Tuesday, 1 May 2018

انٹر ویو:ڈاکٹر بیکھا رام

Not filed in due date
Interview with Dr Bekharam by Marvi Shoukat
ماروی شوکت 

رول نمبر: 2k16/MC/47
جماعت: BS/PART 3 
انٹر ویو: وائس چانسلرڈاکٹر بیکھا رام
بچپن سے ہی سناُ ہے کہ محنت میں عظمت ہے اور آج یہ بات ڈاکٹربیکھارام کی صورت میں ثابت ہوگئیجنھوں نے ایک چھوٹے سے گاو ¾ں سے نکل کراپنے قلم اور علم کی طاقت سے اپنی قسمت خود لکھ ڈالی اور آج لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس (LUMHS)کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں
سوال: آپ کا تعلق تھر پارکر کے کونسے علاقے سے ہے اور ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟ 
جواب :مےرا تعلق تھر پارکر کے علاقے گنگیو چھاچھرو سے ہے اور ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول تھر پارکر سے حاصل کی۔
سوال :بچپن سے بڑے ہو کر کیا بننے کا شوق تھا؟
جواب:میرا جس علاقے سے تعلق ہے اس زمانے میں تعلیم کو ذیادہ فوقیت حاصل نہیں تھی ۔ والد کی خواہش تھی کہ میں تعلیم حاصل کروں تو اس وقت صرف تعلیم حاصل کرنا مقصد تھا ۔
سوال:سُنا ہے آپ کے نام کے پیچھے ایک کہانی ہے آپکا نام بیکھا رام کس نے اور کیوں رکھا؟
جوا ب:میرا سب سے پہلا نام ایک برہمن نے رتن رکھا چونکہ مجھ سے پہلے میرے دو بہن بھائی بیماری کے باعث فوت ہوچکے تھے میرے والد کو ڈر تھا کہ کہیں وہ مجھے بھی نہ کھو دیں اس لیئے ایک فقیر کے مشورے پر اُنھوں نے گھر گھر جاکر بھیک مانگی اس وجہ سے میرا نام بیکھ پڑ گیا اور پھر ایک پرائمری ٹیچر کی بدولت یہ نام بیکھا رام میں تبدیل ہو گیا۔
سوال:آپ نے کس سے متاثر ہو کر اس مقام پر پہنچنے کی جستجو کی؟
جواب: گھر کے کٹھن حالات اور غربت کے باعث محنت اور جستجو کی لگام تھا می اور اپنی ان تھک محنت سے اس مقام کو حاصل کر لیا ۔
سوال:ایک چھوٹے سے گاﺅں گنگیو چھاچھرو کے ایک عام بچے سے لے کر LUMHSکے وائس چانسلر بننے تک کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب:ماموں کے بدولت1977میں ٹنڈو آدم سے میٹرک کی تعلیم مکمل کی پڑھائی کے ساتھ بھینس کے باڑے میں بھی کام کرتا تھامیٹرک کے بعد گھر کے حالات ناگریز ہونے کی وجہ سے 105روپے کے عیوز پرائمری ٹیچر مقرر ہوا مگر ماموں اور والد کی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے نوکری چھوڑ کر ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا1980میںLUMHSمیں داخلہ فیس کافی مشکل اور جوڑ توڑ کر جمع کروائیپڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے آفتاب اور عبرت اخبار میں composingبھی کیپیسوں کی ضرورت کی وجہ سے pakola factoryمیںپہلی بار جھوٹ کا سہارا لے کر کہ میں ان پڑھ ہوں نوکری حاصل کینائٹ شفٹ میں کام کرتااور کمپنی کے ٹرک سے ہیرآباد مسلم ہاسٹل کے باہر آکر سوجاتاتھااور صبح پہلے پوائنٹ سے ہاسٹل پہنچ کر تیار ہوکر کلاس کے لیے جاتاجب ڈاکٹری کی پڑھائی کی چوتھی سال میں آیا تو ایک پروفیسر نے اپنی منگیتر کو ٹیوشن پڑھانے کی پیشکش کی جو قبول کر کے کچھ ا ور جگہوں پر بھی ٹیوشن پڑھانا شروع کیاانھی پیسوںسے بھائی اور بہن کو بھی تعلیم مکمل کروائیہاو ¾س جاب کے بعد کرن خان شوروگھوٹ میں اپنا کلینک کھولاپروفیسر محمد حسن شیخ کی حوصلہ افزائی اور ساتھ کے بدولت FCPSمکمل کیااور آخر کاراتنا کٹھن راستہ طے کر کے آج LUMHSیونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدہ پر فائز ہوں
سوال:آپ نے اعلٰی تعلیم حاصل کر نے کے بعد تھر کے لوگوں کے لیئے کیا خدمات انجام دیں؟
جواب:تھر چونکہ میرا ٓبائی گاﺅں ہے اس لیئے میں کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ وہاں کے لوگوںکو بھی تعلیم کی طرف لے کر آﺅں ۔ تھر سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی ہر طرح سے مددکرتا ہوں اور تھر سے آنے والے مریضوں سے فیس وصولی نہیں کرتا۔
سوال:میڈیکل کے علا وہ کسی اور فیلڈ میں دلچسپی ہے؟
جواب:شاعری ©،ادب میںدلچسپی رکھتا ہوں اور کالم نگاربھی رہا ہوں۔صوفی آدمی ہوںاور ۳ مختلف زبانوں میں شاعری بھی کرتا ہوں۔
سوال:آپ نہ صرف ایک وائس چانسلرہیں اور نامور ڈاکٹر بھی ہیں بلکہ ایک والداور شوہر بھی ہیں ،اتنی مصروفیات میں اپنی فیملی کے لیئے کیسے ٹائم نکالتے ہیں؟
جواب: زیادہ تر فیملی کو ٹائم ناشتے کی میز پر دیتا ہوں اور جب کبھی ریسرچ ورک کے لئے بیرون ملک جاتا ہوں تو انہں اپنے ساتھ لے جاتا ہوں۔
سوال: کہتے ہیں کہ انسان کی اکثر خواہشات پوری نہیں ہوتی تو آپکی بھی کوئی ایسی خوائش ہے جو خوائش رہ گئی ہو؟
جواب: عاشق مزاج شخص تھا لیکن عاشق مزاجی کا موقع نہیں ملا لیکن 2005 میں ایک لڑکی پسند آءجس کے ساتھ شادی کی۔
سوال: آپ آج کے دور کے کامیاب شخص ہیں آپ اپنی کامیابی کا سہرا کس کے سر باندھتے ہیں؟
جواب: میں اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے ماموں، مامی جنہوں نے مجھے اپنے سگے بچوں کی طرح پالا، میرے اساتذہ اور دوستوں کو جنہوں نے میرا ہر موڑ پر ساتھ دیا اور سب سے پہلے میرے والد جنہوں نے مجھے گا ¶ں کے دوسرے بچوں کی طرح کھیتی باڑی پر نہیں لگایا اور تعلیم کی رہ دکھائی۔
سوال: اپنی مثالی زندگی کا حوالہ دے کر نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب: نوجوان نسل کو یہ ہی کہنا چاہوں گا کے جو بھی کام کرو جی جان سے کرو کیوں کے محنت میں عظمت ہے اور کام وہ ہی کرو جس سے سیلف سیٹسفیکشن ہو کیوں کے دل سے کئے ہوئے کام سے دلی سکون ملتا ہے۔