیں اور گھر تعمیر کرتے چلے جارہے ہیں.اس لیے ہمیں دیرپا پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول میں بگاڑ پر قابو پایا جاسکے۔

روشنی: آپ کیا سمجھتے ہیں ہمیں ماحول کے دیرپا اور پائیدار تحفظ کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
امان اﷲمہر: اصل میں ہمارے معاشرے میں ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے آگاہی بہت کم ہے.آپ کسی کو کہیں کہ کچرا ڈسٹبن میں ڈالیں تو وہ کہے گا کہ یہا ں پہلے سے تھا کچرا میں نے ڈال دیا تو کیا ہوگیا؟ اس لیے سب سے پہلے تو ہمیں اپنے اِرد گِرد کے ماحول کوبھی گھر سمجھنا ہوگا ۔اس کے بعد سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ یا پائیدارترقی کو حاصل کرنا آسان ہوجائے گا۔ ماحول کی دیرپا ترقی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی،اچھا اور آلودگی سے پاک ٹرانسپورٹ سسٹم ملے ،شہروں کی صحیح پلانگ ہو ،ہم اپنی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مینیج کریں اور دوسری بات یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائیں .ایک اور اہم بات کہ جو ہمارا سلیبس ہے خصوصاً چھوٹی کلاسس کے نصاب میں انوائیرومینٹل سائنس کا سبجیکٹ متعارف کرواناہوگا.اس سے جوہماری آنے والی نسل ہے وہ ماحول کے مسائل اور اس کے تحفظ کو آسانی سے جان سکے گی۔

روشنی: کیا ماحولیاتی پستی کے اثرات ہمارے ملک کی اکانامی پر بھی ہوتے ہیں؟
امان اﷲمہر: جی بلکل،اس کے اثرات ہماری اکانامی پر ہوتے ہیں ۔جیسے پانی کے وسائل کو ہم آلودہ کررہے ہیں .جس سے ہمارا فشریز سیکٹر تباہ ہورہا ہے.یہی آلادہ پانی ہم صنعتوں کو دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کی پیداوار کم ہورہی ہے۔اس کے علاوہ ہم اپنے سولڈ ویسٹ کو مینج نہیں کرپارہے.نہ ہی اسے کام میں لارہے ہیں .اب چائنہ کو ہی دیکھ لیں وہ سولڈ ویسٹ سے بجلی بنارہا ہے اور دوسرے ممالک سے بھی کچرا اٹھا کر اپنی اکانامی کو اور بھی بہتر کررہا ہے۔

روشنی:آپ کی نظر میں پاکستان میں ماحول کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟اورکیا آپ اِن سے مطمئن ہیں؟
امان اﷲمہر: دیکھیں ، گلوبل وارمنگ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس کے اثرات دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں .حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں نیشنل کلائیمیٹ چینج پالیسی بنائی ہے .اس پالیسی کے زریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات جو صنعت ،پانی اور جنگلات پر پڑ رہے ہیں .حکومت اِن سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کررہی ہے۔اس سارے پروگرام میں حکومت شجر کاری کے زریعے گرین پاکستان مہم کو فروغ دے رہی ہے جبکہ بلین ٹری طرز کے منصوبے بھی بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت کا فوریسٹ ڈپارٹمنٹ بھی جنگلات کے تحفظ خصوصاً ساحلی علاقوں میں درختوں کی حفاظت کے لیے کا م کررہا ہے۔
اب دیکھیں تو چیلنجز بہت سارے ہیں .حال ہی میں آپ نے سُنا ہوگا کہ گندے پانی پر جوڈیشل کمیشن بنا ہے یہ ایک بڑی ڈیولپمنٹ ہے ہمارے ماحول کی بہتری کے لیے۔اس سے ہم امید کرسکتے ہیں کہ ہماری حکومتیں بھی اپنا سنجیدہ کردار ادا کریں گی۔

روشنی: انوائیرومینٹل ریفیوجیز کون ہوتے ہیں ؟
امان اﷲمہر: یہ وہ لوگ ہیں جوماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔جن جگہوں پر خشک سالی بڑھ رہی ہے یا بارشیں نہیں ہورہی تو وہاں کے باشندے اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں.یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں.اِن کو ہم آئی۔ڈی۔پیز بھی کہہ سکتے ہیں۔اب اگر آپ سندھ کے ساحلی علاقے جیسے کیتی بندر یا ٹھٹھہ کا دورہ کریں گے تومعلوم ہوگا کہ جو لوگ وہاں رہتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنے علاقے چھوڑ رہے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ وہاں اب انڈس دریا کا پانی نہیں پہنچ رہا۔جس سے لوگوں کی صنعتی زمینیں تباہ ہوررہی ہیں۔اسی طرح منچھر جھیل کا پانی آلودہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں مر چکی ہیں .اب س جھیل سے وابستہ جو لوگ تھے وہ وہاں سے ہجرت کرررہے ہیں کیونکہ ان کے کاروبار کا مہور مچھلیاں ہی تھیں۔بہر حال ،ہمارے ہاں ماحول سے متاثرہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں .اور ان کے مسائل ہم تب ہی حل کرسکیں گے جب ہم انہیں متاثر سمجھیں گے۔ 

روشنی: آپ نے اپنے شعبے میں کتنا کام کیا؟ اور کوئی کتاب بھی لکھی؟
امان اﷲمہر: ہاں،میں نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی جو ریسرچ ہے اس میں کام کیا ہے۔ریمیڈیئیشن آف کونٹومینیٹڈ سوائل مطلب آلودہ زمین کو صاف کرنے کے لیے کچھ تجربات کیے جوکامیاب رہے.اِس میں سے میں نے ۱۸ ریسرچ پیپرز پبلش کیے.جن میں سے چار ریویو پیپرز ہیں باقی ۱۴ ریسرچ پیپرزہیں،یہ سب آن لائن ہیں .آپ ان کو اسٹڈی کرسکتے ہیں۔ان جرنلز میں سے میں نے دو بُک چیپٹرز بھی لکھے ہیں .کیونکہ آج وہ دور ہے کہ ایک سائنٹسٹ پوری کتاب نہیں لکھتا بلکہ مختلف چیپٹر لکھتا ہے۔

روشنی: آپ کے حساب سے میڈیا کیسے ماحول کی آگاہی دے سکتا ہے؟
امان اﷲمہر: آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو میڈیا ہر چیز آسانی سے کرسکتا ہے.ماحول کے تحفظ کے لیے انوائیرومینٹل جرنلزم ایک انتہائی زبردست فیلڈ ہے.اس کا اسکوپ کافی اچھا اور وسیع ہے.اگرچہ لوگ اس سے ابھی اتنے واقف نہیں ہیں۔آپ بطور صحافی اس شعبے کو اپنا کر عام لوگوں میں ماحول کے تحفظ کے حوالے سے آگاہی پھیلا سکتے ہیں۔